اردو
Thursday 26th of December 2024
0
نفر 0

عہدِ جاہلیت میں عورتوں کا مرتبہ

دورِ جاہلیت کے عرب عورتوں کی قدر و منزلت کے ذرہ برابر بھی قائل نہ تھے، وہ ہر قسم کے انفرادی و اجتماعی حقوق سے محروم تھیں۔ اس عہدِ جاہلیت کے نظام میں عورت صرف ورثے ہی سے محروم نہیں رکھی جاتی تھی، بلکہ اس کا شمار اپنے باپ، شوہر یا بیٹے کی جائیداد میں ہوتا تھا۔ چنانچہ مال و جائیداد کی طرح اسے بھی ورثے اور ترکے میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔
عہدِ جاہلیت میں عورتوں کا مرتبہ

دورِ جاہلیت کے عرب عورتوں کی قدر و منزلت کے ذرہ برابر بھی قائل نہ تھے، وہ ہر قسم کے انفرادی و اجتماعی حقوق سے محروم تھیں۔ اس عہدِ جاہلیت کے نظام میں عورت صرف ورثے ہی سے محروم نہیں رکھی جاتی تھی، بلکہ اس کا شمار اپنے باپ، شوہر یا بیٹے کی جائیداد میں ہوتا تھا۔ چنانچہ مال و جائیداد کی طرح اسے بھی ورثے اور ترکے میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔
عرب قحط سالی کے خوف یا اس خیال سے کہ لڑکیوں کا وجود ان کی ذات کے لیے باعث ننگ و عار ہے انہیں پیدا ہوتے ہی زمین میں گاڑ دیتے تھے۔

اپنی معصوم لڑکیوں سے انہوں نے جو ناشائستہ و ناروا سلوک اختیار کر رکھا تھا اس کی مذمت کرتے ہوئے قرآن مجید فرماتا ہے:

واذا بشر احدھم بالانثنی ظل وجھہ مسودا وھو کظیم یتواری من القوم من سوء مابشر بہ ایمسکہ علی ھون ام یدسہ فی التراب
”جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ لوگوں سے منہ چھپاتا پھرتا ہے کہ بری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔ سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دے۔“

دوسری آیت میں بھی کلام اللہ انہیں اس ناشائستہ فعل اور انسانیت سوز حرکت کے بدلے خداوند تعالیٰ کی بارگاہ میں جواب دہ قرار دیتا، چنانچہ ارشاد ہے:

واذا الموٴدة سئلت بای ذنب قتلت
”اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی۔“

سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ تھی کہ ان کے درمیان شادی بیاہ کی ایسی رسومات رائج تھیں کہ جن کی کوئی محکم اصل و بنیاد نہ تھی۔ وہ اپنی زوجہ کے لیے کسی معین حد کے قائل نہ تھے۔ مہر کی رقم ادا کرنے کی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے لیے وہ انہیں آزاد کر دیتے۔ کبھی وہ اپنی زوجہ پر بے عصمت ہونے کا الزام لگاتے تاکہ یہ بہانہ بنا کر مہر کی رقم ادا کرنے سے بچ جائیں۔ ان کا باپ اگر کسی بیوی کو طلاق دے دیتا، یا خود مر جاتا تو اس کی بیویوں سے شادی کرلینا ان کے لیے عار نہ تھا۔


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

توحيد
زیارت اربعین کی فضیلت روایات کی روشنی میں
عصر جدید میں وحی کی احتیاج
خطرناک مثلث اسلام کے تین دشمن
امام خمینی(رہ) تاریخ معاصر کے مرد مجاہد
حديث نبوي ميں بشارت مہدي
چار سخت ترین حالات کے لئے چار ذکر خدا
خوشبوئے حیات حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ ...
حسین ابن علی
جناب فاطمہ(ع) حضرت رسول خدا (ص)کی اکلوتی بیٹی

 
user comment