پاکستان کے نامور عالم دین حجۃ الاسلام و المسلمین سید جواد نقوی نے ہندوستان میں حکومتی دباؤ کا شکار مسلمانوں کو نماز جمعہ کے خطبوں میں ایک اہم پیغام دیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہندوستانی حکومت ہو بہو داعش کا روپ دھار کر مسلمانوں کے قتلِ عام اور انہیں ذبح کرنے کی فضا بنا رہی ہے۔
موصوف کا تفصیلی بیان:
ہندوستان میں حکومت جس طرح ہوبہو ہندو داعش کا رُوپ اپناتے جا رہے ہیں۔ گائے کے تحفط میں مسلمانوں کا قتل عام اور ذبح کرنے کی فضا بنا رہے ہیں۔ مسلمانوں کو شدید دباؤ میں رکھا ہوا ہے۔ ایک طرف سے دعویٰ کرتے ہیں کہ سیکولر ہیں، ایک طرف سے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آزاد سوسائٹی ہیں، دوسری طرف مسلمانوں کے لیے روز بروز فضا تنگ سے تنگ کرتے جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ پرانے جراثیم ہیں جن میں ابھی شدت آئی ہے۔ اور جو لوگ حکومت میں ہیں، ماضی میں ان کے کارنامے ساری دنیا کو پتہ ہیں۔ احمد آباد گجرات میں انہی لوگوں نے مسلمانوں کو زندہ جلایا جو آج جارحیت کے ساتھ جا رہے ہیں۔ پاکستان کو تو جو خطرات ہیں، وہ ان سے ہیں ،اس وقت سب سے زیادہ خطرناک حالت مسلمانوں کی خود ہندوستان کے اندر ہے۔ کیونکہ اتنی بڑی جمعیت کے اندر مسلمان اقلیت شمار ہوتے ہیں ۔جہاں ایک ارب بیس کروڑ سے زیادہ جمعیت ہو،وہاں پر کچھ ملین مسلمانوں کی کوئی نفری شمار نہیں ہوتی۔ لہٰذا، ہندوستان کے اکثر حصوں میں انہوں نے مسلمانوں کے خلاف اشتعال کی یہ فضا بنانا شروع کر دی ہے اور اس پر بھی مسلمان خاموش ہیں۔ درحقیقت جو برما میں ہوا، وہ ہندوستان کے لیے ٹیسٹنگ کیس تھا۔ برما میں روہنگیا مسلمان رہتے تھے۔قوم ہیں، نسل ہیں۔ برما ہندوستان کا حصہ تھا، بنگلہ دیش ہندوستان کا حصہ تھا، پاکستان ہندوستان کا حصہ تھا، ساری ایک مملکت تھی، تو ایک دوسرے علاقوں میں یہ قومیتیں نقل مکانی کرتی تھیں۔ اس وقت کتنے پشتون ہیں، پٹھان قبائل ہیں جو ہندوستان میں رہتے ہیں اور کتنی ہندوستان کی دوسری ریاستوں میں رہنے والی قومیتیں ہیں جو پاکستان میں رہتی ہیں۔ بہت سے اس نسل سے تعلق رکھنے والی اُس آبادی میں رہتے ہیں، جہاں مشترکہ مملکت ہو وہاں یہ نقلِ مکانی معمولی مسئلہ ہے۔ جیسے ابھی پنجاب میں بہت سی قومیتیں رہتی ہیں اور بہت سے علاقوں میں پنجابی جا کر رہتے ہیں۔ ایک مملکت کے اندر یہ نقل مکانی معمول کی بات ہے۔ اس طرح سے نقل مکانی کرتے ہوئے یہ مسلمان بعض دیگر علاقوں سے برما منتقل ہوئے اوروہاں شدت پسندوں نے، حتیٰ کہ وہ ہندو نہیں ہیں، ان کے مذہب میں انسانوں کو ستانا،مارنا ، یہ ظلم یہ بربریت ممنوع ہے، جانوروں پر بھی ظلم نہیں کرتے حتیٰ مکھی مچھر کو مارنے کی اجازت نہیں ہے بدھ ازم اور بودا کے پیروکاروں میں ۔ لیکن وہی اس وقت اتنے شدت پسند ہوئے کہ انہوں نے مسلمان زندہ جلائے۔
عورتیں ، مرد ، بچے زندہ جلائے اور مسلمان وہاں سے کشتیوں میں بھاگے ،بھوک سے مر گئے ، کشتیوں میں خشک ہو گئے۔نہ ملیشیا، نہ انڈونیشیا، نہ تھائلینڈ نے ، کسی اور ملک نے ان کو پناہ نہیں دی۔ کشتیوں میں پڑے پڑے مر گئے ، اس طرح کا ظلم ان پر ہوا۔ یہ آزمائش تھی کہ اگر مسلمانوں کو اس طرح برما میں ستایا جائے تو کیا عکس العمل ہو گ ا۔نہ کعبہ سے آواز اُٹھی، نہ وائیٹ ہاؤس سے ، نہ کسی پارلیمنٹ سے آواز اُٹھی نہ کسی کیبنٹ سے۔نہ کسی تنظیم نے آواز اُٹھائی نہ کسی ملک نے ، اور اس طرح اس ظلم و ستم کے ساتھ مسلمانوں کو برما سے نکال دیا گیا۔ اقوامِ متحدہ جیسے منافق ادارے تماشہ دیکھتے رہے۔ حقوقِ بشر کے پرچار کرنے والے دروغ پرداز اور کذاب اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ یہ ماجرہ تکرار ہونے والا ہے انڈیا کے اندر وہی ماحول جو برما کے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا ہے۔ اب ہندوستانی مسلمانوں کے لیے یہ پلاننگ ہو رہی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ جہاں بھی کوئی مسلمان آباد ہے خدا انہیں محفوظ رکھے بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کو خدا ان ظالمین کے شر سے محفوظ رکھے انشااللہ ۔
ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے اب وقت آ گیا ہے کہ ہوشیاری دکھائیں اور بصیرت کا مظاہرہ کریں اور اپنے تحفظ کے لیے اہتمام کریں۔ آپ اس بات کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ رکھیں کہ لوگ ہندوستان کی مذمت کریں گے اور یہ جمہوریت کا پاس کرتے ہوئے باز آجائیں گے۔ اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم ہو رہا ہے وہ ساری دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہے ۔ جیسے گائے ذبح کرنے کے جرم میں ایک مسلمان کو قتل کر دیا گیا ہے ۔پاس سے گزرنے پر ذبح کر دیا۔ ہندوستان کا لبرل طبقہ اپنی لبرل اقدار کے تحفظ کے لیے ان سانحات پر احتجاج کر رہا ہے مثلاً اپنے ایوارڈ واپس کر رہے ہیں اپنی ڈگریاں واپس کر رہے ہیں احتجاج کے طور پر لیکن یہ لبرل اور سیکیولر احتجاج ہے اس سے نہ کوئی ڈرتا ہے نہ رکتا ہے نہ وہ اپنے ظلم سے باز آتے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمان اس امید سے بیٹھے ہوئے ہیں کہ دنیا ہمارے حق میں آواز اٹھائے گی ان پر ہونے والے ظلم پر امریکہ اور برطانیہ آواز اٹھائیں گے۔
ایک طرف ہندوستانی مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف ہندوستان کا وزیراعظم برطانیہ اور دنیا کے دیگر ملکوں کے دورے پر جاتا ہے اس کے ساتھ عیش و نوش کی محفلیں ہوتی ہیں اور ایک حکومت بھی اسے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر تذکر تک نہیں دیتی کہ آپ کے ملک میں کیا ہو رہا ہے اور آئندہ کیا ہونے والا ہے کسی ملک نے ہندوستان کو چین سمیت یاد دہانی تک نہیں کروائی کہ آپ کے ملک میں یہ کچھ ہو رہا ہے ۔اس لیے مسلمین ہندوستان اگرچہ ہندوؤں کے مقابلے میں تعداد میں کم ہیں لیکن ان سے تقابل نہ کریں اورفقط اپنے آپ کو دیکھیں تو اتنی تعداد میں ہیں کہ اپنا تحفظ کر سکتے ہیں اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں ۔
ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف شیطانی منصو بے کو مزید مشتعل کرنے کے لیے ایک اور پلاننگ بھی ہے کہ اسلام کے نام پر القاعدہ داعش یا طالبان ہندوستان میں مسلمانوں کے دفاع کے لیے جائیں گے یعنی دفاع کیلئے داعش جائے گی۔ آپ کو معلوم ہے کہ داعش کیسا دفاع کرتی ہے۔
یہ نہ ہو جائے کہ پاکستان کی طرح راہ نجات ہندوستان چھوڑنے میں ہو آپ بھی اپنی جان بچانے کے لیے کہ پاکستان کے لوگوں کی طرح اپنا ملک چھوڑ کر آسٹریلیا اور کینیڈا کا رخ کریں اور وہاں کے جنگل آباد کریں۔ یہ مومنین کے شایان شان نہیں ہے کہ فرار کر کے جنگلوں میں پناہ لیں اور وہاں جا کر اپنا دین اپنی حیثیت و شناخت بھی کھو بیٹھیں۔ اپنا ملک و ملت و ہر چیز اپنی ویران کر بیٹھیں۔
کشمیر کے مسلمان اس وقت زیادہ سختی میں ہیں ان کے لیے حربہ بدلا گیا ہے ۔ پہلے کشمیر کی تحریک آزادی کو اسلحے کے زور پر دبانے کی کوشش کی گئی شکنجے دیے گئے اور ان کے خلاف انڈین فوج نے طرح طرح کے جرائم انجام دیے ہیں بالآخر جس کی وجہ سے حق خود ارادیت کی تحریک میں فرق پڑا اور کچھ پاکستان کے ناعاقبت اندیش پرویز مشرف جیسے حکمرانوں کی نالائقی سے بھی کشمیر کاز کو نقصان پہنچا ہے۔ لیکن کشمیریوں کی ایک کمزوری یہ ہے کہ بیرونی عوامل پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔
امام خمینی کا راستہ یہ ہے عزیزان، امام خمینی یہ نہیں کہتے کہ آپ کی مدد کے لیے ایران آئےگا کسی بھی ملک میں ایران آکر تمہارے لیے کچھ کرے گا امام خمینی کا اصول یہ ہے کہ ہر قوم اپنے قدموں پر کھڑی ہو اور اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کرے ۔آپ اپنے تحفظ کا انتظام خود کریں ۔ دوسروں کی طرف مت دیکھیں کسی سے امید نہ رکھیں سوائے خدا کے ۔ کوئی قوم آکر آپ کو آباد کرے گی اس میں آپ کی غلامی ہے برطانیہ امریکہ کوئی بھی آپ کو آزادی دینے آئے گا بدلے میں آپ کو غلام بنا لے گا ۔ اگر غلام کشمیر کو آزاد کرنے جائیں گے غلام تر بنا دیں گے ۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے اندر اجتماعی شعور اور بیداری کی ضرورت ہے بحیثیت مسلمان امت مسلمہ اپنی شناخت پیدا کریں ۔ اسی میں آپ کا تحفظ ہے۔
اس وقت پورے ہندوستان میں مسلمان جہاں کہیں بھی آباد ہیں کم نہیں ہیں فراوان ہیں ہر گاؤں میں محلے میں دور دراز علاقوں میں شہروں میں دیہاتوں میں ان کے اندر اجتماعی شعور اور بیداری کی ضرورت ہے کہ بحیثیت مسلمان اپنا تشخص پیدا کریں۔ کہ آج تک مسلمانوں نے لبرل اور سیکیولر بننے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ اس اکثریت کے سامنے گم رہیں اور ان کے خلاف کوئی حساسیت پیدا نہ ہو تو اپنے آپ کو مخفی رکھو جتنے پڑھے لکھے لوگ تھے ادیب دانشور سب سیکیولر اور بے دین اور بے دینی کی زیادہ انہوں نے ترویج کی ۔ آپ بحیثیت مسلمان امت مسلمہ اپنی شناخت پیدا کریں ۔ اس شناخت میں آپ کا تحفظ ہے نہ اپنے آپ کو گم کرنے میں۔ یہ بزدلوں نے بتایا ہے کہ اس طرح سے ہم اگر ہندوستان میں زندگی بسر کریں تو ہم محفوظ ہیں جو کہ اشتباہ غلط ہے اپنی پہچان سے زندہ رہیں۔
نہ داعش اسلام اور مسلمان کو بچائے گی کہ داعش خود تباہی ہے۔ نہ ہی شدت پسند دہشت گرد اسلام کے دفاع کے نام پر آئیں جو کہ آئیں گے جس قسم کے حالات بن رہے ہیں کہ اس بات کا اعلان ہو چکا ہے کہ داعش نے ہندوستان کے لیے اپنے یونٹ کے امیر کا نام بتا دیا ہے خراسانی گروپ نے اپنا امیر بنا دیا۔ ابھی پہلی دفعہ یورپ سے ہندوستانی مرد اور عورتیں داعش میں شامل ہو کر عراق اور سوریا میں پہنچ چکے ہیں اور وہاں سے اپنے ملک میں منتقل ہوں گے اور اس طرح وہ ہندوستان میں مسلمانوں کے دفاع کے لیے محاذ بنائیں گے جس سے مسلمانوں کے قتل عام میں اور زیادہ شدت پیدا ہو گی ۔ یہاں ضرورت ہے کہ آگاہ لوگ علماء عوام اور متدینین مسلمانوں کی اپنی شناخت بنائیں ۔
یہ وہ تاریخی اشتباہ ہے جو سب گناہوں سےبڑا گناہ ہے کہ بھیڑیوں سے بچ کر مگرمچھوں کی پناہ لینا۔
ہندوستان میں بعض لوگ ہیں جن کا تفکر ہے کہ ہم اسی مودی سرکار کا حصہ بنیں کہ یہ ہمیں تحفظ دیں گے جو کہ اشتباہ ہے غلط ہے ۔ کہ مگر مچھ کے دوست بننےسے کبھی تحفظ نہیں ملتا یہ بہت بڑی غلطی ہے کے انسان مگر مچھ کے منہ میں جائے۔ پاکستان کے لوگوں کے لیے یہ مثال تو بہت عرصہ سے دی ہے لیکن یہاں یہ بات کسی کو سمجھ نہیں آئی ہو سکتا ہے کہ ہندوستان میں کوئی سن لے ۔وہ نقطہ یہ ہے کہ جب بھیڑیے آپ پر حملہ کرتے ہیں اور آپ ان سے بچنے کے لیے بھاگتے ہیں تو آگے مگر مچھ منہ کھول کے بیٹھے ہوتے ہیں کہ ہم آپ کو پناہ دیتے ہیں ۔ مگر مچھ جس کا جبڑا اور منہ کا دہانہ بڑا ہوتا ہے آپ غور کریں کہ دانت ہونے کے باوجود وہ اپنے شکار کو چباتا نہیں ہے بلکہ پورا جانور نگلتا ہے ۔ اب جب ٹی وی دیکھیں تو غور سے دیکھنا کہ مگر مچھ کس طرح سے کھاتا ہے پہلے تو پورا جانور نگلتا ہے مگر مچھ اور بھیڑیے دونوں اس وقت مسلمانوں کے ارد گرد ہیں خصوصآ پاکستان میں تشیع ان دو درندوں میں گھرا ہوا ۔ بھیڑیے دہشت گرد ہیں لشکر جھنگوی اور ان جیسے دیگر گروہ اور سیاسی جماعتیں جو تشیع کو اپنے اندر ضم کرنا چاہتی ہیں یا شخصیتیں ہڑپ کرنا چاہتی ہیں یہ مگر مچھ ہیں کہ ہم آپ کو تحفظ دیتے ہیں ہمیں ووٹ دو ہمارے ساتھ الائنس بنائیں یہ مگر مچھ چباتا بھی نہیں ہے نگل جاتا ہے ۔ بھیڑیا نوچتا ہے بوٹی کاٹتا ہے جسم لہو لہان کرتا ہے مگر مچھ تو پورے کا پورا ہڑپ کر لیتا ہے ۔ پاکستان کی یہ صورتحال ہے لیکن متوجہ نہیں ہیں پاکستان کے شیعہ خواص و عوام سب کے سب معتقد ہیں ہمیں کوئی سیاسی جماعت کوئی بڑی شخصیت کوئی مداری تحفظ دے سکتے ہیں ۔ کبھی بلے کے پیچھے کبھی دھرنوں میں کبھی کہیں ۔ کیوں جا رہے ہو ؟ پیچھے بھیڑیے لگے ہوئے ہیں نظر نہیں آتا دہشت گرد ہیں! کون بچائے گا ان سے ہمیں؟ یہ مگر مچھ بچائیں گے ۔ ظاہر ہے جب دہشت گرد نگل جائے گا تو پھر بھیڑیے کے لیے موقع نہیں رہے گا ۔ ہندوستان میں یہ کام ہو گا جب بھیڑیے آئیں گے یہ شدت پسند جو مسلمانوں پر حملے کر رہے ہیں ہراس پھیلا رہے ہیں یہ ابتدا ہے دہشت و خوف و ہراس مسلمانوں کے اندر کہ مسلمان عدم تحفظ کا شکار ہو جائیں ہندوستان کے اندر عورتیں مرد گھروں سے باہر نہ نکلیں ۔ آفسز میں نہ آئیں کام کاج پر نہ جائیں تعلیمی اداروں میں حاضر نہ ہوں ۔اس طرح ڈر کر خوف زدہ ہو کر رعب میں آکر گھروں میں بیٹھ جائیں یہ فضا بھیڑیے پیدا کر رہے ہیں ۔ان سے بچانے کے لیے کون ہے مگر مچھ یہ وہ اشتباہ ہے تاریخی جو سب گناہوں سےبڑا گناہ ہی کہ بھیڑیوں سے بچ کر مگرمچھوں کی پناہ لینا "، اگر آپ نے محاذ آرائی کرنی ہے تو بھیڑیے کے ساتھ لڑو ، اس کے ساتھ لڑائی میں کچھ نہ کچھ بچ جاتا ہے آپکے جسم کا کچھ حصہ بچ جاتا ہے لیکن آپ اگر مگر مچھ کے ہاں چلے گئے تو کچھ بھی نہیں بچے گا آپکو جوتے کپڑے سمیت نگل جانے گا ، آپ کی نسلیں نگل جائےۓ گا،
آپ اتنی تعداد میں ہیں کہ آپ اپنا نام، شناخت اور پہچان پیدا کر سکتے ہیں۔ دوسروں سے توقع مت رکھیں۔ اپنے اندر حوصلہ پیدا کریں اور یہ ہراس اپنے اندر سے نکالیں اور اپنی نسلوں کے اندر نہ منتقل ہونے دیں۔
اپنی شناخت اور پہچان پیدا کریں آپ اتنے ہو کہ اپنی پہچان پیدا کر سکتے ہو، اتنی تعداد ہے کہ دنیا میں اپنا نام پیدا کر سکتے ہو یہ توقع مت رکھو کے عالمی ادارے آکر آپکو تحفظ دیں گے ، حق میں بیان دیں گے ، ابھی ہندوستان کا وزیراعظم برطانیہ میں ہے اور وہاں عیش و نوش کر رہا ہے اور ادھر مسلمان روز بروز دہشت و خوف میں مبتلا کیے جا رہے ہیں، ان پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے اور ایسے کچھ افراد مسلمانوں میں ہیں جو بھیڑیوں سے بچنے کے لئے مگرمچھوں کی تلاش میں ہیں- ہندوستانی شیعہ کو بھی یہی مشورہ دیتے ہیں جو پاکستان میں دیا جا رہا ہے - کہ ہمیں بڑی سیاسی جماعت کے ساتھ مل کر رہنا چاہیے۔ اور قابل افسوس کے بعض نے اعلانیہ طور پر کہا ہے کہ اسی خون خوار اور مسلمان دشمن جماعت کے ساتھ مل کر رہنا چاہیے ، اس غلط فہمی میں شیعہ کو مبتلا کیا جا رہا ہے کہ مودی دیوبندی کا مخالف ہے اور شیعوں کا مخالف نہیں ہے ، کیا مودی کو شیعہ اچھے لگتے ہیں اور دیوبندی اچھ نہیں لگتے ہے، کیا شیعہ اسکی مورتی کی پوجا کرتے ہیں ؟ شیعہ اسکے مذہب کے پیروکار ہیں کیا وفادار ہیں اسکے ؟ نعوذ باللہ تشیع کا دامن پاک ہے اس چیز سے کہ ایسی سوچ کا حامل ایک شیعہ بھی تاریخ میں نکلے- اسلام اور رسول الله کا دشمن شیعہ کا دوست کیسے ہو سکتا ہے ؟ جو خدا کا دشمن ہے وہ شیعہ کا دوست کیسے ہو سکتا ہے ؟ قرآن کا دشمن شیعہ کا دوست کیسے ہو سکتا ہے ؟ یہ ایک مغالطہ اور غلط فہمی ہے-
مسلمین ہندوستان آپ نے کونے اور گوشے میں رہ کر امن کے دن گزار لئے ہیں کیونکہ انکی اور باقی دنیا کی توجہ آپکی طرف نہیں تھی جو زندگی آپ نے امن کی گزارنی تھی گزار لی ہے-اب آپکو اپنی شناخت و پہچان بنانی پڑے گی، اپنے اندر قربتیں پیدا کریں دل بڑے کریں ایک دوسرے کے قریب ہوں، آپس میں تفاہم پیدا کریں اور اپنی شناخت کے تحت اس بڑے ملک کے اندر رہنا ہے آپکو اور باقی دنیا سے توقع نہ رکھیں کسی سے توقع نہ رکھیں یہ عرض ہے اپنے ان عزیزوں کو جو ہندوستان میں آباد ہیں- کہ پاکستان نے دوسروں کا سہارا لے کر دیکھ لیا ہےکہ کیا نتیجہ نکلتا ہے خود سے اپنے اندر حوصلہ پیدا کریں اور یہ ہراس اپنے اندر سے نکالیں اور اپنی نسلوں کے اندر نہ منتقل ہونے دیں، اپنے تحفظ اپنے حقوق اور اپنی شناخت اور پہچان کے لئے ہمت و کوشش کریں۔ ہماری دعائیں آپکے ساتھ ہیں کہ خدا آپکو تمام مشکلات سے و آفات سے بچایے انشاللہ-صرف یہی خطہ بچا ہوا تھا مسلمانوں کے اوپر دباؤ سے، باقی یمن اور عرب خطہ اور تمام دنیا میں مسلمان زیر شکنجہ ہیں صرف ہندوستان کے مسلمان بچے ہوے تھے اور ظاہر نہیں تھے اس وجہ سے، لیکن اب جبکہ انکی توجہ ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف آئ ہے انکو ابھی سے اپنی حفاظت کی تدبیر کرنے کی ضرورت ہے
ولایت فقیہ ریڑھ کی ہڈی ہے اسلام کی۔
اسلام کی طاقت تشیع ہے اور تشیع کی طاقت کس میں ہے تشیع کی طاقت ولایت فقیہ و رہبری میں ہے یہ جملہ پاکستانی قوم کو سمجھنا چاہئے ۔ ولی فقیہ و رہبر امت کے پیکر میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
فلسطین میں یہودیوں کو تنہا خطرہ اس وقت حزب الله سے ہے تشیع سے ہے اس لئے تشیع کی کمر توڑنا انکے لئے ہدف بن گیا ہے۔ اسلام کی طاقت تشیع ہے اور تشیع کی طاقت کس میں ہے تشیع کی طاقت ولایت فقیہ و رہبری میں ہے یہ جملہ پاکستانی قوم کو سمجھنا چاہئے عزیزان اسکو تکرار کریں اور اسکا راز جانیں ، بدن کی ساری طاقت کا دارومدار کس پر ہے ریڑھ کی ہڈی پر اگر تانگ ٹوٹ جائے ٹوٹی ہوئی ٹانگ سے آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں اگر ہاتھ ٹوٹ جائے تو بھی انسان بہت کچھ کر سکتا ہے لیکن ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے توانسان کچھ نہیں کر سکتا ۔ پھر بستر نشین ہے۔امّت پیکر ہے امّت اعضاء ہیں رہبر ریڑھ کی ہڈی ہے ولی فقیہ ریڑھ کی ہڈی ہے، اور انہیں پتا ہے یہ طاقت اور قوی جسم یہ ایسےہم سے نہیں دبے گا کیونکہ ہم عراق کا رخ کرتے ہیں یہ سامنے آجاتے ہیں شام میں جاتے ہیں سامنے یہ آجاتے ہیں یمن جاتے ہیں سامنے یہ آجاتے ہیں فلسطین میں یہ آجاتے ہیں ہم کسی بھی سرزمین کا رخ کریں سامنے یہ آجاتے ہیں اس پہلوان کو ہٹاناضروری ہے
کیا کریں عموماً یہاں گوجرانوالہ میں لڑائیاں ہوتی ہیں تو دھمکی دیتے ہیں کہ ٹانگیں توڑ دیں گے یہ جذباتی دھمکی ہے ٹانگیں توڑ بھی دیں تو پھر جڑ جاتی ہیں نہ بھی جڑے تو انسان نا توان نہیں ہوتا جس کو ہمیشہ کے لیے نابود کرنا ہو اس کی ریڑھ کی ہڈی توڑتے ہیں جس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے اسے دنیا کا کوئی معالج ٹھیک نہیں کر سکتا۔
یہ انہیں پتا ہے کے تشیع کی طاقت کی ریڑھ کی ہڈی ولایت کا نظام ہے۔ یہ ریڑھ کی ہڈی ہے جو ولی فقیہ ہے لہٰذا ولی فقیہ پر حملے کے جائیں امّت کے نزدیک ولی فقیہ پر سے اعتماد ختم کیا جائے ۔ اس کے لیے ایک لشکر ہے ظاہر ہے ریڑھ کی ہڈی میزائلوں سے نہیں توڑی جا سکتی ۔ ابھی آپ دیکھ لیں رہبر معظم کا ہاتھ زخمی ہے رہبر معظم پر مسجد میں بم کے ذریعہ حملہ کیا گیا جب وہ وزیر دفاع یا سیکورٹی کونسل کے سربراہ تھے ۔ آپ دیکھ لیں کو وہ مجروح بازو سے بھی ایک مظبوط طاقت اس وقت دنیا کےسامنے بنے ہوے ہیں یعنی بازو فالج ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑا ریڑھ کی ہڈی اس تکفیری لشکر سے نہیں ٹوٹ سکتی کیونکہ تکفیری لشکر کی ریڑھ کی ہڈی رہبر کے ہاتھوں ٹوٹ سکتی ہے رہبر کے ہاتھوں اور ٹوٹے گی انشاللہ۔
اسلام کے لئے ولایت فقیہ ریڑھ کی ہڈی ہے یہ ریڑھ کی ہڈی کون توڑ سکتا ہے یہ امریکا اور اسرائیل یعنی سی ای اے کا لشکر نہیں توڑ سکتا ایم ای سکس کا لشکرتوڑ سکتا ہے
اسلام کے لئے ولایت فقیہ ریڑھ کی ہڈی ہے یہ ریڑھ کی ہڈی کون توڑ سکتا ہے یہ امریکا اور اسرائیل نہیں توڑ سکتے یعنی سی ای اے کا لشکر نہیں توڑ سکتا ایم ای سکس کا لشکرتوڑ سکتا ہے ایم آئی سکس کا لشکر جس نے علی (ع) کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی امام حسن (ع) کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی ۔ریڑھ کی ہڈی توڑنا یعنی رہبر کو تنہا کر دینا امّت الگ ہو جائے اور رہبر تنہا ہو جائے یہی کام ہوا رسول الله کے بعد امیر المومنین تنہا کر دیے گئے جانشین نبی تنہا وصی رسول تنہا امام حسن میدان جنگ میں تنہا، یہ ہے ریڑھ کی ہڈی توڑنا۔ ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے کا مطلب یعنی علی (ع )نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں میں نے دائیں بائیں دیکھا کہ میرے بازو کٹے ہوئے ہیں تنہا ہوں صرف حسنین دو چھوٹے بچے میرے حامی ہیں بس رسول الله کے بعد۔ میں ان کے ذریعہ کیا کروں باقی کہاں ہیں ؟ باقی وہ لشکر لے گیا ۔ ایم ای سکس نے جو لشکر بنایا ہے وہ ریڑھ کی ہڈی توڑ سکتا ہے وہ بنایا ہی ریڑھ کی ہڈی توڑنے کے لئے ہے خیانت کے لیے بنایا گیا ہے اس کا ہدف ہی رہبر ہے۔ اس لیے اس وقت ہدف رہبر کو قرار دیا جا رہا ہے ہر بہانے سے اور ظاہر ہے جہاں بصیرت نہ ہو
عمرابن عاص نے جنگ میں قران اٹھایا نیزوں کے اوپر اور ١٢ ہزار کا لشکر حضرت علی (ع) کو چھوڑ گیا علی پر نعوذ باللہ لعن کرنے لگے۔ نہ صرف لعن کی بلکہ کہا واجب ال قتل ہیں۔ یہ خود علی علیہ سلام کی اپنی فوج تھی خوارج جو دشمن ہو گیا اپنے امیر کا، یہ خوارج امیر المومنین کو کہتے تھے توبہ کرو کیوں توبہ کرو اس لئے کہ آپ نے قرآن کے خلاف قدم اٹھایا ہے تحکیم کو مانا ہے ۔ حضرت نے کہا کہ تحکیم کو تو تم نے مانا ہے میں تو اسے قبول نہیں کر رہا تھا ۔لیکن وہ کہتے تھے توبہ کریں آپ جو علی سے توبہ کروائیں اکر یہ ووہی لشکر ہے جو آج ایم آئی سکس عمر عاص کی تدبیر کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔عمر عا ص جو کے بہت زیرک سیاست دان ہے امیر شام کے مشاور ین میں سے ہے اسکے سیاسی اصول دوبارہ زندہ کر کے پھر ریڑھ کی ہڈی توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔لشکر بنایا جا رہا ہے
بابصیرت مومنین اگاہ ہیں لیکن پاکستان میں مشکل زیادہ ہے چونکہ بصیرت نہیں ہے مداری کامیاب ہو جاتے ہیں رہبر تنہا ہو جاتے ہیں ۔ تمام ملّت کا فریضہ ہے کہ جب بھی دشمن جہاں وار کرے اس کا دفاع کرو۔ جو ندائیں ہم دیتے ہیں یا لیتنا کنا معکم فنفوز فوزا عظیمااپنے زمانے میں وہ کردار ادا کر کے جائیں
لیکن بابصیرت مومنین اگاہ ہیں لیکن پاکستان میں مشکل زیادہ ہے چونکہ بصیرت نہیں ہے مداری کامیاب ہو جاتے ہیں رہبر تنہا ہو جاتے ہیں عزیزان آپ سب کا فریضہ ہے تمام ملّت کا فریضہ ہے کہ جب بھی دشمن جہاں وار کرے اس کا دفاع کرو جب رسول الله پر دشمن نے حملہ کیا دشمن نے جنگ احد میں تو لوگ بھاگ کر چلے گئے رسول الله کو تنہا چھوڑ دیا۔لیکن جب میدان میں نماز کا وقت ہوا اصحاب حسین (ع) نے اپنے آپ کو حسین کی سپر بنا دیا اور تیر سارے انکے جسموں میں لگے اور انصار حسین کی یہ فضیلت و کمال ہے پوری دنیا میں کہ جب تک ایک بھی انصاری زندہ تھا حسین کو ایک بھی تیر نہیں لگنے دیا کتنی عظمت ہے شہدا کربلا بہت عظیم ہیں غیر معمولی ہیں کہ انہوں نے ایک بھی تیر حسین (ع) کی طرف انے نہیں دیا جب تک زندہ رہے جب خود سارے شہید ہو گئے پھر حسین تنہاہو گئے اور پھر امام حسین نے ھل من ناصر کی صدا دی دشمن نے امام کا محاصرہ کیا اور اتنے تیر لگے کہ امام گھوڑے پر تھے اور سمبھالنا مشکل ہو گیا امام گھوڑے سے نیچے آئے دو زانو تشہد کی حالت میں بیٹھ گئے اور چاروں طرف سے تیر انے لگے پھر امام سے تشہد کی حالت میں بیٹھا نہیں گیا کیوں نہیں بیٹھا گیا ایک تیر ایسا لگا امام کو کہ گلو میں بہت گہرائی میں چلا گیا سید شہدا نے اس تیر کو پکڑ کر کھینچا باہر ۔ تیر تو باہر اگیا لیکن لہو کا فوارہ ساتھ جاری ہو گیا سید الشہدا نے وہ خون اپنے چلو میں لیا اور بالوں کو خضاب کرنا شروع کر دیا اور اس وقت وہ سرخ ہاتھ آسمان کی طرف بلند کے ای پروردگار یہ امّت میرے ساتھ کیا کر رہی ہے اور سجدے کی حالت میں چلے گئے جب سجدے میں گئے تو تیر رک گئے اور خنجر آ گیا اور امام جب اکیلے رہ گئے تو ندا دی این فرسان الھیجہ میرے شیرو کہاں ہو میرے دلیرو کہاں ہو وہ جو میری جان کی سپر تھے کہاں ہو اب میں تنہا ہوں اور تیر ہیں عزیزان حسین کے ساتھ حسین کے اصحاب سرخرو ہیں کیوں کہ جب تک زندہ تھے اسوقت تک کوئی تیر حسین کی طرف تیر نہیں انے دیا وہ سرخرو ہیں ان پر درود و سلام ہو،
عزیزان ہمارے لئے شرمندگی ہو گی ہمارے موجودگی میں کسی زبان کا تیر یا کسی شخصیت کا تیر ہمارے رہبر کی طرف چلا جائے وہ پہلے ہمیں لگنا چاہے ہمارے سینے پر آنا چاہے وہ تہمت و بہتان ہم پر آنا چاہے جب تک ہم زندہ ہیں یہ تیر رہبر کی طرف نہیں جانے چاہے یہ معیار ہے حسین علیہ السلام کے انصار کا جس پر امام نے فخر کیا تھا کے تاریخ میں آپ کسی کو نصیب نہیں ہوئے ۔رسول الله کے اصحاب کے ہوتے ہوے رسول الله کو پتھر لگ گیا علی کے اصحاب کے ہوتے ہوے علی زخمی ہو گئے امام حسن کے اصحاب کے ہوتے ہوے امام حسن کو صلح کرنا پڑی لیکن حسین (ع)کے اصحاب کے ہوتے ہوے آپکو تیر نہیں لگا پتھر نہیں لگا۔
اس وقت دفاع کرنا ولی فقیہ کا تشیع اور اسلام کا دفاع ہے شخصیت کا نہیں ہے ۔ قائدین اور مجاہدین کو برابر نہ کہو کہ خدا ناراض ہوتا ہے نہ کہو کہ دونوں مجتہد دونوں ایک جیسے ہیں یہ دفاع امّت پر واجب ہے جب انہوں نے آپکا اتنا دفاع کیا ہے روضے بچا لئے زینبیہ بچا لیا کربلا و سامرا بچا لیا جس نے۔ جس نے اپنے اتنے عظیم جرنیل اس دفاع کے لیے اس راہ میں قربان کر دیے کیا اس شخصیت کا اتنا بھی حق نہیں بنتا کہ جب ہم زیارت کربلا میں جائیں تو اس شخصیت کے لئے دعا کریں۔ ابھی اربعین آئے گا وہ موقع ملے گا زیارت کا تو یہ بھی سوچو اس تکفیری لشکر سے کس نے بچایا ہوا ہے کس نے تحفظ دیا ہوا ہےہم سب کی گردن کے اوپر ان کا حق ہے ۔ رہبر عظیم کا ہم سب کی گردن کے اوپر اور اس حق کو ہم نے ادا کرنا ہے۔ اپنے زمانے کے لاتعلّق لوگ نہ بنیں ۔
جو ندائیں ہم دیتے ہیں یا لیتنا کنا معکم فنفوز فوزا عظیما
اپنے زمانے میں وہ کردار ادا کر کے جائیں تاکہ اسی لشکر میں آپ سب کا شمار ہو۔ خداوند تمام مومنین کو زمین کے جس خطہ میں ہیں محفوظ فرمائے امین.
source : abna24