ابی نجران کے فرزند سے روایت ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
جس کسی نے ہمارے شیعوں کے ساتھ عداوت کی گویا کہ اس نے ہم آلِ محمد سے دشمنی مول لی‘ اور جس کسی نے ہمارے شیعوں کے ساتھ محبت کی گیا کہ اس نے ہم سے محبت کی‘ کیونکہ وہ ہم سے ہیں اور ہماری طینیت سے انہیں پیدا کیا گیا ہے۔ جس کسی نے ان سے محبت کی وہ ہم میں سے ہے۔ جس نے ان سے بغض و عداوت کی اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے شیعہ نورِ الٰہی کی تجلی کو دیکھتے ہیں اور رحمت خدا میں غوطہ لگاتے ہیں اور کرامت الٰہی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ ہمارا کوئی بھی شیعہ بیمار نہیں ہوتا بلکہ ان کی بیماری سے ہم متاثر ہوتے ہیں اور وہ مغموم و محزون نہیں ہوتا بلکہ اس کے اس حزن و ملال سے ہمیں پریشانی لاحق ہوتی ہے‘ اور اس کی شادمانی سے ہمیں مسرت لاحق ہوتی ہے‘ کوئی بھی ہمارا شیعہ ہماری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہے چاہے وہ مشرق میں رہتا ہو یا مغرب میں‘ اور اگر کوئی مرتے وقت مقروض مرے تو اس کا قرضہ ادا کرنا ہمارے ذمے ہوتا ہے۔ اور اگر کوئی وراثت چھوڑ کر مرے تو وہ اس کے وارثان کے لیے ہے‘ ہمارے شیعہ وہ ہیں کہ جو نماز قائم کرتے ہیں‘ زکوٰة ادا کرتے ہیں‘ حج بیت اللہ بجا لاتے ہیں‘ ماہِ رمضان کے روزے رکھتے ہیں‘ اہلِ بیت رسول سے مودت رکھتے ہیں‘ اور ان کے دشمنوں سے برأت کا اظہار کرتے ہیں۔
ایسے لوگ ہی اہل ایمان اور تقویٰ ہیں‘ اہلِ ورع اور پرہیزگار ہیں‘ جس کسی نے ان کو رد کیا گویا کہ اس نے خداوند متعال کو رد کیا ‘ جس کسی نے ان پر طعن و تشنیع کی گویا کہ اس نے خدا پر طعن کی‘ کیونکہ یہ خدا کے حقیقی بندے اور سچے اولیاء ہیں۔ خدا کی قسم! ان میں سے ہرکوئی قبیلہ ربیعہ اور مخر (عرب میں دونوں قبیلے بڑی تعداد میں تھے) کے برابر شفاعت کی سفارش کا حق رکھتے ہیں۔ خداوند متعال ان کی سفارش ان کے بارے میں فرمائے گا‘ کیونکہ ان کا خدا کے نزدیک ایک بلند مقام ہے۔
source : tebyan