مرحوم علامہ امين فرماتے ھيں كہ صاحب رسالہ (ابن تيميہ) كا يہ قول كہ غير خدا كي قسم كھانا ممنوع ھے، يہ ايك بكواس كے سوا كچھ نھيں ھے كيونكہ اس نے اپني بات كو ثابت كرنے كے لئے صرف ابوحنيفہ، ابو يوسف، ابن عبد السلام اور قدوري كے اقوال كو نقل كئے ھيں، گويا تمام ممالك اور ھر زمانہ كے تمام علماء صرف انھيں چار لوگوں ميں منحصر ھيں، اس نے شافعي، مالك اور احمد ابن حنبل كے اقوال كو كيوں بيان نھيں كيا اور اس نے عالم اسلام كے مشهور ومعروف بے شمار علماء جن كي تعداد خدا ھي جانتا ھے كے فتوے نقل كيوں نھيں كئے-
حق بات تو يہ ھے كہ غير خدا كي قسم كھانا نہ مكروہ ھے اور نہ حرام، بلكہ ايك مستحب كام ھے اور اس بارے ميں بھت سي روايات بھي موجود ھيں، اس كے بعد مرحوم علامہ امين نے صحاح ستہ سے چند روايات نقل كي ھيں-
موصوف اس كے بعد فرماتے ھيں كہ غير خدا كي قسم كھانا، رسول اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم اور اصحاب وتابعين كے زمانہ سے آج تك تمام مسلمانوں ميں رائج ھے، خداوندعالم نے قرآن مجيد ميں اپني مخلوقات ميں سے بھت سي چيزوں كي قسم كھائي ھے، خود پيغمبراكرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم اور اصحاب رسول وتابعين ميں ايسے بھت سے مواقع موجود ھيں جن ميں انھوں نے اپني جان يادوسري چيزوں كي قسم كھائي ھے، اور اس كے بعد مرحوم علامہ امين غ؛نے ان بھت سے واقعات كو باقاعدہ سند كے ساتھ بيان كيا ھے جن ميں مخلوق كي قسم كھائي گئي ھے-
ايك دوسري جگہ پر كھتے ھيں كہ وہ احاديث جو غير خدا كي قسم سے منع كرتي ھيں ياتو ان كو كراھت پر حمل كيا جائے يا وہ احاديث اس بات پر دلالت كرتي ھيں كہ غير خدا كي قسم منعقد نھيں هوتي اور اس ميں نھي، نھي ارشادي ھے، اور اس طرح كي قسميں مكروہ ھيں حرام نھيں، جبكہ وھابيوں كے امام احمد ابن حنبل نےپيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم كي قسم كے جواز پر فتويٰ ديا ھے-
شعراني احمد بن حنبل كے قول كو نقل كرتے هوئے كھتے ھيں كہ اگر كسي نے پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم كي قسم كھائي تو اس كي وہ قسم منعقد ھے بلكہ پيغمبر كے علاوہ بھي دوسروںكي قسم كھانا اس قسم كے منعقد هونے كا سبب بنتا ھے-
source : tebyan