اردو
Sunday 24th of November 2024
0
نفر 0

خلفا کے کارستانیاں

جب آپ کے نزدیک ابو بکر صدیق منافق، مرتد، ظالم اور غاصب ہیں تو حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بھا ئی جعفر طیار کی بیوہ اسما ء بنت عمیس کا عقدان کے ساتھ کیو ں ہو نے دیا؟ یہ سوال، سوال کرنے والے کی تاریخ سے ل
خلفا کے کارستانیاں

جب آپ کے نزدیک ابو بکر صدیق منافق، مرتد، ظالم اور غاصب ہیں تو حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بھا ئی جعفر طیار کی بیوہ اسما ء بنت عمیس کا عقدان کے ساتھ کیو ں ہو نے دیا؟
یہ سوال، سوال کرنے والے کی تاریخ سے لا علمی کی دلیل ہے ۔ اس لئے کہ ابوبکر نے اسماء بنت عمیس سے پیغمبر اسلام کے دور حیات میں ہی ان کے شوہر حضرت جعفر طیار کی شہادت کے بعد عقد کرلیاتھا ۔ اس کی تفصیل کتاب صحیح مسلم پر جناب عائشہ سے اس طرح نقل کی گئی ہے:
(عن عائشة قالت نفَسَت اسماء بنت عميس بمحمد بن ابی بکر بالشجرۃ، فاٴمر رسول الله ابابکر یاٴمرها ان تغتسل وَتَهلّ) 1
عائشہ کا کہنا ہے کہ اسما ء بنت عمیس نے جب محمد بن ابو بکر کو مقا م شجرہ پر جنم دیا تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ابو بکر کو حکم دیا کہ اس بچہ کو غسل دو اور اس کے کان میں اذان واقامت کہوہمیں تا ریخ میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اسماء کی شادی ابوبکر سے کرا ئی ہو۔
لیکن اسماء بنت عمیس نے ابوبکر سے عقد کیو ں کیا اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم یا حضرت علی علیہ السلام نے انھیں منع کیوں نہیں کیا ؟
جواب: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے احکام اسلام ظاہری طور پر جا ری کئے ہیں اور لوگوں کے ما فی الضمیرپر لا گو نہیں کئے اور نہ ہی کسی کے عیوب سے پر دہ ہٹا یاہے یہ بات مسلّم ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ:
(ان فی اصحابی منافقين) 2
یعنی آنحضرت نے فرمایا:
میرے اصحاب میں بعض افراد منافق ہیں۔
اور صحیح مسلم میں بھی منقول ہے کہ آپ نے فر مایا:
(لانخرق علی احد ستراً)
میں کسی کے گناہوں پر پڑے ہو ئے پردے نہیں اٹھاتا
مجمع الزوا ئد 3 پر ابن عمر سے روایت نقل ہو ئی ہے کہ:
میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی خد مت میں تھا کہ جب حر ملہ بن زید رسول خد ا کی خد مت میں آیا اور اس نے آپ کے سامنے بیٹھتے ہوئے اپنی زبان کی طرف اشارہ کر تے ہو ئے کہا ایمان یہاں پر ہے اور اپنے سینہ کی طرف اشا رہ کرتے ہوئے کہانفاق یہا ں پرہے کیا اور میری زبان پرذکر خدا بہت کم جاری ہوتا ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم خاموش رہے جب حر ملہ نے آنحضر ت کی طرف سے منھ پھیرلیا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے حر ملہ کی طرف اشا رہ کر تے ہو ئے۔
(اللهم اجعل له لساناًصادقاً و قلباً شاکرا وارزقه حبی وحب من يحبنی وصل امره الی الخير)
یعنی خدایا اس کی زبان میں سچائی، اس کے دل میں شکر گذا ری کی صلا حیت پیدا کر، اس کو میری اور میرے محب کی محبت عطا کر اور اس کو نیکی کی ہدایت عطا فر ما اس وقت حرملہ کہنے لگا: یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم میرے کچھ منافق دو ست ہیں اور میں ان سب کا سر دار ہوں کیا میں آپ کو ان کے با رے میں کچھ بتاوٴں ؟ توپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا:
(من جائنا کما جئتنا استغفرنا له کما استغفرنا لک، و من اصرّ علیٰ ذنبہ فاللّٰه اولیٰ به، و لا نخرق علیٰ احد سترا)
یعنی میرے پاس جو بھی آتا ہے میں اس کےلئے طلب مغفرت کر تا ہوں جیسا کہ تم آئے اور میں نے تمہا رے لئے طلب مغفرت کی اور جو اپنے گنا ہوں پراصرار کر تا ہے خدا بہتر جا نتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا سلو ک کیا جا ئے اور نہ ہی میں کسی کاراز فاش کر تا ہو ں اس روایت کے تمام را وی صحیح ہیں۔
ابو بکر ظاہری طور پرمسلمان تھے۔ لہٰذا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور حضرت علی علیہ السلام نے ان کے ساتھ ویسا سلوک کیا جیسا کہ ایک مسلمان کے ساتھ کیا جا تا ہے اور ان کے حقیقی چہرہ سے نقاب نہیں ہٹائی ۔
لیکن رہا یہ مسئلہ کہ اہل بیت اور صحا بہ کے سلسلہ میں ہما را کیا عقیدہ ہے اس کا واضح جواب یہ ہے کہ ہم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے حکم کی اتباع کر تے ہیں چونکہ آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپ کے بعد قر آن اور اہل بیت علیہم السلام سے متمسک رہیں اور پھر یقین کے نز دیک صحیح شمار کی جا نے والی حدیث، حد یث ثقلین اس کی واضح دلیل ہے ۔ لہٰذاہم نے قرآن اور سنت کو فقط اور فقط اہل بیت سے حاصل کیا ہے اور صحا بہ کے اچھے اوربرے ہونے کو ہم اہل بیت علیہم السلام کی کسو ٹی پر تو لتے ہیں یہ متفق علیہ روا یت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام سے محبت اور بغض پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے دور حیات میں اور آپ کے بعد، ایمان اور نفاق کو پر کھنے کا ترا زو ہے ۔ 4
یہی بات دیگر ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے با رے میں بھی ہے پس اگر ہما رے نز دیک ثابت ہوجائے کہ علی علیہ السلام، جناب فا طمہ زہرا امام حسن و اما م حسین علیہم السلام یا باقی ائمہ معصو مین علیہم السلام میں سے کو ئی امام کسی شخص کے با رے میں اچھا نظریہ نہیں رکھتے تھے ۔ تو ہم ان کی را ئے کو بسرو چشم تسلیم کر تے ہیں اور اس شخص سے یقیناً نفرت کر تے ہیں اگر چہ وہ شخص صحا بی ہی کیوں نہ ہو اس لئے کہ ہم کو اہل بیت علیہم السلام کی اتباع کر نے کاحکم دیاگیاہے صحا بہ کی اتباع کا نہیں ۔
لیکن یہ مشکل تو آپ کے لئے ہے اس لئے کہ آپ نے ہی روایات نقل کی ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام ابو بکر اور عمر کواچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے چنانچہ صحیح مسلم پر تحریر ہے کہ:
(من قول عمر مخاطبا ًعليا ًو العباس: فقال ابوبکر قال رسول الله: ما نورث ما ترکنا صدقة فراٴيتماه کاذبا اٰثماً غادراً خائناً، والله يعلم انه لصادق بارر اشد تابع للحقِ۔ ثم توفیٰ ابوبکر و انا ولی رسول اللّٰه و ولی ابی فراٴيتمانی کاذباً آثماً غادراً خائناً و اللّٰه يعلم انی لصادق بارر اشد تابع للحق فوليتها، ثم جئتنی انت و لهذا و انتما جميع و امرکما واحد فقلتما ادفعها الينا ۔۔۔الخ) 5
عمر نے حضرت علی علیہ السلام اور عباس کو خطاب کر تے ہو ئے کہا: ابو بکر سے مر وی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا :
"ہم تر کہ میں میراث نہیں چھو ڑ تے جو کچھ چھو ڑتے ہیں وہ صدقہ ہو تا ہے"
مگر تم دونوں ان (ابو بکر)کو کاذب، گنہگار غداراور خائن سمجھتے ہو، خدا کی قسم اللہ بہتر جانتا ہے وہ سچے اور حق کے تا بع تھے جب ابو بکر مر گئے تو ان کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور ابو بکر کا ولی ہوں، لیکن تم دونوں کی نظر میں میں کاذب، گنہگار، غدار اور خا ئن ہوں، جبکہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ میں بھی سچا، نیک اور حق کی اتباع کرنے والا ہوں، لہٰذا میں نے خلافت قبول کی ہے، مگر تم دونوں میرے پاس یہ مقصد لے کر آئے ہو کہ میں یہ خلافت تم کو سونپ دوں۔
خودآپ ہی کی کتابوں میں ہے کہ عمر کے بقول حضرت علی علیہ السلام اور عباس نے ابو بکر اور عمر کو چار رکیک حرکتوں سے منسوب کیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اور عباس کی نظر میں شوریٰ اور سقیفہ ابوبکر اور عمر کی بنائی ہوئی سازش تھی تاکہ وہ ان کے ذریعہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت اور جناب فاطمہ علیہا السلام کا فدک غصب کرسکیں ۔


..............

1. مسلم بخاری، الصحیح، جلد ۴ ، صفحہ ۲۷
2. احمدحنبل، المسند، جلد ۴ صفحہ ۸۳ ۔
3. مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ۴۱۰
4. مراجعہ کیجئے کتاب الغدیر موٴلف علامہ امینی جلد۳ صفحہ ۱۸۳ ۔جس میں تر مذی اور احمد سے یہ روایت نقل کی گئی ہے ۔
5. مسلم بخاری، الصحیح، جلد ۵ ، صفحہ


source : alhassanain
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

فاتح شام،حضرت زینب
'' قرآن کریم میں قَسَموں (OATHS)کی أنواع ''
دینِ میں “محبت“ کی اہمیت
امام جعفر صادق کے ہاں ادب کي تعريف
حضرت عباس(ع) کی زندگی کا جائزہ
'' قرآن کریم میں قَسَموں (OATHS)کی أنواع ''
زندگی نامہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
اے انسان ! تجھے حوادث روزگار کي کيا خبر ؟
قراء سبعہ اور ان کی خصوصیات
تبدیلی اور نجات کیلئے لکھا گیا ایک خط

 
user comment