حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں:گزشتہ امتیں جب تک باہم اور متحد تھیں پیہم ترقی کی راہ پر گامزن تھیں اور عزت و اقتدار اور زمین کی خلافت و وراثت سے ہمکنار رہیں اور دنیا والوں کی رہبر اور ان پر حاکم رہیں ۔ لیکن جب انھوں نے خدا کو فراموش کر دیا ، مادیات کی طرف مائل ہوئے ، احساس برتری ، قومی و فرقہ ورانہ انتشار و براگندگی کا شکار ہو گئے ، آپس میں لڑنے لگے تو خدا وند عالم نے عزت و بزرگی اور خلافت کا لباس ان کے جسم سے اتار لیا
خیر و برکت اور نعمتوں کی فروانی ان سے سلب کر لی اور ذلت و غلامی میں انھیں مبتلا کر دیا ۔ مثال کے طور پر کسریٰ و قیصر بنی اسرائیل میں تفرقہ کی وجہ سے ان پر مسلط ہو گئے ۔ انھیں اپنا غلام بنا لیا اور آباد زمینوں اور دجلہ و فرات کے سر سبز و شاداب علاقوں سے نکال کر بیابانوں اور بے آب و گیاہ علاقوں میں ڈھکیل دیا اور انھیں ذلت و فقر جہالت و انتشار سے دو چار کر دیا۔
خدا وند عالم نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اسلام جیسی نعمتوں کے ذریعہ اولاد اسماعیل اور تمام مسلمانوں کو متحد اور بھائی بھائی بنا دیا ، انھیں بزرگی عطا فرمائی اپنی عطاؤں کی نہریں ان کی طرف جاری کیں ۔ انھیں نعمت طاقت ، عزت و عظمت عطا فرمائی ایسی پایدار حکومت انھیں نصیب کی کہ کسی کو اسے شکست دینے کی طاقت نہ تھی ۔ افسوس ایسی با شکوہ ہجرت کے بعد مسلمان مختلف گروہوں اور فرقوں میں تقسیم ہو گئے “۱#
نتیجہ میں اسلامی امت نے قوم و قبیلہ پرستی اختیار کر لی اور حضرت علی علیہ السلام کی تعبیر میں ہجرت کے بعد تعرب و عروبت یعنی قومیت اختیار کر لی۔
عصر پیغمبر میں اتحاد و ہمبستگی کے درخشاں آثار مدینہ میں رہنے والے قبائل عرصہ دراز سے ایک دوسرے سے اختلاف و جھگڑا رکھتے تھے اور یہودیوں نے ان کے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر سیاسی غلبہ و تسلط حاصل کر لیا تھا ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ منورہ ہجرت کرنے اور لوگوں کی قیادت و رہبری قبول کرنے کے بعد ان کے درمیان اخوت و برادری کا معاہدہ قائم کیا ۔ ۲#
ڈاکٹر محمد حسین ہیکل نے اپنی کتاب ” حیات پیغمبر “ میں لکھا ہے : یہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کا نیا مرحلہ شروع ہوتا ہے جس کی نظیر گزشتہ انبیاء کے یہاں نظر نہیں آتی ۔ انھوں نے اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے مشورہ کیا اور سب سے پہلا موضوع جس پر آپ نے توجہ فرمائی یہ تھی تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا ۔
ہیکل مزید لکھتے ہیں : اگر ہم اس بات کو مد نظررکھیں کہ منافقوں نے قبائل اوس، خزرج اور مہاجر و انصار کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کی کس قدر کوششیں کیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ پیغمبر اکرم نے اس سلسلہ میں کس قدر دقت نظر ، حسن تشخیص اور دور اندیشی سے کام لیا تھا ۔ ۳#
قرآن مجید مسلمانوں سے تاکید کرتا ہے :
” واعتموا بحبل اللّٰہ جمیعا و لا تفرقوا و اذکروا نعمت اللّٰہ علیکم
-----------------------------
۱ ۔ نہج البلاغہ ، خطبہ / ۵
۲۔ السیرة النبویہ ، لابن ہشام ، ج / ۱ ص / ۵۰۱
۳۔ Mohammad Husain Haykal & The life of Mohammad Translated by Ismail Rahia & Alfarugi . p 177
اذکنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا و کنتم علی
شفا حفرة من النار فانقذکم منھا ۔۔۔’‘
تم سب اللہ کی رسی ( قرآن و اسلام و تمام وسائل اتحاد ) مضبوطی سے پکڑے رہو اور متفرق و پراگندہ نہ ہو اور خدا کی اس نعمت کو یاد کرو کہ کس طرح تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ، اس نے تمھارے دلوں میں محبت پیدا کر دی اور اس نعمت کی برکت سے تم ایک دوسرے کے بھائی ہو گئے ۔ تم آگ کے گڑھے کے دہانے پر تھے کہ خدا نے تمھیں اس سے نجات عطا کر دی ۔ ۱#
اللہ کی اس عظیم نعمت کے سایہ میں مسلمان تھوڑی سی تعداد ہونے کے باوجود اپنے دشمنوں پر فاتح ہو گئے لیکن جنگ احد میں اختلاف و نزاع کے باعث شکست سے دو چار ہوئے ۔
” و لقد صدقکم اللہ وعدہ اذ تحسونھم باذنہ حتی اذا فشلتم و تنازعتم فی الامر “
خدا وند عالم نے تم سے ( احد میں دشمن پر کامیابی کے سلسلہ میں ) وعدہ کو پورا کیا ۔ جب کہ تم ( آغاز جنگ میں ) اس ( اللہ ) کے حکم سے دشمنوں کو قتل کر رہے تھے ( اور یہ کامیابی جاری تھی ) یہاں تک تم سست ہو گئے اور ( مورچہ چھوڑ دینے کے سلسلہ میں ) باہم نزاع کرنے لگے ۔ ۲#
عصر خلفاء میں اتحاد و ترقی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو گئے ۔ امام علی ﷼نے اپنی عالی ظرفی کی بنا پر ظاہری خلافت سے بالا تر وظیفہ پر عمل شروع کیا اور جنگ و جدال ، مسلمانوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے یا سازشیوں سے باز ساز کرنے کے بجائے تقوائے الٰہی کے ساتھ لوگوں کو باہم متحد ہونے کی دعوت دی ، اور جو لوگ دانستہ یا نادانستہ طور پر حضرت ابو بکر کے مقابلہ میں ان کی بیعت کرنے آئے تھے ،
ان سے فرمایا:
-----------------------------
۱۔ آل عمران / ۱۰۳
۲۔ آل عمران / ۱۵۲
” ایھا الناس شقوا امواج الفتن بسفن النجاة ، و عرجوا عن طریق المناف---رة ، و ضعوا تیجان المفاخرة ، افلح من نہض بجناح ، او استسلم فاراح ، ہذا ماء اجن ، و لقمة یغص بھا اکلھا ، و مجتنی الثمرة لغیر وقت ایناعھا کالزارع بغیر ارضہ “
اے لوگو ! فتنہ کی موجوں کو سینہ نجات ( علم ، ایمان اور اتحاد ) کی کشتیوں سے چاک کر دو اور اختلاف و پراگندگی کی راہ سے دوری اختیار کرو ۔ باہمی تفاخر ، اظہار برتری کے تاج کو سروں سے اتار دو ۔ وہ کامیاب ہوا جو اپنے ناصر و مدد گار اور کافی طاقت اٹھااور جس شخص نے کافی طاقت نہ رکھنے کی وجہ سے کنارہ گیری اختیار کی اس نے لوگوں کو
سکون بخشا۔
” لوگوں پر حکومت کرنا ایسا بدبو دار پانی یا ایسا لقمہ ہے جو گلو گیر ہو جاتا ہے جو لوگ پھلوں کو پکنے سے پہلے توڑ لیتے ہیں وہ ان لوگوں کے مانند ہیں جو ریگستان اور شورہ زار زمین میں بیج بوتے ہیں ۔ ۱#
حضرت علی علیہ السلام کا مقصد صرف اسلام کی حفاظت اور اس اساس اتحاد کو محفوظ کرنا تھا اسی لئے آپ نے خلفاء کے ساتھ تعاون کیا اور چوں کہ آپ کی روح اس سے بالا تر تھی کہ دنیاوی عہدہ و منصب کی خاطر کسی کا کینہ دل میں رکھتے لہٰذا ان کے ہمراہ بھر پور تعاون کرتے تھے ۔ اس انقلابی صبر کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان ایسا اتحاد وجود میں آیا کہ مسلمان داخلی سطح پر اختلاف وجنگ کے بجائے اسلام کے عظیم انقلاب کو اپنی سرحدوں کے باہر صادر کرنے لگے ۔
یہی اتحاد مسلمانوں کی کامیابی اور ترقی کا باعث ہوا ۔ یہاں تک کہ انھوں نے بہت تھوڑے عرصہ میں روم اور فارسی کی سلطنتوں کو دائرہ اسلام میں داخل کر لیا اور مصر عراق و فلسطین پر بھی قبضہ کر لیا ۔ اگر حضرت علی علیہ السلام نے یہ اتحاد اور ماحول کو یہ سکون نہ بخشا ہوتا تو محال تھا کہ مسلمانوں کو یہ ترقی اور یہ فتوحات حاصل ہوتیں ۔۔۔۔
لیکن جب حضرت نے لوگوں کے بے حد اصرار پر خلافت کی باگڈور اپنے ہاتھ میں لی تو آپ کے بعض رقیبوں اور نادان و تنگ نظر دوستوں نے اس اتحاد و سکون کو باقی رکھنے کے بجائے اختلاف اور چھگڑے کو ہوا دی ، نتیجہ
-----------------------------
۱۔ نہج البلاغہ ، خطبہ / ۵
میں مسلمانوں کو ترقی سے محروم کر دیا اور داخلی جنگوں میں برادر کشی پر مجبور کر دیا اور ہزاروں لوگوں کو اس تفرقہ کے گھاٹ اتار دیا ۔
عصر اموی اور مسلمانوں کا اختلاف انحطاط حضرت علی علیہ السلام اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی بڑے ادب کا سلوک کرتے تھے اور ان پر لعن و تکفیر کے بجائے فرماتے تھے :
” انا لم تقاتلھم علی التکفیرلھم و لم تقاتلھم علی التکفیر لنا ، و الکنرا ینا انا علی حق و راوا اجھم علی حق “ ۱#
ہماری جنگ ایک دوسرے کے ساتھ اس بنیاد پر نہیں تھی کہ ہم انھیں کافر جانیں یا وہ ہم کو کافر جانیں بلکہ ہماری نظر اس پر تھی کہ ہم حق پر ہیں اور وہ یہ دیکھتے تھے کہ وہ
حق پر ہےں “
حتیٰ معاویہ کی فوج کے سلسلہ میں جب آپ نے سنا کہ بعض شیعہ ان پر سب لعن کر رہے ہیں توفرمایا: ” انی اکرہ لکم ان تکونوا سبابین “ ( مجھے پسند نہیں ہے کہ تم گالیاں دینے والے بنو ۔ ہاں اگر ان کے کردار کو یاد کرتے اور ان کی گمراہیوں و ناپسندیدہ کردار کا ذکر کرتے تو سچائی سے نزدیک اور معذور تر ہوتے ) ۲#
اتنے ادب و انصاف اور عاقلانہ روش کے باوجود جب بنی امیہ نے مسلمانوں کی باگڈور ہاتھ میں لی تو عالم اسلام کے تمام امام جمعہ و جماعات کو حکم دیا کہ حضرت علی علیہ السلام کو منبروں سے سب و لعن کریں ۔ ۳# یہ جاہلانہ روش امام علی علیہ السلام کے دوستداروں کے جذبات کے بھڑکنے کی باعث ہوئی اور اس نے بہت سے لوگوں کو اس پر آمادہ کیا کہ حضرت علی علیہ السلام کے ارشاد کے بر خلاف برابر کے مقابلہ پر اتر آئیں اور سب و لعن کو اپنا معمول بنائیں جس کے نتیجہ میں تاریخ میں لاکھوں کروڑوں مسلمان قتل ہو گئے ۔
-----------------------------
۱۔ قرب الاسناد حمیری ، تہران مکتبہ نبوی ، بی تا ص / ۴۵
۲ ۔ نہج البلاغہ ، خطبہ / ۲۰۶
۳۔تاریخ خلفاء ، سیوطی ، قاہرہ دار الفکر العربی ، ص / ۲۷۹
ہر چند کہ عمر ابن عبد العزیز نے امام علیہ السلام پر کئے جانے والے لعن پر پابندی لگائی ۱# ، لیکن اس سب و لعن کے اثرات آج تک مسلمانوں کے درمیان تفرقہ کا سب سے بڑا عامل و سبب بنے ہوئے ہیں ۔
تفرقہ کا دوسرا سبب جو بنی امیہ کے زوال اور مسلمانوں کے انحطاط کی شکل میں برامد ہو ا وہ معاویہ کے ذریعہ لوگوں سے اپنے بیٹے یزید کے لئے بیعت لینا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خلافت و رہبری عوامی حیثیت سے نکل کر سلطنتی شکل اختیار کر گئی اور مسلمان اختلاف کا شکار ہو گئے ۔ معاویہ نے اہل شام یزید کی بیعت لینے کے بعد مروان کو خط لکھا کہ اہل مدینہ سے بھی بیعت لے لے ۔ مروان نے ایل مدینہ سے خطاب کر کے کہا : امیر المومنین یہ چاہتے ہیں کہ وہ ابو بکر و عمر کی سنت پر اپنے بیٹے یزید کو تم سب پر خلیفہ بنائیں ، عبد الرحمان ابن ابو بکر نے اٹھ کر کہا : قیصر و کسریٰ کی سنت پر ابو بکر و عمر نے ہر گز خلافت کو اپنی اولاد یا اپنے خاندان کی کسی فرد میں منتقل نہیں کیا ۔ ۲#
عبد اللہ ابن عمر نے بھی حج کے دوران معاویہ سے کہا :تم سے پہلے بھی خلفاء تھے جن کے بیٹے تھے اور تیرا بیٹا ان کے بیٹو ں سے بہتر نہ تھا ، اور ان لوگوں نے بھی اپنے بیٹوں کے لئے جیسا تونے چاہا نہیں چاہا ۔
عبد اللہ بن زبیر نے بھی مخالفت کی ۔ جب معاویہ مر گیا تو اہل شام نے یزید کی بیعت کی یزید نے کسی کو مدینہ بھیجا تاکہ اہل مدینہ سے اس کے لئے بیعت لے ، لیکن امام حسین علیہ السلام اور ابن زبیر نے بیعت سے انکار کیا اور شب کی تاریکی میں مکہ کی طرف روانہ ہوئے ۔
اہل کوفہ نے معاویہ کے زمانہ میں امام حسین علیہ السلام کو دعوت دی تھی کہ آپ معاویہ کے خلاف قیام کیجئے ․․․ اور جب یزید کی بیعت لے لی گئی تو حضرت کوفہ روانہ ہوئے اور انقلاب کربلا برپا کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ اہل سنت کے عظیم مورخ محمد عبد اللہ عنان نے اس سلسلہ میں لکھا ہے :
” بنی امیہ اہل بیت ﷼ اور شیعوں کے حق میں انتہائی بہیمانہ جرائم کے مرتکب ہوئے ۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے عالم اسلام پر بہت برا اثر ڈالا ، یہاں تک کہ اہل مدینہ نے یزید کی اطاعت سے انکار کر دیا ۔ مختلف علاقوں میں مسلمانوں خصوصا شیعوں کے درمیان بنی امیہ کے خلاف اتنا غم و غصہ بھڑکا کہ جس کے سبب بنی امیہ کی حکومت کو زوال آگیا اور مسلمانوں میں انحطاط پیدا ہو گیا۔
-----------------------------
۱۔تاریخ خلفاء ، سیوطی ، قاہرہ دار الفکر العربی ، ص / ۲۷۹
۲ ۔تاریخ خلفاء ، سیوطی ، قاہرہ دار الفکر العربی ، ص / ۲۲۳
عصر اموی میں مسلمانوں کے زوال و انحطاط کے بارہ میں سید محمد رشید رضا نے تفسیر ” المنار “ میں نقل کیا ہے کہ جرمنی کے ایک بڑے دانشور نے ” استانہ ‘ ‘ میں بعض مسلمانوں کے درمیان جن میں مکہ کا ایک برگزیدہ شخص بھی تھا کہا : ہمیں میدان برلن میں معاویہ کا سونے کا مجسمہ نصب کرنا چاہئے ۔ لوگوں نے اس سے وجہ پوچھی تو کہا -: اس لئے کہ اس نے نظام حکومت کو عوامی جمہوری حالت سے نکال کر قومی تعصباتی و استبدادی نظام میں تبدیل کر دیا اگر ایسا نہ ہوتا تو اسلام پوری دنیا میں پھیل چکا ہوتا اور اس وقت ہم تمام اہل جرمنی اور یورپ کی تمام قومیں مسلمان اور عربی زبان بول رہی ہوتیں۔ ۱#
عصر مامون میں میں اختلاف و انحطاط ہارون اور مامون کے زمانہ میں مسلمان متعدد فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور شدید تعصبات کے ساتھ ایک دوسرے سے اختلاف پر اتر آئے تھے کہ آیا قرآن قدیم ہے یا حادث اور ․․․․
عبد اللہ مامون نے سوچا کہ تمام دینی فرقوں کی ایک مجلس مناظرہ تشکیل دی جائے تاکہ یہ لوگ اختلافی مسائل میں باہم بحث کریں اور مخالف کو مطمئن کرکے یا اس سے مطمئن ہو کر باہمی اختلافات کو ختم کر دیں ۔ اس کام کے لئے اس نے پنے قاضی القضاة یحی ابن اکثم کو حکم دیا کہ تمام فرقوں کے علماء کو جمع کرے ۔ یحیٰ نے مختلف فرقوں کے چالیس علماء کا انتخاب کیا ۔ مامون ان کے درمیان بیٹھا اور برسوں اس بحث و مناظرہ کا سلسلہ چلتا رہا ۔ افسوس کہ تعصب اور بغض و عناد ان پر اس قدر چھا یا ہوا تھا کہ ہر شخص یہی چاہتا تھا کہ اپنی بات دوسروں سے منوالے ۔ جب مامون نے دیکھا کہ اس طرح مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے تو وہ طاقت کا استعمال کرنے پر آمادہ ہوا اور اس نے بجبر و اکراہ اہل سنت سے یہ منوایا کہ قرآن حادث اور مخلوق ہے ۔
یہ امر مسلمانوں کے درمیان مزید اختلاف کا باعث ہوا اور اس کے زمانہ میں حکومت صرف اسی کام میں مشغول ہو گئی اور بہت سے مفید کاموں سے رہ گئی ، اور ایک نقصان دہ مسئلہ میں طویل مدت تک اختلاف کے ساتھ حکومت اور مسلمانوں کا وقت ضائع ہوا ۲# ۔ مامون کے زمانہ سے عباسی حکومت انحطاط کی طرف مائل ہوئی اور عباسی پھر اپنی پہلی جیسی طاقت و وقوت کو محفوظ نہ رکھ سکے ۔
-----------------------------
۱۔تفسیر المنار ، سید محمد رشید رضا ، ج / ۶ ص / ۴۶۷
۲۔تاریخ الخلفاء سیوطی ، ص / ۳۵۷،۳۶۲۔ تفصیل سے ان اختلافات کا ذکر موجود ہے ۔
آل بویہ کے زمانہ میں ترقی اور انحطاط آل بویہ ، ایرانی ، نژاد اور شیعی سلسلہٴ حکومت تھا ۔ یہ لوگ ۳۲۲ھ ء سے ۴۴۸ھء تک ایران عراق اور شام کی شمالی سرحدوں تک پورے جزیرة العرب پر حاکم تھے ۔ یہ لوگ جب تک اتحاد کی راہ پر چلے اور بغداد میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان اختلافات اور خونین جھگڑوں کو برطرف اور ختم کرنے میں کوشاں رہے اور تفرقہ پھیلانے والے واعظوں مبلغوں اور قصہ گو افراد کو مسجدوں اور کوچوں سے دور کرتے رہے ، ۱# حالات برابر مسلمانوں کی ترقی ، عزت و سر بلندی کی طرف مائل رہے ۔ اسلامی ممالک میں عمران و آبادی وسیع پیمانہ پر عمل میں آتی رہی اور ان کے ذریعہ اسلامی تمدن کو بڑی وسعت ملی ۔
عضد الدولہ نے بغداد میں عضدی ہسپتال بنایا جس میں حکماء و اطباء بیماروں کا علاج کرنے کے علاوہ علم طب کی تعلیم بھی دیتے تھے ۔ اسی کے حکم سے فارس میں ” کر “ ندی پر ایک بند بنایا گیا ، جس سے زراعت کو بڑی وسعت و ترقی ہوئی ۔ ابو علی سینا جیسا حکیم اپنی اواخر عمر میں ہمدان میں آل بویہ کا وزیر مقرر ہوا ۔
افسوس کہ عضد الدولہ کے بعد آل بویہ میں باہم اختلاف پیدا ہو گیا اور وہ آپس میں لڑنے لگے ۔ جس وقت آل بویہ آپس میں لڑ رہے تھے غزنی کے ترکوں نے مضبوط حکومت قائم کرکے ان لوگوں کی بہت سی زمینوں اور علاقوں پر قبضہ کر لیا ان کے بعد سلجوقی ترک بر سر اقتدار آئے اور انھوں نے پانچویں صدی کے اواخر میں آل بویہ کی تمام حکومت کا خاتمہ کر دیا اور شیعوں کا قتل عام کر ڈالا ۔ ۲#
عہد حمدانیان میں باہمی تقریب اور ترقی شہر حلب ہوا میں ایک پر کے مانند بغداد کے خلیفہ عباسی اور کبھی مصر و دمشق کے اخشیدیان کے درمیان ڈول رہا تھا ۔ سیف الدولہ حمدانی (۳۰۳۔ ۳۵۶ھ ) جو شیعہ مذہب امراء میں سے تھا اس نے اپنے بھائی ناصر الدولہ سے مل کر بہت سے علاقوں پر قبضہ کیا ۔ اس نے اپنے بھائی ، جو خلیفہ المتقی کا امیر الامراء سے ایک ولایت کی درخواست کی اور ناصر الدولہ نے شام کی ولایت ہزار جنگجوؤں کے ہمراہ اس کے سپرد کی ۔ سیف الدولہ نے حلب کا رخ کیا اور ۳۳۳ھ ء میں بلا کسی مزاحمت کے حلب میں داخل ہو گیا ۔ اس کے بعد اس نے دمشق کا رخ کیا اور اسے
-----------------------------
۱۔ دائرة المعارف بزرگ اسلامی ، ج / ۱ ص / ۶۲۹
۲۔ الشیعہ فی المیزان ، محمد جواد مغنیہ ، دار التعارف للمطبوعات ۱۳۹۹ء ، ص / ۱۴۷
اخشیدیوں سے واپس لے لیا ۔ کچھ عرصہ جنگ کے بعد آخر کار دونوں میں صلح ہو گئی ۔ سیف الدولہ نے اخشید کی بیٹی فاطمہ سے شادی لر لی اور یہ طے پایا کہ حلب حمص اور انطاکیہ سیف الدولہ کے قبضہ میں ہوں گے اور دمشق اور اس کے ماورا مصر تک کا علاقہ اخشیدیوں کے قبضہ میں ہوگا ۔
اخشیدیان در اصل ایرانی اور سنی مذہب اور حمدانیان عرب اور شیعی مذہب تھے ان دونوں کے درمیان رشتہ اور اتحاد و دونوں حکومتوں کے علاقوں میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان قربت اور مسلمانوں کی ترقی و عظمت کا
باعث ہوا ۔
حمدانیان کے زمانہ میں شیعوں نے موصل و حلب اور دوسرے علاقوں میں ترقی کی یہاں تک کہ جب عظیم اموی مسجد میں داخل ہوتے تھے اور مسجد کے گنبد کے نیچلے حصہ پر نظر ڈالتے تھے تو وہاں معاویہ اور یزید کے ناموں کے بجائے علی ﷼، حسن ﷼اور حسین ﷼کے نام نظر آتے تھے ۔ اس کے باوجود وہ لوگ کسی کو شیعہ ہونے پرمجبور نہیں کرتے تھے ۔ کسی کو مال و منال کے ذریعہ فریفتہ نہیں کرتے تھے اور دوسروں کو شیعہ کرنے کے لئے ادھر ادھر مبلغ نہیں بھیجتے تھے ۔ بلکہ لوگوں کو اسلامی مذاہب میں سے کسی بھی مذہب اور عقیدہ کے انتخاب پر آزاد چھوڑ دیتے تھے اس کے بر خلاف امویوں ،عباسیوں ، ایوبیوں اور ۔۔۔ کا حال یہ تھا کہ وہ لوگوں پر زور زبر دستی کرتے تھے ۔
اس وجہ سے نہ صرف شیعوں کی بزرگ اور اہم شخصیتیں بلکہ اہل سنت کے بھی بزرگ اور اہل علم افراد مثلاً متنبی ، ابو فراس حمدانی اور ابو نصر فارابی جیسے افراد نے بھی اس دیار کا رخ کیا اور ابو الفرج اصفہانی نے اپنے کتاب ” الاغانی “ سیف الدولہ کے نام تقدیم کی ۔
اس سکون و آرام کی فضا میں سیف الدولہ کے عہد میں اسلامی علوم و آداب نے بڑی رونق پائی ۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور نہ صرف یہ لوگ روم میں بعض فتوحات سے ہمکنار ہوئے بلکہ اپنی زمینوں کو بھی خوب شاد و آباد کیا ۔
لیکن افسوس ” ایوبی “ اندھا تعصب اپنے ساتھ مصر اور شام لے گئے اور مسلمانوں کو بری طرح سے اختلاف کا شکار اور برادر کشی پر آمادہ کیا اور یہ کوشش کی کہ شیعوں کی نسل کا زمین سے خاتمہ کر دیں۔ ۱#
-----------------------------
۱۔الشیعہ فی المیزان ، محمد جواد مغنیہ ، ص / ۱۶۴ ۔ ۱۷۳
مستعصم کے زمانہ میں مسلمانوں کا اختلاف و زوال عباسی خلیفہ المستعصم باللہ کے زمانہ میں مسلمان اس قدر اختلافات کا شکار ہوئے کہ بغدادی صاحب کتاب ” الفرق بین الفرق “ کے بقول صرف معتزلہ بائیس فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور تمام مسلمانوں سے اختلاف و جدال میں مصروف تھے کہ آیا علی ﷼ ، ابوبکر سے بر ترہیں یا ابو بکر ، علی ﷼ سے ؟ آیا علی ﷼ عثمان سے افضل ہیں یا اس کے برعکس ؟ یا جن لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کی ( مثلا عائشہ ، و طلحہ و زبیر ) یہ لوگ اہل جہنم ہیں یا نہیں ؟ آیا جو شخص امام برحق کے خلاف خروج کرے وہ فاسق ہے یا نہیں اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا یا نہیں ۔ اس کی نماز اور روزہ قبول ہے یا نہیں ؟
دوسری طرف مستعصم کے بیٹے ابو بکر نے تعصب کی وجہ سے فوج کے ایک حصہ کو شیعوں کے محلہ ” کرخ “ کو غارت کرنے کے لئے مامور کیا ۔ اس لشکر نے بعض سادات بنی ہاشم کو اسیر کیا لڑکوں اور لڑکیوں کو گھروں سے باہر نکالا ۔ ابن العلقمی مستعصم کا وزیر جو شیعہ تھا ، اس واقعہ سے سخت متاثر ہوا اور اس نے اس غم کی داستان ادھر ادھر لوگوں کو لکھ کر بھیجی اور اس میں اس جابر و ظالم حکومت کے زوال کی آرزو کی جس کی بنیاد ظلم پر تھی اور جس نے سیکڑوں ہزاروں” آل علی ﷼ “ کو شہید کر ڈالا تھا ۔ اس کی یہ آرزو پوری ہوئی اور ہلاکو خاں ایک بڑے لشکر کے ساتھ بغداد کو فتح کرنے آگیا ۔ ایک طولانی محاصرہ کے بعد اس نے شہر پر قبضہ کر لیا اور مستعصم کو جو تمام خلفاء میں نازو نعمت اور مال و دولت کی کثرت میں سب سے ممتاز اور غرور تکبر میں مشہور تھا ، ہلال کر ڈالا۔ ۱ #
چوں کہ مسلمان حکم اللہ کے خلاف تفرقہ و اختلاف اور برادر کشی میں مبتلا ہو گئے تھے لہٰذا مغلوں کے حملہ نے انھیں یوں کاٹ کر رکھ دیا کہ سیوطی کے بقول تاریخ نے ایسا حملہ نہ کبھی دیکھا تھا نہ سنا تھا اور اس کا موازنہ سکندر کے حملہ سے بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ ۲ #
یہ وہی زمینی بلا و مصیبت تھی جس کے بارہ میں قرآن کریم تفرقہ رکھنے والوں کو یوں آشکار کرتا ہے :
< ان الذین فرقوا دینھم و کانوا شیعا لست منھم فی شیٴ ، انما امرھم الی اللہ ثم ینبئھم بما کانوا یفعلون >۳#
-----------------------------
۱ ۔ یاد نامہ علامہ امینی ، بہ اہتمام ڈاکٹر سید جعفر شہیدی ، محمد رضا حکیمی موسسہ انجام کتاب ۱۳۶۱ ، ص / ۲۴۸
۲ ۔تاریخ خلفاء سیوطی ، ص / ۵۴۲ ۔ ۵۴۳
۳ ۔ انعام / ۱۵۹
جن لوگوں نے اپے دین کو متفرق اور پراکندہ کیا اور مختلف گروہوں ( مختلف
مذاہب ) میں تقسیم ہوئے آپ کا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔ ان کا واسطہ صرف خدا سے ہے ۔ اس کے بعد خدا ان کی کر توتوں کے انجام سے آگاہ کرے گا ۔
ترکیہ اور ایران میں اتحاد و ترقی آٹھویں صدی ہجری کے عثمانی حکومت کے سپاہی مسلمانوں میں اتحاد کی غرض سے بر سر کار آئے اور نویں صدی سے عثمانی حکومت یورپ اور صلیبوں کے مقابلہ میں عظیم اسلامی طاقت کی شکل میں ابھر کر سامنے آئی اور مغلوں و صلیبوں کی تباہیوں اور ویرانیوں سے مسلمانوں کے دلوں میں امید کی کرن بن گئی ۔
عثمانی خلفاء نے مسلمانوں میں اتحاد و ہمبستگی پیدا کرنے کے لئے ۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو خلافت کے پرچم کے تلے جمع کیا اور وسیع ترقیاں نیز ایشااور یورپ کی جنگوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں ۔ یہاں تک کہ سلطان محمد نے فاتح کا لقب پایا اور ناجی اسلام کے عنوان سے شہرت حاصل کی ۔
اہل یورپ اور صلیبی عیسائی مسلمانوں کی اس ترقی و اقتدار سے سخت وحشت زدہ تھے وہ اس پر آمادہ ہوئے کہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرکے ان کو ٹکڑوں ٹکڑوں میں تقسیم کر دیں ۔ اس کام کے لئے انھوں نے اسلامی فرق و مذاہب کی تحقیق اور تفرقہ انگیز کتابوں کا مطالعہ شروع کیا ۔ بہت سے عیسائی محقق اور مستشرق کی حیثیت سے اسلامی ممالک میں داخل ہوئے اور پر فریب چہروں سے تفرقہ پیدا کرنے والے طریقوں کا جائزہ لینا شروع کر دیا ۔ حتیٰ اس عنوان سے کہ مسلمان ہو گئے ہیں ، مسلمانوں کے درمیان جاتے اور اٹھتے بیٹھتے تھے ۔ بعض لوگ مثلا آیة اللہ بلثریکی ۱# شیخ حسن آلمانی اور شیخ یوسف فرانسوی جیسے لوگوں نے تو علاقائی زبانیں اس طرح سیکھ لی تھیں اور علماء کا لباس یوں بہنتے تھے کہ لوگ ان کی تفرقہ انگیز اور پر اسرار تبلیغات سے متاثر ہو اجاتے تھے ۔
یورپی حکومتیں جو عظیم طاقتور اور متحد عثمانی حکومت سے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتی تھیں ، انھوں نے بہترین راستہ یہ دیکھا کہ دو مقتدر حکومتوں صفوی و عثمانی حکومتوں میں اختلاف و تفرقہ ڈال دیا جائے ۔ انھوں نے اپنے وسیع مطالعات کی روشنی میں منصوبہ بندی شروع کی اور ایران سے دوستی و تجارتی روابط بر قرار کئے اور جہاں تک ان سے ہو سکا غیر مستقیم طور پر عوام میں نفوذ کیا اور ایران و ایشائے صغیر میں مذہبی و فرقہ وارانہ تعصبات کو عوام کے درمیان خوب پھیلایا۔
-----------------------------
۱۔ آیة اللہ بلثریکی کے بارہ میں تاریخ مشروطہ ایران کا مطالعہ کریں ۔
برطانوی سفارت خانہ واسطوں کے ذریعہ خود اس بات کا بانی ہوتا تھا کہ ہر روز اور ہر شب نماز کے بعد مسجدوں میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے شکستہ پہلو کے سلسلہ میں مصائب یوری آب و تاب کے ساتھ پڑھے جائیں ۔ نو ربیع الاول کو عمر ابن سعد سے متعلق جشن کو عمر ابن خطاب سے متعلق کیا جائے اور شیخین پر سب کے وجوب پر علماء کے ذریعہ کتابیں لکھی جائیں ۔
ادھر ترکیہ میں درباری مفتیوں کو ان ہی بنیادوں پر تحریک کرتے تھے کہ وہ شیعوں کی تکفیر کریں اور ان کا خون بہانا مباح قرار دیں ۔
عثمانیوں اور صفویوں کا اختلاف و انحطاط نویں صدی ہجری کے اوائل میں صفوی سلسلہ حکومت کی بنیاد پڑی شاہ اسماعیل ، اگر چہ اس کے بزرگ ” شیخ صفی الدین اردبیلی “ اہل سنت تھے ، لیکن اس نے شیعہ مذہب اختیار کیا اور اسے حکومت کا قانونی مذہب قرار دیا نیز اعلان کیا کہ خلفائے ثلاثہ پر لعن کی اجائے ۔۔۔ ۱#
سلطا ن سلیم جو خلافت اور اسلامی اتحاد کا مدعی تھا اس نے شاہ اسماعیل کو توبہ اور ترک لعن کی دعوت دی لیکن شاہ اسماعیل نے اسے قبول نہیں کیا ۔ یہ تعصب سبب ہوا کہ ان دونوں عظیم حکومتوں کے درمیان طولانی جنگیں شروع ہوئیں عثمانی دربار کے علماء شیعوں کی تکفیر اور ان کے قتل کو مباح قرار دینے لگے ۔ دوسری طرف صفوی دربار کے علماء اہل سنت کو کافر اور خلفاء اور اہل سنت پر تبرا اور سب و لعن کو لوگوں کی نظر میں واجب ظاہر کرنے لگے ۔ اس طرح ” چالدران “ کی خونین جنگ کا آغاز ہوا ۔ دسیوں ہزار شیعہ قتل ہو گئے اور تبریز پایہ تخت تھا ہاتھ سے نکل گیا۔
عثمانی حکومت ازبکوں ترکمانیوں اور دوسرے طائفوں کو بھی تحریک کرتی تھی کہ ایران پر عثمانی فوج کے حملہ کے وقت وہ بھی چاروں طرف سے ایران پر حملہ کریں ۔ دوسری طرف پاپ اور یورپی بادشاہ بھی جو دونوں حکومتوں سے خصومت رکھتے تھے اور عثمانیوں کے خطرہ سے خوف زدہ تھے ، برابر یہ کوشش کرتے تھے کہ صفوی بادشاہوں سے روابط قائم کرکے انھیں تقویت پہنچائیں اور عثمانی حکومت کے خلاف اسے تحریک کریں ۔ صفوی سلاطین بھی ان کی مدد حاصل کرنے کے لئے اس طرح کے روابط کو مستحکم و مضبوط کرتے تھے ۔ یورپ کے سفیروں اور تاجروں کی ایران رفت و آمد اسی سلسلہ میں ہوتی تھی۔ ۲#
-----------------------------
۱ ۔ ایران در زمان صفویہ ، دکتر احمد تاج بخش ، کتاب فروشی تہران ، ۱۳۴۰ ء ش ، ص / ۲۱
۲ ۔ دائرة المعارف فارسی ( مصاحب ) ۲/۱۵۷۱
شاہ عباس کے زمانہ میں صفویوں اور یورپ کے تعلقات میں وسعت پیدا ہوئی اور دونوں حکومتوں نے قرآن کے حکم کو قدموں تلے پامال کر دیا جو برابر مسلمانوں کو اجنبیوں مثلا یہودو نصاری سے دوستی و روابط قائم کرنے سے منع کرتا رہا ہے :
< ۔۔۔ لا تتخذوا الیہود و النصاریٰ اولیاء >
” یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ
اور مسلمانوں کو باہم اتحاد و دوستی کی دعوت دیتا ہے نیز آپس میں تفرقہ و نزاع کو شدت سے منع فرماتا ہے :
< ولا تنازعوا ۔۔۔ واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا >
خلاصہ یہ کہ دونوں مسلمان حکومتیں ایک دوسرے کی دشمنی میں یورپی اجنبیوں کی دوست ہو گئیں اور ان کے اسلحوں سے برادر کشی پر اتر آئیں ۔ اس طرح چار لاکھ چالیس ہزار اور بعض دوسرے اقوال کے مطابق چار لاکھ ستر ہزار افراد اناتولی میں قتل ہو گئے ۔ اسی دوران عیسائیوں نے اندلس پر قبضہ کر لیا اور بنی احمر کی حکومت کو سرنگوں کر دیا ۔ بنی احمر نے سلطان ترک سلطان سلیم کے باپ سے مدد کی درخواست کی لیکن کوئی مدد نہ پہنچی اور عیسائیوں نے اسپین کے مسلمانوں پر وہ بلائیں نازل کیں اور وہ قتل و غارت کی کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ ۱#
دوسری طرف ایران اور عثمانی حکومت کے درمیان جنگ و اختلاف کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلطان سلیم کے زمانہ میں مذہب شیعہ عملا عثمانی مملکت میں کالعدم قرار دے دیا گیا ۔ ۲# نیز اس شیعہ ، سنی اختلاف کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۹۴۰ ھء عراق ایرانیوں کے ہاتھوں سے نکل گیا اور عثمانی دربار کے علماء نے شیعوں کے قتل کا فتوا دے دیا ۔ اس طرح ایران و ترکیہ دونوں حکومتیں جو مشرق کی بڑی طاقتور حکومتیں تھیں کمزور ہو کر زوال کا شکار ہوئیں ۔ ۳#
یہ کام بالکل عصر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے یہودیوں کی حرکتوں کی نظیر تھا ، جو وہ مدینہ میں انجام دے رہے تھے کہ چند فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور ہر فرقہ دوسرے کے خلاف کسی ایک مشرک قبیلہ مثلا اوس و خزرج سے ہم پیمان ہوتا ، پھر یہ لوگ آپس میں لڑتے اور ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے ۔ ۴# کہ قرآن ان کے بارے میں فرماتا ہے :
-----------------------------
۱ ۔ اعیان الشیعہ ، محسن امین ، ج / ۱۱ ، ذیل شاہ اسماعیل
۲ ۔ دائرة المعارف فارسی ( مصاحب ) ج /۲/۱۶۸۳
۳۔ الشیعہ فی المیزان ، محمد جواد مغنیہ ، ص / ۱۷۷ ۔ ۱۷۸
۴ ۔ تفسیر التبیان ، شیخ طوسی ، ج / ۱ ص / ۳۳۶
< ثم انتم ھولاء تقتلون انفسکم و تخرجون فریقا منکم من دیارھم تظاہرون علیھم بالاثم والعدوان ۔۔۔ فما جزاء من یفعل ذلک منکم الا خزی فی الحیٰوة الدنیا و یوم القیٰمة > ۱#
اتحاد کے لئے سلطنت عثمانی سے نادر شاہ کی کوشش ایران پر میر محمود افغان کے حملہ اور اصفہان پر ان کے قبضہ کے سات سال بعد نادر شاہ نے انھیں ایران سے باہر کر دیا ، اور عثمانی و صفوی حکومتوں کے درمیان شیعہ و سنی اختلافات کے نتیجہ میں دشت مغان میں پیدا ہونے والی زبر دست ویرانیوں و تباہیوں کو دیکھ کر اس نے اس شرط پر حکومت قبول کی کہ شاہ طہماسب کی حمایت نہ کرے گا اور خلفاء پر سب و لعن نہ کرے گا ۔ اس نے صلح کی ایک کمیٹی تشکیل دی اسے عثمانی سلطان کے پاس روانہ کیا اور اعلان کیا ایرانیوں نے سب و لعن کرنے سے ہاتھ اٹھا لیا ہے ، اور تقاضا کیا کہ مذہب جعفری کو اسلامی مذاہب کے پانچویں رکن کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے اور کعبہ میں وہ رکن شافعی کے ساتھ شریک ہوں ۔ نادر شاہ نے شیخ علی اکبر خراسانی کی رہنمائی میں شیعہ و سنی کے درمیان اصولی اختلافات سے انکار کیا اور ان تمام اختلافات کو شاہ اسماعیل صفوی سے منسوب کیا ۔
افسوس کہ ان دونوں حکومتوں میں تعصب و بے اعتمادی اس قدر پیدا ہو گئی تھی کہ عثمانیوں نے نادر شاہ کی صرف سیاسی تجویزات منظور کیں اور مذہبی تجویزات کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ نادر شاہ نے اتحاد کی فضا قائم کرنے کے لئے اپنے بہترین مواقع مال و دولت اور سب سے قیمتی بارہ سال صرف کئے ۔ ۲#
اسپین سے مسلمانوں کی پسپائی کے ساتھ ہی اسلامی حکومتیں ایک ایک کرکے ختم ہوتی گئیں اور اس کے بعد مغرب نے ہر طرف سے اسلامی ممالک پر حملہ کا آغاز کر دیا ۔ آخر کار تمام اسلامی سر زمینوں کی آزادی و عظمت ، چاہے وہ شیعہ کی رہی ہوں یا سنی کی ، تباہ و برباد ہو گئی اور وہ سب استعمار کے زیر تسلط آگئے ۔ شیعہ و سنی علماء حکومت نے تفرقہ و اختلاف کا تلخ مزہ چکھنے کے بعد جب اتحاد کی فکر شروع کی تو بہت دیر ہو چکی تھی ۔
اس بارہ میں امام خمینی فرماتے ہیں :
-----------------------------
۱ ۔ بقرہ / ۸۵
۱ ۔ سید جمال الدین و وحدت اسلامی ، استاد محیط طباطبائی ۔ کتاب مشعل اتحاد از استاد محمد رضا حکیمی ، ص / ۱۰۳۔ و مقدمہ ، کتاب اسلام آئین ہمبستگی۔
” عثمانی حکومت ایک اسلامی حکومت تھی جس کا تسلط مشرق سے لے کر مغرب تک تھا ۔ انھوں نے دیکھا کہ اتنی قوی حکومت کے روبرو کچھ نہیں کیا جا سکتا ۔ مسلمانوں کے ذخیرے نہیں لے جائے جا سکتے ۔ جب انھوں نے اس جنگ میں اس بساط کے ساتھ (عثمانی و صفوی حکومتوں کے درمیان شیعہ و سنی تفرقہ و اختلاف ) غلبہ حاصل کر لیا اور عثمانی حکومت کو بہت سی چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں تقسیم کر دیا اور ہر ایک کے لئے ایک امیر ، سلطان یا صدر مقرر کر دیا تو بیچاری قوم ان کے ہاتھوں میں اور وہ استعماریوں کے ہاتھوں میں ۔ اس طرح سے انھوں نے اتنی بڑی عثمانی حکومت کو سر نگوں کر دیا ۔ اسلامی حکومتیں خواب سے بیدار نہیں ہوئیں یا خود کو سوتا ہوا بنا لیا ۔ عثمانی حکومت اسلامی خلافت کے سایہ میں اور قرآن پر تکیہ کرنے کے دعوے کے ساتھ اتنی وسعت رکھتی تھی ۔ جب اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تو اتاترک خبیث کے زمانہ میں اسلام کو وہاں کا لعدم کر دیا گیا اور آج وہاں حکومت اسلام سے جدا ہے ۔ دینی مراسم و دینی احکام نہیں ہیں ۔ لیکن ترکیہ کی شریف قوم مسلمان ہے ، اور جب وہ مکہ جاتے ہیں تو ان کا گروہ دوسروں سے بڑا ہوتا ہے ۔ عثمانی حکومت نے اتنی بڑی حکومت اسلام کی بنیاد پر حاصل کی تھی ۔ انھوں نے دیکھا کہ اسلام پر تکیہ بہت اہم بات ہے کہ اس کی وجہ سے اسلامی حکومتوں کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ ترکیہ میں اسلام کو حکومت سے جدا کر دیا گیا ، وہ بھی اس طرح سے کہ جب قبرس میں ترکوں کو قتل کیا جا رہا تھا تو ایک مسلمان نہیں تھا جو ان پر افسوس کرتا ۔
یہ افسوس کی بات ہے کہ ایک حکومت اس طرح عمل کرے کہ جب وہ عیسائیوں کے مقابل سر نگوں ہو جائے یا جب اس کے افراد قتل ہوں تو دوسرے اسلامی حکومتیں اس سے لا پروا ہوں ۔ اسلامی حکومتیں اس لئے افسوس نہیں کر رہی تھیں کہ اس حکومت نے اسلامی عظمت گنوادی تھی ۔
جو ہاتھ شیعہ و سنی میں اختلاف ڈالتے ہیں امام خمینی مزید فرماتے ہیں :
”تمام اسلامی حکومتیں اس پر توجہ رکھیں کہ جو اختلافات عراق میں ایران میں اور دوسرے ممالک میں کئے جا رہے ہیں ، یہ وہ اختلافات ہیں جو ان کی ہستی کو تباہ
کر دیں گے ۔
عقل و تدبیر کے ساتھ اس پر توجہ رکھنی چاہئے کہ لوگ مذہب کے نام پر ، اسلام کے نام پر اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ ناپاک ہاتھ جو ان ممالک میں شیعہ و سنی کے درمیان اختلاف ڈال رہے ہیں ، نہ شیعہ ہیں اور نہ سنی ۔ یہ استعمار کے ہاتھ اور ان کے کارندے ہیں ۔ وہ ( معدنی ) ذخائر ان کے ہاتھوں سے چھیننا چاہتے ہیں ۔اور اپنے نام نہاد ترقی یافتہ ممالک کے لئے مشرق میں کالا بازار بنانا چاہتے ہیں ۔ وہ مشرق کو اپنی غلامی میں کیوں نہ لائیں ( وہ یہ چاہتے ہیں ) تاکہ اپنی فضول چیزیں جنھیں وہ دور پھینکنا چاہتے ہیں انھیں مناسب قیمتوں پر ہمارے ہاتھ بیچیں ۔ سونا بنائیں اور سونا یہاں سے
لے جائیں ۔
اسلامی حکومتیں متوجہ نہیں ہیں کہ ان کے سروں پر کیا ( مصیبت ) آرہی ہے ۔ قرآن کریم سے ہاتھ اٹھانے اور اسلامی دستورات پر بھروسہ نہ کرنے سے یہ نقصان پیش آتے ہیں ۔ وہ لوگ مذہبی اختلاف پیدا کرکے اسلامی حکومتوں کو بھی کمزور کرتے ہیں اور دین و مذہب کو بھی تباہ کرتے ہیں “
متحد اسلامی ممالک کا تجزیہ امام خمینی ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں :
”آپ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اسلامی ممالک کے صدور ، حکام ، بادشاہان وزراء اور ممبران پارلمنٹ اس بات کو نہ سمجھے ہوں گے ؟ اگر سمجھے ہیں تو یا اجنبیوں میں جذب ہوئے ہیں یا ان سے مرعوب ہیں ۔ بھلا کیوں ڈریں ؟ وجہ یہ ہے کہ انھوں نے ان لوگوں کو ٹکڑوں ہی میں تقسیم کر دیا ہے ۔ اتنی بڑی عثمانی حکومت کو چند حکومتوں میں بانٹ دیا ہے ۔ سب چھوٹی چھوٹی حکومتیں ہیں ۔ دس کروڑ کی اس عظیم قوم کو چند خدا سے بے خبر افراد کی غلامی میں دے دیا اور انھیں استعمار کر رہے ہیں ۔ ( اسلامی ) ملکوں کے یہ حکام اپنی قوموں بیچارہ اور بے دست و پا کر رہے ہیں ۔ کیا ان اسلامی حکومتوں کو بیدار نہیں ہونا چاہئے ؟ انھوں نے اسلام سے کیا برائی دیکھی ہے ؟ ایک بڑی سازش ہے جو مغرب سے نازل ہوئی ہے جس نے اسلامی حکومتوں کو متاثر کیا ہے ۔ یا انھیں لالچ دی ہے یا دھمکی اور اسے ہم اخبارات یا ریڈیو کے پروپیگنڈوں میں دیکھ رہے ہیں “
نسل پرستی مسلمانوں میں تفرقہ کا سبب وہ اہم چیز جس نے اسلامی حکومتوں کو ناتواں کر دیا ہے اور قرآن کریم کے سایہ سے دور کر رہی ہے
نسل پرستی ہے ۔
یہ ترکی نسل کا ہے لہٰذا اسے ترکی میں نماز پڑھنی چاہئے ۔ یہ ایرانی نسل کا ہے اس کا الفبا ایسا ہونا چاہئے ۔ وہ عرب نسل کا ہے ۔ عربیت کو حکومت کرنا چاہئے اسلام کو نہیں ۔ آریائی نسل حکومت کرے اسلام نہیں ۔ ترک نسل حکومت کرے اسلام نہیں ۔ نسل پرستی بچوں کا کھیل ہے جس میں انھوں ( مغربیوں ) نے حکومتوں کو مگن کر رکھا ہے ۔
جناب آپ ایرانی ہیں ، آپ ترکی ہیں ، آپ انڈونشیائی ہیں اور ۔۔۔ اس نکتہ اعتماد سے غافل کہ سب مسلمان ہیں افسوس کہ یہ نکتہ اعتماد مسلمانوں سے چھین لیا گیا ۔ یہی نسل پرستی جسے اسلام نے قلم زد کر دیا تھا اور سیاہ و سفید ، ترک عرب ، عجم میں کوئی فرق نہیں رکھا تھا اور صرف تقوا کو معیار قرار دیا تھا ۔
صرف اسلام تکیہ گاہ ہے ۔ ترک ، فارس ، عرب و عجم کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ نسل پرستی کا قضیہ رجعت پسندی ۔ مسلمان باہم جنگ کیوں کر رہے ہیں ؟ یہ اس لئے ہے کہ وہ پرچم اسلام کے زیر سایہ نہیں ہیں ۔ ۱#
تاریخ کی مختصر ورق گردانی سے ہمیں یہ بات نْطر آتی ہے کہ مسلمانوں نے جہاں بھی ترقی کی ہے اس کا راز اتحاد رہا ہے اور جہاں بھی انحطاط و زوال کا شکار ہوئے ہیں اس کا سبب زیادہ تر تفرقہ و پراگندگی ، اسلام سے دوری اور تعصب رہا ہے ۔
یہودی اور صلیبی ہمیشہ مسلمانوں کی ترقی سے غصہ ہوئے ہیں ۔ انھوں نے اس بات کی کوشش کی ہے مسلمانوں کے درمیان شگاف اور تعصب کو زیادہ سے زیادہ ہوا دیں اور انھیں ایک دوسرے سے جدا کرکے
باہم لڑا دیں ۔
-----------------------------
۱۔ امام خمینی ۱۸ / ۶ / ۴۳ نقل از صحیفہ نور ، ج / ۱ ص / ۸۶ ۔ ۹۱
اب جب کہ اسلام ایک بار پھر ایران میں زندہ ہوا ہے اور دنیا کے مختلف حصوں میں ترقی و اہمیت پارہا ہے یورپی یہودی اور عیسائی نیزان کے حکام وحشت زدہ ہو گئے ہیں اور اپنے اسی پرانے نقشہ اور پرانی سازشوں پرعمل کر رہے ہیں اور اختلاف کی آگ بھڑکا کر مسلمانوں کی ترقی کو روکنا چاہتے ہیں ۔ اسی وجہ سے امام خمینی زیادہ تر اپنی تقریروں اور پیغامات میں دنیا کے مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دیتے ہیں اور ہر طرح کے تفرقہ و اختلاف سے دور رہنے کی تاکید کرتے ہیں ۔
امام خامنہ ای بھی جو ہمیشہ تقریب و ہمبستگی کے راہبر رہے ہیں ، آپ نے عالمی مجمع تقریب بین المذاہب اسلامی کی بنیاد رکھی اور وسیع پیمانہ پر مسلمانوں کو تقریب و اتحاد کی دعوت دیتے ہیں ۔
source : alhassanain