آخرت کے عقيدہ کے سلسلہ ميں يہ کہنا چاہتا ہوں کہ انسان کو برائيوں اور بد اخلاقيوں سے بچانے کي جتني طاقت آخرت کے يقين ميں ہے ، اتني کسي دوسري چيز ميں نہيں ہے- بے شک حکومت کا قانون اور تہذيبي ترقي يا برائي بھلائي کو فطري احساس اور نفس کي شرافت بھي ، انسان کو برائيوں اور بداخلاقيوں سے بچانے والي چيزيں ہيں ، ليکن يہ اتني موثر اور کارگر نہيں ہوتيں، جتنا کہ مرنے کے بعد کي جزا و سزا کا يقين اور آخرت پر ايمان، بشرطيکہ زندہ يقين اور حقيقي ايمان ہو ، صرف نام کا ايمان اور بے جان عقيدہ نہ ہو -
يہ کوئي خالي منطق کا مسئلہ نہيں ہے ، بلکہ تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ برائيوں اور بد اخلاقيوں کي گنجائش اس معاشرہ ميں ہوتي ہے، جو آخرت اور مرنے کے بعد خدا کے سامنے پيشي اور جزا وسزا کے يقين سے خالي ہو، ورنہ جن کے دلوں ميں يقين وايمان کا نور موجود ہو ، اُن کا حال تو يہ ہوتا ہے کہ وہ برے خيالات اور گناہ کے وسوسوں سے بھي گھبراتے ہيں اور الله سے پناہ مانگتے ہيں ، تاريخ عالم گواہ ہے کہ اس دنيا ميں سب سے زيادہ پاکيزہ، صاف ستھري اور مہذب ومبارک زندگي ان ہي بندگان خدا کي رہي ہے جو مرنے کے بعد کي پيشي اور آخرت کي جزا وسزا پر يقين رکھتے تھے اور اس کي وجہ يہ ہے کہ يہ يقين آدمي کو برائي کے ارادہ سے وہاں بھي روکتا ہے ، جہاں کوئي ديکھنے والا نہ ہو اور دنيا ميں کسي قانون پکڑ اور سزا کا خطرہ نہ ہو-
الغرض اس دنيا کے خاتمہ کے بعد عالم آخرت کا برپا ہونا، الله کے پيغمبروں اور اس کي کتابوں کي بتائي ہوئي ايک حقيقت بھي ہے اور خود ہماري عقل سليم کا تقاضا بھي ہے اور اس پر ايمان وعقيدہ انساني دنيا کي ايک بڑي مصلحت بھي ہے-
source : tebyan