حیاء نفسانی صفات میں ایک اہم صفت ہے جو ہماری اخلاقی زندگی کے مختلف شعبوں میں بہت زیادہ اثر رکھتی ہے.
اس تاثیر کا اہم ترین کردار، خود کو محفوظ رکھنا ہے۔
حیاءلغت میں شرم وندامت کے مفہوم میں ہے اور اس کی ضد ''وقاحت'' اور بے حیائی ہے. (١)
علماء اخلاق کی اصطلاح میں حیاء ایک قسم کا نفسانی انفعال اور انقباض ہے جو انسان میں نا پسندیدہ افعال کے انجام نہ دینے کاباعث بنتا ہے اور اس کا سر چشمہ لوگوں کی ملامت کا خوف ہے. (٢)
آیات و روایات میں ''حیاء '' کے مفہوم کے بارے میں مطالعہ کرنا بتاتا ہے کہ اس حالت کی پیدائش کا مرکز ایک آ گا ہ ناظر کے سامنے حضور کا احساس کرنا ہے، ایسا ناظر جو محترم اورگرامی قدر ہے.
قابل ذکر ہے کہ حیاء کا اہم ترین کردار اور اصلی جوہر برے اعمال کے ارتکاب سے روکنا ہے، لامحالہ یہ رکاوٹ نیک اعمال کی انجام دہی کا باعث ہوگی.
حیا ء کی اہمیت:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حیا کو انسان کی زینت شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بے حیائی کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اس کو نا پسند اور برا بنا دیا اور حیاء کسی چیز کے ہمراہ نہیں ہوئی مگر یہ کہ اسے اس نے آراستہ کردیا.(3)
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے: جو حیاء کا لباس پہنتا ہے کوئی اس کا عیب دیکھ نہیں پاتا. (4 )
اور دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: حیاء اختیار کروکیونکہ حیا نجابت کی دلیل و نشا نی ہے. (5)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام حیاء کے مرتبہ کو اخلاقی مکارم میں سر فہرست قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: مکارم اخلاق میں ہر ایک دوسرے سے مربوط اور جڑے ہوئے ہیں، خدا وندعالم ہر اس انسان کو جو ان مکارم اخلاق کا طالب ہے دیتا ہے، ممکن ہے کہ یہ مکارم ایک انسان میں ہوں لیکن اس کی اولاد میں نہ ہو، بندہ میں ہو لیکن اس کے آقا میں نہ ہو (وہ مکارم یہ ہیں ) صداقت و راست گوئی، لوگوں کے ساتھ اچھائی برتنا، مسکین کو بخشنا، خوبیوں کی تلافی، امانت داری، صلہ رحم، دوستوں اور پڑوسیوں کے ساتھ دوستی اور مہربانی ،مہمان نوازی اور ان سب میں سر فہرست حیاء ہے. (6)
حضرت علی نے حیاء کے بنیادی کردار کے بارے میں فرمایا: ''حیاء تمام اچھی صفات اور نیکیوں تک پہنچنے کا وسیلہ ہے. (7)
حیا ء کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جو حیاء نہ رکھتا ہو اس کے پاس ایمان نہیں ہے. (8)
حیاء کے فوائد:
روایات میں حیاء کے بتا سے فوائد ذکر ہوئے ہیں خواہ وہ دنیوی ہوں یا اخروی، فردی ہوں یا اجتماعی، نفسانی ہوں یا عملی، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
١. خدا کی محبت:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: خدا وند سبحان، حیا دار،با شرم اور پاکدامن انسان کو دوست رکھتا ہے اور بے شرم فقیر کی بے شرمی سے نفرت کرتا ہے.(9)
٢.عفّت اور پاکدامنی:
حضرت علی ـ فرماتے ہیں: حیاء کا نتیجہ عفّت اورپاکدامنی ہے. (10)
٣. گناہوں سے پاک ہونا:
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: چار چیزیں ایسی ہیں کہ اگر وہ کسی کے پاس ہوں تو اس کا اسلام کامل اور اس کے گناہ پاک ہوجائیں گے اور وہ اپنے رب سے ملاقات اس حال میں کرے گا کہ خدا وند عالم اس سے را ضی و خوشنود ہوگا جو کچھ اس نے اپنے آپ پر لوگو ں کے نفع میں قرار دیا ہے خدا کے لئے انجام دے اور لوگوں کے ساتھ اس کی زبان راست گوئی کرے اور جو کچھ خدا اور لوگوں کے نزدیک برا ہے اس سے حیا ء و شرم کرے اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ خوش اخلاق ہو. (٥)
جو صفات حیاء سے پیدا ہوتے ہیں وہ یہ ہیں:
نرمی، مہربانی، ظاہر اورمخفی دونوں صورتوں میں خدا کو نظر میں رکھنا، سلامتی، برائی سے دوری، خندہ روئی، جود وبخشش، لوگوں کے درمیان کامیابی اور نیک نامی، یہ ایسے فوائد ہیں جنیں عقلمند انسان حیا سے حاصل کرتا ہے. (11)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے شاگرد ''مفضل '' سے فرماتے ہیں: اے مفضل! اگرحیا ء نہ ہوتی تو انسان کبھی مہمان قبو ل نہیں کرتا، اپنے وعدہ کو وفا نہیں کرتا، لوگوں کی ضرورتوں کو پورا نہ کرتا، نیکیوں سے دور ہو تا اور برائیوں کا ارتکاب کرتا. بہت سے واجب اور لازم امور حیا کی وجہ سے انجام دئے جاتے ہیں، بہت سے لوگ اگرحیا نہ کرتے اور شرمسار نہ ہوتے تو والدین کے حقوق کی رعایت نہیں کرتے، کوئی صلہ رحمی نہ کرتا، کوئی امانت صحیح وسالم واپس نہیں کرتااور فحشاو منکر سے باز نہیں آتا. (1٢)
حیاء کے مقامات:
اسلامی اخلاقیات کے مطابق خدا ، رسول اور ائمہ طاہرین علیہم السلام سے حیاء کرنا چاہیے کیونکہ وہ ہی حقیقی ناظر، اعمال پر شاہد اور انسان کو ہر حال میں دیکھنے والے ہیں اسی طرح انسان کو ایک دوسروں سےشرم وحیا کرنی چاہیے. (13)
لیکن بعض مقامات میں حیا ناپسندیدہ ہے نیکیوں کی انجام دہی میں شرم و حیاء کبھی ممدوح نہیں ہے لیکن اس حد و مرز کی رعایت بہت سے افراد کی طرف سے نہیں ہوتی ہے، اس کا سبب کبھی جہالت ہے اور کبھی لاپرواہی. بہت سی روایات میں بعض موقع پر حیا کرنے سے ممانعت کی گئی ہے
١. حق بات، حق عمل اور حق کی درخواست میں حیا کرنا:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: کوئی عمل بھی ریا اور خود نمائی کے عنوان سے انجام نہ دو اور اسے شرم و حیاء کی وجہ سے ترک نہ کرو. (14)
٢.تحصیل علم سے حیاء کرنا:
حضرت علی نے فرمایا: کوئی شخص جو وہ نہیں جانتا ہے اس کے سیکھنے میں شرم نہ کرے.(15)
٣. حلال درآمد کے حصول میں حیا کرنا:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: اگر کوئی مال حلال طلب کرنے میں حیاء نہ کرے تو اس کے مخارج آسان ہوجائیں گے اور خدا اس کے اہل و عیال کو اپنی نعمت سے فیضیاب کرے گا.(16)
٤. مہمانوں کی خدمت کرنے سے حیاء کرنا:
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں جن سے شرم نہیں کرنی چا ہیے، منجملہ ان کے انہیں میں مہمانوں کی خدمت کرناہے.(17)
۵.دوسروں کا احترام کرنے سے حیاء کرنا:
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: تین چیزوں سے شرم نہیں کرنی چا ہیے؛من جملہ ان کے اپنی جگہ سے باپ اور استاد کی تعظیم کے لئے اٹھنا ہے.(18)
٦. نہ جاننے کے اعتراف سے حیاء کرنا:
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: اگر کسی سے سوال کریں اور وہ نہیں جانتا تو اسے یہ کنےم میں کہ ''میں نہیں جانتا'' شرم نہیں کرنی چاہیے. (19)
٧. خداوند عالم سے درخوست کرنے میں حیا کرنا:
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: کوئی چیز خدا کے نزدیک اس بات سے زیادہ محبوب نہیں ہے کہ اس سے کسی چیز کا سوال کیا جائے، لہٰذا تم میں سے کسی کو رحمت خدا وندی کا سوال کرنے سے شرم نہیں کرنی چاہیے اگر چہ اس کا سوال جوتے کے ایک فیتہ کے متعلق ہو.(20)
٨. معمولی بخشش کرنے سے حیاء کرنا:
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: معمولی بخشش کرنے سے شرم نہ کروکہ اس سے محروم کرنا اس سے بھی بدتر ہے.(21)
٩.اہل و عیال کی خدمت کرنے سے حیاء کرنا:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے مدینہ کے ایک انسان کو دیکھا کہ اس نے اپنے اہل و عیال کے لئے کوئی چیز خریدی ہے اور اپنے ہمراہ لئے جا رہا ہے، جب اس انسان نے امام کو دیکھا تو شرمندہ ہوگیا امام نے فرمایا: یہ تم نے خود خریدا ہے اور اپنے اہل و عیال کے لئے لے جا رہے ہو؟ ... میں بھی اس بات کو دوست رکھتا ہوں کہ کچھ خرید کر اپنے اہل و عیال کے لئے لے جائوں. (22)
عفّت یا پاکدامنی
نفسانی صفات میں ایک دوسری روکنے والی صفت عفّت اور پاکدامنی ہے. ’’عفّت‘‘ لغت میں نا پسند اور قبیح امر کے انجام دینے سے اجتناب کرنے کے معنی میں ہے. (23)
علم اخلاق کی اصطلاح میں ’’عفت‘‘ نام ہے اس نفسانی صفت کا جو انسان پر شہوت کے غلبہ اور تسلّط سے روکتی ہے. (24)
شہوت سے مراد اس کا عام مفہوم ہے کہ جو شکم وخوراک کی شہوت، جنسی شہوت، بات کرنے کی شہوت اور نظر کرنے کی شہوت اور تمام غریزوں (شہوتوں) کو شامل ہوتی ہے، حقیقت عفّت یہ ہے کہ شہوتوں اورغریزوں سے استفادہ کی کیفیت میں ہمیشہ شہوتوں کی جگہ عقل و شرع کا غلبہ اور تسّلط ہو. اس طرح شہوتوں سے منظّم ومعیّن عقلی وشرعی معیاروں کے مطابق بھرہ مند ہونے میں افراط و تفریط نہیں ہوگی.
عفّت (پاکدامنی)کی اہمیت:
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:سب سے افضل عبادت عفّت ہے.(27)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے: خدا کے نزدیک بطن اور دامن (شرمگاہ) کی عفّت سے افضل کوئی عبادت نہیں ہے. (27)
اور جب کسی نے آپ سے عرض کیا کہ میں نیک اعمال انجام دینے میں ضعیف اور کمزور ہوں اور کثرت سے نماز نہیں پڑہ سکتا اور زیادہ روزہ نہیں رکہ سکتا، لیکن امید کرتا ہوں کہ صرف مال حلال کارؤں اور حلال طریقہ سے نکاح کروں تو حضرت امام محمد باقر ـ نے فرمایا: عفّت بطن ودامن سے افضل کون سا جہاد ہے ؟(28)
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی امت کے سلسلہ میں بے عفتی اور ناپاکی کے بارے میں اپنی پریشانی کا اظہار یوں کرتے ہیں: میں اپنے بعد اپنی امت کے لئے تین چیز کے بارے میں زیادہ پریشان ہوں معرفت کے بعد گمراہی، گمراہ کن فتنے اور شہوت بطن ودامن.ایک دوسرے بیان میں فرماتے ہیں: ''میری امت کے جہنم میں جانے کا زیادہ سبب شہوت شکم ودامن کی پیروی کرناہے.
عفّت کے اقسام:
عفّت کے لئے بیان شدہ عام مفہوم کے مطابق عفّت کے مختلف ابعاد وانواع پائے جاتے ہیں کہ ان میں سب سے اہم درج ذیل ہیں:
١. عفّت(پاکدامنی) شکم:
اہم ترین شہوتوں میں سے ایک اہم کافنے کی شہوت و خواہش ہے. کا نے پینے کے غریزہ سے معقول ومشروع (جائز ) استفادہ کو عفّت شکم کہا جاتا ہے جیسا کہ اس عفّت کے متعلق قرآن میں اس آیت کی طرف اشارہ کیاجا سکتا ہے کہ فرماتا ہے:
تم میں جو شخص مالداراور تونگر ہے وہ (یتیموں کا مال لینے سے) پرہیز کرے اور جو محتاج اور تیی دست ہے تو اسے عرف کے مطابق ( بقدر مناسب) کان نا چاہیے.(25)
٢. دامن کی عفت یا پاکدامنی:
جنسی غریزہ قوی ترین شہوتوں میں سے ایک ہے اسے جائز ومشروع استعمال میں محدود کرنا اور محرمات کی حد تک پہونچنے سے روکنا ''عفّت دامن '' یا پاکدامنی کہا جاتا ہے. جیسا کہ اسی معنی میں عفّت کا استعمال درج ذیل آیت میں ہوا ہے:
جن لوگوں میں نکاح کرنے کی استطاعت نہیں ہے انیںا چاہیے کہ پاکدامنی اور عفّت سے کام لیں یہاں تک کہ خدا انیں اپنے فضل سے بے نیاز کردے.(26)
عفّت کے علائم:
جو کچھ ہے اس پر راضی ہونا، اپنے کو معمولی اور چھوٹا سناھّ ، نیکیوں سے استفادہ کرنا، آسائش اور راحت میں، اپنے ما تحتوں اور مسکینوں کی دل جوئی، تواضع، یا د آوری ( غفلت کے مقابل )، فکر، جو د و بخشش اور سخاوت کرنا.
عصمت وحیاء کی شہزادی حضرت زہراء سلام اللہ علیھا کی شہادت
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللھ علیہا نے خواتین کے لیے پردے اور حیاء کی اہمیت کو اس وقت بھی لحاظ رکھا جب آپ دنیا سے رخصت ہونے والی تھیں؛ اس طرح کہ آپ ایک دن غیر معمولی طو ر فکر مند نظر ائیں ؛ آپ کی چچی (جعفر طیار کی بیوہ) اسماء بنتِ عمیس نے سبب دریافت کیاتو آپ نے فرمایا کہ مجھے جنازہ کے اٹھانے کا یہ دستور اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ عورت کی میّت کو بھی تختہ پر اٹھایا جاتا ہے جس سے اس کاقدوقامت نظر اتا ہے . اسما (رض) نے کہا کہ میں نے ملک حبشہ میں ایک طریقہ جنازہ اٹھانے کا دیکھا ہے وہ غالباً آپ کو پسند آئے گا؛ ا سکے بعد انھوں نے تابوت کی ایک شکل بناکر دکھائی اس پر سیّدہ عالم بہت خوش ہوئیں ؛ چناچہ آپ نے وصیّت فرمائی کہ آپ کو اسی طرح کے تابوت میں اٹھایا جائے .
مورخین تصریح کرتے ہیں کہ سب سے پہلی لاش جو تابوت میں اٹھی ہے وہ حضرت فاطمہ زہراکی تھی.
اسکے علاوہ آپ نے یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ آپ کا جنازہ شب کی تاریکی میں اٹھایا جائے اور ان لوگوں کو اطلاع نہ دی جائے جن کے طرزِ عمل نے میرےدل میں زخم پیدا کر دئے ہیں. سیدہ ان لوگوں سے انتہائی ناراضگی کے عالم میں اس دنیاسے رخصت ہوئیں. سیدہ عالم نے اپنے والد بزرگوار رسولِ خدا کی وفات کے 3مہینہ بعد تیسری جمادی الثانی سن ۱۱ ہجری قمری میں وفات پائی اور آپ کی وصیّت کے مطابق آپ کا جنازہ رات کو اٹھایا گیا .
حضرت علی علیہ السّلام نے تجہیز و تکفین کا انتظام کیا؛ صرف بنی ہاشم اور سلیمان فارسی ، مقدادو عمار(رضی اللہ عنہم) جیسے چندمخلص اصحاب کے ساتھ نماز جنازہ پڑھ کر خاموشی کے ساتھ دفن کردیا گیا.
افسوس ہے کہ وہ فاطمہ سلام اللہ علیہا جن کی تعظیم کو رسول کھڑے ہوجاتے تھے بعدِ رسول اہل زمانہ کا رخ ان کی طرف سے پھر گیا. نہ اہل بیت رسول کا خیال رکھا نہ کوئی حیا کیا ان پر طرح طرح کے ظلم ہونے لگے. علی علیہ السّلام سے خلافت چھین لی گئ پھر آپ سے بیعت کا سوال بھی کیا جانے لگا اور صرف اسی پر اکتفا نہیں بلکہ جبروتشدّد سے کام لیا جانے لگا.
سیدہ عالم کو جو جسمانی وروحانی صدمے پہنچے ان میں سے ایک، فدک کی جائداد کا چھن جانا بھی ہے جو رسول نے سیدہ عالم کو مرحمت فرمائی تھی. جائیداد کا چلاجانا سیدہ کے لئے اتنا تکلیف دہ نہ تھا جتنا صدمہ آپ کو حکومت کی طرف سے آپ کے دعوے کو جھٹلانے کا ہوا. یہ وہ صدمہ تھا جس کا اثر سیّدہ کے دل میں مرتے دم تک با قی رہا .
انتہا یہ کہ سیّدہ عالم کے گھر پر لکڑیاں جمع کردیں گئیں اور آگ لگائی جانے لگی . اس وقت آپ کو وہ جسمانی صدمہ پہنچا، جسے آپ برداشت نہ کر سکیں اور وہی آپ کی وفات کا سبب بنا. ان صدموں اور مصیبتوں کا اندازہ سیّدہ عالم کی زبان پر جاری ہونے والے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے کہ: (صُبَّت علیَّ مصائبُ لوانھّا صبّت علی الایّام صرن لیالیا)یعنی مجھ پر اتنی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ دِنوں پر پڑتیں تو وہ رات میں تبدیل ہو جاتے.
حوالہ جات:
1۔ ابن منظور، لسان العرب، ج٨، ص ٥١ ؛ مفرادات الفاظ قرآن کریم، ص ٢٧٠ اور ابن اثیر نہایہ، ج ١، ص ٣٩١۔
٢۔ ابن مسکویہ، تہذیب الاخلاق، ص ٤١، ؛طوسی اخلاق نا صری، ص ٧٧۔
3۔ شیخ مفید، امالی، ص ١٦٧۔
4۔ نہج البلاغہ، حکمت ٢٢٣ ؛ صدوق، فقیہ، ج ٤، ص ٣٩١ ح٥٨٣٤ ۔ کلینی، کافی، ج٨، ص ٢٣۔
5۔ آ مدی، غرر الحکم، ح ٨٢ ٠ ٦۔
6۔ کلینی، کافی ج ٢، ص ٥٥ ح١۔ طوسی، امالی، ص ٣٠٨۔
7۔ حرانی، تحف العقول ِ ،ص ٨٤۔
8۔ کلینی، کافی، ج٢، ص١٠٦۔
7۔ نہج البلاغہ، حکمت ٣٤٩۔
8۔ فقہ الرضا، ص ٢٨٢۔
9۔ طوسی، امالی، ص ٣٩، ح ٤٣۔ کلینی، کافی، ج ٢، ص ١١٢، ح٨ ؛ صدوق، فقیہ، ج٣، ص ٥٠٦، ح٤٧٧٤۔
10۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤٦١٢۔
11۔ صدوق، ، خصال، ج١، ص ٢٢٢، ح ١٥٠ ۔ مفید، امالی، ص ١٦٦، ح ١۔
12۔ حرانی، تحف العقول، ص ٢٠۔
13۔ مجلسی، بحار ج ٣، ص ٨١۔
14۔ صدوق، عیون اخبار الرضا ، ج ٢، ص٤٥، ح ١٦٢ ؛ تفسیر قمی، ج ١، ص ٣٠٤ ؛ کراجکی، کنز الفؤائد، ج ٢، ص ١٨٢ ؛ طوسی، امالی، ص ٢١٠۔
15۔ حرانی، تحف العقول، ص ٤٧، ؛ صدوق، امالی، ص ٩٩ ٣ ، ح١٢، ؛ کلینی، کافی، ج٢، ص ١١ ١، ح ٢، اور ج ٥، ص ٥٦٨، ح ٥٣ ۔
16۔ نہج البلاغہ، حکمت ٨٢ ؛ حرانی، تحف العقول، ٣١٣۔
17۔ حرانی، تحف العقول، ص٥٩ ؛ صدوق، فقیہ ،ج ٤، ص ٤١٠، ح ٥٨٩٠۔
18۔ آمدی، غرر الحکم، ح ٤٦٦٦۔
19۔ غرر الحکم۔
20۔ نہج البلاغہ، حکمت، ٨٢ ؛ صدوق، خصال، ج ١، ص ٣١٥، ح ٩٥۔
21۔ کلینی، کافی، ج٤، ص ٢٠ ح ٤۔
22۔ نہج البلاغہ، حکمت، ٦٧۔
23۔ کلینی، کافی، ج٢، ص١٢٣، ح١٠۔
24۔ لسان العرب، ج ٩، ص ٢٥٣ ،٢٥٤ ؛ جوہری ،صحاح اللغة، ج ٤، ص ١٤٠٥، ١٤٠٦ ؛ نہایہ، ج ٣، ص ٢٦٤۔
25۔ راغب اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن ص ٣٥١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ٢، ص ١٥ ۔
26۔ سورئہ نسائ، آیت ٦،
27 اسیطرح سورئہ بقرہ، آیت ٢٧٣ ملاحظہ ہو۔ سورئہ نور، آیت ٣٣؛ اسی طرح ملاحظہ ہو: آیت ٦٠.
28۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ص١٥.
source : alhassanain