حضرت امام علي عليہ السلام فرماتے ہيں: ’’خدا کے احسانوں ميں ايک احسان يہ ہے کہ ارتکاب گناہ کے باوجود بھي اس نے توبہ و استغفار کا دروازہ بند نہيں کيا-‘‘ ( نہج البلاغہ : نامہ31- 1ظ )
اگر کوئي شخص اپنے برے عمل سے شرمندہ نہ ہو يا اس کا گناہ کو ترک کرنے کا ارادہ ہي نہ ہو يا خدا کے حکم کي فرمانبرداري نہ کرے تو ايسا شخص حقيقت ميں اپنے گناہ سے نادم ہي نہيں ہے -
ہم يہ نہيں کہہ سکتے ہيں کہ توبہ کے ارکان حقيقت ميں توبہ کي شرائط ہيں بلکہ توبہ کي کوئي شرط نہيں ہے اور وہ ارکان توبہ کے ليۓ لازم و ملزوم ہيں -
خدا غفور و رحيم ہے اور جب وہ اپنے بندے کي توبہ قبول کرتا ہے تو اس کے سياہ اعمال نامے کو سفيد کر ديتا ہے جس کے پہلے صفحے پر توبہ کا ثواب نماياں ہوتا ہے - اس ليۓ انسان کے ليۓ ضروري ہے کہ گناہ کے سرزد ہونے سے محتاط رہے اور اگر غلطي سے وہ کسي گناہ کا مرتکب ہو بھي جاۓ تو اسے فورا توبہ کر ليني چاہيۓ اور گناہ کے تکرار سے بچے - جب انسان بار بار کسي گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو اس سے انسان کي بدبختي شروع ہو جاتي ہے - اس ليۓ فورا ہي اپنے گناہوں سے توبہ کريں اور اپنے پروردگار سے معافي مانگ کر ہدايت کا راستہ اپنائيں - گناہ کے سرزد ہونے کے بعد توبہ کرتے وقت گناہ کا اعتراف کر لينا چاہيۓ اور صرف اور صرف اپنے رب سے معافي مانگني چاہيۓ نہ کہ کسي غير اللہ کے سامنے کسي کو سر جھکانے کي ضرورت ہے - اگر حقوق العباد ميں کسي سے کوئي کوتاہي ہوئي ہے يعني کسي دوسرے انسان سے کسي نے زيادتي کي ہے تو انسان کو چاہيۓ کہ اپنے رب سے مغفرت طلب کرنے کے ساتھ اس انسان سے بھي معافي مانگے جس کے حقوق کو پامال کيا گيا ہو - مثال کے طور پر کسي نے کسي کي غيبت کي تو اس صورت ميں خدا کے حکم کي نافرماني کے ساتھ ساتھ بندے کي دل آزاري ہے لہٰذا خدا سے معافي طلب کرے اور جس کي غيبت کي ہے اس سے بھي معافي طلب کرے- ( جاري ہے )
source : tebyan