بعض لوگ یہ گمان رکھتے ہیں کہ فقط اہل بیت پر عقیدہ اور امام زمانہ کی محبت کافی ہے ان لوگوں کے خیال کے مطابق انہیں اپنے گناہوں کے مد مقابل عذاب نہ ہوگا،اس قسم غلط خیال اور گمان کو قرآن اور روایات میں رد کیا گیا ہے اور ایسے گمان کو تمنی کاذب یا امید کاذب کا نام دیا گیا ہے
یہ لوگ اہل کتاب کی مانند ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہی کہ وہ بظاہر اس دین و مذہب پر ہیں پس اہل سعادت ہیں اور انہیں بد عملیوں پر عذاب نہ ہوگا-
قرآن میں ہے :
٫٫و قالوالن یدخل الجنة الا من کان هودا او نصاری تلک امانیهم قل ھاتوا برهانکم ان کنتم صادقین (بقرہ ۱۱۱)
"اور وہ کہتے ہیں کہ کوئ بھی جنت میں نہیں جاۓ گا مگر یہ کہ وہ یہودی یا عیسائ ہو یہ ان کی آرزوئیں ہیں آپ کہیے اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیلیں لیکر آو"
روایات میں بھی اس گروہ کو جھٹلایا گیا ہے اور انہیں کذب المتمنون (غیبت نعمانی باب ۱۱ص۱۹۷) کا عنوان دیا گیا ہے کہ جس کا مطلب ہے کہ(خیالی باتوں میں پڑے آرزومند جھوٹے ہیں)
امام صادق (ع)کے فرزند حضرت اسماعیل کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی سے پوچھا:ہمارے گناہ گاروں اور ہمارے غیر کےگنہاروں کے بارے میں آپ کی کیا فرماتے ہیں ؟تو امام نے یہ آی تلاوت فرمائ ٫٫لیس بامانیکم و لا امانی اھل الکتاب من یعمل سوءا یجز بہ ۔ ۔ ۔(سورہ نسا ۱۲۳)
تمہاری آرزوں کو اہل کتاب کی آرزوں پر فضیلت حاصل نہیں ہے جو بھی برا عمل کرے گا اس کی سزا پاۓ گا ۔ ۔ ۔ تو اسماعیل کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق (ع)کی خدمت میں عرض کی :
ایک گروہ گناہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں امید و رجا ہے اور وہ اسی طرح رہتے ہیں یہانتک کہ مر جاتے ہیں امام نے فرمایا:یہ وہ ہیں جو اپنی آرزوں میں غرق رہے اور انکی آرزوں نے انہیں راہ حق سے منحرف کردیا وہ جھوٹ بولتے ہیں وہ اہل رجاء اور امید نہیں ہیں-
یقینا جو کسی چیز کی امید میں ہوں اسکی طلب میں رہتا ہےاور جو کسی چیز سے (رتا ہے اس سے پرھیز کرتا ہے(اصل کافی جلد۲ص۶۸
حقیقی امید اور رجا ایک اور چیز ہے مفضل کہتے ہیں امام صادق(ع) نےفرمایا:
ایاک و السفلة فانما شیعة علی من عف بطنه و فرجه و اشتد جهاده و عمل لخالقه و رجا ثوابه و خاف عقابه فاذ ارأیت اولئک فاولئک شیعة جعفر (وسائل الشیعة ج۱ باب۲۰ ص۸۶)
پست لوگوں سے پرہیز کرو فقط وہ علی(ع) کے شیعہ ہیں کہ جو شکم و شہوت کے مسائل میں عفت رکھتے ہیں کو شش و زحمت کرتے ہیں٬اللہ کیلئےعمل کرتے ہیں اسی کے ثواب کی امید رکھتے ہیں اور اسکے عذاب سے ڈرتے ہیں جب تم ایسے افراد کو دیکھو تو جان لو یہ لوگ جعفر بن محمد صادق(ع) کے شیعہ ہیں۔
لیکن افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگ اھل بیت کی طرف توسل اور انکی شفاعت کے موضوع کی طرف توجہ و دقت کیے بغیر یہ غلط فکر خطابت یا شعر کے ذریعے لوگوں کے ذہن میں منتقل کر رہے ہیں۔
ایسی طرز فکر کے نتائج: ۱۔اپنے فردی اور اجتماعی وظائف اور تکالیف(واجبات و محرمات) پر عمل نہ کرنا
۲۔منفی قسم کا انتظار کرنا کہ جس میں امام کےحوالے سےنہ کوئی علمی قدم اٹھایا گیا ہے اور نہ ہی کوئی وظیفہ انجام دیا گیا ہے۔
۳۔فضول وہم(کہ جس میں انسان اپنے طرز عمل سے خواہ مخواہ ناراض رہتاہے اور حقیقت سے آنکھیں بند رکھتا ہے)
ایسی فکر کے اسباب: ۱۔ہمیشہ خیالات اور آرزوں میں رہتے ہوئے حقیقی امید و رجا اور توہمات میں فرق نہ سمجھنا
۲:نفسانی خواھشات جیسا کہ سورہ قیامت کی آیہ ۵ میں ہے (بل یرید الانسان لیفجر امامہ) انسان معاد میں شک نہیں رکھتا بلکہ وہ چاھتا ہے کہ آزاد رہے اور بغیر کسی حساب و کتاب کے ڈر کے ساری عمر گناہ کرے
۴۔اللہ تعالی کی صحیح معرفت نہ ہونا اگر چہ وہ مھربان ہے لیکن حکیم اور عادل بہی ہے
۵۔آئمہ علیھم السلام کی نسبت جذباتی اور غیر منطقی نگاہ رکھنا۔
علاج:۔ ۱۔ آیات و روایات میں غور و فکر اور تدبر مثلایہ آیت:ان اکرمکم عند اللہ اتقیکم (حجرات۱۳) اللہ تعالی کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ با فضیلت شخص وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے
۲۔ اس نکتہ کی طرف توجہ رکھنی چاہیے کہ اعمال کا معیار و ملاک خالص نیت کے ساتھ ساتھ فردی اور اجتماعی و ظائف کو انجام دینے میں ہیں
:بسم الله الرحمن الرحیم و العصر ٬ان الانسان لفی خسر الا الذین آمنو و عملو الصالحات و تو اصو بالحق و تواصو بالصبر(سورة العصر)
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے
زمانہ کی قسم تمام انسان خسارے میں ہیں مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور اعمال صالح انجام دیےاور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرتے ہیں اور صبر کی تلقین کرتے ہیں
source : alhassanain