قدمہ-
بچہ جب جوانی اور نو جوانی کے راستہ میں قدم رکھتا ہے اس میں عاقلانہ تجزیہ و تحلیل اور سمجھنے و برداشت کرنے کی سوچ اور فکر پیدا ہوتی ہے وہ بھی اس طرح کے پھر اپنے بزرگوں کی کسی بات کو بھی دلیل کے بغیر قبول نہیں کرتا ،ماں اپنے بچوں کی سر نوشت اور مستقبل کے متعلق بہت زیادہ پریشان ہیں ،کہ کہیں انکا بچہ منحرف اور کجروی کا شکار نہ ہو جاے ٴ بعض ماں باپ جوانوں کے سوالوں کے بارے میں ان کی شخصیت کا احترام ملحوظ رکھتے ہوے ٴ منطقی اور عاقلانہ برتا و ٴ کرنے کے بجاے ٴ کبھی کبھی برا سلوک کرتے ہیں اور انکو خاموش کر دیتے ہیں ،بڑوں کی طرف سے اس طرح کا سلوک جو عام طور پر شفقت اور ہمدردی کی بناء پر ہوتا ہے جوانوں کے لئے اپنی معرفت اور تلاش کی راہ میں مزید مشکلات کا باعث ہو جاتا ہے وہ احساس کرتا ہے کہ والدین اس کو سمجھ نہیں سکتے یہ صورت حال جوانوں اور ان کے گھرانوں کے لئے مثبت رفتار اور برتاو ٴ کے لئے مضر ہے ․
حالانکہ علم ”روان شناسی “ میں ثابت ہو گیا ہے کہ تشویش رکھنا ،جستجو کرنے کی حس اور رفتار و کردار عقلوں اور نظریات میں غورو فکر کرنا بھی رشد و نمو کی تبدیلیوں میں سے ہی ہے جو نو جوانوں کی معرفت اور عقائد میں فطری طور پر وجود میں آتی ہے اور یہ بات والد ین یا ساتھ میں رہنے والے دیگر لوگوںکی پریشانیوں کا باعث نہیں ہونی چاہئے ،تاکہ تاکہ جوانوں کی ہویت (کہ وہ کیا ہیں )فکر اور عقائد ،تشکیل پانے کے لئے زمینہ فراہم ہو سکے اس لئے کہ یہ دور نہایت حساس ،ہیجان انگیز ،عجیب اور خوشنما ،جسمانی، فکری، باطنی و روحانی تبدیلیوں کا دور ہے اور وہ بھی گذشتہ اور مزید نئے تجربوں کے ساتھ ، بہ موقع دوسروں سے جدا ہونے کا مرحلہ نیز مستقل مزاجی اور اپنی ہویت اور حقیقت کی تلاش کا مرحلہ ہے ․
لہٰذا ان لوگوں کے لئے جو اپنے آپ کو پانا (یعنی اپنی حقیقت تک پہچنا )چاہتے ہیں اور اپنے عقائد کو تقلیدی حالت سے اصلی عقیدوں میں تبدیل کرنے کے خواہش مند ہیں ․
زندگی کے مہم مسائل میں شک کرنا وسوسہ ہونا ،تنقید کرنا کوئی عجیب بات نہیں ہے بلکہ رشد و نمو کے دوران معمولی و عادی تبدیلی ہے
قابل توجہ نکات (ضروری باتیں )
رشد و نمو کے اس مرحلہ میں درج ذیل مسائل پر توجہ دینا بہت ہی مناسب اور بہتر ہے :
نوجوانی کا دور ․ بچپنہ، کمسنی اور بڑھاپے کا درمےانی دور ہے جس میں نہ وہ بچہ رہتا ہے کہ بڑوں کی ہر بات کو بے چون و چرا مان لے اور نہ ہی سن رسیدہ ہے جو اکثر تبدیلیوں کو اپنی گذشتہ معلومات کے زخیرہ اور عاقلانہ تجزیہ و تحلیل کرکےتحقیق اور چھان بین کر سکے وہ نوجون ہے ․
علم روان شناسی کے ماہرین (سائکلوجسٹ)کے کہنے کے مطابق نوجون شناخت و معرفت کے لحاظ سے اخذ کرنے والے مسائل جیسے مذہب ،اخلاقاور مختلف زندگیوکے طور طریقو ں کو چھان بین کرنے کے بعد منظم طریقے سے اچھے برے کی تشخیص دے سکتا ہے اس کے ذہن میں نظم و ترتیب کا لحاظ رکھتے ہوئے استدلال کیا جائے جس کے ذریعہ ایک مسئلہ کو حل کرنے کے لئے مختلف راہ حل میں مقایسہ و موازنہ کرنے کا امکان اور مہترین جواب کو منتخب کرنے کا زمینہ فراہم ہو جائے فکر کے مضمون میں وسعت اور گہرائی آجائے ․لیکن تمام فکر ی پیشرفت اور تجزیہ و تحلیل کی تشکیل اور فیصلہ کی صلاحیت کے باوجود فکری قدرت اور مضبوطی کے لحاظ سے ابھی بھی بچپن اور بزرگی کے درمیانی مرحلہ سے گذر رہا ہے اس کا فہم و ادراک اور فیصلہ کی طاقت اس قدر وسیع اور عمیق نہیں ہوتی ہے جو نرم اور مائل ہونے کو قبولے کھلی ہوئی ،وسیع النظر اور دور جدید راہوں سے سازگار اور مناسب ہو جائے دوسرے لفظو ں میں رشد یافتہ نوجوان میں اس قدر پختگی نہیں ہوتی کہ اپنے استدلالوں کو ذاتی حیثیت دے سکے اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لئے اپنے ذاتی تجربات اور اپنی ذاتی روان شناسی (سائکلوجی )کے نظام (عقل و خرد ،تحریک اچھائیاں ،معاشرے ،ثقافت اور تاریخ میں حاصل کردہ معلومات )سے مدد حاصل کر کے لہٰذا زندگی کے بعض اصولوں میں شک و تردید کرنا ان کی مزید اور عمیق شناخت و معرفت کا مقدمہ ہے اور نگران و پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ․
نوجوانی اپنی ہویت اور پہچان کا دور
جوانی کی شروعات اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اپنی پہچان کا مرحلہ ہے ․
اس زمانے میں اپنی پہچان کہ( میں کون ہوں )کے متعلق بنیادی سوال پیش آتے ہیں ان سوالوں کو حل ہونا چاہئے شخص (بذات ) خود ایسی بامعنی شخصیت بنائے کہ گذشتہ تعلقات و روابط کے علاوہ مستقبل کو بھی حیثیت دے
اریکسن کہتا ہے :شخس کی پہچان (ہویت ) کی تشکیل کو قبول کرنا کاملاًدشوار اور اضطراب آور کام ہے جس میں میں نوجوان کو مختلف آئڈیا لوجی (نظریات) اور نقوش میں سے مناسب ترین نقوش اور نظریات کو انتخاب کرنے کا تجربہ اور آزمائش کرنا چاہئے جو لوگ اپنی قوی ہویت اور پہچان کے احساس کے ساتھ اس مرحلہ سے نکلتے ہیں وہ لوگ اپنے اوپر اطمینان اور خود اعتمادی کی دولت سے حاصل شدہ ایک وسیع احساس کے ساتھ آنے والی بڑی عمر کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہین اس عمر میں سماجی گروپ کہ نوجوان ان ہی کے جیسا ہونے کی کوشش کرتا ہے (یعنی ان کی تقلید کرتا ہے ) بہت موٴثر ہوتے ہیں یہ گروپ شخص کی مطلوبہ ہویت اور شناخت کے نشونما میں اثر انداز ہو سکتے ہیں ،لہٰذا اس بناء پر دوست اور دینی و مذہبی نمونوں کو انتخاب یا غیر دینی و غیر مذہبی اوقر ہر قوم و ملت کا انتخاب نا آگاہ طور پر اثر ڈالتا ہے ․
جیسے وہ جوانان اور نوجوان جنکی پیشرفت ترقی کرنے کے لئے زمینہ فراہم ہوتا ہے اور خود شناسی اور خدا شناسی کی راہ میں قرار پاتا ہے ویسے زندگی کے زینوں کو ااسانی اور جوانی کی مستی میں گزار دیتے ہیں اور اس کام میں انہیں سوچنے اور دیگر ہمدرد مہربان، شفیق اور آگاہ لوگوں کے مشوروں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اپنا راستہ تلاش کرنے کے دوران گر نہ پائیں ․
جوان کیسے اپنی مدد کر سکتا ہے ؟
اپنے کو پانے اور حقیقت کی راہ پر گامزن ہونے کے لئے نوجوان کے وجود میں بنیادی عقائد کے راسخ ہونے کے لئے اور تربیت کے لحاظ سے قانون پر عمل کرنے والوں میں شمار ہونے کے لئے درج ذیل طریقوں پر عمل کرتا ہے
تعلیم حاصل کرنا : جوان اور اک نوجوان اک اصلی وظیفہ کی صورت میں علم حاصل کرتا ہے، تحصیل علم اور علم میں اضافہ قیمتی ترین گوہریعنی درّبے بہا جس کے حاصل کرنے کے بعد ہدایت کی راہ میں استفادہ کیا جاسکتا ہے ،زندگی میں طاقت کا بہترین ذریعہ علم ہے ․
لہٰذا اسی وجہ سےدینی کتابوں کا پڑھنا عقائد کی راہ میں علم میں اضافہ کرنے کا بہترین راستہ ہے علم و دانائی سے بے بہرہ شخص کبھی قادر نہیں ہو سکتا کہ اپنے متعلق احکام الٰہی کو سمجھے اور صحیح طریقے سے ان پر عمل کرے اور نتیجے میں شاید زندگی کا مطلب سمجھ نہ سکے ․
فکر کرنا : علم حاصل کرنا یعنی دوسروں کی فکر سے استفادہ کرنا ہے جو کتاب وغیرہ کے صفحات پر تحریر ہے لیکن زندگی کے مراحل اور مختلف موقعوں پر ذاتی فکر یہی ہے جو راستہ اور راہ حل دکھا سکتی ہے ،دوسرے لفظوں میں اگر چہ تعلیم حاصل کرنے سے انسان کے سوچنے کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے یعنی بالندگی آتی ہے لیکن ہر فرصت اور نئے موقعہ اور موڑ پر سوچنا اور فکر کرنا ہی مناسب راہنما ہے جس کے ذریعہ حادثات اور مشکلات کا بہتر طور پر تجزیہ تحلیل کر سکتا ہے اور مناسب طریقے سے ان کا سامنا کر سکتا ہے ․
ایمان : ایان سے مراد خالق کائنات کے متعلق قلبی عقیدہ اور اسکے دستورات اور احکام پر دل سے عقیدہ اور پر سر تسلیم خم کر دینا ہے جس قدر ایمان قوی ہوگا اسی قدر زیادہ پہلوئں میں اس کا اظہار ہوگا اور انسان کے وجود میں تجلی پائے گا لہٰزا اگر کوئی شخص اپنی زندگی کے امور میںخداوند عالم کو مد نظر رکھے گا اسکا اپنے اوپر اعتماد بڑھ جائے گا اور ایک قوی طاقت حاصل ہوگی جوہمیشہ اسکی پشت پناہ ہوگی ․
مثبت کام : اچھے کام انجام دینا ہمیشہ شخص کی موقعیت کی تقویت اور آسانی کا سبب ہوتاہے وہ بھی اسی طرح کے قرآن مجید میں نک اعمال کو رشد وکمال اور موٴمنو ں میں پوشیدہ اتعداد کی شکوفائی کے عنوان سے پہچان کرائی جاتی ہے ․
یہ جاننا بہتر ہے کہ دینی تعلیم کا نیک عمل نیز علم و ایما ن میں بہت زیادہ اثر ہوتا ہے لہٰذا اس بناء پر بہترین عمل یہ ہے کہ ہم اپنے احکام اور دینی وظائف کو انجام دیں اور دوسروں کو نیک کاموں کا شوق دلائیں اور برے کاموں سے بچائیں الٰہی احکام یعنی دینی وظائف پر عمل کرنا جیسے ترقی اور پیشرفت کرنے کے لئے ہمتو ں کو تقویت دیتا ہے اور زندگی میں خدا وند عالم کے وجود کے احساس کا تجربہ کراتا ہے ویسے ہی اصل ایمان نظر اور دینی پائیندی کو بھی بڑھاتا ہے انسان کی ذاتی نظر کو وسعت کرتا ہے اور زندگی کی مہم تبدیلیوں میں توکل اور اعتماد کے ساتھ بہترین اور صحیح صورت کو انتخاب اور مقصد تک پہچنے کا باعث ہوتا ہے ․
لہٰذا اب سب کو ملا کر نتیجہ لیتے ہیں :
ہم سب یہ جان لیں کہ اگر چہ جوانی کاحساس دور فکر و اندیشہ کے جوش میں آنے کا دور ہے لیکن چونکہ اس کے بنیادی ستون ابھی مضبوط نہیں ہوتے ہیں اس لئے بے شمار اعتراضات کی آماجگاہ قرار پاتا ہے اور اگر ہم مدد کریں کہ جوان مزید معلومات حاصل کرنے ،سوچنے اور نیک کام انجام دینے میں مصروف ہو جائے نیز اپنے کاموں میں خدا کو یاد رکھے تو دینی ، عقلی،اخلاقی، سماجی وغیرہ ترقی کی راہوں کو کامیابی سے طے کرتے ہوئے اپنے مقاصد کو حاصل کر سکتا ہے
source : alhassanain