اردو
Wednesday 13th of November 2024
0
نفر 0

میت کی تقلید کیوں جائز نہیں؟

اس نظریہ کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ یہ دینی مدارس کی بقا اور اسلامی علوم کی حفاظت کا ذریعہ ہے' نہ صرف یہ کہ اس طرح اسلامی علوم محفوظ رہیں' بلکہ روز بروز اس میں اضافہ و ترقی آتی جائے گی اور لاینحل مشکلیں حل ہوں گی۔ ایسا نہیں ہے کہ قدیم زمانہ میں ہماری تمام مشکلیں
میت کی تقلید کیوں جائز نہیں؟

اس نظریہ کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ یہ دینی مدارس کی بقا اور اسلامی علوم کی حفاظت کا ذریعہ ہے' نہ صرف یہ کہ اس طرح اسلامی علوم محفوظ رہیں' بلکہ روز بروز اس میں اضافہ و ترقی آتی جائے گی اور لاینحل مشکلیں حل ہوں گی۔
ایسا نہیں ہے کہ قدیم زمانہ میں ہماری تمام مشکلیں علماء کے ذریعے حل ہو چکی ہوں اور اب کوئی مشکل باقی نہ رہ گئی ہو' کلام تفسیر' فقہ اور دوسرے اسلامی علوم میں ہزاروں معمے اور مشکلیں ہیں' بہت سی مشکلیں ماضی میں عظیم علماء حل کر چکے ہیں اور بہت سی مشکلیں باقی ہیں اور یہ مستقبل کے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں حل کریں اور تدریجی طور پر ہر موضوع میں مزید جامع اور بہتر کتابیں تحریر کریں اور اس سلسلے کو آگے بڑھائیں' جس طرح ماضی میں علماء نے تدریجی طور پر تفسیر کو آگے بڑھایا' فقہ کو آگے بڑھایا' کلام کو آگے بڑھایا' یہ قافلہ رکنا نہیں چاہئے' پس زندہ مجتہدوں کی تقلید اور ان کی طرف عوام کی توجہ' اسلامی علوم کی بقاء و ارتقاء کا ایک ذریعہ ہے۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ مسلمان ہر روز اپنی زندگی میں نئے نئے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں اور انہیں ان مسائل میں اپنی ذمہ داری کا علم نہیں ہے' لہٰذا ایسے زندہ فقیہوں اور زندہ افکار کی ضرورت ہے جو یہ عظیم احتیاج برطرف کر سکیں۔ اجتہاد و تقلید سے متعلق ایک حدیث میں ہے:
و اما الحوادث الواقعة فا رجعوا فیھا الیٰ رواة احادیثنا(احتجاج طبرسی' ج ۲۸۳ (نئے واقعات میں ہماری حدیثوں کے راویوں کی طرف رجوع کرو) "احادیثنا" کے بجائے "حدیثنا" ہے)
"حوادث واقعہ" یہی نئے مسائل ہیں جو ہر صدی میں' ہر دور میں اور ہر سال پیش آتے رہتے ہیں۔ مختلف زمانوں' مختلف صدیوں کی فقہی کتابوں کی چھان بین سے یہ پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کی ضروریات کے مطابق تدریجی طور پر فقہ میں نئے مسائل داخل ہوئے ہیں اور فقہاء نے ان کا جواب دینے کی کوشش فرمائی ہے' اسی لئے رفتہ رفتہ فقہ کی ضخامت بڑھتی گئی ہے۔
اگر کوئی شخص تحقیقی نقطہ نظر سے حساب لگائے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ فلاں اور فلاں مسئلہ' کس صدی میں' کسی علافہ میں اور کس ضرورت کے تحت فقہ میں شامل ہوا ہے۔ اگر زندہ مجتہد ان نئے مسائل کا جواب نہ دے تو پھر زندہ و مردہ مجتہد کی تقلید میں کیا فرق ہے؟ بہتر ہے کہ ہم بعض مردہ مجتہدوں مثلاً شیخ انصاری کی... جو خود زندہ مجتہدوں کے اعتراف کے مطابق سب سے زیادہ عالم و محقق تھے... تقلید کریں۔
بنیادی طور پر اجتہاد کا فلسفہ' کلی احکام کو جدید مسائل اور بدلتے ہوئے حادثات پر منطبق کرنے میں نہاں ہے۔ واقعی مجتہد وہی ہے جو یہ فلسفہ حاصل کر سکے' اسے معلوم ہو کہ موضوعات کس طرح بدلتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کے احکام بھی بدل جاتے ہیں' ورنہ پرانے اور تحقیق شدہ مسائل میں تحقیق کرنا اور کسی "علی الاقویٰ" کو "علی الاحوط" سے بدل دینا یا "علی الاحوط" کو "علی الاقوی" میں تبدیل کر دینا تو کوئی ہنر نہیں ہے' اس کے لئے اتنے ہنگامے کی ضرورت نہیں ہے۔
البتہ اجتہاد کے لئے بہت سی شرائط و مقدمات کی ضرورت ہے۔ مجتہد کو مختلف علوم کا ماہر ہونا چاہئے' عربی ادب' منطق' اصول فقہ' حتیٰ تاریخ اسلام اور تمام اسلامی فرقوں کی فقہ کا علم ہونا چاہئے اور پھر مدتوں مشق و تمرین کی ضرورت ہے' تب کہیں ایک واقعی و جید فقیہ وجود میں آتا ہے۔ فقط نحو' صرف' معانی' بیان اور منطق کی چند کتابیں اور پھر فرائد' مکاسب اور کفایة جیسی سطح کی تین چار کتابیں پڑھ کر اور چند برتمک درس خاہر میں شرکت کر کے کوئی اجتہاد کا دعویٰ نہیں کر سکتا اور "وسائل" و "جواہر" سامنے رکھ کر فتوے صادر نہیں کر سکتا' اسے تفسیر و حدیث یعنی حضرت رسول خدا سے امام حسن عسکری۱تک کے ۲۵۰ سال پر محیط ادوار میں بیان ہونے والی ہزاروں حدیثو ں' نیز ان حدیثوں پر صادر ہونے والے ماحول یعنی ھھھ اسلام اور تمام اسلامی فرقوں کی فقہ' نیز رجال اور راویوں کے طبقوں کا مکمل علم ہونا چاہئے۔
آیة اللہ بروجردی اعلیٰ اللہ مقامہ' واقعاً فقیہ تھے' مجھے کسی کا نام لینے کی عادت نہیں ہے۔ وہ بھی جب تک زندہ تھے میں نے اپنی تقریروں میں ان کا نام نہیں لیا ہے' لیکن اب جبکہ وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور کسی لالچ کا شائبہ نہیں رہ گیا ہے' یہ عرض کر رہا ہوں کہ آپ واقعاً ایک ممتاز و زبردست فقیہ تھے۔ تفسیر' حدیث' رجال درایت اور تمام اسلامی فرقوں کی فقہ پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔


فتوؤں میں فقیہ کے تصورات کی جھلک
فقیہ اور مجتہد کا کام شرعی احکام کا استنباط و استخراج ہے' لیکن موضوعات کے بارے میں اس کی معلومات اور کائنات کے متعلق اس کے تصورات کو اس کے فتوؤں میں بڑا دخل ہوتا ہے' جن موضوعات کے متعلق فتویٰ صادر کر رہا ہے' ضروری ہے کہ ان کے متعلق بھرپور معلومات رکھتا ہو مگر کسی ایسے فقیہ کو تصور کریں جو گھر یا مدرسہ میں گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا ہے اور اس کا موازنہ ایک ایسے فقیہ سے کریں جو زندگی کے مسائل میں دخیل ہے۔ یہ دونوں فقیہ شرعی دلیلوں کی طرف رجوع کرتے ہیں' لیکن دونوں کا استنباط اور فتویٰ الگ ہو گا۔
ایک مثال عرض کرتا ہوں' فرض کیجئے جس شخص نے تہران میں زندگی گزاری ہو یا تہران ہی جیسے کسی شہر میں زندگی بسر کی ہو' جہاں آب کُر اور آب جاری کی فراوانی ہو' نہریں اور کنویں موجود ہوں۔ یہ شخص فقیہ ہے اور طہارت و نجاست کے متعلق فتویٰ دینا چاہے تو وہ اپنی ذاتی زندگی کے تجربات کے پیش نظر جب طہارت و نجاست کی روایتوں کا مطالعہ کرے گا تو اس کا استنباط و احتیاط اور بہت سی چیزوں سے اجتناب کے ہمراہ ہو گا' لیکن جب یہی شخص بیت اللہ الحرام کی زیارت کی غرض سے سفر کرے گا اور وہاں پر طہارت و نجاست کی صورت حال' نیز پانی کی قلت سے دوچار ہو گا تو طہارت و نجاست کے سلسلے میں اس کا نظریہ بدل جائے گا' یعنی اس سفر کے بعد جب وہ طہارت و نجاست سے متعلق روایتوں کا جائزہ لے گا تو ان حدیثوں کا کچھ اور ہی مطلب اس کی سمجھ میں آئے گا۔
اگر کوئی شخص فقہاء کے فتوؤں کا آپس میں موزانہ کرے اور پھر ان کے حالات زندگی' نیز زندگی کے مسائل میں ان کے طرز فکر کا جائزہ لے تو اس پر یہ حقیقت آشکار ہو جائے گی کہ ایک فقیہ کے ذہنی تصورات اور دنیا کے بارے میں اس کی معلومات کس قدر اس کے فتوؤں پر اثرانداز ہوئے ہیں' یہاں تک کہ عرب فقیہ کے فتوؤں سے عربیت کی بو آتی ہے اور عجمی فقیہ کے فتوؤں سے عجمیت کی بو آتی ہے' دیہاتی فقیہ کے فتوؤں میں دیہات کی جھلک دکھائی دیتی ہے اور شہری فقیہ کے فتوؤں میں شہری جلوے نظر آتے ہیں۔
یہ دین' دین خاتم ہے' کسی خاص علاقہ یا زمانہ سے مخصوص نہیں ہے وہ ہر علاقہ اور ہر زمانہ کے لئے ہ' یہ وہ دین ہے جو زندگی کو منظم بنانے اور انسانی زندگی کو ارتقاء دینے آیا ہے' پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی فقیہ فطری نظاموں اور طبیعی حالات سے بے خبر اور زندگی کے رشد و ارتقاء کا منکر ہونے کے باوجود اس دین حنیف کے اعلیٰ و مترقی احکام کا صحیح طریقے سے استنباط کر سکے جو انہی نظاموں کے لئے آیا ہے اور ان ہی تغیرات و تبدلات' نیز رشد و ارتقاء کی ہدایت و رہنمائی اور انہیں صحیح سمت پر لے جانے کا ضامن ہے؟!


ضرورتوں کا ادراک
آج بھی ہماری فقہ میں ایسے موارد موجود ہیں جہاں فقہاء نے صرف کسی موضوع کی ضرورت و اہمیت کے ادراک کے پیش نظر پورے جزم و یقین کے ساتھ اس کے واجب ہونے کا فتویٰ دیا ہے یعنی باوجودیکہ اس موضوع کے متعلق کوئی صریح و واضح حدیث و آیت ہے نہ معتبر اجماع' لیکن فقہاء نے استنباط کے چوتھے رکن یعنی عقل دلیل سے استفادہ کرتے ہوئے فتویٰ دیا ہے' فقہاء ایسے مقامات پر موضوع کی اہمیت اور روح سے واقفیت کے پیش نظر کہ اسلام' اہم موضوعات کے احکام بیان کئے بغیر انہیں یوں ہی نہیں چھوڑ دیتا' یقین کرتے ہیں کہ اس مقام پر الٰہی حکم ایسا ہونا چاہئے۔ حاکم کی ولایت اور اس کے فروعات سے متعلق فقہاء کے فتوؤں کی اساس یہی ہے' اگر انہیں موضوع کی اہمیت کا حساس نہ ہوا ہوتا تو یہ فتوے وجود میں نہ آتے جس حد تک انہیں موضوع کی اہمیت کا حساس ہوا' انہوں نے فتوے صادر کئے۔ ایسی ہی دوسری نظیریں بھی دریافت کی جا سکتی ہیں جہاں فتویٰ نہ دینے کی وجہ' موضوع کی اہمیت و ضرورت سے بے خبر و لاعلمی رہی ہے۔


ایک اہم تجویز
یہاں میں ایک تجویز پیش کر رہا ہوں جو ہماری فقہ کے ارتقاء کے لئے بے حد مفید ہے' یہ تجویز اس سے پہلے آیة اللہ حاجی شیخ عبدالکریم یزدی اعلیٰ اللہ مقامہ' (حوزئہ علمیہ قم کے بانی) پیش کر چکے ہیں' میں ان ہی کی تجویز دہرا رہا ہوں۔
جناب موصوف نے فرمایا تھا کہ یہ کیا ضروری ہے کہ عوام تمام مسائل میں ایک ہی شخص کی تقلید کریں' بہتر یہ ہے کہ فقہ کے الگ الگ شعبے قائم کر دیئے جائیں' یعنی ہر گروہ' فقہ کا ایک عمومی کورس پورا کرنے کے بعد کسی معین شعبہ میں مہارت حاصل کرے اور لوگ اس کی اسی شعبے میں تقلید کریں جس میں اس نے مہارت حاصل کی ہے' مثلاً بعض لوگ عبادات کو اپنی مہارت کے شعبہ کے طور پر اختیار کریں تو کچھ لوگ معاملات میں' کچھ افراد سیاسیات میں اور کچھ اشخاص احکام میں (احکام' فقہی اصطلاح میں) اجتہاد کریں' جس طرح علم طب میں شعبے تقسیم کر دیئے گئے ہیں ہر ڈاکٹر طب کے ایک مخصوص شعبہ میں مہارت حاصل کرتا ہے' کوئی دل کا ماہر ہے تو کوئی آنکھ کا' کوئی کان کا ماہر ہے تو کوئی ناک کا... اگر ایسا ہو جائے تو ہر شخص اپنے شعبے میں زیادہ بہتر طریقے سے تحقیق کر سکتا ہے۔ میرے خیال میں جناب سید احمد زنجانی کی کتاب "الکلام یجرالکلام" میں یہ بات آیة اللہ حائری یزدی سے نقل ہوئی ہے۔
یہ تجویز بہت اچھی تجویز ہے اور میں اس میں اتنا اور اضافہ کرتا ہوں کہف قہ میں کام کی تقسیم اور فقاہت میں تخصصی شعبوں کی ایجاد' تقریباً سو سال سے ایک ضرورت کی شکل اختیار کر چکی ہے اور موجودہ حالات اس دور کے فقہاء یا فقہ کے تکامل و ارتقاء کو روک دیں' اسے موقوف کر دیں اور یا یہ تجویز مان لیں۔
علوم میں شعبوں کی تقسیم
کیونکہ علوم میں کام کی تقسیم' علوم کی ترقی کا نتیجہ بھی ہے اور علت بھی' یعنی علوم تدریجی طور پر ترقی کرتے ہیں اور پھر اس منزل پر پہنچ جاتے ہیں کہ اس کے تمام مسائل میں تحقیق ایک شخص کے بس کی بات نہیں رہ جاتی' لہٰذا اس کی تقسیم اور مختلف شعبے ایجاد کرنا ضروری ہو جاتا ہے' پس کام کی تقسیم اور ایک علم تخصصی شعبوں کی ایجاد اس علم کی ترقی کا نتیجہ ہے۔ دوسری طرف سے جب کام تقسیم ہو جاتا ہے اور تخصصی شعبے قائم ہو جاتے ہیں اور ساری توجہ اپنے اپنے مخصوص شعبوں پر متمرکز ہو جاتی ہے تو علم کو مزید ترقی ہوتی ہے۔ دنیا کے تمام علوم... طب' ریاضیات' قانون' ادبیات اور فلسفہ... میں تخصصی شعبے قائم ہو چکے ہیں' اسی لئے ان علوم نے خوب ترقی بھی کی ہے۔


فقہ کا ایک ہزار سالہ ارتقاء
ایک زمانہ تھا جب فقہ بہت محدود تھی' شیخ طوسی سے پہلے کی فقہی کتابوں کا جب جائزہ لیتے ہیں تو وہ بہت ہی چھوٹی اور محدود نظر آتی ہیں۔ شیخ طوسی نے "مبسوط" نامی کتاب لکھ کر فقہ کو ایک نئے مرحلے میں داخل کیا اور اسے وسعت دی۔ اسی طرح ہر دور کے علماء و فقہاء کی کوششوں اور نئے نئے مسائل شامل ہونے' نیز جدید تحقیقات کے نتیجے میں فقہ کی ضخامت بڑھتی گئی' یہاں تک کہ سو سال قبل' صاحب جواہر بڑی مشکلوں سے فقہ کا ایک مکمل دورہ لکھنے میں کامیاب ہو سکے۔ کہتے ہیں موصوف نے بیس سال کی عمر سے اس مہم کا آغاز کیا تھا اور اپنی غیر معمولی صلاحیت' پیہم کوشش اور طویل عمر کے نتیجے میں زندگی کے آخری لمحات میں فقہ کا دورہ مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے' جواہر کا مکمل دورہ چھ بڑی اور بہت ہی ضخیم جلدوں میں چھپا ہے۔(اب یہ کتاب ۴۴ جلدوں میں "عام سائز سائز" میں چھپی ہے) شیخ طوسی کی "مبسوط" جو اپنے زمانہ میں مشروح و مفصل فقہ کا نمونہ مانی جاتی تھی' جواہر کی ایک جلد کے نصف کے برابر بھی نہیں ہے۔ صاحب جواہر کے بعد شیخ مرتضیٰ انصاری اعلیٰ اللہ مقامہ' نے فقہ کی نئی بنیادیں قائم کیں جس کا نمونہ آپ کی کتاب مکاسب اور کتاب طہارت ہے' آپ کے بعد کسی کے ذہن میں اتنی تفصیل و تحقیق کے ساتھ فقہ کا مکمل دورہ پڑھانے یا لکھنے کا تصور بھی نہیں آتا۔
اس موجودہ دور میں اور دنیا کے تمام علوم کی طرح ہماری فقہ کی اس ترقی کے بعد... جو ماضی میں علماء و فقہاء کی کوششوں کا نتیجہ ہے... اس دور کے علماء و فقہاء فقہ کی ترقی کو روک دیں اس کے ارتقاء کے راستے مسدود کر دیں اور یا اس سنجیدہ مترقی تجویز کو مان کر تخصصی شعبے ایجاد کریں اور عوام بھی ایک شخص کی تقلید کرنے کی بجائے مختلف شعبوں میں الگ الگ مجتہدین کی تقلید کریں جس طرح وہ اپنی جسمانی بیماریوں کے علاج کے لئے الگ الگ ماہرین کے پاس جاتے ہیں


source : alhassanain
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

بعثت ، ایک نئے انسان کی تعمیر کا پیغام ہے
امام موسی صدر: کربلا کے قاتلین امام حسین علیہ ...
قرآن مجید اور تسبیح سے استخارہ کرنے کی سند
مصحف امام علی علیہ السلام کی حقیقت کیا ہے؟
حق کو باطل سے پہچاننے کی صلاحیت
عبادات ميں سجدہ كى اہميت
حضرت امام زین العابدین(ع) کی ولادت
امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کا واقعہ
اردو میں سات قرآنی کتب کی اشاعت
خودشناسى اور بامقصد زندگی

 
user comment