تورات و انجيل اور حتي زرتشت کي کتاب "اَوِسْتا" کے باقيات ميں عورتوں پر حجاب واجب اور نامحرم کي طرف ديکھنا حرام ہے- حتي حجاب بعض سابقہ اديان ميں اسلام کي نسبت، شديدتر تھا، گوکہ وہ آج اس کے پابند نہيں ہيں؟
حاليہ صديوں تک حضرت مريم (س) کي تصوير کشي مکمل حجاب کے ساتھ ہوتي تھي- حتي ان کے چہرے کي تصوير کشي نہيں ہوتي تھي ليکن آج کل ان کے کھلے چہرے کي تصويريں بنائي جاتي ہيں حتي کہ بعض ميں ان کا چہرہ بناۆ سنگھار کے ساتھ بنايا جاتا ہے- حتي کہ سابقہ مغربي فلموں ميں عورتوں کا مناسب پردہ ہوا کرتا تھا- چنانچہ يہوديوں اور عيسائيوں کا آج کل کا لباس حتي ان کے اپنے ماضي اور روايات کے منافي ہے- (1)
يہوديوں کي مقدس کتاب تورات کي تعليمات ميں ضمني طور پر يا براہ راست عورتوں کے حجاب اور لباس پر زور ديا گيا ہے؛ تاکيد ہوئي ہے کہ لمبا لباس، برقع اور چہرہ بند استعمال کيا جائے، عورت اور مرد کے الگ رہنے کا اہتمام کيا جائے؛ عورتوں کو پردے کي پشت سے خطبہ ديا جائے، اور يہ عورت اور مرد کي اعلانيہ گفتگو منع ہے؛ اور يہ سب لباس کے سلسلے ميں يہوديت کي سختگيري کا ثبوت ہے- (2)
"عيسائيت نے عورتوں کے حجاب کے سلسلے ميں نہ صرف يہودي شرعي احکام کو بحال رکھا بلکہ بعض مواقع پر زيادہ تاکيد کے ساتھ عورتوں کے حجاب پر زور ديا"- (3) پھر عيسوي شريعت کي کتاب مقدس ميں عفت کي ضرورت، حياء کے ذريعے عورت کي آراستگي، جواہرات کے ذريعے آرائش و زيبائش اور بال بُننے سے ممانعت، سر کے بال ڈھانپنے اور ہر تحريک آميز چيز سے دوري کرنے پر تاکيد ہوئي ہے- يہ تاکيدات کليسا کي شريعت کے فقہي احکام کو تشکيل ديتي ہيں اور يہودي شريعت کي نسبت عيسوي شريعت کي سختگيري کي علامت ہيں- (4)
پوپوں اور کارڈينلوں نے بھي حجاب کي مکمل رعايت، چہرے کے حجاب کے وجوب، نامحرموں کي نگاہ سے دوري اور ہر قسم کے جواہرات اور سر کے بالوں کي تزئين کي ممانعت پر مبني احکام جاري کئے ہيں- (5)
پس معلوم ہوتا ہے کہ حجاب کي طرف رجحان ايک فطري امر ہے اور اس کي تاريخ بھي بہت پراني ہے-
حوالے:
1- علي محمدي آشنائي، حجاب در اديان الهي؛ ڈاکٹر حداد عادل، فرهنگ برهنگي و برهنگي فرهنگي-
2- محمدي آشنائي، وہي ماخذ، قم: ياقوت، 1378، صص 103 – 115-
3- مريم معين الاسلام، پوشش و آرايش از ديدگاه پيامبر اعظم، قم: مركز پژوهش هاي صدا و سيما، 1386، ص19-
4- انجيل رساله پولس، باب 2، آيه 9 تا 11 : « نيز عورتيں آرائش و سنگھار کريں لباس حيا تقوي سے، نہ کہ زلف اور سونے، موتيوں اور مہنگے درخت سے، بلکہ دينداري کا دعوي کرنے والي عورتوں کو اعمال صالحہ کا سہارا لينا چاہئے-
5- محمدي آشنائي، وہي ماخذ صص 120 – 121 و 139-
source : tebyan