دین اسلام نے واقعی، فطری، انفرادی، اجتماعی تمام ضرورتوں اور مصلحتوں کو پیش نظر رکھتے ھوئے جنسی تسکین کے لئے راستہ معین کیا ہے جس میں بے جا پابندیوں کے نہ خراب اثرات ھیں اور نہ بے قید و شرط آزادی کے تباہ کن نتائج ۔
اسلام نے ایک طرف غیر شادی شدہ رھنے اور معاشرہ سے کنارہ کش رھنے سے منع کیا ہے اور دوسری طرف جنسی تسکین کے لئے شادی کی ترغیب دلائی ہے اور جھاں جنسی کشش کی سر کشی کا خطرہ ھو وھاں شادی کو واجب قرار دیا ہے ۔
غیر شادی شدہ رہنا
اسلام نے تنھا اور غیر شادی شدہ رھنے کو اچھا نھیں سمجھا ہے بلکہ اس کی سخت مذمت کی ہے حضرت رسول (ص) خدا کا ارشاد ہے :
” میری امت کے بھترین لوگ شادی شدہ ھیں اور وہ لوگ برے ھیں جو شادی شدہ نھیں ھیں “ (1)
عبد اللہ ابن مسعود کا بیان ہے کہ ایک جنگ میں ھم لوگ حضرت رسول خدا(ص) کے ھمرکاب تہے چونکہ ھماری بیویاں ھمارے ساتھ نھیں تھیں ، ھم لوگ سختی سے دن گزار رہے تہے ۔ ھم لوگوں نے آنحضرت سے دریافت کیا ، کیا جائز ہے کہ ھم لوگ اپنی جنسی خواھشات کو بالکل نابود کردیں ؟ حضرت نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ۔(2)
اسلام اور رھبانیت
رھبانیت ( دنیا اور اس کی لذتوں کو ترک کر دینا ) کی اسلام میں مذمت کی گئی ہے مسلمانوں کو اس سے دور رھنا چاھئے ۔ پیغمبر اسلام نے ارشاد فرمایا :
” لیس فی امتی رھبانیة “ ” میری امت میں رھبانیت نھیں ہے “(3)
آنحضرت کو جب یہ معلوم ھوا کہ آپ کے ایک صحابی ” عثمان بن مظعون “ نے دنیا سے منہ پھیر لیا ہے بیوی بچوں سے کنارہ کش ھو گئے ھیں ، دن روزے میں رات عبادت میں بسر کرتے ھیں ، آنحضرت کو ناگوار گزرا۔ناگواری کے عالم میں گھر سے باھر تشریف لائے اور عثمان بن مظعون کے پاس گئے اور فرمایا :
” خدا وند عالم نے مجہے رھبانیت کے لئے نھیں بھیجا ہے بلکہ مجہے ایسے دین کے ساتھ مبعوث کیا ہے جو معتدل ہے، آسان ہے جس میں دشواریاں نھیں ھیں ۔ میںبھی روزہ رکھتا ھوں ، نمازیں پڑھتا ھوں اور اپنی ازواج سے نزدیکی کرتا ھوں جو شخص میرے فطری دین کو دوست رکھتا ہے اس کو چاھئے کہ وہ میری سنت اور روش کی پیروی کرے اور شادی کرنا میری سنتوں میں سے ایک ہے “(4)
اسلام اور شادی
اسلامی روایات میں شادی کی بھت ترغیب دلائی گئی ہے ۔
” خدا وند عالم کی منجملہ نشانیوں میں ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تم ھی سے تمھارا ھمسفر قرار دیا تاکہ تم اس کے ذریعہ سکون دل حاصل کرو اور تمھارے درمیان مھر ومحبت قرار دی “ (5)
قرآن کریم کی نظر میں شادی کوئی کثافت اور آلودگی نھیں ہے بلکہ شادی سکون دل کا ذریعہ ہے مھر و محبت کا سبب ہے شادی کی تسکین کو وہ لوگ زیادہ محسوس کر سکتے ھیں جنھوں نے تنھائی کی سختیاں برداشت کی ھوں اور کنواری زندگی کے تلاطم کو محسوس کیا ھو ۔
پیغمبر اسلام نے ارشاد فرمایا :
” اے جوانو ! اگر شادی کرنے کی صلاحیت رکھتے ھو تو ضرور شادی کرو کیونکہ شادی آنکہ کو نا محرموں سے زیادہ محفوظ رکھتی ہے اور پاکدامنی و پرھیز گاری عطا کرتی ہے“(6)
آنحضرت نے یہ بھی ارشاد فرمایا :
” جس نے شادی کی اس نے اپنا نصف دین محفوظ کر لیا “(7)
اگر شادی کے ذریعہ جنسی کشش کو رام کر لیا گیا تو متلاطم روح کو سکون مل جائے گا اور زندگی کے حقائق بھتر طریقے سے درک کئے جا سکیں گے ۔دین اور اپنی سعادت کی طرف قدم بڑہ سکیںگے ۔ اس مقصد کے حصول کےلئے ھرایک پر لازم ہے کہ وہ شادی کے شرائط اور وسائل فراھم کرے تاکہ جوانی کے طرب و نشاط سے لطف اندوز ھو کے کامیابیوں کی آغوش میں مھر و محبت کے پھول سونگہ سکے تاکہ جوانی کی بھاروں میں ابر رحمت ٹوٹ کر برسے اور اس کے دامن کردار کو گناہ کی کثافتیں آلودہ نہ کر سکیں اور اس کی زندگی رنج وغم کی تاریکیوں میں بھٹکنے نہ پائے ۔ آنکھیں آوارگی کی کثافتوں میں ملوث نہ ھونے پائیں ۔ اس کی پاکیزگی مجروح نہ ھو اور نیکیاں برائیوں میں تبدیل نہ ھوں ۔
حوالہ جات :
1۔بحار الانوار ج ۱۰۳ ص ۲۲۱
2۔صحیح مسلم جزء ۴ ص ۱۳۰
3۔بحار ج ۷۰ ص ۱۱۵
4۔وسائل ج ۱۴ ص ۷۴
5۔سورہ روم آیت ۲۱
6۔مستدرک الوسائل ج۲ ص ۵۳۱ حدیث ۲۱
7۔ وسائل الشیعہ ج۱۴ ص ۵دین اسلام نے واقعی، فطری، انفرادی، اجتماعی تمام ضرورتوں اور مصلحتوں کو پیش نظر رکھتے ھوئے جنسی تسکین کے لئے راستہ معین کیا ہے جس میں بے جا پابندیوں کے نہ خراب اثرات ھیں اور نہ بے قید و شرط آزادی کے تباہ کن نتائج ۔
اسلام نے ایک طرف غیر شادی شدہ رھنے اور معاشرہ سے کنارہ کش رھنے سے منع کیا ہے اور دوسری طرف جنسی تسکین کے لئے شادی کی ترغیب دلائی ہے اور جھاں جنسی کشش کی سر کشی کا خطرہ ھو وھاں شادی کو واجب قرار دیا ہے ۔
غیر شادی شدہ رہنا
اسلام نے تنھا اور غیر شادی شدہ رھنے کو اچھا نھیں سمجھا ہے بلکہ اس کی سخت مذمت کی ہے حضرت رسول (ص) خدا کا ارشاد ہے :
” میری امت کے بھترین لوگ شادی شدہ ھیں اور وہ لوگ برے ھیں جو شادی شدہ نھیں ھیں “ (1)
عبد اللہ ابن مسعود کا بیان ہے کہ ایک جنگ میں ھم لوگ حضرت رسول خدا(ص) کے ھمرکاب تہے چونکہ ھماری بیویاں ھمارے ساتھ نھیں تھیں ، ھم لوگ سختی سے دن گزار رہے تہے ۔ ھم لوگوں نے آنحضرت سے دریافت کیا ، کیا جائز ہے کہ ھم لوگ اپنی جنسی خواھشات کو بالکل نابود کردیں ؟ حضرت نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ۔(2)
اسلام اور رھبانیت
رھبانیت ( دنیا اور اس کی لذتوں کو ترک کر دینا ) کی اسلام میں مذمت کی گئی ہے مسلمانوں کو اس سے دور رھنا چاھئے ۔ پیغمبر اسلام نے ارشاد فرمایا :
” لیس فی امتی رھبانیة “ ” میری امت میں رھبانیت نھیں ہے “(3)
آنحضرت کو جب یہ معلوم ھوا کہ آپ کے ایک صحابی ” عثمان بن مظعون “ نے دنیا سے منہ پھیر لیا ہے بیوی بچوں سے کنارہ کش ھو گئے ھیں ، دن روزے میں رات عبادت میں بسر کرتے ھیں ، آنحضرت کو ناگوار گزرا۔ناگواری کے عالم میں گھر سے باھر تشریف لائے اور عثمان بن مظعون کے پاس گئے اور فرمایا :
” خدا وند عالم نے مجہے رھبانیت کے لئے نھیں بھیجا ہے بلکہ مجہے ایسے دین کے ساتھ مبعوث کیا ہے جو معتدل ہے، آسان ہے جس میں دشواریاں نھیں ھیں ۔ میںبھی روزہ رکھتا ھوں ، نمازیں پڑھتا ھوں اور اپنی ازواج سے نزدیکی کرتا ھوں جو شخص میرے فطری دین کو دوست رکھتا ہے اس کو چاھئے کہ وہ میری سنت اور روش کی پیروی کرے اور شادی کرنا میری سنتوں میں سے ایک ہے “(4)
اسلام اور شادی
اسلامی روایات میں شادی کی بھت ترغیب دلائی گئی ہے ۔
” خدا وند عالم کی منجملہ نشانیوں میں ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تم ھی سے تمھارا ھمسفر قرار دیا تاکہ تم اس کے ذریعہ سکون دل حاصل کرو اور تمھارے درمیان مھر ومحبت قرار دی “ (5)
قرآن کریم کی نظر میں شادی کوئی کثافت اور آلودگی نھیں ہے بلکہ شادی سکون دل کا ذریعہ ہے مھر و محبت کا سبب ہے شادی کی تسکین کو وہ لوگ زیادہ محسوس کر سکتے ھیں جنھوں نے تنھائی کی سختیاں برداشت کی ھوں اور کنواری زندگی کے تلاطم کو محسوس کیا ھو ۔
پیغمبر اسلام نے ارشاد فرمایا :
” اے جوانو ! اگر شادی کرنے کی صلاحیت رکھتے ھو تو ضرور شادی کرو کیونکہ شادی آنکہ کو نا محرموں سے زیادہ محفوظ رکھتی ہے اور پاکدامنی و پرھیز گاری عطا کرتی ہے“(6)
آنحضرت نے یہ بھی ارشاد فرمایا :
” جس نے شادی کی اس نے اپنا نصف دین محفوظ کر لیا “(7)
اگر شادی کے ذریعہ جنسی کشش کو رام کر لیا گیا تو متلاطم روح کو سکون مل جائے گا اور زندگی کے حقائق بھتر طریقے سے درک کئے جا سکیں گے ۔دین اور اپنی سعادت کی طرف قدم بڑہ سکیںگے ۔ اس مقصد کے حصول کےلئے ھرایک پر لازم ہے کہ وہ شادی کے شرائط اور وسائل فراھم کرے تاکہ جوانی کے طرب و نشاط سے لطف اندوز ھو کے کامیابیوں کی آغوش میں مھر و محبت کے پھول سونگہ سکے تاکہ جوانی کی بھاروں میں ابر رحمت ٹوٹ کر برسے اور اس کے دامن کردار کو گناہ کی کثافتیں آلودہ نہ کر سکیں اور اس کی زندگی رنج وغم کی تاریکیوں میں بھٹکنے نہ پائے ۔ آنکھیں آوارگی کی کثافتوں میں ملوث نہ ھونے پائیں ۔ اس کی پاکیزگی مجروح نہ ھو اور نیکیاں برائیوں میں تبدیل نہ ھوں ۔
حوالہ جات :
1۔بحار الانوار ج ۱۰۳ ص ۲۲۱
2۔صحیح مسلم جزء ۴ ص ۱۳۰
3۔بحار ج ۷۰ ص ۱۱۵
4۔وسائل ج ۱۴ ص ۷۴
5۔سورہ روم آیت ۲۱
6۔مستدرک الوسائل ج۲ ص ۵۳۱ حدیث ۲۱
7۔ وسائل الشیعہ ج۱۴ ص ۵
source : alhassanain