اردو
Tuesday 5th of November 2024
0
نفر 0

ایام شہادت حضرت فاطمہ زہرہ (سلام الله علیہا ) کی مناسبت سے

وہ پر آشوب دور جس میں ظلم و تشدد کا دور دورہ تھا جس میں انسانیت کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا جس زمانہ کے ضمیر فروش بے حیا انسان کے لبادہ میں حیوان صفت افراد انسان کو زندہ در گور کر کے فخر و مباہات کیا کرتے تھے ج
ایام شہادت حضرت فاطمہ زہرہ (سلام الله علیہا ) کی مناسبت سے

 وہ پر آشوب دور جس میں ظلم و تشدد کا دور دورہ تھا جس میں انسانیت کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا جس زمانہ کے ضمیر فروش بے حیا انسان کے لبادہ میں حیوان صفت افراد انسان کو زندہ در گور کر کے فخر و مباہات کیا کرتے تھے جو عورت ذات کو ننگ و عار سمجھتے تھے یہ وہ تشدد آمیز ماحول تھا جس میں ہر سمت ظلم و ستم کی تاریکی چھائی ہوئی تھی اسی تاریکی کو سپیدی سحر بخشنے کے لئے افق رسالت پر خورشید عصمت طلوع ہوا جس کی کرنوں نے نگاہ عالم کو خیرہ کر دیا اسی منجلاب میں ایک گلاب کھلا جس کی خوشبو نے مشام عالم کو معطر کر دیا ایسے ماحول میں دختر رحمة العالمین نے تشریف لا کر اس جاہل معاشرہ کو یہ سمجھا دیا کہ ایک لڑکی باپ کے لئے کبھی بھی سبب زحمت نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ رحمت ہوتی ہے لیکن وہ حقیقت فراموش اس حقیقت کو بھلا بیٹھے تھے کہ جو وجہ خلقت انسان ہے وہ بھی ایک عورت ہے فاطمہ زہرا (س) دنیا میں کیا آئیں معاشرہ عرب میں ایک انقلاب برپا ہو گیا اگر اس بات کی ان جملوں کے ذریعے وضاحت کی جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ گنگا الٹی بہنے لگی آفتاب مغرب سے طلوع ہونے لگا عرش فرش اور فرش و عرش سے تبدیل ہو گئے چونکہ ایسے پر آشوب ماحول میں امن و امان ہو جانا ایک نا ممکن امر ہے جو معاشرہ بیٹی کا وجود اپنے اوپر بار سمجھتا تھا وہ معاشرہ آج بیٹی کو سر کا تاج شمار کرنے لگا جو سماج کل تک بیٹی کو منجلاب گرا دانتا تھا وہ سماج آج بیٹی کو گلاب سمجھنے لگا گویا کہ کل انسان تاریکی میں تھا فاطمہ[س] کی آمد نے اس کی تاریکی کو تنویر سے بدل دیا اور زیادہ وضاحت کے لئے اس طرح تعبیر کیا جائے کہ فاطمہ زھرا (س) باغ رسالت کا وہ تنہا ترین پھول ہے جس کی نظیر نا ممکن ہے پروردگار نے مردوں کی ہدایت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کو روئے زمین پر بھیجا نبوت کے بعد سلسلہ امامت جاری کیا لیکن فاطمہ زہرا (س) عالم نسواں کی تنہا ترین سردار ہیں شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔

اکلوتی فاطمہ (س) ہیں قسم لا شریک کی

قرآن مصطفی میں اضافہ نہ کیجئے

(نجمی فیض آبادی )

یعنی جس طرح خدا کا کوئی ثانی نہیں اسی طرح فاطمہ بھی بے مثل ہیں جس طرح قرآن پاک میں اضافہ ممکن نہیں اسی طرح دختر رسول بھی یک و تنہا ہے شاعر نے آواز دی ……

آپ ہی سورہ کوثر کی فقط ہیں مصداق

بیٹیاں چاہے بناتی رہے تاریخ ہزار

( غافر چھولسی )

تاریخ فاطمہ(س) کے سوا تین بیٹیاں کیا اگر ہزار بیٹیاں بھی بتاتی رہے تو سورہ کوثر پھر بھی فاطمہ (س) کی توصیف کرتا رہیگا یہ سورہ ایسا ہے کہ جن حضرات کو اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز تھا وہ بھی اس مختصر سورہ کے آگے منہ کی کھاتے نظر آئے یہ ان کا ذوق شاعری تھا کہ ایک مصرعہ کا اور اضافہ کر دیا ……

انا اعطیناک الکوثر فصل لربک وانحر

ان شانئک ھو الابتر ما ھذا کلام البشر

یہ کلام کسی بشر کا نہیں ہے بلکہ اس سے تو خا لق بشر کی جھلک آرہی ہے چونکہ عرب کے بدئوں کو عورت کی قدر و منزلت معلوم نہیں تھی اسی لا علمی کی بنیاد پر عورت کو ہر وراثت سے محروم کر دیا گیا اور جعلی حدیث لا کر خرافاتیاں شروع کر دیں کہ رسول اکرم (س) کا فرمان ہے : نحن معاشر الانبیاء لا نورث ولا نورث

ہم گروہ انبیاء نہ تو کسی کو وارث بناتے ہیں نہ کسی کے وارث بنتے ہیں لیکن دختر رسول نے باغ فدک کے مسئلہ میں قیام کر کے یہ سمجھا دیا کہ اسلام نے عورت کو بھی وراثت سے محروم نہیں رکھا بلکہ اسلام میں عورت کا حق ہے اور ایک مقام ہے چونکہ فاطمہ زہرا(س)نے رسول اکرم(س)کے دہن مبارک سے یہ فرماتے ہوئے سنا تھا ۔ ۔۔

یا فاطمہ ان اللہ تعالیٰ امر نی ان ادفع الیک فدک … اے ( میری بیٹی ) فاطمہ مجھے پروردگار عالم نے حکم دیا ہے کہ میں باغ فدک تمہیں بخش دوں ۔

اب دنیا چاہے وراثت کے سلسلہ میں چاہے کتنی ہی حدیثیں گڑھتی رہے ۔ فاطمہ زہرا (س) رسول (س) سے اس قدر محبت و شفقت سے پیش آتی تھیں کہ رسول (س) فرماتے نظر آئے : فاطمة ام ابیھا : فاطمہ اپنے باپ کی ماں ہے رسول بے جب فاطمہ میں ماں والی شفقت دیکھی توماں کہہ دیا یا شاید اسی وجہ سے رسول (س) فاطمہ کی تعظیم کیا کرتے تھے اب اعتراض کی گنجائش باقی نہیں رہتی چونکہ ماں کی تعظیم واجب ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ یہاں ایک سوال سر اٹھائے کہ رسول نے فاطمہ کو ماں جو کہا ہے وہ مجاز کہا ہے حقیقت میں ماں تو نہیں بن گئیں ؟ بیٹی ہی رہینگی اور بیٹی پر باپ کا احترام واجب ہوتا ہے نہ کہ باپ پر بیٹی کا اور یہاں منظر بالکل بر عکس نظر آرہا ہے اس جگہ پر آپ کا اعتراض بالکل صحیح ہے چونکہ منظر واقعاً بر عکس ہے تو سن لیجئے نہ تو رسول فاطمہ کی عزت بیٹی کی حیثیت سے کرتے تھے نہ ماں کہنے کی وجہ سے احترام کرتے تھے بلکہ رسالت تعظیم عصمت کے لئے کھڑی ہوتی تھی رسول اسلام فاطمہ(س)کی توصیف میں گویا ہیں ( کتاب بشارة المصطفیٰ ) اب کلام رسول کی توجیہہ کسی بھی طرح کر لیجئے یا تو کہئے بیٹی تھیں اسی وجہ سے عزیز تھیں یا بمطابق قول رسول ماں کی حیثیت سے عزیز تھیں دوسری جگہ ارشاد فرمایا : فاطمہ کا غم و غصہ خدا کا غیظ و غضب ہے اور فاطمہ کی خوشی خوشنودی خدا ہے ( کتاب کنز العمال )

فاطمہ زہرا بحیثیت زوجہ :

فاطمہ زہرا (س) بیاہ کر علی مرتضیٰ کے بیت الشرف میں تشریف لے گئیں دوسرے روز رسول اکرم بیٹی اور داماد کی خیریت معلوم کرنے گئے ۔ علی (ع) سے سوال کیا یا علی تم نے فاطمہ کو کیسا پایا ؟ علی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ، یا رسول اللہ (ص) میں نے فاطمہ کو عبادت پروردگار میں بہترین معین و مددگار پایا ( کتاب بحار الانوار ج٤٣ )

گویا علی یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ زوجہ قابل تعریف وہی ہے جو اطاعت شوہر کے ساتھ ساتھ مطیع پروردگار بھی ہو شاعر نے اس بات کو ایسے نظم کیا ۔

حسن سیرت کے لئے خوبی سیرت ہے ضرور 

گل و ہی گل ہے جو خوشبو بھی دے رنگت کے سوا

چونکہ حسن دائمی نہیں ہوتا عمل دائمی ہوتا ہے آخرت میں دنیا وی حسن کام آنے والا نہیں بلکہ نیک اعمال ساتھ دینگے ۔ علی سے جواب دریافت کرنے کے بعد رسول (ص) فاطمہ(س)کی طرف متوجہ ہوئے تو عجیب منظر نظر آیا ایک شب کی بیاہی بوسیدہ لباس پہنے بیٹھی ہے رسول نے سوال کیا بیٹی تمہارا لباس عروسی کیا ہوا بوسیدہ لباس کیوں پہن رکھا ہے ؟ فاطمہ(س) نے جواب دیا بابا میں نے آپ کے دہن مبارک سے یہ سنا ہے کہ راہ خدا میں عزیز ترین چیز قربان کرنی چاہئے بابا آج ایک سائل نے دروازہ پر آکر سوال کیا تھا مجھے سب سے زیادہ عزیز وہی لباس تھا بابا میں نے وہ لباس راہ خدا میں دیدیا ۔ فاطمہ(س) نے اپنے شیعوں کو درس دیا کہ خدا کو ہر حال میں یاد رکھنا چاہیئے اگر تمہارے پاس صرف دو لباس ہیں اور ان میں سے ایک زیادہ عزیز ہے تو اس لباس کو راہ خدا میں خیرات کر دو ۔

لاکھوں سلام ہو ہمارا اس شہزادی پر جس کا مہر ایک زرہ (جس کی ارزش پانچ سو درہم تھی ) اور ایک کتان کا بنا ہوا معمولی ترین لباس اور ایک رنگی ہوئی گوسفند کی کھال …… تھا ( وافی کتاب النکاح ) فاطمہ(س) کا یہ معمولی سا مہر خواتین عالم کو درس قناعت دے رہا ہے کہ جتنا بھی ملے اس پر شکر خدا کر کے راضی رہنا چاہئے یہی وجہ تھی کہ رسول اکرم (ص) فرمایا : میری امت کی بہترین خواتین وہ ہیں جن کا مہر کم ہو ( وافی کتاب النکاح )

مصحف ناطق امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرماتے ہیں : کسی خاتون کا مہر زیادہ ہونا باعث فضیلت نہیں قابل مذمت ہے بلکہ مہر کا کم ہونا باعث عزت و شرافت ہے ( وافی کتاب النکاح )

لیکن ہزار حیف امت رسول کو کیا ہوگیا ؟ بیٹی کے گھر والے یہ سوچ کر مہر زیادہ معین کرتے ہیں کہ مہر زیادہ رہے گا تو لڑکا اس کے وزن میں دبا رہے گا اور ہماری لڑکی طلاق سے محفوظ رہے گی اور جب مہر معین پر لڑکے سے معلوم کیا جاتا ہے کہ کیا تم اس مہر پر راضی ہو تو لڑکا یہ سوچ کر جواب اثبات میں سر ہلا دیتا ہے کہ دینا تو ہے ہی نہیں ہاں کرنے میں کیا جاتا ہے ۔

لیکن عزیزو ! مہر واجب الادا ہوتا ہے صرف سر ہلانے سے کام چلنے والا نہیں ہے بلکہ عمل کا جامہ پہنانا واجب و لازم ہے ۔ جس طرح فاطمہ(س) کا مختصر سا مہر تھا اسی طرح جہیز بھی مختصر سا تھا اس زمانہ ( حال حاضر ) کے اعتبار سے تو بہت ہی کم نظر آتا ہے ۔ یہ بات صحیح ہے کہ زمانے کے کچھ تقاضے ہوا کرتے ہیں وقت بھی کچھ اقتضا کرتا ہے لیکن … اساس شریعت اسلام عقل و شعور ہے کسی بھی حال میں عقل سلیم اس بات کے آگے سر تسلیم خم نہیں کرتی کہ اپنے دولت خانہ کو غریب خانہ بنا کر دوسرے کے گھر کو دولت کدہ بنا دیا جائے بلکہ زمانہ اور وقت چاہے کتنے ہی چیختے چلاتے رہیں عقل کا تقاضہ یہ ہے کہ خوش و خرم اپنی حیثیت کے مطابق لڑکی کو جہیز دیا جائے ہمارے معاشرہ میں مثال مشہور ہے پیر صرف اتنے پھیلانے چاہئیں جتنی وسیع چادر ہو اگر وسعت سے زیادہ پیر پھیلائیں گے تو اس کا نتیجہ واضح ہے ۔

فاطمہ ز ھرا (س) بحیثیت مادر :

چونکہ پروردگار عالم کا یہ مصمم ارادہ تھا کہ پیشوائے دین اور خلفائے رسول صدیقہ طاہرہ کی نسل سے ہوں اسی لئے آپ کی سب سے بڑی اور سخت ذمہ داری تربیت اولاد تھی ، تربیت اولادظاہر میں ایک مختصر سا جملہ ہے لیکن اس میں بہت مہم اور وسیع معنی مخفی ہیں ۔ تربیت صرف اسی کا نام نہیں ہے کہ اولاد کے لئے لوازم زندگی اور عیش و آرام فراہم کر دئے جائیں اور بس …… بلکہ یہ لفظ والدین کو ان کے ایک عظیم وظیفہ کا مسئول قرار دیتا ہے ۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے اولاد کا کسی عہدہ پر فائز ہونا بھی تربیت والدین کا مرہون منت ہے فاطمہ اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ انھیں اماموں کی پرورش کرنی ہے ایسے بچوں کی پرورش کرنی ہے کہ اگر اسلام صلح و آشتی سے محفوذظ رہتا ہے تو صلح کریں اگر اسلام کی حفاظت جنگ کے ذریعہ ہو رہی ہے تو جھاد فی سبیل اللہ کے لئے قیام کریں چاہے ظہر سے عصر تک بھرا گھر اجڑ جائے لیکن اسلام پر آنچ نہ آئے اگر اسلام ان کے گھر انہ کے برہنہ سر ہونے سے محفوظ رہتا ہے تو سر کی چادر کو عزیز نہ سمجھیں عزیزو دوستو ! فاطمہ (س) ان کوتاہ فکر خواتین میں سے نہیں تھیں کہ جو گھر کے ماحول کو معمولی شمار کرتی ہیں بلکہ آپ گھر کے ماحول کو بہت بڑا اور حساس گردانتی تھیں آپ کے نزدیک دنیا کی سب سے بڑی درسگاہ آغوش مادر تھی اس کے بعد گھر کا ماحول اور صحن خانہ بچوں کے لئے عظیم مدرسہ تھا ، ایسا نہ ہو ہم خود کو ان کا شیعہ شمار کرتے رہیں لیکن ان کی سیرت سے دور دور تک تعلق نہ ہو ان کے احکام و فرامین پس پشت ڈالدیں۔

پروردگار ہمیں سیرت اہل بیت علیہم السلام پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت فرما ۔

__________________

کتابوں میں حضرت زہرا (علیہا السلام) کی شہادت کی تاریخ

سوال: تین دہائیوں میں حضرت فاطمہ زہرا (علیہ السلام) کا غم منایا جاتا ہے کیا یہ” ایام فاطمیہ“ شیعوں کی سند کی بنیاد پر منائی جاتی ہے یا نہیں ؟ یہ بات جو کہی جاتی ہے کہ” ایام فاطمیہ“، چالیس دن نہیں منایا جاتا ، کس حد تک صحیح ہے ؟” ایام فاطمیہ“ کے شروع ہونے کا معیار کیا ہے ؟ شہادت سے پہلے یا شہادت کے بعد” ایام فاطمیہ“ شروع ہوتے ہیں ؟

جواب: حضرت زہرا (علیہا السلام) کی شہادت کی تاریخ کے متعلق دو روایتیں ہیں ، ایک روایت یہ ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی رحلت کے ۵۷ دن بعد آپ کی شہادت ہوئی ، اس روایت کی بنیاد پرآپ کی شہادت کی تاریخ۳۱ ربیع الاول ہے اور دوسری روایت یہ ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے ۵۹ دن بعد آپ کی شہادت واقع ہوئی ، اس روایت کی بنیاد پر آپ کی شہادت کی تاریخ ۳ جمادی الثانی ہے اور ان پورے ۰۲ دن کو ”ایام فاطمیہ “ کہا جاتا ہے ۔

 

حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کی شہادت کے ایام کو محدود کرنا

سوال: ایام فاطمیہ کے ۰۲ دنوں کو معین فرمائیے اور اسی طرح یہ بھی بتائیے کہ ان ایام میں عقد اور شادی (رخصتی) کی رسومات وغیرہ کو انجام دینا کیسا ہے ؟

جواب: جمادی الاول کے تین روز ۳۱ ، ۴۱ و ۵۱ ، جمادی الثانی کے تین روز۱، ۲ و ۳ ”ایام فاطمیہ“ سے مخصوص ہیں لیکن ان دونوں تاریخوں کے درمیان عقد اور شادی (رخصتی) کی رسومات کو (شرعی موازین کی رعایت کرتے ہوئے) انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

 

سیاہ کپڑے پہننا اور حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے لئے عزاداری قائم کرنا

سوال: اتحاد اور سیاہ لباس کی کراہت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا حضرت زہرا (علیہا السلام) کی شہادت کے ایام میں سیاہ لباس پہننا جائز ہے ؟

 بعض لوگوں کی مخالفت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا ایام فاطمیہ میں عزاداری کی رسومات کو انجام دینا جائز ہے ؟

کیا حضرت زہرا (علیہا السلام) کے گھر کو آگ لگائی گئی تھی ؟ یا بعض لوگوں کے بقول آپ کی شہادت ، افسانہ ہے ؟

جواب: ۱۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ معصومین ((علیہم السلام) کی شہادت کے ایام میں سیاہ لباس پہننا ایک طرح سے شعائر الہی کی تعظیم شمار ہوتا ہے ،لہذا مکروہ نہیں ہے ۔

۲۔ اگر ان رسومات کو اس طرح انجام دیا جائے کہ مسلمانوں کی صفوں میں تفرقہ نہ ہو تو کسی کو بھی ان سے منع نہیں کرنا چاہئے اور جو لوگ ان رسومات کو قائم کرنے سے منع کرتے ہیں ان کا خیال یہ ہے کہ بعض عزادار ، اہل سنت کے خلاف بہت ہی تند نعرے لگاتے ہیں جو موجودہ حالات میں تفرقہ اور اختلاف کا سبب بن جاتے ہیں ۔

۳۔ حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام) فطری موت سے اس دنیا سے نہیں گئیں ۔ اس بات کی دلیلوں کو ہم نے کتاب ”خانہ وحی پر آگ“ میں اہل سنت کی کتابوں سے بیان کی ہیں ۔

 

حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کیلئے سیدة النساءالعالمین کی تعبیر

سوال: ہم لوگ حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام) کو سیدة النساءالعالمین کیوں کہتے ہیں ؟ کیونکہ قرآن کریم میں آپ کا کوئی نام بیان نہیں ہوا ہے ، جبکہ قرآن کریم میں حضرت مریم کو اسی عنوان سے یاد کیا گیا ہے اور ہم ان کو انہی کے زمانہ سے مخصوص سمجھتے ہیں ؟

جواب: یہ تعبیر بعض روایات میں بیان ہوئی ہے اور حقیقت میں سورہ ہل اتی اور سورہ کوثر آپ ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے ،اسی طرح آیہ تطہیر اور آیہ مباہلہ بھی آپ ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔


source : abna24
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ثوبان کی شخصیت کیسی تھی؟ ان کی شخصیت اور روایتوں ...
روزہ اور تربیت انسانی میں اس کا کردار
قرآن میں مخلوقات الٰہی کی قسمیں
حكومت نہج البلاغہ كی روشنی میں
اسلام اور سیاست
آخری پیغام
قرآن کریم میں گفتگو کے طریقے
بدطینت لوگوں سے دوستی مت رکھو
مقاصدِ شریعت
شب يلدا کي تاريخ

 
user comment