ہر چند کہ دنیا میں کسی بھی عورت کو پیغمبری عطا نہیں ہوئی ہے لیکن چند ایک خواتین پیغمبرانہ زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ضرور ہوئیں۔ منصبِ رسالت پر فائز نہ ہونے کے باوجود بھی کارِ رسالت کی انجام دہی میں یہ بر گزیدہ خواتین پیغمبرانِ اولوالعزم سے شراکت رکھتی ہیں۔ ان ہی چنندہ خواتین میںہمسرِ مصطفی ۖجناب خدیجہ کا نام گرامی سرِ فہرست ہے۔ پیغمبر اسلام کیۖ ہمسری میں آپ نے جومقام و مرتبہ پایا اس پر بجاطور پر نسوانیت تاقیام قیامت ناز کر سکتی ہے۔ بلا شبہ آپ کی اعلیٰ شخصیت، انسانیت کیلئے باعثِ افتخار ہے۔ آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے سب سے پہلے پیغمبر ختم مرتبت کی رسالت پر ایمان لایا اور اپنی پوری زندگی کو اسلام کے سانچے میں یوں ڈالا کہ اسلام کا چلتا پھرتا مجسمہ قرار پائی۔آپ کی زندگی میں سیرتِ طیبہ کا پرتو صاف دکھائی پڑتا ہے۔ اسی لئے کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح آپ کے عظیم شوہر کی زندگی عالم انسانیت کے لئے نمونہ عمل ہے اسی طرح حضرت خدیجہ کا کردار بھی قابل ِتقلید ہے۔آپ کی پاکدامنی، ایثار و قربانی، انسان شناسی، غمگساری ،شرافت و جاہت ہر دور میں نسوانیت کیلئے بالتخصیص باعثِ ہدایت ہے۔عصرِ حاضر میں نام نہاد ماڈرن عورت جن الجھنوں سے جوجھ رہی ہے۔ ان سے راہِ نجات اس عظیم خاتون کی سیرت کی روشنی میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہاں پر یہ بات خارج از موضوع نہ ہوگی کہ فکر و سوچ کا عملی زندگی پر کافی عمل دخل ہوا کرتا ہے سقراط تو یہاں تک کہہ گیا ہے کہ'' غورو فکر کے بغیر زندگی جینے کے لائق نہیںہے''۔ کیونکہ اپنی ظاہری دنیا کو جاذبِ نظر بنانے کے لئے لازمی ہے کہ انسان نے اپنے اندرون میں ایک حسین و جمیل فکری دنیا بسا ئی ہو۔حکیم الامت کا کہنا صد فی صد مبنی بر حقیقت ہے کہ
جہانِ تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
اسے یہ بات طے ہوئی کہ آیڈیولوجی ہی معاشرتی سرگرمیوں کی بنیاد ہوتی ہے یہ تو ممکن نہیں ہے کہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ دوبارہ اس دنیا میں تشریف آور ہو اور پھر سے اپنی سیرت و کردار کا عملی نمونہ پیش کر کے غرب زدگی کی شکار آج کی عورت کو اس کی زبوں حالی کا احساس دلا دے اوربنفس ِ نفیس اس بیچاری کا ہاتھ تھام کردریائے معصیت میں غرق ہونے سے بچا لے البتہ مسئلے کا منطقی اور حقیقی حل یہ ہے کہ اس دور کی خواتین مغرب کے تصور ِ نسوانیت کے بجائے حضرت خدیجہ الکبری کے تاریخ ساز کردار کو اپنا آیڈیل مانیں پہلے ان کی(حضرت خدیجہ کی) آئیڈیلوجی کا بغور مطالعہ کریں اس سے اپنے اندرون میں ایک فکری انقلاب برپا کرنے کی کوشش کریں۔اور ساتھ ہی ساتھ حضرت خدیجہ کے سیرت و کردار کے سائے میں اپنی عملی زندگی گزاریں تو پھر یقینا عصر حاضر میں نسوانیت کی کایا پلٹنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
نسوانیت برائے مادیت:۔
جس دور میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں اس میں صنفِ نازک کو مادی مفادات کے حصول کاایک پر کشش ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ ماڈلنگ ((MODLINGسے لیکر ایڈواٹائزنگ ((advertising تک ایڈواٹائزنگ (advertising )سے لیکر ایکٹنگ(acting) تک جتنے بھی روپ اس عورت کے عالمی میڈیا منظر ِ عام پر لارہا ہے ، ان سے مادی فکر اورسرمایہ دارانہ نظام کو تو خوب فروغ مل رہا ہے لیکن بیچاری صنف نازک کی زبوں حالی جو ں کی توں ہے۔ جو لوگ اس صنفِ نازک کو اس طرح کی سر گرمیوں میں مصروف دیکھنا چاہتے ہیں انہیں صرف اور صرف اپنے مادی مفادات پیش نظرہیں۔یہ بات اور ہے کہ وہ ( empowermnet women)کے بنیر(banner)تلے اس گھناونے کھیل کوکھیلنے میں محو ہیں کس قدر تکلیف دہ امرہے کہ وہ عورت جو انسان ساز تھی بالفاظِ دیگر معدنِ انسانیت تھی اس کا بلند ترین مدعا و مقصد یہی قرار پائے کہ وہ کسی بھی قیمت پر سرمایہ میں اضافے کا ادنی ٰ ساوسیلہ بن جائے،چاہے اس کے لئے اسے اپنی عزت و عفت کا سودا بھی کرنا پڑے۔ اپنی مادرانہ فطرت کو اپنی ہی کوکھ میں زندہ دفنانا پڑے۔ اپنے ضمیر کا قتل کرنا پڑے یا پھر اخلاق و مذہب کی تمام ترحدوں کو پھلانگنا پڑے۔ جدید ترین اصطلاح میں کیرئیر (CARRIER) کے نام پر کچھ اس طرح کی پستیوں سے ہوکر اس جدید عورت کو گزرنا پڑرہا ہے کہ جس سے اس کا حقیقی وقار خطرے میں پڑھ گیا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جتنا یہ پستیوں میں اترتی جارہی ہے اتنا ہی دنیا کی نظروں میں شہرت کے مراحل طے کرتی جارہی ہے۔ یعنی معاشی مفادات کے حصول کی دوڑ میں انسان نے عزت و شرافت کے اصل معیارات کو صد فی صد تبدیل کردیا ہے بالفاظ دیگر ذلت کی پستیوں کو ہی عزت و شہرت کا بام عروج کہا جاتا ہے۔ یہ سب سرمایہ دارای اور شہوت پرستی کے اوچھے کرتب ہیں جنہیں عورت کے نرم و نازک وجود پر آزما یا جارہاہے۔ عالمی سطح پر جو رویہّ ایک عورت کے تئیں اس وقت پایا جاتا ہے اس کے اثرات ہمارے معاشروں میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں بھی رونقِ خانہ ہونے کے بجائے زینتِ بازار بننے کا شوق پروان چڑھ رہا ہے۔ نوکری(Job) کا جنوں ہے کہ جو سر چڑھ کر بول رہا ہے جس کے نشے میں گھریلو زمہ داریاں بے قیمت دکھائی دیتی ہیں۔ مغرب کی مغربی تہذیب کی دیکھا دیکھی سے بھی مشرقی عورت کے تصورِ حیات اورطرزِ زندگی میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ تعلیم و تربیت کا مقصد حصولِ معاش کے سوا کچھ بھی نہیں رہا اور اس سلسلے میں مردو زن کے مابین کوئی امتیاز نہیں ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ اب خواتین بھی فکرِ معاش اور طلبِ روزگار کی دوڑ میں شامل ہیں۔نوبت تو یہاں تک آ پہنچی ہے کہ پہلے پہل تو رشتۂ ازدواج کو طے کرتے وقت صرف مرد حضرات کے متعلق دیکھا جاتا تھا کہ ان کا ذریعہ ٔ آمدنی کیا ہے ؟ لیکن آج رشتہ ٔ ازدواج میں بندھنے والی خواتین کے متعلق بھی پوچھا جاتا کہ ان کی ذاتی آمدنی کتنی اور انہوں نے ذریعہ معاش اختیار کر رکھا ہے؟سادہ الفاظ میں یوں کہا جائے تو بجا ہوگا کہ پہلے رشتۂ ازدواج کے لئے کمانے والے مرد کی تلاش ہوا کرتی تھی اور اب کمانے والے مرد کے ساتھ ساتھ کمانے والی عورت کا تقاضا زور پکڑتا جا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر والدین بھی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اپنی بچیوں کے تئیں کچھ مختلف زاویہ نگاہ رکھتے ہیں۔ وہ اخلاقی,ادبی اور مذہبی تعلیم کے بجائے اپنی بچیوں کو روزگار بخش کورسس(job oriented courses and degrees)ہی کرواتے ہیں۔
مذکورہ صورتِ حال کے تناظرمیں حضرت خدیجہ کا زندگی نامہ سبق آموز ہے بالخصوص ان خواتین کیلئے جنہوں نے دولت کمانے کے گورکھ دھندے میں اپنی ذات و شناخت کو دا ؤپر لگا رکھا ہے۔ نیز اصلی ھدف ِزندگی سے منحرف ہو کر اپنے لئے ایک پست ترین مقصد متعین کیا ہے۔ مورخینِ اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ حضرتِ خدیجہ ایک متوّل گھرانے میں پیدا ہوئیں۔اپنی خداداد ذہانت و فطانت کے سبب آپ نے اپنے خاندانی کاروبار کو وسعت دی۔ اور مکہ کے امیر ترین افراد میں آپ کا شمار ہونے لگا۔ لیکن دولت کی فراوانی آپ کے اعلیٰ سیرت و کردار پر اثر انداز نہ ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ اسلام کی اس عظیم خاتون نے بڑے بڑے رئیس زادوں کی خواستگاری کو ٹھکرا دیا۔ اور ایک عظیم مشن کی کامیابی کے لئے اپنی پوری دولت وقف کردی۔ حق کی خاطر جناب خدیجہ کا اپنا سرمایہ قربان کردینا آج بھی ایک خاتون کو زندگی کا ایک اہم سبق یاد دلا رہا ہے کہ اعلیٰ ترین مقاصد کو روند کر سرمایہ کی جمع آوری صنفِ نازک کے شایان شان نہیں ہے۔ چند سکوں کی خاطر اپنا سب کچھ دا وپر لگا دینا ایک ایسا فعلِ قبیح ہے جس سے نسوانیت کا بھیڑا غرق ہوسکتا ہے۔نیز دنیا طلبی کی لت آخر کار انسان کا باطنی حلیہ بگاڑ کے رکھ دیتا ہے۔ برعکس اس کے خدا جوئی سے ایک فرد کے پیکر میں ایک لازوال معنوی جوہر پیدا ہوتا ہے جس کا حضرت خدیجہ ایک واضع مظہر قرار پائیں ۔
شریک حیات کا انتخاب:۔
ام المومنین کا راہِ حق میں اپنا سب کچھ لٹا دینا اس بات کی طرف ہمیں متوجہ کراتا ہے کہ زر پرستی کے بجائے حق جوئی ہی مقصدِ زندگی ہے۔ اور حق جوئی کی اس کھٹن اور شہادت طلب راہ میں کون سے ہمسفر کا انتخاب کرنا چاہئے؟ ہمسفر کے انتخاب کیلئے جن معیارات کو ایک مسلم خاتون پیش نظر رکھے ،وہ کیا ہیں؟اس طرح کے تمام سوالات کا جواب ہمیں مل سکتا ہے بشرطیکہ اس مثالی کردار کا سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے۔
حضرت خدیجہ کی عفت و پاکدامنی ،بے پناہ ذہنی صلاحیت و صلابت اور صاحبِ ثروت ہونے کے سبب قریش کے بہت سے روساء اور شرفاء نے ٍاپنی خواستگاری ظاہر کی۔ مگر حضرت خدیجہ کی انسان شناس نگاہیں کسی خاص الخاص ہستی کی تلاش میں تھیں۔ جب پیغمبرِ رحمت ۖکی امانت و صداقت کا شہرہ آپ تک بھی پہنچا تو انہوں (حضرت خدیجہ) نے آپۖکو تجارتی قافلے کی سرپرستی سونپی جسے آپ ۖنے قبول فرما کر شام کا تجارتی سفر کیا۔ حضرت خدیجہ نے جب اپنے غلام میسرہ سے آنحضور ۖکے معمولات ِ زندگی ، خلق ِ عظیم اور امانت و صداقت کے مشاہدات سنے تو وہ کردارِ محمدی پر فریفتہ ہوگئیں اور بلاتامل اپنے چچازاد ورقہ بن نوفل کے سامنے اس عظیم اور متبرّک انسان کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھنے کی خواہش ظاہر کی۔ حضرت خدیجہ کی اس خواہش کو بھی حضورنے شرفِ قبولیت بخشا۔ لیکن مالی لحاظ سے غریبی اور سماجی اعتبار سے یتیمی کی زندگی گزارنے والے ایک شخص کے ساتھ رشتہ ازدواج استوار کرنے پر قریش کی تمام رئیس زادیاں حضرت خدیجہ سے برہم ہوئیں یہاں تک کہ نوبت سماجی بائیکاٹ تک جا پہنچی۔ انہوں نے حضرت خدیجہ کی دعوتِ ولیمہ کو ہی نہ صرف رد کیا بلکہ حضرت زہرا سلام اللٰہ علیھاکے تولد کے وقت بھی قریش کی ان عورتوں نے حضرت خدیجہ کی عیادت سے ہاتھ کھینچا۔ حضرت خدیجہ کی سیرت کے اس پہلو سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اول تو آپ نے شریکِ حیات انتخاب کرتے وقت آج کل بلکہ ہر زمانے کے عمومی معیارات یعنی دولت و ثروت اور دنیاوی جاہ و حشمت وغیرہ کوخاطر میں نہیں لایا۔ بلکہ کردار کی پاکیزگی کو ہی اپنا معیارِ انتخاب قرار دیا۔ ثانیا ًاس انتخاب کے بعد جس سماجی فشار کا انہیں سامنا ہوا اس کا آپ نے مستحکم ارادے کے ساتھ مقابلہ کیا اور اپنے اصول سے سرمو بھی تجاوز نہ کیا۔بر عکس اس کے عصرِ حاضر میں اکثر و بیشتر خواتین شریکِ حیات منتخب کرتے وقت صرف اور صرف مال و دولت کو ہی بنیادی معیار قرار دے رہی ہیں۔ علاوہ ازیں سماجی رسوم اور سوچ و اپروچ کو مدنظر رکھ کر فضول خرچی اور رسومِ بد کو فروغ دینے میں عورتیں پیش پیش ہوا کرتی ہیں۔ غیر اسلامی رسوم کو پروان چڑھانے میں خواتین کا رول ایک طاقت ور عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی بھی کام کی انجام دہی کے وقت خواتین ضرور اس بات کو پیش نظر رکھتی ہیں کہ اس سلسلے میں سماج کیا کہتا ہے اور کسی بھی غیر اخلاقی رسم کو اگر مرد حضرات ترک کرنے کا ارادہ بھی کریں تو خواتین اپنی روایتی دلیل کے ساتھ اس نیک عمل میں حائل ہوجاتی ہیں کہ اگر ہم فلاں رسم کو ترک کریں گے'' تو لوگ کیا کہیں گے'' ہمارے معاشرے میں اس دیکھا دیکھی کے سبب بہت سی بیماریاں پنپ رہی ہیں جسے یہ زوال آمادہ ہے۔ اگر ہماری خواتین بھی حضرت خدیجہ کی سیرت کے انہی ہی دو پہلوں کی پیروی کریں تو ہمارے بہت سے معاشرتی مسائل اپنے آپ ہی حل ہوں گے۔جن کا نچوڑدو نکتوں میں یوں بھی پیش کیا جاسکتا ہے؛
اول: حضرت خدیجہ کی طرح انہیں بھی مادیت پر معنوی کردار کوہی ترجیح دینا ہو گا۔
دوم :اس عظیم خاتون کی پیروی سے ان (خواتین ) میں معاشرتی فشار کے سامنے ثابت قدم رہنے کی قوتِ برداشت پیدا کرناہو گی۔
source : abna24