امام موسی کاظم علیہ السلام ہمارے ساتویں امام ہیں آپ کے القاب : كاظم، صالح، صابر، امين اور عبدصالح ہیں اور "باب الحوائج" کے نام سے زیادہ یاد کۓ جاتے ہیں، آنحضرت کی کنیپ: ابوابراھيم، ابوالحسن اول، ابوالحسن ماضي، ابوعلي اور ابواسماعيل ہیں،(1)
امام موسی کاظم علیہ السلام 7 صفر سن 128 یا 129 ھ کو مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے درمیاں " ابوا" نام کے گاوں میں پیدا ہوے ، آپ کی والدہ ماجدہ کا نام " حمیدہ بریریہ" ہے جو کہ حمیدہ مصفا کے نام سے معروف تھیں، امام جعفر صادق (ع) کی شھادت کے بعد 20 سال کی عمر میں منصب امامت پر فائز ہوے،(2)
آنحضرت نے اپنے دور امامت میں چار بنی عباسی خلیفوں(منصور دوانقي، مھدي، ھادي و ھارون الرشيد) کے ہمعصر تھے،
امام (ع) ہر خلیفہ کے طرف سے عتاب اور رنج کا شکار رہے اور کئ مرتبہ انکی طرف سے گرفتار کرکے قیدی بناۓ گۓ، ھارون رشید کے زمانے میں شوال سن 179 ھ سے شہادت تک بعنی سن 183 ھ تک زندان میں قید رہے(3)
ھارون رشید ( پانچواں عباسی خلیفہ) کی اھل بیت اطہار کے ساتھ شدید دشمنی ناقابل انکار تھی، اولاد فاطمہ زھراء(س) اور ذریات علی(ع) پر مظالم ڈھانے میں کوئی کمی نہ کی،وہ چونکہ عباسی حاکموں میں سے زیادہ جنایت کار اور ظالم تھا،لوگوں کا امام موسی کاظم (ع) کے نسبت احترام اور امام کا معنوی مقام دیکھنا برداشت نہیں ہوتا اور اس سے بہت پریشان رہتا تھا،
آخر کار سن 179 ھ کو رمضان کے مہینے میں عمرہ کرنے کیلۓ مکہ میں داخل ہواور وہاں سے مدینہ چلا گیا اور امام موسی کاظم (ع) کو گرفتار کرکے قید خانے میں ڈالنے کا حکم صادر کیا، اس وقت اما موسی کاظم (ع) اپنے جد گرامی رسول خدا کے روضے میں نماز و دعا میں مشغول تھے اور وہی پر ھارون رشید کے سپاہیوں نے امام (ع) کو گرفتار کرکے ھارون کے پاس لے گۓ
ھارون رشید نے حکم دیا کہ امام موسی کاظم کو ہتہکڈیاں اور بیڈیاں تہنا کر عراق کے زندان میں منتقل کیا جاۓ اور لوگوں کی مخالفت سے بچنے اور انکو گمراہ کرنے کیلۓ دو محمل بناۓ گۓ ایک کو بغداد کی طرف اور دوسرے کو بصرہ کی طرف روانہ کیا گیا،امام (ع) کو بصرہ میں رکھا گیا ھارون کے سپاہیوں نے 7 ذیحجہ سن 179 ھ کو بصرہ میں امام (ع) کو ھارون رشید کے چچیرے بہای عیسی بن جعفر بن منصور دوانقی کے تحویل میں دے دیا اور اس نے آنحضرت کو اپنے گھر کے ایک کمرے میں قیدی بناۓ رکھااور پہلے پہلے امام کے ساتھ نہایت سختی کی ساتھ رفتار کرتا تھا مگر اور جب امام (ع) کی عبادت اور راز و نیاز کا حال مشاھدہ کیا تو امام کے ساتھ نرمی کے ساتھ پیش آنے لگا اور ھارون کو لکھا کہ امام کو اس کے گھر سے نکال لیں اگر ایسا نہ کیا تو میں امام کو آزاد کر لوں گا ھارون نے مجبور ہو کر امام کو وہاں سے نکالنے اور بغداد میں فضل بن ربیع کے قید خانے میں رکہنے کا حکم صادر کیا، جس دوران امام کو فضل بن ربیع کے قید خانے میں تھے ہارون نے اسے امام کو شہید کرنے کو کہا مگر اس وہ ایسا کرنے سے کتراتا رہا،
ھارون نے امام کو فضل بن ربیع کے قید خانے سے نکلواکر فضل بن یحیی برمکی کے گھر میں قیدی بناۓ رکھنے اور امام کو شہید کرنے کو کہا لیکن اس نے بھی ایسا کرنے کی جرئت نہ کی بلکہ امام کے نسبت زیادہ سے زیاردہ احترام اور اکرام کرنے لگا ،ھارون فضل کے ایسے رفتار سے اس پر خفا ہوا اور حکم دیا کہ فضل کو سو کوڑے مار کر تمام عہدوں سے برکنار کیا جاۓ اور امام موسی کاظم علیہ السلام کو سندی بن شاھک کے زندان میں منتقل کیا گیا اور وہاں پر اس نے امام پر شکنجہ اور ازیت کی کاروایاں کرتا رہا،اور کئ دنوں کے اذیت اور آزار کے بعد ھارون کے حکم سے امام کو خرمے میں زہر ملا کر 25 رجب سن 183 ھ کو شہید کیا گیا،
امام موسی کاظم علیہ السلام کو شہید کرنے کے بعد سندی بن شاھک نے بغداد کے بزرگوں قاضیوں اور فقہا کو فریب کارانہ انداز میں بلا کر امام کا جسد مبارک دکہا کر کہا کہ آپ مشاھدہ کر سکتے ہیں کہ امام پر کسی قسم کی ذیادتی نہیں ہوئی ہے بلکہ طبیعی طور آنحضرت کی موت واقع ہوئی ہے اور امام کے پیکر پاک کو بغداد کے پل پر رکھ کر آواز دیتا تھاکہ لوگوں دیکھو یہ ہے موسی ابن جعفر دنیا سے کوچ کر گیا ہے ــ ـ ـ ـ ـ
` شیخ مفید امام موسی کاظم علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں لکھا ہے:
و كان ابوالحسن موسي(ع)، اعبد اهل زمانه، و افقهم، و اسخاهم كفّاً و اكرمهم نفسا.(5)
یعنی: ابوالحسن امام موسی کاظم (ع) اپنے زمانے میں کے تمام لوگوں سے زیادہ پارسا ،دانا ، سخاوت مند اور محترم تھے،
اسی طرح دوسری جگہ لکھتے ہیں :
و قد روي الناس عن ابي الحسن موسي(ع) فاكثروا، و كان افقه اهل زمانه حسب ما قدمناہ و احفظهم لكتاب الله، و احسنهم صوتا بالقرآن، و كان اذا قرا يحزن، و يبكي السامعون لتلاوته و كان الناس بالمدينه يسمون زين المتهجدين، و سمي بالكاظم لما كظمه من الغيظ و صبر عليه من فعل الظالمين به، حتي مضي(ع) قتيلا في حبسهم و وثاقهم.(6)
یعنی: لوگوں ( یعنی اھل سنت علما) نے ابوالحسن امام موسی کاظم(ع) سے کافی روایتیں نقل کۓ ہیں اور جسطری پہلے بہی بیان کر چکا ہوں کہ آنحضرت کو قرآن کے نسبت اپنے زمانے کا سب سے دانا اور اعلم سمجھتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ قرآن کی تلاوت دلنوا صدا میں کرتے اور تلاوت کے دوران روتے اور حاضرین پر بھی رقت طاری ہو جاتی تھی۔
مدینہ کے لوگ حضرت کو عابدوں اور شب زندہ داروں کی زینت کے نام سے یاد کرتے تھے، چونکہ آنحضرت ھمیشہ اپنا غصہ پی جاتے اور ستمگروں کے مقابلے میں بردباری سے کام لیتے تھے اس لۓ کاظم کہلاتے تھے آخرکار قید خانے میں شہید کۓ گۓ(7)
مدارک اور ماخذ:
1- الارشاد (شیخ مفید)، ص 559؛ منتہی الآمال (شیخ عباس قمی)، ج2، ص 181؛ القاب الرسول و عترتہ، ص 62
2- المستجاد (علامہ حلی)، ص 182
3- اصحاب الامام الصادق(ع) (عبدالحسین شبستری)، ج3، ص 317؛ الارشاد، ص 579؛ المستجاد، ص 189؛ وقایع الایام (شیخ عباس قمی)، ص 322
4- نک: الارشاد، ص 579؛ المستجاد، ص 189؛ منتہی الآمال، ج2، ص 212؛ تاریخ بغداد (خطیب بغدادی)، ج31، ص 29؛ وقایع الایام، ص 322 و عیون اخبارالرضا(ع) (شیخ صدوق)، ج2، ص 92
5- الارشاد، ص 575
6- الارشاد ، ص 579
7- القاب الرسول و عترتہ، ص
source : alhassanain