ہجرت کا شمار اُن مسائل ميں ہوتا ہے جو ولايت کے بارے ميں ہمارے پيش کردہ وسيع مفہوم کے ساتھ تعلق رکھتے ہيں - پچھلي تقارير ميں ہم نے عرض کياتھا کہ ولايت کے معني ہيں مومنين کي صف ميں موجود عناصر کے مابين مضبوط اور مستحکم باہمي رابطے کا قيام‘ مومن اور غير مومن صفوں کے درميان ہر قسم کي وابستگي کا خاتمہ‘ اور بعد کے مراحل ميں مومنين کي صف کے تمام افراد کا اُس مرکزي نقطے اور متحرک قوت يعني ولي‘حاکم اور امام سے انتہائي مضبوط اور قوي ارتباط جس کے ذمے اسلامي معاشرے کي تنظيم و تشکيل ہے -
ہم نے اِس بارے ميں بھي گفتگو کي تھي کہ کون اشخاص اسلامي معاشرے کے ولي اور حاکم ہو سکتے ہيں اور اِس کا جواب قرنِ کريم سے حاصل کياتھا ‘جو کہتا ہے کہ :
’’اِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اُ وَ رَسُوْلُہ وَ الَّذِيْنَ ٰامَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ يُْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رَاکِعُوْنَ-‘‘
اور اس آيت کے حوالے سے ہم نے امير المومنين صلوات الله عليہ کے قصّے کي جانب اشارہ کيا تھا -
اگر ہم ولايت کو اس وسعت کے ساتھ سمجھيںاور اسے فروعي اور دوسرے درجے کا مسئلہ قرار دے کر چھوڑ نہ ديں‘ تو ولايت قبول کرنے کے بعد جن چيزوں کا سامنا ہوسکتا ہے اُن ميں سے ايک چيزہجرت بھي ہے-کيونکہ اگر ہم نے خدا کي ولايت کو قبول کيا‘اور اس بات کو مان ليا کہ انسان کي تمام جسماني‘فکر ي اورروحاني قوتوں اور صلاحيتوں کو ولي الٰہي کي مرضي اور منشا کے مطابق استعمال ہونا چاہئے‘
مختصر يہ کہ انسان کو اپنے وجود کے تمام عناصر کے ساتھ بندہ خدا ہونا چاہئے ‘ نہ کہ بندہ طاغوت‘ تو لامحالہ ہميں يہ بات بھي قبول کرني پڑے گي کہ اگر کسي جگہ ہمارا وجود‘ہماري ہستي اور ہماري تمام صلاحيتيں ولايت ِ الٰہي کے تابع فرمان نہ ہوں‘ بلکہ طاغوت اور شيطان کي ولايت کے زيرِ فرمان ہوں‘تو خدا سے ہماري وابستگي اس بات کا تقاضا کرتي ہے کہ ہم اپنے پ کو طاغوت کي قيد و بند سے زاد کرائيں اور ولايت ِ الٰہي کے پُر برکت اور مبارک سائے تلے چلے جائيں-ظالم حاکم کي ولايت سے نکل کر امامِ عادل کي ولايت ميں داخل ہوجانے کا نام ہجرت ہے-
آپ نے ديکھا کہ ہجرت ولايت سے منسلک مسائل ميں سے ايک مسئلہ ہے- يہ وہ چوتھا نکتہ ہے جس پر ولايت کے بارے ميں کي جانے والي اِن تقارير کے سلسلے ميں ہم گفتگو کريں گے-
source : tebyan