اردو
Wednesday 25th of December 2024
0
نفر 0

ادب و سنت

رسول اسلام (ص) کے آداب و سنن کو پیش کرنے سے قبل مناسب ہے کہ ادب اور سنت کی حقیقت کے بارے میں گفتگو ہوجائے _ ادب: علمائے علم لغت نے لفظ ادب کے چند معانی بیان کئے ہیں ، اٹھنے بیٹھنے میں تہذیب اور حسن اخلاق کی رعایت اور پسندیدہ خصال کا اجتماع ادب ہے(1) مندرجہ بالا معنی
ادب و سنت

رسول اسلام (ص) کے آداب و سنن کو پیش کرنے سے قبل مناسب ہے کہ ادب اور سنت کی حقیقت کے بارے میں گفتگو ہوجائے _
ادب: علمائے علم لغت نے لفظ ادب کے چند معانی بیان کئے ہیں ، اٹھنے بیٹھنے میں تہذیب اور حسن اخلاق کی رعایت اور پسندیدہ خصال کا اجتماع ادب ہے(1)
مندرجہ بالا معنی کے پیش نظر در حقیقت ادب ایسا بہترین طریقہ ہے جسے کوئی شخص اپنے معمول کے مطابق اعمال کی انجام دہی میں اس طرح اختیار کرے کہ عقل مندوں کی نظرمیں داد و تحسین کا مستحق قرار پائے ، یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ '' ادب وہ ظرافت عمل اور خوبصورت چال چلن ہے جسکا سرچشمہ لطافت روح اور پاکیزگی طینت ہے '' مندرجہ ذیل دو نکتوں پر غور کرنے سے اسلامی ثقافت میں ادب کا مفہوم بہت واضح ہوجاتاہے_
پہلا نکتہ :

عمل اسوقت ظریف اور بہترین قرار پاتاہے جب شریعت سے اس کی اجازت ہو اور حرمت کے عنوان سے اس سے منع نہ کیا گیا ہو_
لہذا ظلم ، جھوٹ، خیانت ، بر ے اور ناپسندیدہ کام کیلئے لفظ ادب کا استعمال نہیں ہو سکتا دوسری بات یہ ہے کہ عمل اختیاری ہو یعنی اسکو کئی صورتوں میں اپنے اختیار سے انجام دینا ممکن ہو پھر انسان اسے اسی طرح انجام دے کہ مصداق ادب بن جائے_ (۲)
دوسرا نکتہ :

حسن کے اس معنی میں کہ عمل زندگی کی آبرو کے مطابق ہو، کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن اس معنی کے اپنے حقاءق سے مطابقت میں بڑے معاشروں مثلاً مختلف اقوام ، ملل ، ادیان اور مذاہب کی نظر میں اسی طرح چھوٹے معاشروں جیسے خاندانوں کی نظر میں بہت ہی مختلف ہے _چونکہ نیک کام کو اچھے کام سے جدا کرنے کے سلسلہ میں لوگوں میں مختلف نظریات ہیں مثلاً بہت سی چیزیں جو ایک قوم کے درمیان آداب میں سے شمار کی جاتی ہیں، جبکہ دوسری اقوام کے نزدیک ان کو ادب نہیں کہا جاتا اور بہت سے کام ایسے ہیں جو ایک قوم کی نظر میں پسندیدہ ہیں لیکن دوسری قوموں کی نظر میں برے ہیں(۳)
اس دوسرے نکتہ کو نگاہ میں رکھنے کی بعد آداب رسول اکرم (ص) کی قدر و قیمت اس وجہ سے ہے کہ آپ کی تربیت خدا نے کی ہے اور خدا ہی نے آپ کو ادب کی دولت سے نوازا ہے نیز آپ کے آداب ، زندگی کے حقیقی مقاصد سے ہم آہنگ ہیں اور حسن کے واقعی اور حقیقی مصداق ہیں _
امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا:
''ان الله عزوجل ادب نبیه (ص) علی محبته فقال : انک لعلی خلق عظیم''
خدا نے اپنی محبت و عنایت سے اپنے پیغمبر(ص) کی تربیت کی ہے اس کے بعد فرمایاہے کہ: آپ(ص) خلق عظیم پر فاءز ہیں (۴)
آنحضرت (ص) کے جو آداب بطور یادگار موجود ہیں ان کی رعایت کرنا در حقیقت خدا کے بتائے ہوئے راستے '' صراط مستقیم '' کو طے کرنا اور کاءنات کی سنت جاریہ اور قوانین سے ہم آہنگی ہے_
ادب اور اخلاق میں فرق

باوجودی کہ بادی النظر میں دونوں لفظوں کے معنی میں فرق نظر نہیں آتاہے لیکن تحقیق کے اعتبار سے ادب اور اخلاق کے معنی میں فرق ہے _
علامہ طباطبائی ان دونوں لفظوں کے فرق کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ہر معاشرہ کے آداب و رسوم اس معاشرہ کے افکار اور اخلاقی خصوصیات کے آئینہ دار ہوتے ہیں اس لئے کہ معاشرتی آداب کا سرچشمہ مقاصد ہیں اور مقاصد اجتماعی، فطری اور تاریخی عوامل سے وجود میں آتے ہیں ممکن ہے بعض لوگ یہ خیال کریں کہ آداب و اخلاق ایک ہی چیز کے دو نام ہیں لیکن ایسا نہیں ہے اسلئے کہ روح کے راسخ ملکہ کا نام اخلاق ہے در حقیقت روح کے اوصاف کا نام اخلاق ہے لیکن ادب وہ بہترین اور حسین صورتیں ہیں کہ جس سے انسان کے انجام پانے والے اعمال متصف ہوتے ہیں (۵)
ادب اور اخلاق کے درمیان اس فرق پر غور کرنے کے بعد کہا جاسکتاہے کہ خلق میں اچھی اور بری صفت ہوتی ہے لیکن ادب میں فعل و عمل کی خوبی کی علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا، دوسرے لفظوں میں یوں کہاجائے کہ اخلاق اچھا یا برا ہوسکتاہے لیکن ادب اچھا یا برا نہیں ہوسکتا_
رسول اکرم (ص) کے ادب کی خصوصیت

روزمرہ کی زندگی کے اعمال میں رسول خدا (ص) نے جن آداب سے کام لیاہے ان سے آپ نے اعمال کو خوبصورت و لطیف اور خوشنما بنادیا اور ان کو اخلاقی قدر وقیمت بخش دی _
آپ کی سیرت کا یہ حسن و زیبائی آپ کی روح لطیف ، قلب ناز ک ا5ور طبع ظریف کی دین تھی جن کو بیان کرنے سے ذوق سلیم اورحسن پرست روح کو نشاط حاصل ہوتی ہے اور اس بیان کو سن کر طبع عالی کو مزید بلندی ملتی ہے _ رسول خدا (ص) کی سیرت کے مجموعہ میں مندرجہ ذیل اوصاف نمایاں طور پر نظر آتے ہیں _
الف: حسن وزیبائی ب: نرمی و لطافت ج: وقار و متانت
ان آداب اور پسندیدہ اوصاف کے سبب آپ(ص) نے جاہل عرب کی بدخوئی ، سخت کلامی و بدزبانی اور سنگدلی کو نرمی ، حسن اور عطوفت و مہربانی میں بدل دیا، آپ (ص) نے ان کے دل میں برادری کا بیچ بویا اور امت مسلمہ کے درمیان آپ (ص) نے اتحاد کی داغ بیل ڈالی_
رسول خدا (ص) کے آداب

اپنے مدمقابل کے ساتھ آپ (ص) کا جو سلوک تھا اس کے اعتبار سے آپ (ص) کے آداب تین حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں _
1_ خداوند عالم کے روبرو آپ (ص) کے آداب
2_ لوگوں کے ساتھ معاشرت کے آداب
3 _ انفرادی اور ذاتی آداب
انہیں سے ہر ایک کی مختلف قسمیں ہیں جن کو آءندہ بیان کیا جائے گا _
خدا کے حضور میں بارگاہ خداوندی میں رسول خدا (ص) کی دعائیں بڑے ہی مخصوص آداب کے ساتھ ہوتی تھیں یہ دعائیں خدا سے آپ (ص) کے عمیق ربط کا پتہ دیتی ہیں_
وقت نماز نماز آپ (ص) کی آنکھوں کا نور تھی

،آپ (ص) نماز کو بہت عزیز رکھتے تھے چنانچہ آپ (ص) ہر نماز کو وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرتے تھے ، بہت زیادہ نمازیں پڑھتے اور نماز کے وقت اپنے آپ (ص) کو مکمل طور پر خدا کے سامنے محسوس کرتے تھے_
نماز کے وقت آنحضرت (ص) کے اہتمام کے متعلق آپ (ص) کی ایک زوجہ کا بیان ہے کہ ''رسول خدا (ص) ہم سے باتیں کرتے اور ہم ان سے محو گفتگو ہوتے ، لیکن جب نماز کا وقت آتا تو آپ (ص) کی ایسی حالت ہوجاتی تھی گویا کہ آپ (ص) نہ ہم کو پہچان رہے ہیں اور نہ ہم
آپ (ص) کو پہچان رہے ہیں(۶)
منقول ہے کہ آپ (ص) پورے ا شتیاق کے ساتھ نماز کے وقت کا انتظار کرتے اور اسی کی طرف متوجہ رہتے تھے اور جیسے ہی نماز کا وقت آجاتا آپ (ص) مؤذن سے فرماتے ''اے بلال مجھے اذان نماز کے ذریعہ شاد کردو'' (۷)
امام جعفر صاد ق (ع) سے روایت ہے '' نماز مغرب کے وقت آپ (ص) کسی بھی کام کو نماز پر مقدم نہیں کرتے تھے اوراول وقت ، نماز مغرب ادا کرتے تھے (۸) منقول ہے کہ ''رسول خدا (ص) نماز واجب سے دو گنا زیادہ مستحب نمازیں پڑھا کرتے تھے اور واجب روزے سے دوگنے مستحب روزے رکھتے تھے_(۹)
روحانی عروج میں آپ (ص) کو ایسا حضور قلب حاصل تھا کہ جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا، منقول ہے کہ جب رسول خدا (ص) نماز کیلئے کھڑے ہوتے تھے تو خوف خدا سے آپ (ص) کا رنگ متغیر ہوجاتا تھا اور آپ (ص) کی بڑی دردناک آواز سنی جاتی تھی(۱۰)
جب آپ (ص) نماز زپڑھتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی کپڑا ہے جو زمین پر پڑا ہوا ہے(۱۱) حضرت امام جعفر صادق (ع) نے رسول خدا (ص) کی نماز شب کی تصویر کشی کرتے ہوئے فرمایاہے :
''رات کو جب آپ (ص) سونا چاہتے تھے تو ، ایک برتن میں اپنے سرہانے پانی رکھ دیتے تھے آپ (ص) مسواک بھی بستر کے نیچے رکھ کر سوتے تھے،آپ (ص) اتنا سوتے تھے جتنا خدا چاہتا تھا، جب بیدار ہوتے تو بیٹھ جاتے اور آسمان کی طرف نظر کرکے سورہ آل عمران کی آیات'' ان فی خلق السموات والارض الخ'' پڑھتے اس کے بعد مسواک کرتے ، وضو فرماتے اور مقام نماز پر پہونچ کر نماز شب میں سے چار رکعت نماز ادا کرتے، ہر رکعت میں قراءت کے بقدر ، رکوع اور رکوع کے بقدر ، سجدہ فرماتے تھے اس قدر رکوع طولانی کرتے کہ کہا جاتا کہ کب رکوع کو تمام کریں گے اور سجدہ میں جائیں گے اسی طرح انکا سجدہ اتنا طویل ہوتا کہ کہا جاتا کب سر اٹھائیں گے اس کے بعد آپ (ص) پھر بستر پر تشریف لے جاتے اوراتنا ہی سوتے تھے جتنا خدا چاہتا تھا_اس کے بعد پھر بیدار ہوتے اور بیٹھ جاتے ، نگاہیں اسمان کی طرف اٹھاکر انہیں آیتوں کی تلاوت فرماتے پھر مسواک کرتے ، وضو فرماتے ، مسجد میں تشریف لے جاتے اور نماز شب میں سے پھر چار رکعت نماز پڑھتے یہ نماز بھی اسی انداز سے ادا ہوتی جس انداز سے اس سے پہلے چار رکعت ادا ہوئی تھی ، پھرتھوڑی دیر سونے کے بعد بیدار ہوتے اور آسمان کی طرف نگاہ کرکے انہیں آیتوں کی تلاوت فرماتے ، مسواک اور وضو سے فارغ ہوکر تین رکعت نماز شفع و وتر اور دو رکعت نماز نافلہ صبح پڑھتے پھر نماز صبح ادا کرنے کیلئے مسجد میں تشریف لے جاتے''(۱۲)
آنحضرت نے ابوذر سے ایک گفتگو کے ذیل میں نماز کی اس کوشش اور ادائیگی کے فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:'' اے ابوذر میری آنکھوں کا نور خدا نے نماز میں رکھاہے اوراس نے جس طرح کھانے کو بھوکے کیلئے اور پانی کو پیاسے کیلئے محبوب قرار دیا ہے اسی طرح نماز کو میرے لئے محبوب قرار دیا ہے، بھوکا کھانا کھانے کے بعد سیر اور پیاساپانی پینے کے بعد سیراب ہوجاتاہے لیکن میں نماز پڑھنے سے سیراب نہیں ہوتا'' (۱۳)
دعا کے وقت تسبیح و تقدیس

آپ کے شب و روز کا زیادہ تر حصہ دعا و مناجات میں گذرجاتا تھا آپ سے بہت ساری دعائیں نقل ہوئی ہیں آپ کی دعائیں خداوند عالم کی تسبیح و تقدیس سے مزین ہیں ، آپ نے توحید کا سبق، معارف الہی کی گہرائی، خود شناسی اور خودسازی کے تعمیری اور تخلیقی علوم ان دعاؤں میں بیان فرمادیئے ہیں ان دعاؤں میں سے ایک دعا وہ بھی ہے کہ جب آپ (ص) کی خدمت میں کھانا لایا جاتا تھا تو آپ (ص) پڑھا کرتے تھے:
''سبحانک اللهم ما احسن ما تبتلینا سبحانک اللهم ما اکثر ما تعطینا سبحانک اللهم ما اکثر ما تعافینا اللهم اوسع علینا و علی فقراء المومنین''(۱۴)
خدایا تو منزہ ہے تو کتنی اچھی طرح ہم کو آزماتاہے، خدایا تو پاکیزہ ہے تو ہم پر کتنی زیادہ بخشش کرتاہے، خدا یا تو پاکیزہ ہے تو ہم سے کس قدر درگذر کرتاہے، پالنے والے ہم کو اور حاجتمند مؤمنین کو فراخی عطا فرما_
بارگاہ الہی میں تضرع اور نیازمندی کا اظہار

آنحضرت (ص) خدا کی عظمت و جلالت سے واقف تھے لہذا جب تک دعا کرتے رہتے تھے اسوقت تک اپنے اوپر تضرع اور نیازمندی کی حالت طاری رکھتے تھے، سیدالشہداء امام حسین (ع) رسول خدا (ص) کی دعا کے آداب کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :
''کان رسول الله (ص) یرفع یدیه اذ ابتهل و دعا کما یستطعم المسکین '' (۱۵)
رسول (ص) بارگاہ خدا میں تضرع اور دعا کے وقت اپنے ہاتھوں کو اس طرح بلند کرتے تھے جیسے کوئی نادار کھانا مانگ رہاہو_
لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت

رسول اکر م (ص) کی نمایاں خصوصیتوں میں سے ایک خصوصیت لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت ہے ، آپ تربیت الہی سے مالامال تھے اس بناپر معاشرت ، نشست و برخاست میں لوگوں کےساتھ ایسے ادب سے پیش آتے تھے کہ سخت مخالف کو بھی شرمندہ کردیتے تھے اور نصیحت حاصل کرنے والے مؤمنین کی فضیلت میں اضافہ ہوجاتا تھا_
آپ کی معاشرت کے آداب، اخلاق کی کتابوں میں تفصیلی طور پر مرقوم ہیں _ہم اس مختصر وقت میں چند آداب کو بیان کررہے ہیں امید ہے کہ ہمارے لئے رسول خدا (ص) کے ا دب سے آراستہ ہونے کا باعث ہو:
گفتگو

بات کرتے وقت کشادہ روئی اور مہربانی کو ظاہر کرنے والا تبسم آپ کے کلام کو شیریں اور دل نشیں بنادیتا تھا روایت میں ہے کہ :
''کان رسول الله اذا حدث بحدیث تبسم فی حدیثه'' (۱۶)
بات کرتے وقت رسول اکرم (ص) تبسم فرماتے تھے_
ظاہر ہے کہ کشادہ روئی سے باتیں کرنے سے ہر ایک کو اس بات کا موقع ملتا تھا کہ وہ آپ (ص) کی عظمت و منزلت سے مرعوب ہوئے بغیر نہایت اطمینان کے ساتھ آپ(ص) سے گفتگو کرے، اپنے ضمیر کی آواز کو کھل کر بیان کرے اور اپنی حاجت و دل کی بات آپ (ص) کے سامنے پیش کرے_
سامنے والے کی بات کو آپ (ص) کبھی منقطع نہیں کرتے تھے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی آپ (ص) سے گفتگو کا آغاز کرے تو آپ (ص) پہلے ہی اسکو خاموش کردیں (۱۷)
مزاح

مؤمنین کا دل خوش کرنے کیلئے آنحضرت (ص) کبھی مزاح بھی فرمایا کرتے تھے، لیکن تحقیر و تمسخر آمیز، ناحق اور ناپسندیدہ بات آپ (ص) کی کلام میں نظر نہیں آتی تھی_
''عن الصادق (ع) قال ما من مؤمن الا وفیه دعابة و کان رسول الله یدعب و لا یقول الاحقا'' (۱۸)
امام صادق (ع) سے نقل ہوا ہے کہ : کوئی مؤمن ایسا نہیں ہے جس میں حس مزاح نہ ہو، رسول خدا (ص) مزاح فرماتے تھے اور حق کے علاوہ کچھ نہیں کہتے تھے_
آپ کے مزاح کے کچھ نمونے یہاں نقل کئے جاتے ہیں :
''قال (ص) لاحد لا تنس یا ذالاذنین '' (۱۹)
پیغمبر خدا (ص) نے ایک شخص سے فرمایا: اے دو کان والے فراموش نہ کر_
انصار کی ایک بوڑھی عورت نے آنحضرت (ص) سے عرض کیا کہ آپ میرے لئے دعا فرمادیں کہ میں بھی جتنی ہوجاؤں حضرت (ص) نے فرمایا: '' بوڑھی عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی'' وہ عورت رونے لگی آنحضرت (ص) مسکرائے اور فرمایا کیا تم نے خدا کا یہ قول نہیں سنا ;
''انا انشأناهن انشاءً فجعلنا هن ابکاراً '' (۲۰)
ہم نے بہشتی عورتوں کو پیدا کیا اور ان کو باکرہ قرار دیا _
کلام کی تکرار

رسول خدا (ص) کی گفتگو کی خصوصیت یہ تھی کہ آپ (ص) بات کو اچھی طرح سمجھا دیتے تھے_
ابن عباس سے منقول ہے : جب رسول خدا (ص) کوئی بات کہتے یا آپ(ص) سے کوئی سوال ہوتا تھا تو تین مرتبہ تکرار فرماتے یہاں تک کہ سوال کرنے والا بخوبی سمجھ جائے اور دوسرے افرادآنحضرت (ص) کے قول کی طرف متوجہ ہوجائیں _
انس و محبت

پیغمبر خدا (ص) کو اپنے اصحاب و انصار سے بہت انس و محبت تھی ان کی نشستوں میں شرکت کرتے اور ان سے گفتگو فرماتے تھے آپ (ص) ان نشستوں میں مخصوص ادب کی رعایت فرماتے تھے_
حضرت امیر المؤمنین آپ کی شیرین بزم کو یاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں '' : ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا کہ پیغمبر خد ا (ص) کسی کے سامنے اپنا پاؤں پھیلاتے ہوں'' (۲۱)
پیغمبر (ص) کی بزم کے بارے میں آپ کے ایک صحابی بیان فرماتے ہیں '' جب ہم لوگ رسول خدا (ص) کے پاس آتے تھے تو داءرہ کی صورت میں بیٹھتے تھے'' (۲۲)
جلیل القدر صحابی جناب ابوذر بیان کرتے ہیں '' رسول خدا (ص) جب اپنے اصحاب کے درمیان بیٹھتے تھے تو کسی انجانے آدمی کو یہ نہیں معلوم ہوسکتا تھا کہ پیغمبر (ص) کون ہیں آخرکا ر اسے پوچھنا پڑتا تھا ہم لوگوں نے حضور(ص) سے یہ درخواست کی کہ آپ ایسی جگہ بیٹھیں کہ اگر کوئی اجنبی آدمی آجائے تو آپ (ص) کو پہچان لے ، اسکے بعد ہم لوگوں نے مٹی کا ایک چبوترہ بنایا آپ (ص) اس چبوترہ پر تشریف فرماہو تے تھے اور ہم لوگ آپ (ص) کے پاس بیٹھتے تھے_(۲۳)
امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں: رسول خدا (ص) جب کسی کے ساتھ بیٹھتے تو جب تک وہ موجود رہتا تھا حضرت (ص) اپنے لباس اور زینت والی چیزوں کو جسم سے جدا نہیں کرتے تھے (۲۴)
مجموعہ ورام میں روایت کی گئی ہے '' پیغمبر (ص) کی سنت یہ ہے کہ جب لوگوں کے مجمع میں بات کرو تو ان میں سے ایک ہی فرد کو متوجہ نہ کرو بلکہ سارے افراد پر نظر رکھو(۲۵)
خلاصہ درس

1)علمائے علم لغت نے لفظ ادب کے جو معنی بیان کئے ہیں ان پر غور کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ در حقیقت ظرافت عمل اور ایسے نیک چال چلن کا نام ادب ہے کہ جس کا سرچشمہ لطافت روح اور طینت کی پاکیزگی ہے _
2) آنحضرت (ص) کے ادب کی قدر و قیمت اس عنوان سے ہے کہ آپ خدا کی بارگاہ کے تربیت یافتہ اور اس کے سکھائے ہوئے ادب سے آراستہ و پیراستہ تھے_
3) اخلاق و آداب ، میں فرق یہ ہے کہ اخلاق میں اچھائی اور برائی دونوں ہوتی ہیں مگر ادب میں حسن عمل کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا_
4) رسول خدا (ص) نے روزمرہ کی زندگی کے اعمال میں جن طریقوں اور آداب کو اپنایا، وہ ایسے تھے کہ جنہوں نے اعمال کو خوبصورتی لطافت اور حسن عطا کیا اور انہیں اخلاقی قدروں کا حامل بنادیا_
5) رسول اللہ (ص) کی سیرت میں مندرجہ ذیل اوصاف نمایاں طور پر نظر آتے ہیں :
الف:حسن و زیبائی ب: نرمی اور لطافت ج: وقار و متانت
6 ) مدمقابل کے سامنے جو آپ (ص) کے آداب تھے ان کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے:
1_ خدا کے بالمقابل آپ (ص) کے آداب
2_ لوگوں کی ساتھ معاشرت کے آداب
3_فردی اور ذاتی آداب
--------
۱ (لغت نامہ دہخدا مادہ ادب)_
۲)(المیزان جلد 2 ص 105)_
۳)(المیزان جلد 2 ص 105)_
۴)( اصول کافی جلد 2 ص 2 ترجمہ سید جواد مصطفوی)_
۵)المیزان جلد 12 ص 106_
۶) سنن النبی ص 251_
۷) سنن النبی ص 268_
۸) سنن النبی ص_
۹) سنن النبی ص 234_
۱۰) سنن النبی ص251_
۱۱) سنن النبی ص 268_
۱۲) سنن النبی ص 241_
۱۳)سنن النبی ص 269_
۱۴) اعیان الشیعہ ج1 ص306_
۱۵)سنن النبی ص 315_
۱۶) سنن النبی ص48 بحار ج6 ص 298_
۱۷)مکارم الاخلاق ص 23_
۱۸)سنن النبی ص 49_
۱۹)بحارالانوار ج16 ص 294_
۲۰)سورہ واقعہ آیت 35 و 36_
۲۱) مکارم الاخلاق ص 22_
۲۲) سنن النبی ص 70_
۲۳) سنن النبی ص63_
۲۴)سنن النبی ص48_
۲۵)سنن النبی ص47_


source : alhassanain
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایانہ جائے گا
حقيقت شيعه شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و ...
دنیا کی سخت ترین مشکل کے حل کے لیے امام رضا علیہ ...
دنیا ظہور سے قبل
ابوسفيان وابوجہل چھپ كر قرآن سنتے ہيں
اموی حکومت کا حقیقی چہرہ، امام سجاد(ع
۹؍ربیع الاول
قرآن کی نظر میں حضرت علی(علیہ السّلام) کا مقام
مسلمان ایک جسم کی مانند
حضرت معصومہ(س) آئمہ معصومين(ع) کي نظر ميں

 
user comment