واضح سی بات ہے کہ جب کسی ایک شخصیت کے اتنے فضائل اور کمالات لوگوں کے سامنے برملا ہوں گے(۹) اور پھر خود رسول اکرم(ص) کا علی علیہ السلام کی نسبت بے والہانہ لگاو لوگ مشاہدہ کریں گے(۱۰) تو وہ لوگ جن کے دل میں واقعی اسلام کا درد ہو گا جنہوں نے دین کو دین الہی سمجھ کر قبول کیا ہو گا وہ تو یقینا علی علیہ السلام کی شخصیت کا کلمہ پڑھنے پر مجبور ہو جائیں گے اور ان کے گرویدہ ہو کر ان کی اطاعت میں جھٹ جائیں گے لیکن اس کے برخلاف جن لوگوں نے دین کو صرف اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے قبول کیا ہو گا وہ ہر وقت اندر ہی اندر علی علیہ السلام سے حسد اور کینے کی آگ میں جلیں گے اور اس تاک میں رہیں گے کہ کب رسول کی آنکھیں بند ہوں اور ہم علی (ع) کے مقابلے میں قد علم کریں اور دین کے نام پر اقتدار کی کرسی چھین لیں، اس کے بعد دیکھیں گے کہ جس کی لاٹھی ہو گی اسی کی بھینس۔
گزشتہ تمام باتوں کے علاوہ شیعہ سنی سب کی کتابوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی حدیثوں میں ’’ علی کا شیعہ‘‘ ’’ اہلبیت کا شیعہ‘‘ جیسے الفاظ کثرت سے نظر آتے ہیں جو اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ یہ گروہ مرسل اعظم(ص) کے زمانے سے ہی ظہور پا چکا تھا(۱۱)۔
اقلیت اہل تشیع کے اکثریت اہلسنت سے جدا ہونے کے اسباب
علی علیہ السلام کے شیعہ اور پیرو رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے نزدیک آپ کے اس عظیم مقام و منزلت کی وجہ سے اس بات کے قائل تھے اور ہیں کہ رحلت رسول (ص) کے بعد مقام خلافت اور مسلمین کی مرجعیت کے مستحق صرف علی علیہ السلام ہیں اور ظاہری حالات بھی اسی چیز کی تائید کرتے تھے جیسا کہ بستر بیماری پر رسول اسلام(ص) کا قلم و دوات طلب کرنا اور علی علیہ السلام کی خلافت کے سلسلے میں وصیت کرنا۔(۱۲)
لیکن شیعوں کے انتظار کے برخلاف ٹھیک اسی وقت جب ادھر رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے رحلت فرمائی اور ابھی آپ کا جسد مطہر دفن بھی نہیں ہوا تھا اور کچھ مخصوص اصحاب آپ کی تکفین و تدفین کے فرائض انجام دینے میں مشغول تھے تو صحابہ کرام کی کثیر تعداد بغیر اس کے کہ اہلبیت رسول سے بھی کسی قسم کا مشورہ کرے، انتخاب خلیفہ کے امر میں ان کی رائے بھی حاصل کرے یا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ان اکابر اصحاب جیسے سلمان فارسی، ابوذر ٖغفاری، عمار اور مقداد وغیرہ کو بھی اس کام میں شامل کرے سقیفہ بنی ساعدہ میں انتخاب خلیفہ کے لیے جمع ہو گئی اور اپنے طور پر کافی جرح و بحث کے بعد خلیفہ مسلمین بنا کر آگئی اور علی(ع) اور ان کے چاہنے والوں کو اس کام کا مخالف قرار دے دیا۔ (۱۳) علی علیہ السلام اور ان کے ساتھی جیسے عباس، زبیر، سلمان، ابوذر، مقداد اور عمار پیغمبر (ص) کی تدفین کے فرائض انجام دے کر جب فارغ ہوئے تو انہیں اطلاع ملی کہ مسلمانوں کے خلیفہ منتخب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے اس عمل پر اعتراض کیا لیکن جواب دیا گیا کہ مسلمانوں کی صلاح اسی کام میں تھی(۱۴)( جاری ہے )
source : tebyan