قرآن کریم کی آیات اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں ہرچیز کا ذکر موجود ہے اور خداوند عالم نے اس میں ہر چیز کو بیان کر دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے ” وَ نَزَّلْنا عَلَیْکَ الْکِتابَ تِبْیاناً لِکُلِّ شَیْءٍ“ ۔ اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے(۱) ۔ ”ما فَرَّطْنا فِی الْکِتابِ مِنْ شَیْءٍ“ ہم نے کتاب میں کسی شے کے بیان میں کوئی کمی نہیں کی ہے (۲) ۔ نہج البلاغہ میں بھی ذکر ہوا ہے : ”وفی القرآن نباٴ ما قبلکم وخبر ما بعدکم و حکم ما بینکم “ ۔ کتاب خدا میں گذشتہ خبریں اور آئندہ کی خبریں اور ضرورت کے احکام موجود ہیں (۳) ۔
اہل سنت نے بھی مشہور صحابی ابن مسعود سے نقل کیا ہے : ”ان فیہ علم الاولین و الآخرین “ ۔ قرآن کریم میں اولین اور آخرین کا علم ہے (۴) ۔
اس کے باوجود ہم مختلف جزئی احکام کو دیکھتے ہیں جو قرآن کریم میں نہیں ہں مثلا نماز کی رکعتوں کی تعداد ،زکات کی جنس اور نصاب، بہت سے مناسک حج، صفا و مروہ میں سعی کی تعداد ، طواف کی تعداد اور حدود و دیات ،قضاوت، معاملات کے شرایط اورائمہ (علیہم السلام) کے نام وغیرہ۔
بعض اہل سنت یا وہابی ان مسائل کی طرف توجہ کئے بغیر جو قرآن کریم میں بیان نہیں ہوئے ہیں ،اس مسئلہ کو پیش کرتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) کا نام قرآن کریم میں کیوں بیان نہیں ہوا ؟ اور اس طرح وہ کوشش کرتے ہیں کہ اس مسئلہ سے شیعوں کے ولایت کے دعوی کے خلاف استفادہ کریں ، اس مقالہ میں ہماری کوشش ہے کہ ہم اس دعوے کا جواب دیں اور ان مسائل کی وضاحت کریں ۔
source : wilayat.in