اسلام تو ساری دنیا میں عدالت کو پھیلانے کے لئے آیا ھے ۔ وہ اجتماعی عدالت اور بین المللی عدالت قائم کرنا چاھتا ھے ۔ اسی لئے اگر مسلمانوں کا بھی کوئی گروہ حق و عدالت کی راہ سے منحرف ھو جائے تو اسلام نہ صرف یہ کہ اس کو برے کام سے روکتا ھے بلکہ جنگ و مبارزہ کے لئے اس کی سرکوبی کے لئے تیار ھے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے : "اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں جھگڑا کرلیں تو ان کے درمیان صلح و آشتی کراؤ اور اگر کوئی زیادتی کرتا ھے تو زیادتی کرنے والے سے جنگ کرو یھاں تک کہ وہ خدا کے حکم کا پابند ھو جائے ۔ اگر حکم خدا کا پابند ھو جاتا ھے تو ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ صلح و آشتی کراؤ یقینا خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے ۔"
جو بات قابل توجہ ھے وہ یہ ھے کہ اصلاح کرانے والوں کو تاکید کی جا رھی ھے کہ دونوں فریقوں میں عدالت و انصاف سے کام لیا جائے تاکہ ھر شخص کو اس کا حق مل جائے کیونکہ جن دو گروھوں کے درمیان تعدی و تجاوز کی وجہ سے جنگ شروع ھوئی ھو ، اگر ان کے درمیان طرف داری سے کام کیا جائے تو بھت ممکن ھے کہ ظلم کرنے والوں کو تقویت پھنچ جائے ۔
معاف کر دینا یقینا ایک اچھا و مستحسن اقدام ھے لیکن اس قسم کے مواقع پر معاف کر دینے کا مطلب تجاوز کرنے والے کو چھوٹ دے دینا ھے اور اس کی ھمت افزائی کرنی ھے حالانکہ اسلام معاشرے سے جبر و ظلم کو ختم کرنا چاھتا ھے اور لوگوں میں یہ احساس پیدا کرنا چاھتا ھے کہ ظلماً و جبراً کوئی چیز حاصل نھیں کی جا سکتی ۔
مفتوح قوموں کے ساتھ مسلمانوں کا انسانی رویہ اور جواں مردانہ اقدام سبب بن گیا کہ عموماً یہ لوگ مسلمانوں کے ھمدرد ھو گئے اور مسلمانوں کے لئے رائے عامہ ھموارھو گئی ۔ ان کے رویہ نے لوگوں کا دل جیت لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ھوا کہ حمص والوں نے برقل کے لشکر پر شھر کا دروازہ بند کر دیا تھا لیکن مسلمانوں کے لشکر کے پاس ان لوگوں نے خود پیغام بھیجا کہ ھمارے لئے رومیوں ( اپنوں ) کا ظلم و ستم گوارہ نھیں ھے لیکن آپ لوگوں اجنبیوں کا عدل و انصاف پسندیدہ ھے ۔ آپ حضرات تشریف لائیے اور ان کے لئے شھر کا دروازہ کھول دیا ۔
source : tebyan