اردو
Monday 23rd of December 2024
0
نفر 0

ذکر مصائب ميں ضعيف روايات سے اجتناب

امام حسين عليہ السلام اور خاندان عصمت و طھارت کے مصائب پر گريہ کرنا اور آنسوں بھانا بھت عظيم ثواب رکھتا ھے، جيسا کہ متعدد احاديث ميں اس مسئلہ کي طرف اشارہ هوا ، لہٰذا ھميں چاہئے کہ امام حسين اور اھل بيت عليھم السلام کے مصائب پر روئيں اور آنسوں بھائيں، ھمارے ذاکرين کو اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ رونے اور رلانے کے سلسلہ ميں معتبر مقاتل سے روايات بيان کريں، اور ضعيف روايتوں کے بيان سے اجتناب کريں، کيونکہ يہ بات مسلم ھے کہ ھماري احاديث کے درميان بعض جعلي روايات بھي شامل کردي گئي ھے، يہ ھماري مجبور
ذکر  مصائب ميں ضعيف روايات سے اجتناب

امام حسين عليہ السلام اور خاندان عصمت و طھارت کے مصائب پر گريہ کرنا اور آنسوں بھانا بھت عظيم ثواب رکھتا ھے، جيسا کہ متعدد احاديث ميں اس مسئلہ کي طرف اشارہ هوا ، لہٰذا ھميں چاہئے کہ امام حسين اور اھل بيت عليھم السلام کے مصائب پر روئيں اور آنسوں بھائيں، ھمارے ذاکرين کو اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ رونے اور رلانے کے سلسلہ ميں معتبر مقاتل سے روايات بيان کريں، اور ضعيف روايتوں کے بيان سے اجتناب کريں، کيونکہ يہ بات مسلم ھے کہ ھماري احاديث کے درميان بعض جعلي روايات بھي شامل کردي گئي ھے، يہ ھماري مجبوري ھے، ليکن خداوندعالم نے ھميں عقل جيسي عظيم الشان نعمت سے نوازا ھے، لہٰذا ھميں اپني عقل سے کام لينا چاہئے، مثال کے طور پر جب ھم نے ائمہ معصومين عليھم السلام کو مستحکم دلائل کے ذريعہ معصوم مان ليا اور يہ قاعدہ ثابت کرديا کہ معصوم سے کوئي غلطي اور خطا سرزد نھيں هوسکتي، چاھے وہ نبي هو يا امام، تو پھر اسي کسوٹي پر ھميں روايات کو ديکھنا هوگا، اگر کسي روايت ميں کسي معصوم کي طرف خطا يا غلطي کي نسبت دي گئي ھے تو وہ روايت صحيح نھيں هوسکتي، لہٰذا درايت کو روايت پر قربان نھيں کيا جاسکتا-

جيسا کہ بعض ذاکرين بيان کرتے ھيں کہ رسول اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اپني آخري عمر ميں لوگوں کو جمع کرکے کھا کہ جس کسي کا مجھ پر کوئي حق هو وہ آئے اور اپنا حق لے لے، چنانچہ مجمع سے ايک شخص نے کھا: يا رسول اللہ! ايک مرتبہ جنگ ميں آپ نے کوڑا هوا ميں لھرايا ليکن وہ مجھے لگ گيا، ميں اس کا بدلہ لينا چاھتا هوں، تو آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے کھا: آۆ اور مجھ سے بدلہ لے لو، وہ شخص اٹھا اور آپ کے پاس آيا اور رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اپني پيٹھ حاضر کردي، اس نے کھا: يا رسول اللہ! جس وقت ميري پيٹھ پر کوڑا لگا تھا تو اس وقت ميري پيٹھ برہنہ تھي، چنانچہ آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اپني قميص نکال دي، ليکن وہ شخص کوڑا مارنے کے بجائے آپ کي پيٹھ کا بوسہ لينے لگا.

جيسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمايا کہ اس حديث ميں رسول اسلام کو لوگوں کے حقوق پر توجہ رکھنے والا قرار ديا ھے ليکن اس روايت ميں بڑے سليقہ سے پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي طرف خطا اور غلطي کي نسبت دي گئي ھے کہ راستہ ميں غلطي سے کوڑا لگ گيا، تو اگر ھم معصومين عليھم السلام کو معصوم مانتے ھيں تو اس قاعدہ کے تحت اس روايت کو صحيح نھيں مان سکتے کيونکہ اس ميں پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي طرف غلطي کي نسبت دي گئي ھے، لہٰذا ھميں روايات نقل کرنے سے پھلے مسلم اصول اور قواعد کے تحت تجزيہ و تحليل کرنا چاہئے تاکہ عوام الناس سے ايسي ضعيف روايتيں نہ پہنچيں، اور ان کے عقائد ميں تزلزل پيدانہ هو-


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مکروفریب
قرآنِ کریم: جاوداں الٰہی معجزہ
انتظار احادیث کی روشنی میں
اسلام میل جول اور تعلقات کا دین ہے
شعب ابی طالب سے غزہ تک
آخري سفير حق و حقيقت
نماز کی فضیلت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ...
غیب پر ایمان
اھل بيت (ع) کي شان ميں کتب
انٹرنیٹ کا استعمال کرتے وقت محتاط رہیں

 
user comment