انسان کو جرات سے یہ بات مان لینی چاہیۓ کہ اس کی زندگی میں آنے والی ناکامیوں کی وجوہات مثلا کاروبار کا غلط انتخاب ، شادی میں نامناسب فیصلہ ، اولاد کے بارے میں نادرست فیصلے اور ان کی تربیت کی صحیح منصوبہ بندی کے لیے اس نے کبھی بھی اس بات کی کوششس نہیں کی ہوتی ہے کہ باہمی تعلقات اور حسن سلوک کے لیۓ اچھے طریقے سے بات کرنا سیکھے ۔
جدید تحقیق نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ معاشرتی تعلقات کو موثر طریقے سے نبھانے کے طریقوں کو تعلیم و تربیت اور تدریس سے سیکھا جا سکتا ہے ۔ یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیۓ کہ ان باتوں کا سیکھ جانا کوئی آسان بات نہیں ہوتی ہے ۔ باہمی تعلقات کے دوران اگر دونوں اطراف میں سے کوئی بھی طرف مقابل کی بات کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھ پاۓ یا بات بتانے والا اپنے مؤقف کو درست طریقے سے بیان نہ کر پاۓ تو یہ تعلق یا باہمی ارتباط بےمعنی سا ہو جاتا ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔
احسن انداز گفتگو اور گفتگو کے متعلق فارسی اور دوسری زبانوں میں بہت سی ضرب الامثال موجود ہیں جو اس نازک پہلو کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں ۔
٭ «تا مرد سخن نگفته باشد، عيب و هنرش نهفته باشد»
٭ «پسته بيمغز چو دهن باز كند رسوا شود.»
٭«زبان سرخ، سر سبز ميدهد بر باد.»
کیا آپ نے کبھی دوسروں سے اچھے طریقے سے بات کرنے کے بارے میں سوچا ہے ؟
درحقیقت ہم سب میں احسن طریقے سے بات کرنے کی صلاحیت تو موجود ہوتی ہے مگر اس چھپی خدادا صلاحیت کو نکھارنے کے لیۓ توجہ اور شعور کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بعض لوگ موقع کی مناسبت پر بات چیت نہیں کر پاتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ اچھے روابط سے محروم رہتے ہیں ۔
بہت سادہ سے طریقے ہیں جن کو اگر آپ اختیار کر لیں تو بڑی آسانی کے ساتھ دوسروں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو استوار اور برقرار رکھ سکتے ہیں ۔ مثلا یہ کہ جب آپ کے سامنے کوئی بات کر رہا ہو تو اس کی بات کو غور سے سنیں اور اگر آپ کسی کی بات سے متفق نہ ہوں تو اپنے مخالف خیالات اور اعتقادات کو اس طریقے سے بیان کریں کہ دوسرا شخص آپ سے ناراض نہ ہو ۔ اس دوران آپ کی یہ کوشش ہونی چاہیۓ کہ آپ بہت ہی مؤدب رہیں ۔
source : tebyan