چوتھے امام حضرت علی بن الحسین علیہما السلام سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں : (نو محرم کو)جب عمر سعد کی فوج پلٹ گئی تو حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو جمع کیا( یہ بالکل غروب کا وقت تھا) میں نے خود کو ان سے نزدیک کیا؛ کیونکہ میں مریض تھا۔ میں نے سنا کہ میرے بابا اپنے اصحاب سے فرمارہے ہیں: ’’أثنی علیٰ اللّٰہ تبارک و تعالی أحسن الثنا ء و أحمد ہ علی السرّا ء و الضرّا ء ؛اللّٰھم اني أحمدک علی أن أکرمتنا با لنبوۃ و علمتنا القرآن و فقھتنا في الدین و جعلت لنا أسما عاً وابصاراً و أفئدۃ ولم تجعلنا من المشرکین.اما بعد ؛ فاني لا أعلم أصحاباً أولیٰ و لا خیراً من أصحابی ولا أہل بیت أبرّ وأوصل من أہل بیتي فجزاکم اللّٰہ عني جمیعاً خیرا.ألا وانّي اظن یومنا من ھٰولاء الاعدا ء غداً ألا واني قد رأیت لکم فانطلقوا جمیعاً في حِل ، لیس علیکم مني ذمام ، ھٰذا لیل قد غشیکم فاتخذوہ جملا [1]! ثم لیأخذ کلُ رجل منکم بید رجل من أھل بیتي؛تفرقوا في سوادکم و مدائنکم حتی یفرّج اللّٰہ ، فان القوم انما یطلبوني، ولو قد أصابوني لَھَوا عن طلب غیري.‘‘ میں اللہ تبارک و تعالی کی بہترین ستائش کرتا ہوں اور ہر خوشی و آسائش اور رنج و مصیبت میں اس کی حمد کرتا ہوں ۔خدایا! اس بات پرمیں تیری حمد کرتا ہوں کہ تو نے ہمیں نبوت کے ذریعہ کرامت عطاکی ، ہمیں قران کا علم عنایت فرمایا اور دین میں گہرائی و گیرائی عطا فرمائی اور ہمیں حق کو سننے والے کان ، حق نگر آنکھیں اور حق پذیر دل عطا فرمائے اور تونے ہمیں مشرکین میں سے قرار نہیں دیا ۔اما بعد! حقیقت یہ ہے کہ میں اپنے اصحاب سے بہتر و برتر کسی کے اصحاب کاسراغ نہیں رکھتا، نہ ہی ہمارے گھرانے سے زیادہ نیکو کار اور مہربان کسی گھرانے کا مجھے علم ہے ؛خداوند متعال میری طرف سے تم سب کو اس کی بہترین جزاعطاکرے ۔ آگاہ ہوجاؤ! میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان دشمنوں کی شر انگیزیوں کی بنیاد پر کل ہماری زندگی کا آخری دن ہے۔ آگاہ ہوجاؤ! کہ میں نے اسی لئے تم لوگوں کے سلسلے میں یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ تم سب کے سب ہماری بیعت سے آزاد ہو اورمیری طرف سے تم لوگوں پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ رات ہے جس نے تم سب کواپنے اندر ڈھانپ لیا ہے؛ تم لوگ اس سے فائدہ اٹھاکر اپنے لئے اسے حجاب و مرکب قرار دو اور تم میں سے ہر ایک ہمارے خاندان کی ایک ایک فرد کا ہاتھ پکڑ کر اپنے اپنے ملک اور شہر کی طرف نکل جائے یہاں تک کہ خدا گشائش کی راہ نکال دے ؛کیونکہ یہ قوم فقط میرے خون کی پیاسی ہے لہٰذا اگر وہ مجھے پالیتی ہے تو میرے علاوہ دوسروں سے غافل ہوجائے گی۔
ہاشمی جوانوں کا موقف
امام حسین علیہ السلام کی تقریر ختم ہوچکی تو عباس بن علی علیھما السلام نے کلام کی ابتداء کی اور فرمایا :’’ لِمَ نفعل ذالک؟ ألنبقی بعدک ؟ لاأرانا اللّٰہ ذالک أبداً!‘‘ ہم ایسا کیوں کریں ؟ کیا فقط اس لئے کہ ہم آپ کے بعد زندہ و سلامت رہیں ؟ !خدا کبھی ہمیں ایسا دن نہ دکھائے ۔ اس کے بعد حضرت عباس کے بھائی ، امام حسین علیہ السلام کے فرزندان ، آپ کے بھائی امام حسن علیہ السلام کی اولاد ،عبداللہ بن جعفر کے فرزند ( محمد و عبداللہ ) سب کے سب نے اسی قسم کے کلمات سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔
یہ سن کر امام حسین علیہ السلام فرزندان جناب عقیل کی طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا : اے فرزندان عقیل ! مسلم کا قتل تم لوگوں کے لئے کافی ہے، تم سب چلے جاؤ ،میں تم کو اجازت دیتا ہوں۔یہ سن کر ان سبھوں نے عرض کیا: ’’فما یقول الناس ! یقولون انّا ترکنا شیخنا و سیدنا و بني عمومتنا خیر الاعمام ولم نرم معھم بسھم ، ولم نطعن معھم برمح ولم نضرب معھم بسیف ، ولا ندري ما صنعوا ! لا واللّٰہ لا نفعل ولکن تفدیک أنفسْنا و أموالنا وأھلونا ، ونقاتل معک حتی نرد موردک ! فقبح اللّٰہ العیش بعدک‘‘[2]اگر ہم چلیں جائیں تو لوگ کیا کہیں گے ! یہی تو کہیں گے کہ ہم نے اپنے بزرگ اور سید و سردار اور اپنے چچا کے فرزندان کو (نرغہ اعداء میں تنہا )چھوڑ دیا جبکہ وہ ہمارے بہتر ین چچا تھے۔ہم نے ان کے ہمراہ دشمن کی طرف تیر نہیں چلا یا ، نیز وں سے دشمنوں کو زخمی نہیں کیا اور ان کے ہمراہ تلوار سے حملہ نہیں کیا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ لوگ ہمارے ساتھ کیا کریں گے۔نہیں خد اکی قسم ہم ایسا نہیں کر سکتے ؛ ہم اپنی جان ، مال اور اپنے گھر والوں کو آپ پر قربان کردیں گے؛ ہم آپ کے ساتھ ساتھ دشمن سے مقابلہ کرتے رہیں گے یہاں تک کہ جہاں آپ وارد ہوں۔ وہیں ہم بھی وارد ہوں . اللہ اس زندگی کا برا کرے جو آپ کے بعد باقی رہے!
اصحاب کا موقف
جب بنی ہاشم اظہارخیال کر چکے تو اصحاب کی نوبت آئی تو۔ ( حسینی سپاہ کے سب سے بوڑھے صحابی) مسلم بن عوسجہ[3]اٹھے اور عرض کی :’’ أنحن نخلي و لمانعذر الی اللّٰہ فی أداء حقک ! أماواللّٰہ حتی أکسر فی صدورھم رمحي ، وأضربھم بسیفي ما ثبت قائمۃ فی یدي ،ولا أفارقک ، ولو لم یکن معي سلاح أقاتلھم بہ لقذفتھم بالحجارۃ دونک حتی أموت معک‘‘اگر ہم آپ کو تنہا چھوڑدیں ؟تو آپ کے حق کی ادئیگی میں اللہ کے سامنے ہمارے پاس کیا عذر ہوگا؟ خدا کی قسم! جب تک کہ میں اپنا نیزہ ان کے سینے میں نہ تو ڑلوں اور جب تک قبضۂ شمشیر میرے ہاتھ میں ہے میں ان کو نہ مار تا رہوں میں آپ سے جدا نہ ہوں گا اور اگر میرے پاس کوئی اسلحہ نہ ہوا جس سے میں ان لوگوں سے مقابلہ کر سکوں تو میں آپ کی حمایت میں ان پر پتھر مارتا رہوں گا یہاں تک مجھے آپ کے ہمراہ موت آجائے۔
مسلم بن عوسجہ کے بعد سعید بن عبد اللہ حنفی اٹھے اور عرض کیا : ’’ واللّٰہ لا نخّلیک حتی یعلم اللّٰہ أنا حفظنا غیبۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم فیک . واللّٰہ لو علمت اني أقتل ثم أحیا ثم احرق حیّاثم أذّر ، یفعل ذالک بي سبعین مرّ ۃ ما فا رقتک حتی ألقی حِما مي دونک فکیف لاأفعل ذالک وانما ھي قتلۃ واحد ۃ ثم ھي الکرامۃ التی لا انقضاء لھا ابداً‘‘ خدا کی قسم! ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑ یں گے یہاں تک کہ خدا ہمیں یہ بتادے کہ ہم نے رسول خدا صلی اللہ وآلہ وسلم کے پس پشت آپ کی حفاظت ونگرانی کرلی، خدا کی قسم! اگر مجھے معلوم ہو کہ مجھے قتل کیا جائے گا اور پھر زندہ کیا جائے گا اور پھر زندہ کر نے کے بعد مجھے زندہ جلا دیا جائے اور میری راکھ کو ہوا ؤں میں اڑادیا جائے گااور یہ کام میرے ساتھ ستّر (۷۰) مرتبہ بھی کیا جائے تب بھی میں آپ سے جدا ئی اختیار نہیں کروں گا یہاں تک کہ میں آپ کے سامنے قربان ہو جاؤں۔ اور میں ایسا کیوں نہ کروں جب کہ ایک ہی بار قتل ہونا ہے اور اسکے بعد ایسی کرامت ہے جو کبھی بھی ختم ہونے والی نہیں ہے ۔ اسکے بعد زہیر بن قین بولے :’’ واللّٰہ لوددت اني قتلت ثم نشرت ثم قتلت حتی أقتل کذ األف قتلۃ، وان اللّٰہ ید فع بذالک القتل عن نفسک وعن أنفس ھو لا ء الفتےۃ من أہل بیتک ‘‘خدا کی قسم! میرا دل تو یہی چاہتا ہے کہ میں قتل کیا جاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے پھر قتل کیا جائے یہاں تک کہ ایک ہزار مرتبہ ایسا کیا جائے اور اللہ میرے اس قتل کے ذریعہ آپ کے اور آپ کے گھر انے کے ان جوانوں سے بلا کو ٹال دے ۔اسکے بعد اصحاب کی ایک جماعت گویا ہوئی : ’’واللّٰہ لا نفارقک ، ولکن أنفسنا لک الفداء نقیک بنحور نا وجباہنا وأید ینا .فاذانحن قتلنا کنا وفیناوقضینا ماعلینا‘‘خداکی قسم ہم آپ سے جدانہیں ہوسکتے ۔ ہماری جانیں آپ پر قربان ہیں۔ ہم اپنی گردنوں ، پیشانیوں اور ہاتھوں سے آپ پر قربان ہیں۔جب ہم قتل ہو جائیں گے تب ہم اس حق کوادااور اس عہد کو وفاکریں گے جوہماری گردن پر ہے ۔ اس کے بعد اصحاب کے گروہ گروہ نے اسی قسم کے فقروں سے اپنے خیالات کااظہار کیا[4]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابو مخنف کہتے ہیں کہ مجھ سے حارث بن حصیرہ نے عبداللہ بن شریک عامری سے اور اس نے علی بن حسین علیہ السلام سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری ،ج۵،ص ۴۱۸ ) ابو الفرج نے ص ۷۴ پر اور شیخ مفید نے ص ۲۳۱ پر علی بن حسین کے بجائے امام سجاد علیہ السلام لکھا ہے جو ایک ہی شخصیت کے نام اور لقب ہیں ۔
[2] مقاتل الطالبیین، ابو الفرج،ص۷۴ ،ارشاد،ص۲۳۱، خواص۔ ص ۲۴۹
[3] جو اشراف کوفہ جناب مسلم بن عقیل کے ساتھ تھے۔ ان کے ہمراہ آپ کے احوال گزر چکے ہیں ۔واقعہ کربلا میں یہ آپ کا پہلا تذکرہ ہے آپ کربلا کیسے پہنچے اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
[4] ابو مخنف نے بیان کیا ہے کہ مجھ سے عبداللہ بن عاصم فایشی نے ضحاک بن عبداللہ مشرقی ہمدانی کے حوالے سے اس روایت کو نقل کیاہے۔ (طبری، ج۵ ،ص ۴۱۸؛ابوالفرج ،ص ۷۴ ، ط نجف ؛ تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص ۲۳۱ ، ارشاد، ص ۲۳۱)
ماخوذ از کتاب مقتل ابی مخنف
source : abna24