رآن اور اہلبیت علیہم السلام کی روایتوں میں بعض عورتوں کو نیکی اور اچھائی کے ساتھ یاد کیا گیا ہے ،اس مقام پر ہم چند آیت وروایت بطور نمونہ پیش کرتے ہیں:
آیات: ۱۔''انّ المسلمین والمسلمات والمومنین و المومنات والقانتین والقانتات والصّادقین والصّادقات والصّابرین والصّابرات والخاشعین والخاشعات والمتصدّقین والمتصدّقات والصّائمین والصّائمات والحافظین فروجهم والحافظات والذّاکرین اللّٰہ کثیراً والذّاکرات اعدّ اللّٰہ لھم مغفرۃ واجراً عظیما'' (۱)
''بے مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صابر مرد اور صابر عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں ،روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی عفت کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں اور خدا کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں۔ اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور عظیم اجر مہیا کررہا ہے'' ۔
اس آیہئ کریمہ میں مرد اور عورت کا تذکرہ ایک دوسرے کے پہلو میں کیا گیا ہے اور خداوند عالم نے ان دونوں کے درمیان ثواب اور جزا کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں رکھا ہے ۔
۲۔'' یا ایّها الناس انّا خلقناکم من ذکر وانثیٰ وجعلناکم شعوباً وقبائل لتعارفوا انّ اکرمکم عنداللّٰه اتقاکم انّ اللّٰه علیم خبیر '' (۲)
''اے انسانو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اورقبیلے قرار دیئے ہیں تا کہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو بے شک تم میں سے خدا کے زندیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے اور اللہ ہر شے کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے'' ۔
خداوند عالم نے اس آیہئ کریمہ میں بھی مرد اور عورت کی جنسیت ،حسب ونسب اور رنگ کی بناء پر انسانوں کی برتری اور بلندی کو معیار قرار نہیں دیا ہے ،بلکہ خداوند عالم کے نزدیک سب سے اہم اور گرانقدر شے تقویٰ اور احکام الٰہی پر عمل کرنا ہے اور یہ آیت قوم پرستی کوباطل سمجھی ہے۔
۳۔''من عمل صالحاً من ذکر اوانثیٰ وهو مومن فلنحیینّه حیاۃ طیّبة ولنجزینّهم اجرهم باحسن ما کانوا یعملون '' (۳)
''جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحبان ایمان ہو ہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے اور انھیں ان اعمال سے بہتر جزا دیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رہے تھے ''۔
خداوند عالم نے اس آیہئ کریمہ میں جزا اور ثواب کو عمل کے بدلہ میں قرار دیا ہے اور مرد وعورت کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔
۴۔'' ومن آیاته اَن خلق لکم من انفسکم ازواجاً لتسکنوا الیها و جعل بینکم مودّۃ ورحمة انّ ذالک لآیات لقوم یتفکرون '' (۴)
''اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمھارا جوڑا تمھیں میں سے پیدا کیا ہے تا کہ تمھیں اس سے سکون حاصل ہو اور پھر تمھارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبان فکر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں''۔
خداوند عالم نے اس آیہئ کریمہ میں عورت کی خلقت کو اپنی نشانیاں قرار دی ہیں اور بتایا ہے کہ عورت ،محبت ،رحمت اور آرام وسکون کا باعث ہوتی ہے ،مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہونے سے کامل ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر دونوں کا وجود ناقص ہے ۔
خداوند عالم آیت کے آخر میں فرماتا ہے یہ مطالب ان افراد کے لئے ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں اور اگر کوئی شخص عاقل اور متعال انسان ہو تو وہ متوجہ ہوگا کہ مرد اور عورت ایک دوسری کی تکمیل کا باعث ہوتے ہیں اور عورت ہی ہے جو خانوادہ کے وجود کو سرگرم اور خوشحال رکھتی ہے اور انسان کے رشد وکمال کا باعث ہوتی ہے ۔
روایات: ۱۔رسول اکرم ؐنے فرمایا:
'' خیر اولادکم البنات ''
'' تمھاری بہترین اولاد لڑکیاں ہیں' '۔
۲۔حضرت امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا:
'' اذا آذاھا لم یقبل اللّٰہ صلاتہ ولا حسنۃ من عملہ وکان اوّل من یرد النّار ''
''اگر مرد اپنی زوجہ کو تکلیف پہونچائے تو خداوند عالم اس کی نماز قبول نہیں کرتا ہے اور اسے اس کے عمل کی جزا نہیں دیتا ہے ،وہ سب سے پہلا شخص ہے جو جہنم میں داخل ہوگا''۔
یہ ہے اسلام میں عورت کی اہمیت اور اس کی منزلت لیکن خواتین بالخصوص علم حاصل کرنے والی لڑکیاں عام طور سے یہ سوال کرتی ہیں کہ مرد کی بہ نسبت عورت کی میراث آدھی کیوں ہے ؟ کیا یہ عدالت کے مطابق ہے اوریہ عورت کے حقوق پرظلم نہیں ہے؟
جواب: اول یہ کہ :ہمیشہ ایسانہیں ہے کہ مرد ، عورت کی میراث سے دو گنا میراث پائے، بلکہ بعض وقت مرد اور عورت دونوں برابر میراث پاتے ہیں منجملہ میت کے ماں باپ دونوں میراث کاچھٹاں حصہ بطورمساوی پاتے ہیں،اسی طرح ماں کے گھرانے والے خواہ عورتیں ہوں یامرددونوں بطور مساوی میراث پاتے ہیں اوربعض وقت عورت پوری میراث پاتی ہے ...
دوسرے یہ کہ: دشمن سے جہادکرنے کے اخراجات مرد پر واجب ہوتے ہیں جب کہ عورت پریہ اخراجات واجب نہیں ہیں ۔
تیسرے یہ کہ: عورت کے اخراجات مرد پر واجب ہیں اگرچہ عورت کی درآمد بہت اچھی اورزیادہ کیوں نہ ہو۔
چوتھے یہ کہ:اولاد کے اخراجات چاہے وہ خوراک ہویالباس وغیرہ ہوں، مرد کے ذمہ ہے ۔
پانچویں یہ کہ:اگر عورت مطالبہ کرے اورچاہے توبچوں کو جو دودھ پلاتی ہے وہ شیربہا (دودھ پلانے کاہدیہ)لے سکتی ہے ۔
چھٹے یہ کہ: ماں باپ اور دوسرے افرادکے اخراجات کہ جس کی وضاحت رسالہئ عملیہ میں کی گئی ہے،مرد کے ذمہ ہے۔
ساتویں یہ کہ:بعض وقت دیہ (شرعی جرمانہ) مرد پر واجب ہے جب کہ عورت پر واجب نہیں ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص سہواً جنایت کا مرتکب ہو، تو اس مقام پر مجرم کے قرابتداروں (بھائی، چچا اور ان کے بیٹوں) کو چاہئے کہ دیہ ادا کریں ۔
آٹھویں یہ کہ:شادی کے اخراجات کے علاوہ شادی کے وقت مرد کو چاہیئے کہ عورت کو مہر بھی ادا کرے ۔
اس بناء پرزیادہ تر مرحلوں میں مردخرچ کرنے والا اور عورت اخراجات لےنے والی ہوتی ہے،اسی وجہ سے اسلام نے مرد کے حصہ کو عورت کی بہ نسبت دو گناقرار دیاہے تاکہ تعادل برقرار رہے اوراگر عورت کی میراث مرد کی میراث سے آدھی ہو تو یہ عین عدالت ہے اور اس مقام پر مساوی ہونا مرد کے حقوق پر ظلم ہے ۔
اسی بناء پر حضرت امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: ماں باپ اور اولاد کے اخراجات مرد پر واجب ہیں۔
حضرت (ع) سے پوچھا گیاکہ عورت کی بہ نسبت مرد کی میراث دو گنا کیوں ہوتی ہے ؟ حضرت (ع) نے فرمایا:اس لئے کہ عاقلہ کا دیہ، زندگی کے اخراجات، جہاد، مہر اور دوسری چیزیں عورت پر واجب نہیں ہیں جب کہ مرد پر واجب ہیں ۔
جب حضرت امام علی رضا (ع) سے پوچھا گیا کہ عورت کی میراث کے آدھی ہونے کی علت کیا ہے، تو آپ نے فرمایا: اس لئے کہ جب عورت شادی کرتی ہے تو اس کاشمار (مال) پانے والی میں ہوتا ہے جب کہ مرد کا شمار خرچ کرنے والوں میں ہوتا ہے، اس کے بعد امام (ع) نے سورہئ نساء آیت نمبر۳۴/ کو دلیل کے طور پر پیش کیا۔
---------------------------------
۱۔سورہ احزاب ،آیت نمبر ۳۵۔
۲۔سورہ حجرات ،آیت نمبر ۱۳۔
۳۔سورہ نحل ،آیت نمبر ۹۷۔
۴۔سورہ روم ،آیت نمبر ۲۱۔
source : alhassanain