اردو
Sunday 22nd of December 2024
0
نفر 0

الہی اور قرآنی نظام کا طلوع سحر

انقلاب اسلامی کی کامیابی کی سینتیسویں سالگرہ کے موقع پر پاکستان کی نامور انقلابی شخصیت حجۃ الاسلام و المسلمین سید جواد نقوی نے نماز جمعہ کے خطبوں میں درج ذیل اہم موضوعات پر روشنی ڈالی: طلوع سحرِ نظامِ الٰہی و
الہی اور قرآنی نظام کا طلوع سحر

۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کی سینتیسویں سالگرہ کے موقع پر پاکستان کی نامور انقلابی شخصیت حجۃ الاسلام و المسلمین سید جواد نقوی نے نماز جمعہ کے خطبوں میں درج ذیل اہم موضوعات پر روشنی ڈالی:

طلوع سحرِ نظامِ الٰہی و قرآنی:

اُفقِ انسانیت پر طلوعِ نظامِ ولایت و طلوعِ نظامِ الٰہی وانقلاب اسلامی تمام اُمت ِ اسلامیہ وبالخصوص راہروانِ راہِ ولایت و امامت کو تبریک وتہنیت عرض ہے۔

یہ شب بہت عظیم شب ہے، شبِ انقلاب جودس فروری کی تاریخی رات ہے ، جوآج سے سینتیس سال پہلے سرزمین ایران پر رونما ہوئی، جس کی سحر اپنے ہمراہ صرف سورج کو آسمان پر نہیں لائی بلکہ صدیوں سے غروب شدہ الٰہی و قرآنی نظام، رسول اللہ  ۖ وتمام انبیاء ٪ کا نظام، آئمہ طاہرین کا نظام یہ سحر اپنے ہمراہ لائی تھی۔ وہ سحربہت یادگار ہے جو ہزاروں شہیدوں کے خون سے طلوع ہوئی تھی ۔علامہ اقبال کے بقول کہ

اگرعثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے

کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

وہ صد ہزار انجم شہید جو غروب ہوئے، اپنی مائوں سے بچھڑے، اپنے بچوں سے بچھڑے، اپنے خاندانوں سے جدا ہوئے، بظاہر غروب ہوئے لیکن اُن کے خون واُن کی قربانیوں کے نتیجے میں سحر مبارک و خجستہ طلوع ہوئی کہ جس نے پوری دُنیا کو منور کیا اور الحمدللہ آج اس کے طلوع کو سیبتیس واںسال ہوگیا ہے اور انشاء اللہ قیامِ حضرت حجت عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف تک اس انقلابِ عظیم تک یہ فجر و یہ صبح و سحر اور اس کا طلوع کیا ہوا نظام جاری و ساری رہے گا ۔

آج ہم ایک ایسے زمانے میںانقلابِ اسلامی کا سینتیسواں سالانہ یوم مشاہدہ کررہے ہیںاور برپا کررہے ہیں کہ امامِ راحل رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اس عظیم انقلاب کو برپا کرکے، اُمت کے اندر سے بارگاہِ خداوند تعالیٰ میں رخصت ہوئے ۔ یہ انقلاب اور یہ سحر و یہ نظامِ الٰہی اس عزیز و عظیم و کبیر رہبر کے مبارزات و کوششوں سے طلوع ہوا۔ خداوند تبارک وتعالیٰ سے دُعا ہے کہ امامِ راحل کو آئمہ اطہار  و جوارِ انبیاء میں محشور فرمائے انشاء اللہ اور وہ عظیم شہداء جن کی قربانیوں سے یہ سحر طلوع ہوئی اور یہ نظام برپا ہوا اور وہ شہداء جن کی قربانیوں سے اسے تحفظ و بقاء ملی اور دوام ملا اور آج تک جنہوں نے اس راہ میں اپنی جانوں و خون کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ بارگاہِ الٰہی میں دُعا ہے کہ خداوند تعالیٰ اُن شہداء کو شہدائے صدرِ اسلام و شہدائے کربلا کے ساتھ محشور فرمائے انشاء اللہ اور خصوصاً وہ عظیم مجاہدین جن کی کوششوں سے ابھی تک یہ چراغ روشن ہے جو اس کی راہ میں سینہ سپر ہیں اور ہر خطرے کو مول لے کر، ہر دشمن اور ہر شیطان سے اس کو بچائے ہوئے ہیں۔ خداوند تبارک و تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں استقامت عطا فرمائے و بالخصوص ناخدائے کشتی ٔانقلاب و نظامِ ولایت رہبر معظم انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ امام خامنہ ای دام ظلہ العالی جن کی کوششوں سے اور جن کی رہبری و قیادت کے نتیجے میں یہ عظیم انقلاب جاری ہے و انشاء اللہ اپنی منزلیں طے کرتاہوا انقلابِ امامِ عصر ـ سے متصل ہوگا۔ بارگاہِ الٰہی سے دُعا ہے پروردگار رہبر معظم کا سایہ اُمت ِ اسلامی پر قائم و دائم فرمائے۔

 حاشیہ پسند قوم کی انقلاب سے دوری:

انقلابِ اسلامی اپنے ہمراہ بہت سارے حواشی رکھتا ہے کہ عام طور پر انقلاب کے بجائے اُن حواشی کی طرف زیادہ توجہ چلی جاتی ہے۔ اب اس انقلاب کے حاشیے میں ایران موجود ہے، فارسی زبان موجود ہے، ملت ِ ایران موجود ہے، سرزمین ِ ایران موجود ہے، ایرانی کلچر و ثقافت موجود ہے۔ یہ ساری چیزیں اوراس کے علاوہ بہت سارے اُمور یہ انقلاب کے حاشیے میں موجود ہیں۔ بہت ساری شخصیات ہیں جو انقلاب کے حاشیے میں موجود ہیں اور اسی طرح حوادث و واقعات ہیں۔ جب سے انقلاب برپا و قائم ہوا ہے ابھی تک بہت سارے بحران انقلاب کے اردگرد ،انقلاب کے مقابلے میں، انقلاب کو روکنے کے لئے پیدا ہوئے اور اُن سب سے انقلاب سرخرو ہوکر آج موجودا ور قائم ہے یہ سب انقلاب کے حواشی و حاشیہ ہیں۔

 عموماً حاشیہ پسند افراد حاشیے کی طرف زیادہ توجہ رکھتے ہیں لہٰذاپھر متنِ انقلاب، اصلِ انقلاب، خودِ انقلاب فراموش ہوجاتا ہے، اس کی ایک علامت یہ ہے کہ پاکستان جو اہلِ ولولہ و اہلِ جذبہ افراد و مومنوں کی سرزمین ہے، یہ جوانانِ انقلابی، پاکستان میں کسی حد تک انقلاب کے حاشیے سے آشنا ہیں لیکن متنِ انقلاب سے بہت کم متعارف ہیں!

انقلاب اپنے ہمراہ بہت کچھ رکھتا ہے، عموماً انقلابیوں کو انقلاب سے مربوط قصے، حکایتیں اور واقعات یاد ہوتے ہیں یا اُن کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں جنہیںوہ سنتے ہیں اورازبربھی کرتے ہیں۔ انقلاب کے دامن سے انقلاب اُس وقت نکلتا ہے کہ جب خودِ متن ِ انقلاب، حقیقت ِ انقلاب اور اصلِ انقلاب واضح ہو اور سمجھ میں آجائے اگرچہ انقلاب کے حاشیے سے بھی انسان کچھ سیکھتا ہے،یہ نہیں کہ اُن سے انسان کوکچھ نہیں ملتا ، انقلاب کے حاشیے سے بہت کچھ ملتا ہے لیکن انقلاب نہیں ملتا!

انقلاب کی اساس، نظریہ و آئیڈیالوجی کی بنیاد پر:

 تنہا چیز جس سے انسان محروم رہتا ہے یا کوئی قوم و ملت و مملکت محروم ہوجاتی ہے وہ خودِ انقلاب ہے۔ انقلاب اس تبدیلی کا نام ہے جو نظریہ و آئیڈیالوجی کی بنیاد پر رونما ہو، جس کی تبدیلی کامحرک، آئیڈیالوجی و نظریہ کے علاوہ کوئی اور چیز نہ بنی ہو! انقلابِ اسلامی کا معنی یہی ہے کہ ایک نظریہ کی بنیاد پر، آئیڈیالوجی کی بنیاد پر طاغوتی نظام ختم و زوال پذیراور اس کی جگہ پر، اس کے بجائے الٰہی نظام واسلامی نظام قائم ہو١ہو۔ جو نظام ختم ہوا اس کے خاتمے کا سبب بھی نظریہ و آئیڈیالوجی ہے اور جو نظام اس کی جگہ پر جانشین ہوا، قائم ہوا وہ بھی نظریہ اور آئیڈیالوجی کانتیجہ ہے۔

پس انقلاب نظام کی تبدیلی کا نام ہے۔ نظام اپنے تمام ارکان سمیت، اپنے تمام لوازمات سمیت، اپنی تمام خصوصیات سمیت ایک نظام رخت سفر باندھتا ہے، مکمل طور پر اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے، اس کے آثار تک مٹ جاتے ہیں اور ختم کردئیے جاتے ہیں جبکہ اس کی جگہ پر ایک نیا نظام ،جدید آئیڈیالوجی کا نتیجہ وجود میں آتا ہے۔

 محرکِ انقلاب ِ اسلامی، نظریۂ اسلام ہے واسلامی آئیڈیالوجی ہے۔ اسلام بصورتِ آئیڈیالوجی انقلاب آور ہے۔ انقلاب ہمیشہ آئیڈیالوجی سے آتا ہے اور آئیڈیالوجی انسان کو حرکت میں لاتی ہے۔ اگرچہ انسان شورشیں کرتے ہیں، بغاوتیں کرتے ہیں، ہڑتالیں کرتے ہیں، دھرنے دیتے ہیں، احتجاجات کرتے ہیں جبکہ اکثر احتجاجات دبائو کے نتیجے میں ہوتے ہیں ۔اگر کوئی قوم و ملت کسی  معاشی دبائو میں آجائے تو اس وقت اس دبائو سے باہر آنے کے لئے،اس سے نکلنے کے لئے تگ و دو کرتے ہیں اور جس کی طرف سے دبائو پڑرہاہو اس کے خلاف اعتراض کرتے ہیںاورآواز اُٹھاتے ہیں۔ جب تک دبائو قائم رہتا ہے یہ شور مچاتے رہتے ہیں، جب دبائو کم ہوجاتا ہے یا ہٹ جاتا ہے تو یہ جاکرآرام سے بیٹھ جاتے ہیں۔

انقلاب کو اصلی محرک کی ضرورت:

 معاشی دبائو یا اجتماعی و سماجی دبائو کے نتیجے میں اعتراض و احتجاج انقلابی تحریک میں شمار نہیں ہوتا، اس کا انقلاب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اسے انقلاب کہنا یہ نادانی، جہالت و غفلت ہے۔ وہ انقلاب کے زمرے میں ہی شمار نہیں ہوتا۔ اگرکسی ملک کے اندر گیس بند ہوجائے اور لوگ سڑکوں پر نکل آئیں اور گیس کمپنی کیلئے مردہ باد کے نعرے لگائیں تویہ انقلابی حرکت نہیں ہوتی یا بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف اگر لوگ سڑکوں پر نکل آئیں تویہ انقلابی حرکت نہیں ہے، مہنگائی کے خلاف اگر لوگ سڑکوں پر نکل آئیں یہ انقلاب نہیں ہے یا حتیٰ اگر قتل وغارت کے خلاف کسی قوم کایا کسی طبقے کا قتل عام ہورہاہے اور وہ نہیں چاہتے کہ قتل ہوںتو اس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں، باہر سڑکوں پر آجاتے ہیں، اعتراض کرتے ہیں اور مطالبات کرتے ہیں یہ تمام حرکتیں انقلابی حرکتیں شمار نہیں ہوتیں چونکہ ان کا محرک دبائو ہے جیسے یہ محاورہ ہے کہ ''تنگ آمد بجنگ آمد'' جو بھی تنگ پڑ جاتا ہے، جنگ پر اُتر آتا ہے، مقابلے پر اُتر آتا ہے۔انسان تنگ ہوکر، اُکتا کر اگر پھٹ پڑتا ہے تویہ بھی انقلاب نہیں کہلاتا، انقلاب تبدیلی کا نام ہے اور اس کا پہلا رکن یہ ہے کہ یہ تبدیلی نظریہ اور آئیڈیالوجی کا نتیجہ ہو، یہ تبدیلی ایک نظریہ نے ایجاد کی ہو، ایمان نے یہ تبدیلی ایجاد کی ہو۔

 انقلاب کا پہلا قدم ، طاغوت کا انکار!

 آئیڈیالوجی و نظریہ کی تبدیلی لانے کے لئے پہلے قدم کے طور پر موجودہ نظام، موجودہ حالت جس میں لوگ رہ رہے ہوتے ہیں آئیڈیالوجی اس نظام کو رَد کرتی ہے ، اسے ناقابل قبول بناتی ہے۔ وہ آئیڈیالوجی جو فاسد وغلط نظام، طاغوتی نظام کو رَد نہ کرسکے اور اُسے جھٹلا نہ سکے وہ انقلابی آئیڈیالوجی نہیں ہوتی۔ انقلابی آئیڈیالوجی کاپہلا قدم یہ ہے کہ وہ موجودہ نظام، طاغوتی نظام کو رَد کرے، اس کاانکار کرے اور اس انکار کو فرد فرد کا ایمان بنادے، اس کے ایمان کا حصہ بنادے اور لوگوں کو یہ یقین ہوجائے کہ موجودہ نظام ہمارے لئے قابلِ قبول نہیں ہے ۔

سب سے دشوار کام یہی ہے کہ جس نظام میں لوگ رہ رہے ہوتے ہیں، اس نظام کی اُن کو عادت ہوجاتی ہے، لوگ اس کے خوگر ہوجاتے ہیں ، انسان جس ماحول میں رہتا ہے اس ماحول کی خو اپنالیتا ہے۔ گرمیوں میں رہنے والے گرمی کے خوگر ہوجاتے ہیں، سردیوں میں رہنے والے سردی کے خوگر ہوجاتے ہیںیا گندگی میں رہنے والے، گندگی کے خوگر ہوجاتے ہیں۔ وہ لوگ جن کے ماحول میں صفائی نہیں ہے، نظافت نہیں ہے، گندگی میں رہ رہے ہوتے ہیں اُنہیں گندگی سے نفرت نہیں ہوتی، اُنہیں گندگی سے کوئی چڑ نہیں ہوتی، اُنہیں گندگی سے کسی قسم کی کوئی حساسیت نہیں ہوتی کیونکہ گندگی کے ساتھ خو پکڑ لیتے ہیں، گندگی سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں، اُن کے درمیان ہم آہنگی و سازگاری پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسے افراد جو گندگی کے خوگر ہوگئے ہوں ان کے ہاں نظافت و پاکیزگی لانا بہت مشکل ہے۔ ان کو گندگی کی خو سے چھڑانے کے لئے ایسی مضبوط آئیڈیالوجی ونظریہ کی ضرورت ہے جو ان کے دل و دماغ سے گندگی کی خو و عادت کو باہر نکال دے اور اُنہیں اس گندگی کے خلاف اکسائے کہ ہمارے لئے گندگی قابلِ قبول نہیں ہے ۔ یہ بہت مشکل کام ہے۔

انقلابِ اسلامی کا مشکل ترین مرحلہ یہی تھا،انقلاب کے باقی مراحل سب سے آسان مراحل ہیں چونکہ وہ قوم جو طاغوتی نظام میں رہ رہی ہوتی ہے اور نسلاً در نسل اس فاسدنظام کے اندر رہتی ہے۔ جب کئی نسلیں ایک ہی ماحول کے اندر وجود میں آتی ہیں اور پلتی و بڑھتی ہیں تو وہ اس ماحول کی خوگر ہوجاتی ہیں، وہ اس سے ہم آہنگ ہوجاتی ہیں اور طاغوتی نظام بھی اُن کے ساتھ سازگار ہوجاتا ہے اورپھر یہ فاسد نظام اُن کا آبائی نظام شمار ہوتا ہے اور اس کے اندر ایک طرح کا تقدس آجاتا ہے، میراثِ آباء بن جاتی ہے کہ یہ ہمارے بڑوں کی میراث ہے ، انہوں نے ہمارے لئے یہ نظام چھوڑا ہے۔ پس یہ نظام چھڑوانا سخت کام ہے۔

انقلاب نبوی کی اساس :

 رسول اللہ  ۖ نے جو انقلاب برپا کیا وہ ضلالت کو ختم کرکے، ہدایت برپا کی۔ ہدایت کا قیام اتنا مشکل نہیں تھا جتنا ضلالت کا خاتمہ مشکل تھا۔ ضلالت کا خاتمہ اس وجہ سے مشکل ہے کہ لوگ ضلالت کو قبول کرچکے ہیں، ضلالت کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا ہے، اب لوگوں کو ضلالت سے کوئی چڑ نہیں ہے، ضلالت سے کوئی نفرت وانکار نہیں ہے۔ ایسی قوم جوضلالت کے ساتھ سمجھوتہ کرچکی ہو اس کے اندر ہدایت بعید نظر آتی ہے،بہت مشکل ہے چونکہ وہ ضلالت کو ترک نہیں کررہے۔ انقلابِ اسلامی سے الٰہی نظامِ ولایت قائم ہوا، نظامِ ولایت فقیہ کہ جو نظامِ ولایت ہے چونکہ زمانۂ غیبت کبریٰ ہے لہٰذافقیہ حاملِ ولایت ہے۔

زمانہ غیبت میں ولایت فقیہ کا مقام:

زمانۂ امام میں امامِ معصوم ،حاملِ ولایت ہے، زمانہ رسول اللہ  ۖ میں رسول اللہ  ۖحاملِ ولایت ہیں لیکن زمانۂ غیبت میں اُن کا نائب و جانشین حاملِ ولایت ِ اُمت ہے۔ اُمت کا اختیار نصّ دِینی کے مطابق فقیہ کے پاس ہے ، اس لئے اس کو ولایت فقیہ کہتے ہیں، اصل ولایت کا نظام ہے چونکہ فقیہ اِس زمانے میں حاملِ ولایت ہے اس وجہ سے اسے ولایت فقیہ کہا جاتا ہے۔

 ولایتِ فقیہ قبول کرنا آسان ہے لیکن ولایت طاغوت سے نکلنا مشکل ہے۔ چونکہ ولایتِ طاغوت نسل در نسل مسلمانوں کے اوپر قائم رہی ہے اور جہاں کئی نسلیں طاغوت کی ولایت میں رہ چکی ہوں اور اس کے خوگر ہوچکی ہوں اُن کے لئے ولایت فقیہ ماننا زیادہ مشکل نہیں لیکن ولایت ِ طاغوت سے نکلنا بہت مشکل ہے۔ جس طرح علامہ اقبال کا فرمانا ہے کہ لا الہ الا اللہ میں سب سے مشکل مرحلہ '' لا'' کہنا ہے،انسان ''لا'' نہیں کہہ سکتا ، اللہ ھو کہناآسان ہے، لا الہ الا ھو مشکل ہے چونکہ انسان اللہ کی ولایت سے پہلے طواغیت کی ولایت کے اندر ہے۔ طواغیت کی ولایت کو چھوڑنا مشکل ہے اور انسان اس وقت اللہ کی ولایت میں آتا ہے جب طاغوت کی ولایت سے باہر نکل آئے

دیو چوں بیرون رود فرشتہ در آید

جب جن باہر نکلتاہے تو فرشتہ آتا ہے جب انسان طاغوت کی ولایت سے آزاد ہوتا ہے،اس سے نجات پاتا ہے تو اس کو اللہ کی ولایت نصیب ہوتی ہے لہٰذا یہ مشکل مرحلہ'' لا'' کہنا ہے،'' الا اللہ'' آسان ہے یعنی اللہ کو ماننا آسان جبکہ طاغوت کو چھوڑنا مشکل ہے۔

انقلاب میں بڑی رکاوٹ رسوماتی دین:

انقلابِ اسلامی میں یہ دشوار مرحلہ طے ہوا، ولایت ِ طاغوت جو نسلاً در نسل اُس قوم کے اوپر حاکم تھی اور صدیوں سے ولایت طاغوت نافذ تھی اس سے نکالنے کے لئے امام خمینی  نے اُمت کو اسلامی آئیڈیالوجی واسلامی نظریہ بتایااور انہیں سمجھایاجبکہ اس سے پہلے رسوماتی اسلام حکم فرما تھا۔ جس طرح آج ہمارے معاشرے کے اندر رسوماتی اسلام حکم فرما ہے۔ رسوماتی اسلام قیامت تک انقلاب نہیں لاسکتا، رسوماتی اسلام انقلاب کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے چونکہ رسوماتی اسلام، رسومات کی حد تک منحصر ہے اور رسوماتی اسلام میں موجودہ طاغوتی نظام میں کوئی عیب نہیں ہے۔

 مسلمان جب تک رسومات انجام دے رہاہے آزاد ہے ،رسومات میں اس وقت تک اس کو کسی نظام پر اعتراض نہیں ہے۔ جو نظام بھی ہمیں رسم ادا کرنے دے وہ ہمیں قبول ہے، وہ مسلمانوں کو قبول ہے۔ لہٰذا اس وقت دُنیا کے کسی نظام پر اہلِ رسومات کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اہل رسومات فقط اپنی رسومات اُٹھاتے ہیں، مشرق سے اُٹھاتے ہیں اور مغرب میں چلے جاتے ہیں، مغرب سے اُٹھاتے ہیںاور مشرق میں چلے جاتے ہیں، اس ملک سے نکلتے ہیں ،اس ملک میں چلے جاتے ہیں اور اُنہیں کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا بلکہ بعض تو یہ کہتے ہیں کہ مشرق کے بجائے مغرب میں زیادہ اسلام ہے، وہاں دین زیادہ ہے کیونکہ وہ سچ بولتے ہیں، وہ کم نہیں تولتے، وہ پابند ہیں، ڈسپلن کا خیال رکھتے ہیں، صاف ستھرے رہتے ہیں، اُنہیں تمام اسلام وہاں مغرب میں نظر آتا ہے۔ اس لئے نظر آتا ہے کہ اُن کی رسومات پر پابندی نہیں ہے۔ علامہ اقبال کے بقول کہ

ملّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت

ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

ہندوستان میں ملّا کو نماز کی اجازت ہے،چونکہ رسم کی اجازت ہے لہٰذاوہ یہ سمجھتا ہے اسلام آزاد ہے چونکہ طاغوتی نظام رسومات کی اجازت دیتا ہے۔طاغوت بہت ساری رسومات کی اجازت دیتا ہے بلکہ خود چاہتے ہیں کہ یہ رسومات قائم رہیں، اس لئے کہ جب تک یہ رسوماتی دین ہے، رسوماتی اسلام ہے ،طاغوت محفوظ ہے۔ طاغوت تحفظ میں ہے، اُس کو کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے۔

 رسوماتی انسان، طاغوت کا حامی:

وہ اسلام جو طاغوتیت کو برداشت نہیں کرتا وہ نظریاتی اسلام، توحیدی اور ولائی اسلام ہے جبکہ رسوماتی اسلام صدیوں سے طاغوتیت کے ساتھ سمجھوتہ کررہا تھا بلکہ بہت ساری جگہوں پر طاغوت، اسلام کا معاون اور رسوماتی اسلام ، طاغوت کا معاون تھا۔

آپ اگر مسلمان دُنیا کا سروے کریںتو آپ کو بہت سارے طاغوت ، اسلام کی حمایت کرتے ہوئے نظر آئیں گے جس طرح ابھی آلِ سعود، بادشاہانِ سعودی یہ کتنے اسلام کے حامی ہیں؟ کتنی اسلام کی مدد کرتے ہیں؟ جتنا قرآن آلِ سعود نے اپنے دور میں چھاپا ہے اتنا پوری تاریخ میں نزول کے بعد آج تک اتنا قرآن نہیں چھپا، ایک سال میں آلِ سعود کروڑوں جلد قرآن کی پرنٹ کرکے کچھ مفت میں بانٹتے ہیں، کچھ فروخت کرتے ہیں، کچھ قیمتی اور نفیس ہدئیے دیتے ہیں،لوگوں کو حج کرواتے ہیں، مسجدیں بنواتے ہیں۔

گذشتہ سال پاکستان میں الیکشن ہوئے، الیکشن کے بعد سعودیوں نے تحفے کے طور پر سو مسجدیں دیں، جس طرح کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے یا شادی ہوتی ہے تو کچھ لوگ مبارکباد کے طور پراس کو گفٹ دیتے ہیں ۔انہوں نے پاکستان کی نئی بننے والی حکومت کو سو مسجدیں ہدیہ کے طور پر دیں کہ یہ ہماری طرف سے آپ کوگفٹ ہے ، ہم پاکستان کے مختلف علاقوں میں سو مسجدیں بنائیں گے۔ اس قدر یہ اسلام کے حامی ہیں جبکہ یہ خود طاغوت ہیں لیکن اسلام کے حامی چونکہ یہی اسلام جس کے وہ حامی ہیں یہی اسلام ان کا حامی ہے۔اگر یہ اس اسلام کی حمایت نہ کریں تو یہ خطرے میں پڑ جائیںگے۔انہوں نے بہترین اسلام چنا اور اس کی حمایت کررہے ہیں اور وہ اسلام پھران کی حمایت کررہاہے۔

 رسوماتی دین ، حکمرانوں کا ایک ہتھیار:

بنو اُمیہ نے اپنی حکومت قائم کرنے کیلئے اسلام کا سہارا لیا، رسوماتی اسلام کا سہارا لیا اور اُس اسلام نے بنو اُمیہ کوبہت سہارا دیا، اگر وہ رسوماتی اسلام نہ ہوتا، بنو اُمیہ اتنی کامیاب حکومتیں نہ کرسکتے، نہ ہی بنو عباس اور دیگر حکمران اتنی کامیاب حکومتیں نہ کرتے۔

 پاکستان میں ضیاء الحق نے گیارہ سال اسلام کے سہارے حکومت کی ، اسلام نے ضیاء الحق کی حمایت کی اور ضیاء الحق نے اس اسلام کی حمایت کی۔ تمام ملک کو اس نے نمازیں پڑھانا شروع کردیں۔ فوجی ، پولیس ، کنڈیکٹر ، ڈرائیور ، مالی ، مزدور اور ہر ایک کو اس نے نمازوں پر لگادیا اور ان رسومات نے اس کی بھرپور حمایت کی،گیارہ سال اقتدار کا موقع دیا اگر وہ جہاز کا حادثہ نہ ہوتاتو شاید ابھی تک ضیاء الحق ہی پاکستان کاامیرالمومنین ہوتا۔

 انقلاب رسوماتی اسلام سے برآمد نہیں ہوتابلکہ انقلاب، نظریاتی اسلام کا نتیجہ ہے۔ وہ اسلام جو خدا کی وحدانیت کا قائل ہو اوراللہ کے نظام کے علاوہ کسی نظام کو قبول نہ کرتا ہو۔ رسوماتی اسلام صرف ایک چیز کی خواہش کرتا ہے وہ یہ کہ مجھے اپنی رسم انجام دینے دو!بس میں رسم بجالائوں!ا گر آپ کواجازت دے دی گئی کہ آپ اپنی رسم بجالا سکتے ہیں تو ٹھیک ہے،پھر اس اسلام کو حکومت پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہے، یہ اس وقت اعتراض کریں گے جب وہ اس کی رسم کو روکیں اور احتجاج بھی اتنا کریں گے کہ فقط رسم آزاد ہوجائے لہٰذا جب رسم آزاد ہوگئی تواُن کا اعتراض بھی ختم ہوگیا بلکہ پھر یہ حکومت، بہترین حکومت ہوگی۔

 عرب حکمرانوں کی اپنے ممالک میں رفاہی پالیسی:

نظریاتی اسلام جس کے پاس الٰہی نظامِ ہے ،جو معتقد ہے کہ خدا ہمارا رب ہے، جس کا ایمان ہے کہ اللہ ہمارا مالک و خالق ہے اوروہی ہمارا ولی ہے اور ہمیں اس کے علاوہ کسی اور نظام میں رہنے کی اجازت نہیں ہے! اگر یہ طاغوتی نظام، اس حوالے سے بہترین نظام ہو کہ اس نے لوگوں کوبہت اچھی رفاہ دی ہے، مرفہ نظام ہے ،جس طرح عرب دُنیا کے اندر حکومتیں ہیں، مرفہ حکومتیں ہیں، عرب عوام کو کوئی تکلیف پہنچنے نہیں دیتے۔ اکثر عرب دُنیا خوشحال دُنیا ہے۔ حکومت قومی منابع جس میں تیل، پٹرولیم، گیس نکال کر بیچ کر لوگوں کو پیسے بانٹ رہی ہے بغیر کسی معاوضے کے،وہ حکومت کے لئے کوئی کام نہیں کرتے ، اپنے ملک و مملکت کے لئے کچھ نہیں کرتے، اُن کا کام صرف اس ملک میں رہنا ہے اور سالانہ یا ماہانہ حکومت سے معاوضہ وصول کرنا ہے۔ اُن ممالک میں رہنے والے لوگوں کو کوئی تکلیف نہیں ہے بلکہ پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک سے لوگ اُن ممالک میں جاکر کماتے ہیں۔ کتنے ممالک ہیں جو ان کے سر پر چل رہے ہیں۔

 پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا ذریعہ بیرونِ ملک جاکر پاکستانیوں کا روزگار ہے۔ بنگلہ دیش جیسے ممالک کی معیشت کا بڑا ذریعہ وہ آمدن ہے جو اس ملک کے رہنے والے باہر جاکر حاصل کرتے ہیں۔ کیوں حاصل کرتے ہیں؟ اس لئے کہ وہ رفاہی و ثروتمند ریاستیں ہیں اور اگر لوگوں کے پاس کھانے پینے و رہنے کے لئے سہولتیں موجود ہیں تو لوگ بھی راضی ہیں تو پھران کا کسی چیز پر اعتراض نہیں! حاکم کون ہے؟ بہترین حاکم وہ ہے جو اُنہیں فراوان غلہ دے، جو اُنہیں کثیر آسائشیںاور سہولتیں دے، جواُن کے لئے ہر چیز مہیا کرے یہ بہترین نظام وبہترین حاکم ہے۔

پاکستان میں عرب شہزادوں  کی عیاشیاں:

پس عرب نہ صرف اپنے ملک کو چلارہے ہیں بلکہ کئی اور ممالک اُن کی وجہ سے چل رہے ہیںجیسے یہی عرب شکاری رحیم یار خان اور بہاولپور میں آئے ہوئے ہیں، اُن کے آنے سے پاکستانی حکمران بھی خوش ہیں اور عوام بھی اور سارے طبقات کے وارے نیارے ہیں، وہ دن پاکستانیوں کی عید ہوتی ہے جب عرب شکاری شکار پر آئے ہوئے ہوں۔ سردیوں کے ایام چولستان و جنوبی پنجاب کے اندر اُن کی بڑی بڑی شکار گاہیں ہیں یہ وہاں شکار کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ یہ شکار کے لئے جہاز بھر کر اپنے ہمراہ خوراک لاتے ہیں، عیاشی کا سامان لاتے ہیں۔ ایک بھرا ہوا جہاز شراب کا آئے گا، ایک بھرا ہوا جہاز گوشت کا آئے گا، وہاں سے روزانہ گوشت آتا ہے ،وہ پاکستان کے قصائی کو پسند نہیں کرتے،یہ کُک اپنے ساتھ لاتے ہیں، برتن و ہر چیز اپنے ساتھ لاتے ہیں۔

 پاکستان سے صرف اُن کوجانوروں کا شکار چاہیے ، پرندوں کا شکار اور انسانوں کا مردوں اور عورتوں کا شکارچاہیے اور یہ دونوں کا شکار کرتے ہیں، جانور و پرندے بھی، عورتیں اور مرد بھی۔ پاکستانی اُن کا بہترین شکار ہیں ،ہر شکار کے بدلے میں ان کوکچھ نہ کچھ دے دیتے ہیں ۔وہاں ان کے لئے اتنی رفاہ ہے، اس رفاہ کا جو ویسٹیج و بقیہ ہے، اس سے پاکستان کی رفاہ ہے،پھر اس سے کئی پاکستانی عیاشی کرتے ہیں۔ اُن کے ٹوکری میں پھینکے ہوئے غلے سے کتنے لوگ یہاں پلتے ہیں، اس لئے کہ اُنہیں حکومت سے صرف اتنا ہی چاہیے ،یہی حکومت سے توقع ہے کہ ہماری یہ ضروریات پوری کرے، ہمیں یہ سہولیات فراہم کرے، ہمیں یہ رفاہ مہیا کرے، اس سے زیادہ ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے۔ کون حاکم ہے کون نہیں ہے !ہماری بلاسے جو بھی ہو! حاکم اہل ہو یانااہل حاکم ، حقدار ہو یاناحق ، ظالم ہو یاجائر و فاسد ہو، ان کیلئے کوئی فرق نہیں پڑتا!

 نجات کیلئے مضبوط سہارے کی ضرورت:

 رسوماتی اسلام کا یہ  نظریہ ہے کہ جو بھی آپ کو رسومات ادا کرنے کی اجازت دے اس سے آپ کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے اور طاغوتی کامیاب حکومتیںوہی ہیں جنہوں نے مسلمان کی یہ رگ پکڑی ہے کہ انہیں اگر ہم رسومات کی اجازت دے دیں، یہ ہمارے ساتھی و ہمراہ ہیں! لیکن یہاں پر اسلام کا کیا کہنا ہے ؟ آیا اسلام اجازت دیتا ہے کہ جہاں پر آپ کو رسم کی اجازت ہے وہاں آپ رسم کی بجاآوری پر اکتفاء کرکے بلکہ ان حکومتوں کے شکر گزار بھی ہوں جبکہ قرآنِ کریم نے اس کام سے روکا ہے کہ آپ یہ نہیں کرسکتے! آپ طاغوت کے زیر سایہ زندگی بسر نہیں کرسکتے! طاغوتیت کو قبول نہیں کرسکتے! طاغوتیت کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرسکتے! آپ نے طاغوتیت کا انکارو کفر کرنا ہے۔

فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطّٰغُوْتِ وَیُؤْمِنْ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَہَا                                              (البقرة:٢٥٦)

جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے اس کے پاس مضبوط سہاراہے، نجات اسے ملے گی جس نے طاغوت کا انکار کیا ! جس نے طاغوت کا انکار نہیں کیا بیشک اللہ کو مانتا ہو لیکن چونکہ طاغوت کا انکار نہیں کرتا اس کے ہاتھ میں عروة الوثقیٰ بھی نہیں ہے، اس کے ہاتھ میں مضبوط سہارا نہیں ہے، اسے نجات کی اُمید بھی نہیں ہونی چاہیے چونکہ نجات کے لئے مضبوط سہارا درکار ہے اور وہ تم نے چھوڑ دیا چونکہ طاغوت کا انکار نہیں کیا ہے۔

 کربلاء کے منشور کا اعلان:

امامِ حسین ـ نے کربلامیں اُن لوگوں کواپنا منشور پیش کیا کہ میں یزید کے خلاف کیوں نکلا ہوں!اس میں اسلام کا کیا حکم ہے؟ اسلام یہاں پر کیا چاہ رہاہے! اسلام کا تقاضا کیا ہے! اسلام اس حالت میں تغیّر و تغییر کا حکم دیتا ہے کہ جہاں بھی سلطان و سلطنت الٰہی نہ ہو!جہاں بھی قانون و نظام الٰہی نہ ہو! اسلام کا صرف ایک فتویٰ ہے اور وہ یہ کہ اس کو بدلو! اگراس کے بدلنے کے لئے قولاً ، فعلاً و عملاً تم نے کوئی قدم نہیں اُٹھایا توتمہارا شمار بھی اُنہی ظالموں کے ساتھ ہوگا، تمہارا حشر بھی اُنہی ظالموں کے ساتھ ہوگا! امام  فرمارہے ہیں کہ میں نے اس لئے قیام کیا ہے!چونکہ رسول اللہ  ۖ کا حکم ہے اور اللہ کا فرمان ہے کہ ظالم و ستم گر حکمران کو بدلنا ہے، ایسے نظام کو بدلنا ہے، پس نظام کی تبدیلی یہ اسلام کا صریح حکم وو اضح فتویٰ ہے۔

اسلام یہ نہیں کہتا کہ دیکھو تمہیں سجدے کی اجازت کون دیتا ہے؟ ممکن ہے یہی ظالم حکمران تمہیںسجدے کی اجازے دیدے! تمہیں عزاداری کی اجازت دیدے!رسموں کی اجازت دیدے،تراویح کی اجازت دیدے،مسجدوں و مدرسوں کی اجازت دیدے لیکن اگراس نے حرامِ خدا کو حلال، حلالِ خدا کو حرام کیااور اس نے عہدِ خدا کو توڑ دیا ہے تو پس اب تمہارے لئے ایک ہی راستہ ہے اور وہ اس کی تبدیلی ہے، اس کو بدلنا ہوگا!

انقلاب کاراستہ و راہِ اسلام بہت واضح ہے، انقلاب کی بنیاد نظریہ ہے، بیشک آپ دبائو میں نہ ہوں! بیشک آپ سہولتوں میں ہوں! ایسا سلطانِ جائر، ایسی ظالم حکومت جو آپ کو سب سے زیادہ رفاہ میں رکھے، آپ کو خود مسجدیں بنا کر دے، آپ کو مدرسے بنا کر دے، آپ کو مفت میں راشن دے، آپ کو روزگارو ملازمت دے، آپ کو دُنیا کی ہر چیز فراہم کرے، دین کا یہ حکم ہے کہ آپ اسے بھی قبول نہیں کرسکتے۔ نہ یہ کہ دبائو پڑے اور آپ اُٹھو، مہنگائی ہو توآپ چیخو! قتل وغارت ہو، دہشت گردی ہوتو آپ کو انقلاب یاد آجائے، وہ انقلاب نہیں ہے! دبائو کے مقابلے میں اُٹھنا انقلاب نہیں ہے بلکہ نظریہ، ایمان اوراعتقاد آپ کو اس نظام کے خلاف اُٹھائے، کیوں؟ چونکہ یہ طاغوت ہے! چونکہ غیر الٰہی ہے فقط اتنی دلیل کہ یہ غیر الٰہی ہے، اس کے اندر مزید کوئی اور دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔

 انقلاب کے مشابہ اقدامات:

اگرچہ انقلاب کے مشابہ بہت سارے اعمال ہیں یا انقلاب سے ملتی جلتی چیزیں جنہیں عموماً لوگ انقلاب سے اشتباہ کے طور پر لے لیتے ہیںاور اس کا نام بھی انقلاب رکھ دیتے ہیں۔ جیسے'' اصلاح'' ایک عمل ہے، اصلاح کا مطلب یہ ہے کہ کسی نظام کے اندر فساد ہے اب وہاں پر حالات میں بہتری کے لئے یا قانون بدل دیا جائے یا فرد بدل دیا جائے یا کسی کی پوسٹنگ کردی جائے۔ جیسے اگر کسی علاقے میں کوئی انتظامی افسر، بدعنوان افسر ہے، عوام مطالبہ کریں کہ اس افسر کو بدل دو!اس کو بدل دیا جاتا ہے، بعض اس کوکہتے ہیں یہ انقلاب ہے، یہ بڑا عظیم انقلاب ہے۔ نہیں! یہ انقلاب نہیں ہے بلکہ یہ اصلاح ہے جبکہ انقلاب اور چیز ہے۔

 اعتراض اور چیز ہے انقلاب اور چیز ہے۔ احتجاج اور چیز ہے انقلاب اور چیز ہے۔ ایک نظریہ کی بنیاد پر ایک نظام کا انکار اور دوسرے نظام کا قیام، یہ انقلاب ہے۔پس دونوں کام نظریہ کروائے۔ یہ نظام کیوں نہیں ہونا چاہیے؟ اس لئے کہ نظریہ اس کو قبول نہیں کرتا، ایمان و اسلام اس کو قبول نہیں کرتا! نہ یہ کہ مجھے اس سے تکلیف ہے، مجھے ممکن ہے اس نظام سے کوئی تکلیف نہ ہو۔ اس نظام کو کیوں بدلنا چاہیے؟ چونکہ آپ کا دین، آپ کی آئیڈیالوجی اس کو قبول نہیں کرتی۔

تحریک و نہضت کا مفہوم:

 انقلاب میں پہلا مرحلہ ہی نظریہ ہے، انقلاب شروع ہی نظریہ و آئیڈیالوجی سے ہوتا ہے۔ جب لوگوں کے اندر یا کسی طبقے کے اندر آئیڈیالوجی ، بیداری پیدا کردے، حرکت پیدا کردے اس کا نام نہضت و تحریک ہے ۔پس نظریہ حرکت پیدا کرتا ہے جبکہ حرکت میں لانا تحریک ہے۔

جب آپ گاڑی کو دھکا دے رہے ہوتے ہیں تو آپ اس کو تحریک کررہے ہوتے ہیں،اسے حرکت دے رہے ہیں۔ اگر آپ خود چل رہے ہیں تو یہ تحرُّک ہے، تحرک خود حرکت میں آنا ہے جبکہ تحریک کسی دوسرے کو حرکت میں لانا ہے۔ پس تحریک اس حرکت کو کہتے ہیں جونظریہ کے نتیجے میں آئے۔پس نہضت وہ حرکت ہے جولوگوں کے اندر، عوام و قوم کے اندر نظریہ پیدا کرے۔ حرکت بہت ساری چیزیں لاتی ہے۔ بسااوقات کوئی چیز آپ کوکھینچتی ہے ، زبردستی آپ کو حرکت دیتے ہیں اورآپ مجبوراً حرکت کررہے ہیں یہ کبھی تحریک نہیں کہلاتی بلکہ یہ حرکت ہے۔

 تحریک وہ حرکت ہے جو نظریہ وجود میں لائے لہٰذااگر کسی قسم کی مشکل نہیں ہے، امن و امان ہے۔ نہ یہ کہ ناامنی ہے تو لوگ حرکت کررہے ہیں، سڑکوں پر نکلے ہیں چونکہ امن نہیں ہے، اگر امن برپا ہوگیا پھر کیا کروگے؟ پھر تو کچھ بھی نہیں کریں گے بلکہ گھروں میں آرام سے بیٹھیں گے، کھائیں گے، پئیں گے۔پس عوام کے اندر نظریہ جو حرکت ایجاد کرتا ہے، اس کو تحریک یا نہضت کہتے ہیں۔

 انقلاب میں استقامت کا کردار:

 نہضت کا اگلا مرحلہ استقامت ہے۔ نہضت، حرکت اورپھر استقامت ، نہضت و تحریک قیام ہے لیکن استقامت قیام کا جاری رہنا، قیام کا تسلسل ہے کہ قیام ختم نہ ہو! چونکہ جب حرکت شروع ہوتی ہے تورکاوٹیں بھی ایجاد ہونا شروع ہوجاتی ہیں، موانع آتے ہیں، دبائو پڑتے ہیں لہٰذا اس حرکت یا تحریک کو استقامت کی ضرورت ہے چونکہ اس کے سامنے رکاوٹیںو موانع آتی ہیں ! جب طاغوتی نظام کے خلاف یہ حرکت شروع ہوتی ہے تو طاغوتی نظام لاتعلق نہیں بیٹھتا، طاغوتی نظام اس تحریک کو ختم کرنے کے لئے فعال و میدان میں آتا ہے۔ طاغوتی نظام کی بقا ء کی خاطریہ لازمی ہوجاتا ہے کہ وہ اس تحریک کو ختم کرے اور بھرپور طریقے سے اسے کچلے لہٰذا جب تحریک کے سرکوب کا مرحلہ آتا ہے اس وقت استقامت کام آتی ہے کہ اس سرکوب کرنے سے نہضت نہ سرکوب ہوجائے! اس دبائو میں نہ آجائیں بلکہ قیام کو جاری رکھیں، اسے آگے بڑھائیں۔پھر یہ استقامت و تحریک نہایتاً تبدیلی پر جاکر ختم ہوتی ہے کہ طاغوتی نظام جس کے خلاف تحریک شروع ہوئی آخرکار طاغوتی نظام ڈھیلا پڑ گیا، سست پڑگیا، زوال پذیر ہوا اور اس کی جگہ پر الٰہی نظام قائم ہوا !

انقلابِ اسلامی نے یہ چاروں مراحل طے کئے۔ پہلا مرحلہ نظریے کا ہے کہ یہاں بہت ساروں کو غلط فہمی ہے کہ انقلاب کا محرک کیا بنا؟کتنے لوگ ہیں جنہوں نے لکھا کہ شاہ کے زمانے میں لوگوں کو روزگار نہیں ملتا تھا، مہنگائی بہت زیادہ تھی، فلاں چیز کم تھی، فلاں چیز زیادہ تھی۔ نہیں!اتفاقاً شاہی حکومت رفاہی حکومت تھی، شاہ نے عوام کو بہت رفاہ دیا ہوا تھا۔

 کھوکھلے نعرے   اور  انسانیت کی توہین  

 امام خمینی  نے لوگوں کو یہ نہیں کہا کہ اگر انقلاب لے آئو تو تمہیںراشن زیادہ ملے گا، اگر تم انقلاب لے آئو توتمہیںرہائش فری میں ملے گی، اگر انقلاب لے آئو توآلو، مٹر تمہارے لئے فری ہوجائیں گے۔غلے کی خاطر یارہائش کا جھانسہ دے کر لوگوں کو میدان میں نہیں لائے !امام  نے یہ نعرہ نہیں لگایا کہ انقلاب تمہیں روٹی، کپڑا اور مکان دے گا۔ روٹی کپڑا اور مکان یہ درحقیقت کسی قوم کی توہین ہے ،روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ ایک قوم کی تحقیر ہے۔جیسے آپ پڑھ لکھ کر بہت بڑی شخصیت بن جائیں اور ایک آدمی آکر آپ کو کہے کہ میں آپ کو روٹی کپڑا اور مکان دیتاہوں آپ آئیں میرے لئے کام کریں! کیابس یہی انسان کا ہدف ہے ! روٹی، کپڑا اور مکان یعنی آپ حیوانیت کی حد تک نیچے آگئے ہیں، ہمیں صرف روٹی ، کپڑا اور مکان چاہیے! ایک جانور کو کیا چاہیے؟اس کو یہی چاہیے ۔

 رفاہی حکومتیں یہ تین چیزیں وافر مقدار میں دیتی ہیں، اتنی وافر مقدار میں دیتی ہیں کہ ان کا اُترا ہوا غریب لوگ پہنتے ہیں ،اگر ابھی لنڈا نہ ہو تو اکثر پاکستانی سردی سے مر جائیں، لنڈے نے ان کوبچایا ہوا ہے ، لنڈا کیا چیز ہے؟ یہ مرفہ لوگوں کا اُترا ہوا لباس ہے جو انہوں نے ایک سال پہنا پھر اس کے بعد اگلے سال نیا خریدا، پہلا یا خیرات کے طور پر دے دیا یا فروخت کردیا ، دونوں کام کرتے ہیں کچھ اپنے پرانے کپڑے بیچ دیتے ہیں،کچھ خیرات کردیتے ہیں ،اُن کے گھروں میں ٹوکرے رکھے ہوتے ہیں ۔

 اسی طرح اُن ممالک کے اندر یورپ میں باکس رکھے ہوتے ہیں کہ اپنے پرانے جوتے، پرانے کپڑے،اپنی پرانی چیزیں ان صندوقوں میں صدقے کے طور پر، خیرات کے طور پر ڈال دو! وہ صدقہ وخیرات یہ این جی اوز جمع کرتے ہیں، کشتی بھر کر پاکستان بھیج دیتے ہیں، یہاں پر منسٹر اس کشتی کو وصول کرتے ہیںاور پھر اس کے بعد اس کو لے کر مارکیٹ میں بیچتے ہیں اوروزیر کو بھی اپنا کمیشن مل جاتا ہے جبکہ یہ صدقہ وخیرات کے اُترے ہوئے کپڑے وہ یہاں بکتے ہیںاور لوگ پہنتے ہیں۔آپ توجہ کریں یہ کتنی مرفہ حکومتیں ہیں کہ اُن کا اُترا ہوا ہمارے لئے بہترین لباس ہوتا ہے، اُن ممالک کے اندر لوگوں کو کوئی تکلیف نہیں، روٹی ،کپڑا اور مکان اتنا ہے کہ کپڑا اُتار اُتار کر پھینک رہے ہیں، روٹی ضائع کررہے ہیں۔

روٹی کپڑا اور مکان ہماری ضرورت ہے لیکن ہدف و مقصد نہیں ہے۔ اس کو اگر کوئی نعرہ بنائے، مقصد قرار دے تویہ ملت کی تحقیر ہے ،روٹی کپڑا اور مکان ملت کی توہین ہے اور خصوصاً یہ نعرہ سن کر لوگ ان کو ووٹ بھی دیں، اُن کو انتخاب بھی کریں ،اس وجہ سے کہ یہ ہمیں روٹی، کپڑا اور مکان دیں گے۔ ابھی پاکستان کے مختلف پسماندہ علاقوں میں مغربی این جی اوز یہی تین چیزیں تقسیم کررہی ہیں روٹی، کپڑا اور مکان اور لوگ ان چیزوں پر اُن کے حامی ہیں اور اُن کا ساتھ دیتے ہیں۔

انقلاب کا اصل محرک:

 خداوند تبارک وتعالیٰ نے انسان کا مکان بہت اعلیٰ بنایا ہے، انسان کو شرف و کرامت عطا کی ہے ،انسان کو اس حد تک نیچے آنے کی اجازت نہیںدی جبکہ انسان کو شرفِ انسانی و کرامت حاصل کرنا اور بچانا یہ انسان کا پہلا ہدف ہے۔ جب انقلاب رونما ہوتا ہے توآئیڈیالوجی و نظریہ اس کو اُکساتا ہے، کیوں اُکساتا ہے؟ نہ اس وجہ سے کہ تیرے پاس روٹی نہیں ہے،تیرے پاس کپڑا نہیں ہے یا مکان نہیں ہے پس تو اُٹھ روڈ پر نکل، احتجاج کر ایک ایسی حکومت بنا جو تجھے روٹی، کپڑا اور مکان دے بلکہ اگر ایک ایسی حکومت ہے جہاں تجھے روٹی، کپڑا اور مکان میسر ہے پھر بھی تیرے لئے حکم ہے کہ وہ طاغوت ہے، تیرے اوپر اس کا انکار لازم ہے۔

انقلاب کے بعد عوام کی توقع!

پس جب انقلاب رونما ہوتا ہے،تحریک کامیاب ہوتی ہے، تبدیلی وقوع پذیر ہوتی ہے، نظامِ الٰہی قائم ہوجاتا ہے یہاں سے ایک نیا مرحلہ آغاز ہوتا ہے بلکہ اس کامیابی سے اصل مرحلہ شروع ہوتا ہے، نظامِ الٰہی کی کامیابی سے کہ نظامِ الٰہی اب لوگوں کو کیا عطا کرے؟آیا فقط روٹی کپڑا اور مکان عطا کرے !یا نظامِ الٰہی کسی اور چیز کا ذمہ دار ہے؟ الٰہی اور غیر الٰہی نظام یہاں سے دو الگ راستوں پر چل پڑتے ہیں۔ غیر الٰہی نظام اگر اچھا نظام ہے جس کو لوگ اچھا کہتے ہیں کہ یہ اچھی حکومتیں ہیں۔ اِس وقت دُنیا میں، مغربی حکومتیں بڑی اچھی حکومتیں ہیں، عرب حکومتیں بڑی اچھی حکومتیں ہیں چونکہ رفاہی حکومتیں ہیں،یہ اچھی حکومتیں جو انسان کو سعادت عطا کرتی ہیں، یہاں سعادت سے مراد خوشحال زندگی، آرام دہ زندگی، پریشانیوں کے بغیر زندگی جس میں روٹی، کپڑا اور مکان انسان کے پاس فراوان ہے ۔

 الٰہی حکومت کا کیا کام ہے؟ الٰہی حکومت کا یہ کام نہیں کہ اُس کاہدف بھی روٹی، کپڑا اور مکان ہے!اس حکومت میںآستینیں چھوٹی ہونگی اور الٰہی حکومت جو کپڑے دے گی اُس میں آستینیں بڑی ہونگی یا غیر الٰہی حکومت جو روٹی دے گی مثلاً وہ چھنی ہوئی نہیں ہوگی اور الٰہی حکومت جو روٹی دے گی وہ ذرا نرم ہوگی، اس کا خمیربہتر ہوگا یا غیر الٰہی حکومتیں جو مکان دیں گی وہاں پر عبادت کی جگہ نہیں ہوگی، عزاداری کی جگہ نہیں ہوگی لیکن الٰہی حکومت جو مکان دے گی اُس میں رسم ادا کرنے کی جگہ ہوگی۔

الٰہی نظام کے احیاء کا اصل ہدف:

 یہ الٰہی اور غیر الٰہی نظام میں فرق نہیں ہے! الٰہی نظام کا اصل ہدف و نصب العین سعادت نہیں ہدایت ہے چونکہ بشر سعادت سے پہلے ہدایت کا محتاج ہے،اس کو ہدایت چاہیے جبکہ ہدایت سے مراد یہ نہیں کہ روزمرہ زندگی کے اندر رہنمائی ہو کہ تمہیں پڑھنا کیسے چاہیے؟ تمہیں کام کیسے کرنا چاہیے؟ تمہیں جاب کیسے ملے !جس کو ہم گائیڈینس کہتے ہیں، یہ ہدایت نہیں ہے۔ ہدایت سے مراد انسان کو مقصد ِ خلقت تک پہنچانا، جس مقصد کے لئے انسان پیدا ہوا ہے وہ مقصد انسان کو سمجھانا، الٰہی حکومت کی اصل ذمہ داری یہ ہدایت ہے۔

 سعادت ،ہدایت دینے کا ایک ذریعہ و وسیلہ ہے چونکہ خداوند تبارک وتعالیٰ نے سعادت کے سارے وسائل پیدا کئے ہیں تاکہ انسان ہدایت پاسکے چونکہ مقصد ہدایت ہے لیکن جب انقلاب کامیاب ہوجاتا ہے اورالٰہی نظام قائم ہوجاتا ہے تویہاں سے ایک نیا مرحلہ شروع ہوتا ہے، یہاں اس کی مشکلات اور شروع ہوجاتی ہیں،اگرچہ طاغوت ختم ہو گیا اوراب الٰہی نظام قائم ہوا لیکن اب طاغوت سے خطرناک تر مشکلات اس نظام کے مقابلے میں ہیں، پہلے مقابلے میں طاغوت تھا جس کو تحریک اور استقامت کے ذریعے اور مبارزے وقیام کے ذریعے اس کو راستے سے ہٹایا گیا، اُسے زوال پذیر کیا گیا وہ بھی ایک مشکل مرحلہ تھا ،اس کے لئے شہادتیں ہوئیں، خون دینا پڑا، قربانیاں دینا پڑیں طاغوت ہٹانا دشوار کام ہے، طاغوت ہٹ گیا اوراب اس کی جگہ پر الٰہی نظام قائم ہوگیا۔

انقلاب و اسلام کے بڑے دشمن:

پہلے جن کے ہاتھ میں ملک و مملکت تھا، اختیار تھا، بیت المال تھا،ان کے خلاف اعتراض تھا اب کسی پر اعتراض نہیں رہا چونکہ طاغوت ہٹ گیا اب آپ کے پاس ہی سب کچھ ہے ،انقلاب کا مشکل مرحلہ یہاں سے شروع ہوتا ہے اوریہ زیادہ مشکل ہے،چونکہ انقلاب جب تحریک و نہضت کے مرحلے میں ہوتا ہے، استقامت کے مرحلے میں یہاں پر غیر انقلابی افراد تحریک کے اندر شامل ہوجاتے ہیں،غیر انقلابی افراد لبادۂ انقلاب اوڑھ کر، انقلابی حلیہ بنا کر انقلابی تحریک کا حصہ بن جاتے ہیں چونکہ انہیں تحریک کی کامیابی کی علامتیں نظر آتی ہیں۔

 جس طرح رسول اللہ  ۖ کے انقلاب میں کچھ ایسے غیر انقلابی عناصر فتح مکہ کے بعد شامل ہوئے جو کسی چیز پر ایمان نہیں لائے تھے ، امیرالمومنین ـ کے بقول کہ یہ مسلمان درحقیقت مستسلم تھے نہ کہ مسلم ہوں! مستسلم وہ ہیںجنہوں نے اسلام کا فقط اظہار کیا ہے،اسلام کو قبول نہیں کیا یعنی جو اسلام کے فقط قائل ہیں، اسلام کی طرف مائل نہیں! انہوں نے صرف یہ کہہ دیا کہ ہم بھی مسلمان ہیں، قائل یعنی جو کہہ رہاہو، انہوں نے کہا کہ ہم بھی مسلمان ہیں اور اسلام میںشامل ہوگئے جبکہ یہ لوگ رسول اللہ  ۖ کی نہضت میں سب سے بڑا خطرہ بنے۔ کامیابی سے پہلے ابولہب و ابوجہل اسلام کے مقابلے میں طاغوت تھے لیکن انہی میں سے کچھ نے فتح مکہ کے بعد انقلاب کے اندر شمولیت اختیار کرلی، جب دیکھا کہ حالات نے پلٹا کھایا ہے، اب یہ تحریک ختم ہوتی نظر نہیں آتی ابوسفیان اس گروہ کا سرخیل ہے، اس نے اپنے پورے گروہ سمیت کہا کہ ہم بھی مسلمان ہیں ہم بھی آپ کا حصہ ہیں اور شامل ہوگئے۔

یہ طبقہ انقلاب کے لئے خطرناک ہے جو انقلاب کی تحریک کے اندر گھس جائے اور اپنے آپ کو انقلابی ظاہر کرے اور انقلابی بھی اس کو قبول کرلیں البتہ رسول اللہ  ۖ نے اُنہیں یہ کہا کہ یہ مؤلفة القلوب ہیں، یہ روٹی کپڑا اور مکان والے مسلمان ہیں ،یہ توحیدی مسلمان نہیں ہیں لہٰذا رسول اللہ  ۖ نے اُنہیں نماز سکھانے کے بجائے اُن کو مالِ غنیمت دیا چونکہ وہ آئے ہی اسی لئے تھے۔ اُس وقت حکمت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ ان کے ساتھ یہی کیا جائے، ان سے انتقام نہ لیا جائے بلکہ تالیف ِقلوب کے لئے انہیں مالِ غنیمت دیا اور اس پر یہ قانع ہوگئے، بعد میں اسی گروہ نے اسلام اور نہضت رسول اللہ  ۖ کو کاری ضربیں لگائیں ۔

 انقلاب کے بعد ممکنہ خطرات :

انقلاب کو ایک اور خطرہ جو ہر انقلاب کی کمین گاہ میں بیٹھا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اب جبکہ حکومت قائم ہوگئی، انقلاب قائم ہوگیا نظامِ الٰہی آگیا ہے اب انقلابی عمل متوقف ہوجائے، رُک جائے اور انقلاب کی جگہ پر ایک آرام، پرسکون ماحول قائم کیا جائے، اب تحریک وحرکت ختم ہوجائے، مبارزہ و استقامت ختم ہوجائے چونکہ اب جو چیز ہاتھ آئی ہے اس کو آباد کرنا ہے۔ زمین ہاتھ آگئی، مملکت ہاتھ آگئی، ملک ہاتھ آگیا اب اس کو آباد کرنا ہے،اس کی مشکلات کو حل کرنا ہے، مشکلات پر غلبہ پانا ہے چونکہ انقلاب کی وجہ سے فراوان مشکلات پیدا ہوتی ہیں چونکہ ہر چیز زیرو زبر ہوجاتی ہے ایک چلتا ہوا سسٹم ختم ہوجاتا ہے اور اس کی جگہ پر نئے سرے سے نظام بنانے کی ضرورت ہے۔

کچھ کام ایسے ہیں جن کوپرسکون ماحول کی ضرورت ہے۔ انقلابی ماحول پرسکون نہیں ہوتا ،انقلابی ماحول ہلچل کا ماحول ہے، جوش و جذبے کا ماحول ہے، دگرگونی و تغیر کا ماحول ہے چونکہ مسلسل تبدیلی کا نام انقلاب ہے لیکن کچھ کام ایسے ہیں جن کے لئے ثبات، سکون اور آرام ماحول کی ضرورت ہے،پرسکون ماحول کے لئے انقلابی عمل کو ٹھنڈا کرتے ہیں چونکہ انقلابیت کے اندر کچھ کام نہیں ہوسکتے جیسے اگر آپ کے ہاں انقلابی عمل ہے، ہلچل کا ماحول ہے تو اس طرح آپ کا بیرونی دُنیا سے ارتباط کم رہے گا چونکہ باہر کی دُنیا انقلابی نہیں ہے، باہرکی دُنیا طاغوتی ہے اور طاغوت کبھی بھی انقلاب کو پسند نہیں کرتا اور ہمیں طاغوتوں سے رابطے رکھنے ہیں۔

طاغوت اس وقت ہمیں قبول کرے گا جب ہماری انقلابیت میں کمی آجائے ،یہ ایک منطق ہے کہ ہماری حرکت و انقلابیت میں کمی آئے تاکہ طاغوت ہمارے ساتھ چل سکے اور ہم طاغوت کے ساتھ چل سکیں۔جب ساری دُنیا کے ساتھ ہمیں چلنا ہے تو دُنیا کا نظام اور آپ کے نظام میں فرق ہے۔ آپ انقلابی ہیں اوروہ انقلابی نہیں ہیں۔ ایک انقلابی غیر انقلابی کے ساتھ کیسے چل سکتا ہے! یا غیر انقلابی، انقلابی ہوجائے یا پھر انقلابی غیر انقلابی ہوجائے جبکہ غیر انقلابی کا انقلابی ہونا مشکل کام ہے،یہ بعید ہے کہ وہ انقلابی ہوجائے۔ یہاں پر کچھ لوگ یہ تھیوری و نظریہ پیش کرتے ہیں کہ انقلاب کو دوسری دُنیا کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لئے اس کے انقلابی عمل کو ٹھنڈا کیا جائے، کم کیا جائے انقلابیت کا سوئچ آف یا ڈِم کیا جائے۔

 نفوذ ،انقلاب کی ایک بڑی مشکل:

 انقلابِ اسلامی جب کامیاب ہوا، اس کے ساتھ یہ سب کچھ ہوا۔ شہید مطہری کوانقلاب کے بعد ،ایک سال مہلت ملی ، شاید ایک سال سے بھی کم اور پھر وہ عزیزشہید ہوگئے ، وہ بزرگوار ان اُمور کی طرف متوجہ تھے لہٰذا انہوں نے ان تمام چیزوں کی نشاندہی کی و ایک بہت اہم اور بنیادی بحث شروع کی، اگرچہ وہ ابتدائی سطح کی بحث ہے اس کو تکمیل کی ضرورت ہے جبکہ کسی حد تک ہم نے طالبعلمانہ کوشش کی۔ وہ نکات جس کا شہید نے آغاز کیا تھا وہ بحث مکمل ہوجائے اور وہ ہے ''آفاتِ نہضت ِ اسلامی'' یا تحریک کی آفات کیا ہیں؟ تحریک کی آفات میں شہید مطہری  نے بہت ساری اہم آفات ذکر کی ہیں، اُن میں سے ایک اہم ترین آفت جو ذکر کی ہے بعنوان '' نہضت کے اندر نفوذ'' یعنی جب نفوذی لوگ نہضت و تحریک کے اندر شامل ہوجائیں۔ نفوذی اُن لوگوں کو کہتے ہیں جو کسی ادارے یا کسی سلسلے کے اندر اُس کا رُخ موڑنے کے لئے گھس جائیں، کسی بھی لبادے میں چلے جاتے ہیں ،جاسوس کے طور پر، حامی کے طور پر، انقلابی کے طور پر کسی بھی طریقے سے گھس جاتے ہیں۔

 اس وقت اسرائیل کے نفوذی، حزب اللہ میں گھسے ہوئے ہیں ۔ حزب اللہ کی جتنی بڑی بڑی شخصیات جو شہید ہوئی ہیں یہ اُن نفوذیوں کی وجہ سے شہید ہوئے ہیں، ان نفوذیوں نے سارا کام کروایا اور اسی طرح حزب اللہ جب اسرائیل کے خلاف کوئی کامیاب کارروائی کرتی ہے تو نفوذیوں کے ذریعے کرتی ہے، نفوذی اُن لوگوں کو کہتے ہیں جو ہوتے ایک گروہ کے ہیں لیکن گھسے ہوئے دوسرے گروہ کے اندر ہیں، وہاں بیٹھ کر اپنے گروہ کیلئے کام کررہے ہوتے ہیں لیکن جس گروہ میں گھس جاتے ہیں اُن کو معلوم نہیں ہونے دیتے کہ ہم کس گروہ سے ہیں


source : abna24
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اھداف عزاداری امام حسین علیه السلام
قمر بنی ہاشم حضرت ابوالفضل العباس (علیہ السلام)
قوم لوط (ع) كا اخلاق
عید مسلمان کی خوشی مگر شیطان کے غم کا دن ہے
علامہ اقبال کا حضرت فاطمة الزہراء (س) کی بارگاہ ...
جرمنی کے ایک شخص نے شیراز میں اسلام قبول کر لیا
يہوديت و نصرانيت ميں حکم حجاب
عاشورائے حسینی کا فاتح کون؟
تقویٰ اور رزق کا تعلق
مومن کی بیداری اور ہوشیاری

 
user comment