زيد بن ثابت مدينہ ميں پيغمبر(ص) کے پڑوس ميں رہتے تھے اور لکھنا جانتے تھے لہٰذا پيغمبر(ص)نے انہيں بھي کتابت وحي کي دعوت دي اور ان کي کتابت بھي ہلکے ہلکے مشہور ہوگئي،حتي انھوں نے پيغمبر(ص) کے حکم سے عبراني زبان پڑھنا لکھنا سيکھ لي تھي اور عبراني زبان ميں آنے والے خطوط کو پيغمبر(ص) کے سامنے پڑھتے اور ان کے جواب لکھا کرتے تھے زيد بن ثابت دوسرے اصحاب کي نسبت لکھنے کے مسائل ميں پيغمبر(ص) کي خدمت ميں زيادہ رہے- ( [9])
لہٰذا سب سے پہلے نمبر پر کاتب وحي حضرت علي (ع) پھر اْبيّ بن کعب اور پھر زيد بن ثابت تھے بقيہ کاتبان وحي کا درجہ ان تينوں کے بعد ہے-
ابن اثير لکھتے ہيں:”پيغمبر اسلام (ص)کي خدمت ميں کتابت وحي کے لئے عبداللہ بن ارقم زہري بھي تھے جو پيغمبر(ص) کے خطوط کے جواب دياکرتے تھے مگر پيغمبر(ص) کے معاہدوں اور صلح ناموں کي لکھنے کي ذمہ داري علي بن ابي طالب (ع) کي تھي“اور پھر لکھتے ہيں”منجملہ اور بھي کا تبان وحي تھے جن ميں خلفاء ثلاثہ،زيد بن عوام،خالد، ابان اور سعيد بن عاص کے دو بيٹے ،حنظلہ ،اْسَيدي،علاء بن حضرمي،خالد بن وليد، عبداللہ بن رواحہ،محمد بن مُسلمہ ،عبداللہ بن ابي سلول،مغيرة بن شعبہ،عمر وبن العاص، معاويہ بن ابي سفيان،جھم يا جھيم بن صلت ،معيقب بن ابي فاطمہ و شرجيل بن حسنہ تھے ‘ ‘ -
ظاہراً يہ وہ افراد تھے جو اس وقت عرب ميں لکھنا پڑھنا جاننے والے شمار ہوتے تھے جن سے کبھي کبھار پيغمبر لکھوانے کا کام ليا کرتے تھے ليکن کاتبان وحي فقط تين افراد تھے ديگر افراد سے صرف کبھي کبھار لکھوانے کا کام ليا جاتا تھا-( [10])
زمانہ رسالت ميں کتابت کا طريقہ کاريہ تھا کہ اس وقت جو بھي لکھنے کے لئے چيز مل جاتي تھي اس پر لکھ ليا جاتا تھا جوکہ مندرجہ ذيل چيزيں ہيں:
1-عُسُب:(عُسِيب کي جمع ہے)يعني درخت خرمہ کي شاخوں کي درمياني لکڑي اور اس کے پتے-
2-لِيخاف:(لَخْفہ کي جمع ہے)يعني پتلے اور سفيد پتھر-
3-رِقاع:(رقعہ کي جمع ہے)يعني کھال کے ٹکڑے ،پتّے،کاغذ-
4-اُدُم:(اَديم کي جمع ہے)يعني لکھنے کے لئے تيار کي ہوئي کھال-
آياتِ قراني مذکورہ چيزوںپر لکھي جانے کے بعد پيغمبر (ص) کے پاس ان کے گھر ميں محفوظ کر دي جاتيں تھيں اور اگر کبھي کوئي صحابي يہ چاہتا تھا کہ کسي ايک يا بعض سوروں کے نسخوں کو اپنے پاس رکھيں تو وہ پتوں يا کاغذوں پر لکھ کر کپڑے ميں لپيٹ کر ديوار پر لٹکا ديا کرتا تھا -( [11])
آيات کو بطور منظم و مرتّب ہر سورہ ميں لکھ ديا جاتا تھا اور ہر سورہ نازل ہوتے ہوئے بسمہ اللہ سے آغاز ہوتا اور جب دوسرا سورہ نازل ہوتا تو اس سے پہلے بسم اللہ نازل ہوتا جو پہلے سورہ کے ختم ہونے اور دوسرے سورہ کے آغاز ہونے پر دلالت کرتا تھا اس طرح سے تمام سورے ايک دوسرے سے جدا اور مستقل لکھے جاتے رہے البتہ زمانہ رسالتِ پيغمبر(ص)ميں سوروں کے درميان کسي طرح کي ترتيب نہيں تھي صرف سوروں کو عليحدہ عليحدہ رکھا جاتا تھا-(ختم شد)
حوالہ جات
[8] التمہيد ،ج1،ص348-
[9] مصاحف سجستاني،ص3-
[10]تاريخ القرآن ؛ص20-
[11] التمہيد؛ج1،ص288-
source : tebyan