اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

گھر کو کیسے جنت بنائیں؟ پہلا حصہ

یہ شوہروں کو غلام بنانے کا شرعی نسخہ ہے ۔ کہتے ہیں کہ نیکی اور بھلائی کرنے والا تو اپنی نیکی بھول جاتاہے لیکن جس سے نیکی کی جاتی ہے وہ نہیں بھولا کرتا حدیث میں کہ "الانسان عبد الاحسان " انسان اپنے اوپر احسان کرنے والے کا غلام بن جاتا ہے ۔ وہ آپ کا قیدی ،غلام اور خادم بن جاتا ہے ۔نیک بیوی کی نیکی بھلائی نہیں جاسکتی ۔ نیک بیوی اپنے آپ
گھر کو کیسے جنت بنائیں؟ پہلا حصہ

یہ شوہروں کو غلام بنانے کا شرعی نسخہ ہے ۔
کہتے ہیں کہ نیکی اور بھلائی کرنے والا تو اپنی نیکی بھول جاتاہے لیکن جس سے نیکی کی جاتی ہے وہ نہیں بھولا کرتا حدیث میں کہ "الانسان عبد الاحسان " انسان اپنے اوپر احسان کرنے والے کا غلام بن جاتا ہے ۔ وہ آپ کا قیدی ،غلام اور خادم بن جاتا ہے ۔نیک بیوی کی نیکی بھلائی نہیں جاسکتی ۔
نیک بیوی اپنے آپ کو نیکی پر یہ سوچ کرابھارسکتی ہے کہ:
"میں جس دن دنیا سے چلی گئی ،میری نیکی شوہر کویاد آئے گی اور شوہر میرے لئے دعا کریں گے ، مجھے اچھائی کے ساتھ یاد کریں گے، میری خدمت ان کو رات کے اندھیروں اور دن کے اجالوں میں میرے لئے دعاؤں پر مجبور کرے گی اور شاید یہی میری مغفرت کا اور خدا کے راضی ہونے کا سبب ہوجائے ۔"
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جتنا رشک مجھے خدیجہ پر ہوا اتنا رسول اللہ (ص) کی کسی بیوی پر نہ ہوا حالانکہ میں نے انہیں دیکھا بھی نہ تھا ۔اتنے
رشک کی وجہ یہ تھی کہ رسول کریم اکثر ان کا ذکر کیاکرتے تھے اور آپ کا دستور یہ تھا کہ جب آپ کوئی بکری ذبح فرماتے تو حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کو ان کا گوشت بطور ہدیہ بھیجا کرتے تھے ۔
ایک دن آپ نے ان کاتذکرہ کیا تو میں نے عرض کیا ان ۔۔۔۔کا تذکرہ آپ (ص)کیوں اتنا زیادہ کرتے ہیں ؟ اللہ نے ان سے بہتر آپ کو دے دیا ہے ۔
تو آپ نے فرمایا :
"اللہ کی قسم ! اس کے بعد اللہ نے مجھے دیا ہے وہ اس سے بہتر نہیں ہے وہ اس وقت ایمان لائیں جب لوگ ابھی کافر تھے ، انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب اورروں نے مجھے جھٹلادیا ، اس وقت اپنا مال مجھ پر نچھاور کیاجب لوگوں نے مجھے محروم کررکھا تھا ۔ اللہ نےمجھے ان سے اولاد دی کسی اور سے نہیں دی ۔"
(ھر کہ خدمت کرد او مخدوم شد)
جس نے خدمت کی وہ سردار بنا ۔
(فکونی لہ امتہ یکن لک عبدا)
تو اس کی کنیز بن جا تو وہ تیرا تابعدار غلام بن کررہے گا ۔
پس اگر بیوی یہ چاہتی ہے کہ میرا شوہر میرے کہنے میں رہے میرا غلام بن جائے تو یادرکھے کہ اس کو شوہر پر احسان کرنا ہوگا ۔اس کی خطاؤں کو درگزر
کرنا ہوگا غلام بنانا غلام بننے سے ہوتا ہے پہلے عملا باندی بن جائے وہ خود بخود غلام بن جائے گا ۔محبت ،محبت کوکھینچتی ہے ،اطاعت ،اطاعت کو کھینچتی ہے ۔ سرکشی ،بدزبانی ،بدکلامی ،نفرت اور جھگڑوں کو کھینچ کرلاتی ہے ۔

نسخہ نمبر 2

--{جی ہاں ۔۔۔۔۔یہ لفظ بولنا سیکھ لیں ۔}--

یہ جھگڑوں سے نجات پانے کا زرّین نسخہ ہے ۔
شوہر کہے کہ آج فلان جگہ چلنا ہے ۔۔۔۔۔ کہے جی ہاں انشااللہ ضرورچلیں گے ۔ اگر شوہر کا کسی تقریب میں جانے کا دل نہیں چاہ رہا ۔۔۔۔ تو کہے جی ہاں بالکل نہیں جاؤں گی ،جیسا آپ کہیں گے ویسا ہی ہوگا ۔آپ میرے شوہر ہیں آپ کی بات مقدم ہے ، آپ بالکل غم نہ کریں آپ جیسا کہیں گے ویسا ہوی ہوگا ۔۔۔۔۔اب اگر جانے کو زیادہ ہی دل چاہ رہا ہے تو اس دوران دورکعت نماز پڑھ کر خدا سے دعا کرے ۔
"اے اللہ ! سارے انسانوں کے دل آپ کی دوانگلیوں میں ہیں آپ جیسا چاہیں پھیردیں ۔جب آپ کوئی فیصلہ کردیں تو کوئی اس کو روک نہیں سکتا اگر اس جانے میں خیر نہیں تو
میرےدل سے اس حاجت ہی کو نکال دیں ورنہ میرے شوہر کو راضی کردیں "۔
اور پھر جب شوہر کا غصّہ ٹھنڈا ہوجائے تو اس وقت نرمی سے کہے
"مناسب ہوتا اگر آپ مجھے اس شادی میں جانے کی اجازت دے دیں ، آج ان کے گھر میں خوشی کا موقع ہے میں نہ جاؤں گی تو ان کی خوشی مکمل نہ ہوگی اگر آپ اجازت دے دیں تو مہربانی ہوگی ۔"
اگر وہ پھر بھی نہ مانے تو صبر کرلیں ۔۔۔لیکن چند امور میں ہی ان کی مان لینے سے شوہر کو آپ ایسا اعتماد پیدا ہوجائے گا پھر انشاءاللہ وہ آپ کی باتوں کو کبھی رد نہیں کرے گا ۔

نسخہ نمبر 3

--{معاف کردیجئے ،آیندہ ایسا نہیں ہوگا}--

یہ ایسا جملہ ہے جو سنگ دل سے سنگدل شخصی کو بھی موم بنادیتا ہے ، سخت سے سخت غلطی کو بھی چھوٹا بنادیتا ہے ، بڑی سےبڑی آگ کے لئے پانی کا کام دیتا ہے ظالم کو رحم پر مجبور کردیتا ہے ،دشمن کودوست بنادیتا ہے ۔
یہ نسخہ کسی انسان کا ، بشر کا قول نہیں بلکہ انسانوں کے پیداکرنے
والے رب العزت جن کے ہاتھ میں سارے انسانوں کے دل ہیں ان کا ارشاد ہے ۔
"ولا تستوی الحسنۃ ولا السیئۃ ادفع بالتی ھی احسن فاذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم "(سورہ سجدہ پارہ 42)
ترجمہ :
"نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی ۔آپ نیک برتاؤ سے بدی کو ٹال دیں (پھر یکا یک آپ دیکھیں گے )کہ آپ یمں اور اس شخص میں جو عداوت تھی وہ ایسا ہوجائے گا جیسے کوئی دلی دوست ہوتا ہے "۔
بیوی کو چاہیئے کہ منہ زوری نہ کرے ،بحث ومباحثہ نہ کرے ،ادھر ادھر کی باتین نہ بنائے سو باتوں کی ایک بات ۔۔۔۔معافی چاہتی ہوں ،آئندہ ایسا نہ ہوگا ۔
یہ لفظ ایسا ہے کہ حجاج بن یوسف جیسے ظالم شخص کو بھی نرمی پرمجبور کردیتا ہے ۔
ایک مرتبہ حجاج نے سفر کے دوران ایک دیہاتی سے امتحان کے لئے پوچھا کہ تمہارا بادشاہ حجاج کیسا ہے ؟
وہ کہنے لگا بڑا ظالم ہے ،اللہ اس سے بچائے وغیرہ وغیرہ ۔
تو حجاج نے کہا تم جانتے ہو کہ میں کون ہوں ؟
اس نے کہا نہیں ۔ تو بادشاہ نے کہا میں حجاج بن یوسف ہوں ۔
دیہاتی نے کہا تم مجھے جانتے ہو میں کون ہوں ۔ حجّاج نے کہا ،نہیں ۔تو اس نے کہا میں مریض ہوں ۔ہر ماہ میں تین دن کے لئے پاگل ہوجاتا ہوں اورآج میرے پاگل بننے کا پہلا دن ہے معاف کرنا ۔
حجّاج یہ سن کر ہنسنے لگا اور اس کو چھوڑدیا ۔
اب میں آپ اندازہ لگائیں کہ اگر ہر چھوٹا اپنے بڑے کے سامنے غلطی کے وقت یہ کہے کہ غلطی ہوگئی آئندہ انشااللہ ایسا نہیں ہوگا ۔
----- معاف کردیجیئے اب خیال رکھوں کی ۔
-----آئندہ آپ کو شکایت نہیں ہوگی ۔
چنانچہ ہم سب ہی خطا کار ہیں اور ہر عدالت میں اقرار ی ملزم معافی کا طالب ہوتاہے تو اس کے لئے نرمی ہے بمقابلہ انکاری مجرم کے ۔
ایسی ناچاقی اور جھگڑے کے لمحات میں خوف خدا رکھنے والی گھروں میں جھگڑوں کی آگ کو بھجانے والی سمجھدر بیوی کا جواب سنئے ۔
----- غلطی ہوگئی ، آئندہ ایسا نہ ہوگا ۔
یہ ایسا جواب ہے کہ شیطان کے لئے گھر میں جھگڑے پیدا کروانے کا کوئی ہتھیار باقی نہیں رہے گا ۔

نسخہ نمبر 4

--{مکمل خاموشی}--

جھگڑ ے کے وقت اس کو ختم کرنے کا اکسیری نسخہ ہے ۔
حکایت ہے کہ ایک عورت ایک عالم کے پاس گئی اور کہا کہ مجھے کوئی ایسا تعویذ دے دیجئے کہ میرا شوہر مجھ سے جھگڑا نہ کرے ،میری بات مانے تو عالم نے فرمایا کہ تم تھوڑا ساپانی لے آؤ میں اس میں دعا پڑھ دوں گا ۔چنانچہ پڑھ دیا اور فرمایا کہ جب تمہارا شوہر غصہ میں ہو تو اس میں سے ایک گھونٹ منہ میں لے کر بیٹھ جاؤ مگر خبردار پانی کو حلق سے نیچے نہ اتارنا ۔
چنانچہ اس نے ایسا ہی کرنا شروع کردیا ،جب بھی خاوند غصّہ میں ہوتا تو منہ میں گھونٹ لے کر بیٹھ جاتی ،بو ل تو سکتی نہیں تھی ،منہ کو تالا لگ گیا تھوڑے ہی دنوں میں شوہر راضی ہوگیا اور اس کا غصّہ آہستہ آہستہ ختم ہوگیا ۔اگر جھگڑے میں ایک فریق تکرار نہ کرے اور جواب ہی نہ دے تو جھگڑا بڑھ نہیں سکتا ۔
اور اس کے بعد مردکے لئے تو نرم پڑنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں ۔اس کے معذرت کرنے کے بعد اس کے پاس کوئی دلیل ہتیھار ہی مواخذہ کا نہیں رہتا ۔
ایک دفعہ ایک عورت ایک بزرگ کے پاس گئی اور شوہر سے روز کے جھگڑے کی شکایت کرنے لگی کہ ہم دونوں لڑتے ہی رہتے ہیں ،بات بات پر شوہر غصّہ کرنے لگتا ہے اور پھرمجھے بھی غصّہ آجاتا ہے ۔ اس پر اس مرد بزرگ نے کہا اس کا علاج نہایت آسان ہے پس شرط یہ ہے کہ تم شیر کی گدّی سے تین بال لے آؤ۔
اب عورت ہمت کرکے چڑیا گھر گئی اور شیر کے لئے کچھ گوشت لے گئی پنجرے میں پھینکا ، شیر نے کھالیا اب تھوڑا سا ڈر ختم ہوا تو روزانہ شیر کے لئے گوشت لے جاتی ۔پہلے دور سے پھینکتی پھر نزدیک سے یہاں تک کہ جب وہ کھاتا تو پنجرے میں ہاتھ ڈال اس کی گدی پر پیار کرنے کی کوشش کرتی ۔ جب شیر کافی مانوس ہوگیا تو گدی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے تین بال زور سے کھینچ لئے اور مرد بزرگ کے پاس لے آئی اس پر انہوں نے کہا افسو س تم شیر کو تو مانوس کرسکتی ہو اور اس کے تین بال لاسکتی ہو لیکن اپنے شوہر کو مانوس نہیں کرسکیں ۔
تو اس طرح مزاج کی رعایت کرکے شوہر کو مانوس کرلیں ۔(البتہ بال توڑ کرنہیں )۔
بس یہ ہی آپ کی ساری پریشانیوں کاعلاج اور تمام گھریلو بیماریوں کی دوا ہے آپ کا شوہر شیر سے زیادہ درندہ اور آدم خور نہیں ہے بس ہمت کریں اورآئندہ خیال رکھیں ۔

نسخہ نمبر 5

--{یہ مجرب نسخہ وہ کہاوت ہے 'جو تم مسکراؤ تو سب مسکرائیں}--

شوہر کے آتے ہی اپنے اور بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ کا پاؤ ڈر لگالیجئیے اور خود شوہر اور بچوں کو بھی چاہئیے کہ وہ گھر میں داخل ہوں تو مسکرا تے ہوئے آئیں اور ایک دوسر ے کو سلام کریں ۔ یہ میاں بیوں میں محبت ، مودت اور اتحاد واتفاق کا مجّرب نسخہ ہے ۔

نسخہ نمبر 6

--{ ہر وقت شکر کرنے کی عادت ڈال لیں ہر حال میں }--

الحمد للہ علی کلّ حال۔۔۔۔۔۔۔ہر وقت الہی تیرا شکر ہے ۔
اتنا شکر کرنے سے آپ کی زبان اور دل شکر (چینی ) کی طرح میٹھی ہو جائیں گی اور آپ کا شوہر سے بھی جھگڑا نہ ہوگا ۔
شوہر گھر میں کیسی بھی چیزیں لائیں اس کا دل رکھنے کیلئے بہ تکلّف ہی
کلمات شکر ادا کیجئے ہر چیز کو شکر کے چشمے لگا کر دیکھیں تو ان برائیاں چھپ جائیں گی ، اچھائیاں آپ کے سامنے آئیں گی ۔
حضور اکرم (ص) ن ےایک دفعہ عورتوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ میں نے دوزخ میں سب سے زیادہ عورتوں کو دیکھا ہے ، وجہ پوچھی گئی تو فرمایا "تکفرون العشیر" یعنی شوہروں کی ناشکری کی وجہ سے ۔
اگر آپ اس دنیا کو مسافر خانہ سمجھ لیں ، امتحان گاہ سمجھ لیں ۔ یہاں رات دن چیزیں جمع کرنے میں لگے رہنا ہروقت مٹی گارے کے مکان کی سجاوٹ ہی میں مصروف رہنا انتہائی حماقت ہے جب ملک الموت آئے گا تو پھر ایسی عورتیں افسوس کریں گی ۔۔۔۔۔۔کہ مجھے کچھ مہلت دے دو اب میں نیکی کروں گی ، اب گھر کا سامان کم کروں گی۔ فضول خرچی نہیں کروں گی ، آئندہ میں گناہ نہیں کروں گی ، بے پردہ باہر جا کر اللہ تعالی کو ناراض نہیں کروں گی ۔
لیکن اس وقت افسوس اور پچھتاوے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا ۔
لہذا خدارا اپنے اور اپنے شوہر کے قمتی پیسوں کو فقط اور فقط آسائشوں ہی کے حصول میں ضائع نہ کریں بلکہ ان کو جمع کرکے خدا کے اس دین کو ساری دنیا میں پھیلانے کی کیلئے خرچ کریں ۔
پیسے جمع کرکے شوہروں کودیں کہ جائیے اس پیسے کو علم دین کی ترویج میں خرچ کیجئے ،فلاں ،غریب ، مسکین کی مدد کیجئے ۔غریب رشتہ دار لڑکیوں کی شادی میں خرچ کروائے ۔
ان تمام کاموں میں خرچ کرنے کی برکت سے گھر میں انشااللہ جھگڑے مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے ۔شکر کا یہی مفہوم ہے کہ خدا کی نعمتوں کو اس کی راہ میں خرچ کرنا ۔
شوہر جب کوئی چیز لائے اس کا شکریہ اداکرے "جزاک اللہ خیرا" (خدا آپ کو جزائے خیردے ) یہ کہنے کی عادت ڈالیں ۔
اور چھوٹے بچوں کو بھی اس کا عادی بنائیں ، اگر بچوں کوآپ پانی کا گلاس دیں ، کوئی کھانے کی چیزیں دیں تو یہ کہلوائیے جزاک اللہ خیرا ۔اگر بچے سے کوئی کام لیا اور وہ کام کرلے تو کہئے جزاک اللہ خیرا ۔

نسخہ نمبر 7

--{زبان شیرین تو ملک گیری}--

شریں زبانی ایک ایسا جاذب وصف او راتنی دلکش خوبی ہے کہ خراب سے خراب عادت کے شوہر بھی اس کے تابع ہوجاتے ہیں ۔ میٹھی زبان ایک ایسا جادو ہے جو ہمیشہ اپنے سامنے والے پر اثرانداز ہوتا ہے ۔شیریں زبان عورتوں کے عیب لوگ بھول جاتے ہیں ۔ ایک عورت میں دنیا بھر کی خوبیاں ہوں لیکن اگر وہ بد زبان ہو تو اس کی ساری خوبیوں پر پانی پھر جاتا ہے ۔

نسخہ نمبر 8

--{اپنے غصّہ پر قابو پائے}--

زیادہ تر جھگڑوں کی بنیاد غصّہ اور غضب ہے ۔
اگرچند طریقوں پر عمل کرکے غصّہ پرقابو پالیا جائے تو زندگی گویا جنت کا نمونہ ہی بن جائے ۔
اگر آپ کو کبھی شوہر کی کسی بات پر زیادہ غصّہ آجائے تو سوچئے کہ اللہ کے بھی آپ پر حقوق ہیں اور آپ سے بھی اس کے حقوق ادا کرنے میں غلطی اور کمی ہوتی رہتی ہے جب وہ آپ کو معاف کرتا رہتا ہے تو آپ کو بھی چاہئے کہ شوہر کومعاف کرتی رہیں ، اس کی غلطیوں سے اس طرح درگذر کرتی رہیں جس طرح پروردگار عالم آپ کی غلطیوں کو درگذر کرتا ہے ۔

نسخہ نمبر 9

--{شوہر جب غصّہ میں ہو تو جواب نہ دیں }--

مرد کی واقعی غلطی اور بے جا غصّہ کے وقت بھی زبان دارزی نہ کریں اور

اس وقت خاموش ہوجائیں جب اس کا غصّہ اتر جائے تو اس وقت کہںی کہ اس وقت تو میں بولی نہیں تھی اب بتلاتی ہوں کہ آپ کی فلاں بات غلط تھی ، بے جا تھی ،زیادتی تھی ۔ آپ نے آتے ہی ڈانٹنا شروع کردیا آپ مجھ سے پوچھ تو لیتے تو اچھا رہتا ۔
اس طرح کرنے سے بات کبھی نہ بڑھے گی اور مرد کے دل میں آپ کی سمجھداری ،ہوشیاری اور نیکی کانہ مٹنے والا سکّہ بیٹھ جائے گا اور اس کی نگاہ میں آپ کی زیادہ قدر اور عزت ہوگی ۔
جب شوہر غصہ میں ہو یا آپ غصہ میں ہوں تو "اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم" پڑھیں ۔اور اگر ہوسکے تو فورا پانی پی لیں ۔
شوہر اور بچوں کو گھر میں داخل ہوتے وقت "اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ،بسم اللہ الرحمن الرحیم " سورہ اخلاص اور درود پڑھنے کی تلقین کریں ۔
تو پھر شیاطین کا داخلہ ان گھروں میں بند ہوجاتا ہے کیونکہ وہ اندر داخل ہی نہیں ہو پاتے ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ گھر دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ لڑائی جھگڑوں سے بھی محفوظ رہتا ہے ۔
غصّہ کا ایک اہم علاج ۔وضو بھی ہے ۔اگر انسان غصّہ کی حالت میں کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور بیٹھا ہو تو لیٹ جائے ، پانی لے یا وضو کرلے تو غصہ فورا ہی ختم یا اتنہائی کم ہوجاتا ہے ۔

نسخہ نمبر 10

--{رازنہ کھولیں}--

بیوی شوہر کے سامنے اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کے راز نہ کھولے ۔کیونکہ ہونٹوں سے نکلی کوٹھوں چڑھی ۔بس ایک دفعہ بات منہ سے نکلنے کی دیر ہے دیکھئے کہ پھر کہاں سے کہاں پہنچتی ہے ۔آپ اپنے گھر کی باتیں اور راز کھول کر اس حربے کو سکھارہی ہیں جس سے ہوسکتا کہ کبھی وہ آپ کی تذلیل کردے یادرکھیے جو راز آپ کے بتیس دنتوں کے حصار میں چھپ نہیں سکا اب شوہر کے پاس پہنچ کر کیسے محفوظ رہے گا ؟ وہ ہوسکتا ہے کہ اپنی بہنوں اور ماں کو بتلائے اور پھر شوہر کی ماں اپنی بیٹی کی ساس کو بتائے ۔یاد رکھئے راز دولوگوں میں اس وقت راز رہ سکتا ہے جب کہ دوسرا فریق مرچکا ہو ۔ لہذا کسی کی ذات کے متعلق شوہر سے باتیں نہ کریں ۔آپ کسی مرد کے اس قول کو غلط ثابت کردیں کہ 'عورت اپنی عمر کے علاوہ کسی بھی چیز کو راز نہیں رکھ سکتی '۔
اس طرح راز کی باتیں راز میں رکھنے سے آپ آنے والے کئی جھگڑوں کے مواقع کی راہ پہلے ہی بند کردیں گی ۔

نسخہ نمبر 11

--{ہر حال میں شوہر کا ساتھ دیں}--

نیک بیوی کو چاہئیے کہ خوشی کے حالات ہوں یاپریشانی کے حالات گھر میں امیری ہو غریبی ۔ہر حال میں شوہر کا ساتھ دے ۔ ایسا نہ ہو کہ "میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو " جب پیسہ تھا تو خوب محبت اور عزت جب پیسہ نہ رہا تو طعنہ زنی شروع ۔اگر شوہر پریشان ہو ملازمت چھوٹ گئی ،کاروبار ٹھپ ہو گیا ، لوگ پیسہ کھا گئے تو پرانے حالات کے مطابق وہی فرمائشیں اور آسائشیں ورنہ جھگڑے ۔گویا بیوی" زوجۃ المال " تھی مال کی بیوی تھی ، اسی سے نکاح ہوا تھا اس شوہر سے نکاح نہیں ہوا تھا ۔
ایسے مواقع پر اس کے غم کا پسینہ پونچھنے تسلی دے کہ آپ فکر نہ کریں جس پر وردگار نے واپس لیا ہے وہ دوبارہ بھی دے سکتا ہے ۔ اس کے واپس لینے میں بھی خیر ہوگی ۔ آپ نمازوں کی پابندی کریں حضور پر بھی جب کوئی وقت آتا تو نمازوں کی طرف مائل ہوجاتے تھے ۔ آپ چلتے پھرتے یا غنی یا مغنی پڑھتے رہیں ۔ انشااللہ ہم قناعت کی زندگی بسر کر لیں گے جلدی ہی آپ کا کام صحیح ہوجائے گا ۔
آپ بتائیے جب شوہر یہ باتیں سنے گا تو کتنی ہمت اس میں پیدا ہوگی ، ان پریشانیوں میں اس کو ایک نئی راہ دکھائی دے گی اس کا غم ، خوشی میں بدل جائے گا ۔ورنہ اس کے برخلاف معاشی خرابیاں آجانے سے گھروں میں لڑائی جھگڑے کتنے زیادہ ہونے لگتے ہیں ۔

نسخہ نمبر 12

--{نامحرموں سے اجتناب }--

ہر مومنہ کو چاہئیے کہ نامحرم مرد چا ہے کوئی بھی ہو اس سے مذاق کرنے ،کھلم کھلا بغیر پردہ باتیں کرنا ،ان کو گھروں میں بٹھانا ،خصوصا جس وقت شوہر گھر پر نہ ہو ،نامحرم پڑوسیوں کو اپنے گھر وں میں آنے دینا ،پڑوسن کے شوہر یا ان کے جوان بیٹوں سے بے تکلّفی یا بغیر پردہ کے باتیں کرنا ، شوہر کے دوستوں سے بلا ضرورت ملاقات کرنا ، ان امور سے ایسے بچیں جیسے شیر یا سانپ سے بچا جا تا ہے ۔
محترم خواتین!۔۔۔ جو ایک بندی نہیں بنتی اس کو ہزاروں کی باندی اور نوکرانی بننا پڑتا ہے ،جو عورتیں بالکل بے پردہ یا غیر شرعی طرز سے گھر سے باہر نکلتی ہیں اور خدا کے حکم کو نہیں مانتیں آپ یہ نہ سمجھیں کہ وہ آزاد ہیں ۔
یاد رکھیئے ! جو ایک خدا کی غلامی میں نہیں آتا اس کو ہزاروں کی غلامی اختیار کرنا پڑتی ہے جو ایک کی غلامی اختیار کرلے اس کو ہزاروں کی غلامی سے نجات مل جاتی ہے ۔
آپ کسی بے پردہ خاتون سے پوچھئے کہ آپ پردہ کیوں نہیں کرتیں؟
کیا چیز مانع ہے ۔؟
وہ کہے گی معاشرے کی وجہ سے ، رشتہ داروں کی وجہ سے ،خاندان میں رواج نہ ہونے کی وجہ سے معلوم ہوا کہ وہ خدا کی غلامی چھوڑ کر معاشرے کی غلام ہے ۔
نہیں جھکتا ہے جو سر اللہ کے احکام کے آگے
اسے جھکنا پڑے گا ناتواں اصنام کے آگے
بہر حال دنیا کی زندگی میں کوئی بھی بے قید نہیں ۔ کوئی اللہ کی قید میں ہے کوئی شیطان کی قید میں ہے ، کوئی نفس کی قید میں تو کوئی معاشرے کی قید میں ہے اور قید سے کوئی خالی نہیں ۔ یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے ، کہ آپ کو کون سی قید مطلوب ہے ؟۔

نسخہ نمبر 13

--{جب تک ناراض شوہر کو راضی نہ کرلیں آرام سے نہ بیٹھیں}--

جب تک ناراض شوہر کو راضی نہ کرلیں آرام سے نہ بیٹھیں کیونکہ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں کہ :
"کیا میں تمھاری ان بہترین عورتوں کی نشاندہی نہ کروں جن کا بہشت انتظار کررہی ہے ۔ان میں سے ایک عورت وہ ہے کہ جب کبھی اس سے شوہر کو کوئی تکلیف پہنچے یا وہ اس سے ناراض ہو تو وہ اس سے معافی طلب کرنے کے لئے اس کے پاس آئے اس کا ہاتھ تھامے اور کہے ۔خدا کی قسم! جب تک آپ مجھ سے راضی یا خوش نہ ہوں گے ۔میری آنکھیں نیند سے دور رہیں گی "۔
اگر میاں بیوی میں کسی بات پر ناراضگی ،غمی اور ناچاقی یا گرما گرمی ہو جائے تونیک بیوی کو چاہیئے ،کہ معافی مانگنے میں پہل کرلے ۔اس کے نیک ہونے کی شان کا تقاضا یہ ہے کہ جب تک وہ ناراض شوہر کو راضی نہ کر
لے تب تک چین سے نہ بیٹھے۔
----- کیونکہ دو دلوں میں ان بن ،خدا کی رحمت کو دور کردیتی ہے ۔
----- مصیبتوں اور بلاؤں کو لاتی ہے ۔
ایسی ایسی طرف سے پر یشانیاں آتی ہیں کہ اس کا وہم وگمان بھی نیں ہوتا اس لئے کسی مومن کو بھی اور یقینا شوہر اور بیوی کو بھی کبھی دل میں میل نہیں رکھنا چاہئیے اور اس کے لئے قرآن میں یہ دعا تعلیم کی گئی ہے ۔
"ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین آمنوا ربّنا انک رؤف الرحیم "( پارہ 28 سورہ حشر ۔جزو آیت نمبر 10)
"ترجمہ : ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ ہونے دیجئے اے ہمارے رب آپ بڑے شفیق ورحیم ہیں "۔
اس لئے کہ ان دو میں رنجشیں ،صرف دو میں نہیں بلکہ سو میں رنجشیں ہونے کا سبب بن سکتی ہے ۔ ان دو کی لڑائی سو کی لڑائی بن سکتی ہے ۔دونوں خاندانوں میں لڑائی ٹھن سکتی ہے ،پورے خاندان کا شیرازہ بکھر سکتا ہے ،نئی نسل (اولاد ) تباہی کے کنارے پہنچ سکتی ہے ۔

نسخہ نمبر 14

--{شوہر اور اولاد کو بھی دیندار بنادیں}--

---- اوقات مقررہ میں انہیں نماز وروزہ یاد دلاتی رہیں ۔
----- ذکر وتلاوت قرآنی کی روز انہ ترغیب دیتی رہیں ۔
اگر شوہر نے قرآن صحیح طرح نہیں پڑھا تو اس کو صحیح پڑھنے کی ترغیب بمعہ ترجمہ دیتی رہیں ۔بہت ہی حکیمانہ اور پیارے انداز سے آہستہ آہستہ ترتیب کے ساتھ وقت اور موقع کو دیکھتے ہوئے دین سے نزدیک لانے کے لئے کام کرتی رہیں یہ آپ کا شوہر اور اپنے بچوں پر بہت بڑا احسان ہوگا ۔
زیادہ تر بیویاں دینی حقوق سے ایک کوتاہی یہ کرتی ہیں کہ مرد کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوششیں نہیں کرتیں ،یعنی اس کی کچھ پرواہ نہیں کرتیں کہ مرد ہمارے لئے کمائی کرنے میں حرام میں مبتلا ہے اور کمانے میں رشوت،جھوٹ ، قرض کی عدم ادائیگی اور وعدہ خلافی وغیرہ سے بھی احتراز نہیں کرتا اگر ایسا ہے تو آپ اسے سمجھائیں کہ تم حرام ومشکوک آمدنی مت لایا کرو ہم حلال کی چٹنی روٹی ہی پرگزارا کرلیں گے ۔اسی طرح اگر مرد نماز نہ پڑھتا ہو ،روزہ نہ رکھتا ہو تو اس کو بالکل نصیحت نہیں کرتیں حالانکہ اپنی غرض اور اپنےفائدہ کے
لئے آپ ان سے سب کچھ کروالیتی ہیں ۔
صبح سے رات مردوں کا مستقل کمانے کے لئے نکلے رہنا بھی مناسب نہںت بلکہ شوہر اور اولاد کو سمجھائیں کہ ہم صرف کمانے کے لئے دنیا میں نہیں آئے ،کچھ وقت دین خدا کو بھی دو ،اس کے لئے بھی کچھ وقت نکا لو ،مسجدوں میں جاؤ ،علما کے دروس میں شرکت کرو ،تبلیغات کے سلسلے میں کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں سے بھی تعاون کرو ۔
اور خود آپ بھی نمازوں اور تلاوت اور تسبیحات کے لئے وقت نکالیں اور یہ نہ سمجھیں کہ آپ کا کام ف‍قط کھانا پکانا ، اور گھر کی صفائی ہے ۔
انشا اللہ آپ کی اس طرح کی فکر ،دعاؤں اور اقدامات سے آپ خود آپ کا شوہر اور آپ کی اولاد نیک ہوجائے گی اور جہاں نیکیاں ہوں وہاں لڑائیاں جھگڑے اور فساد کی جگہ ہی کہاں ہوگی ؟
کیونکہ اگر آپ نیکو کارنہ بنیں اولاد و شوہر کا دین کے سلسلے میں خیال نہ کیا ، بقدر ضرورت علم دین حاصل نہ کیا تویاد رکھئیے ۔
----- ایسی جاہل ماؤں کی گود میں ایسے پھول نہیں کھلاتے ۔
----- فضول خرچ ٹہنیوں پر ایسے قیمتی پرندے نہیں بیٹھا کرتے ۔
----- ایسے نافرمان اور خود غرض گلدستوں پر امام خمینی جیسے گلاب نہیں کھلا کرتے ۔
----- دوسروں کے حقوق سے لا پرواہی کرنے والیوں کے ہاتھوں میں آقائے باقر الصدر جیسے نہیں سویا کرتے ۔
----- خدا کی نعمتوں کے ناقد رداں ٹیلوں اور چوٹیوں پر آمنہ بنت الھدی جیسی ہستیوں کا رنگ نہیں بھرا جاسکتا ۔
----- ایسی اداس شاہراہوں اور بنجر علاقوں میں شہید اول اور شہید ثانی جیسی شخصیات نہیں آیا کرتیں ۔
----- نمازوں کو چھوڑنے اور بے پردہ پھرنے والیوں اور اپنے جسم کے اعضاء کی نمائش کرنے والیوں کے سینے سے حافظ محمد طباطبائی اور صادق وزیری جیسے دودھ نہیں پیا کرتے ۔
----- جو عالم کے انسانوں کو لچکنے اور بل کھانے کے انداز سکھاتیں ان کی آغوش ایسی ذات گرامی کے وطن نہیں بنا کرتے جن کا ذرّہ ذرّہ عظمت اور تقدس کا حامل ہوتاہے ۔جن کے ہاتھوں زمانہ نئی انگڑائی لیتا ہے ۔
چھینی ہوائے غرب نے فیشن کے نام پر
سیدانیوں کے سر سےردا یا علی مدد
----- جو شیعیت کی زندگی کے ہر شعبہ میں دوبارہ دین کی تازگی وشادابی کی بہار لانے کا سبب بنتے ہیں ، عالم ا سلام کی پیشانی پر تبسم کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔
----- عالم اسلام کی عورتیں اپنے نونہالوں کے نام ان کے نام پر رکھنے سے فخر محسوس کرتی ہیں ۔حوّا کی بیٹیاں بارگاہ الہی میں دعا کرتی ہیں الہی مجھے لخت جگر اور نور نظر ملے تو اس کا نام مرتضی (مطہری ) رکھوں گی صادق(وزیری)
رکھوں گی ،زینب وکلثوم رکھوں گی ۔
محترمہ مومنہ! حوّا کی بیٹی ، ہر نئے نونہاں کی آغوش ۔آپ کی شاخ ۔آپ کی شاخ پر بھی ہم کسی ایسے ہی پھول کے منتظر ہیں ۔ آپ کی ہستی پر ہم کسی ایسی ہی چہچہاتی ہوئی مینا کے منتظر ہیں ۔ جس باغ کو رسول وآئمہ اور ان کی اولادوں نے اپنے خون سے سیراب کیا تھا آج اس باغ کے پھول مرجھانے کو ہیں ، اس کی گھاس کو کوئی خون تو کیا اپنے پسینے سے بھی سیراب کرنے والا نہیں ۔ ہے آپ میں سے کوئی جو اس باغ کو سیراب کرے


source : alhassanain
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کچھ انوکھا سا گفٹ
صحیح بخاری پر ایک اجمالی نظر
اجنبی سیٹلائت چینلز سے متعلق آیت اللہ سیستانی کا ...
تقلید
مبطلاتِ روزہ
اسلام کانظام حج
علم عرفان میں عام حجاب اور خاص حجاب سے کیا مراد ...
کیوں شیعہ ظہرین ومغربین ملا کر پڑھتےہیں ؟
فقہی یکسانیت، اتحاد بین المسلمین کی بنیادی حکمت ...
گھر کو کیسے جنت بنائیں؟ دوسرا حصہ

 
user comment