انسان نے اپنی معاشرتی زندگی کے آغاز سے ہی اپنے اردگرد پیش آنے والے قدرتی حوادث اور تبدیلیوں کا مشاھدہ کرنا شروع کر دیا اور یوں وہ سال کے مختلف حصوں میں تبدیل ہونے والے موسموں کی طرف متوجہ ہوا ۔ اس کے بعد کسی موسم کے شروع اور اختتام کا تعیین کیا گیا اور فصلوں کی کاشت اور کٹائی کے لیۓ معقول وقت کا تعین کر لیا گیا ۔ پہلے پہل چاند کی گردش کی اساس پر کیلنڈر وجود میں آیا اور بعد میں کاشتکاری کے سالانہ ایام کے فرق کو خورشیدی کیلنڈر لا کر دور کر دیا گیا ۔
قدیم زمانے میں ایران کے رہنے والے لوگ سال کو دو حصوّں میں تقسیم کرتے تھے جس میں 10 مہینے سردیوں کے اور 2 گرمیوں کے ہوا کرتے تھے ۔ وقت کے ساتھ سال کو دو حصوں میں ایک اور انداز سے تقسیم کیا گیا جس میں گرمیاں سات مہینوں ( ایرانی مہینے فروردین سے آبان تک ) اور سردیاں پانچ مہینوں ( آبان سے فروردین ) پر مشتمل ہوا کرتی تھیں ۔ بالاخر ان کے بعد آنے والے ایرانیوں نے سال کو چار موسموں میں تقسیم کیا جس میں ہر موسم 3 مہینوں پر مشتمل ہے ۔
عید نوروز کا جشن منانے کے آغاز کے متعلق ہمارا علم بہت محدود ہے ۔ پہلی صدی ق م تک ملنے والی تاریخ ایران کی اسناد میں کہیں پر بھی نوروز کے جشن کا ذکر نہیں ملتا ہے ۔ البتہ بہت سے تاریخ دانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ھخامنشی بادشاہوں کی طرف سے شیراز میں واقع تخت جمشید کی تعمیر کا مقصد یہاں پر نوروز کا جشن منانا تھا ۔ اس بات کے کوئی ثبوت نہیں مل سکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے دانشمندوں کے ذہن میں یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ کیا ھخامنشی دور میں حکومتی سطح پر نوروز کا جشن منایا بھی جاتا رہا ہے یا نہیں ۔
source : tebyan