یہ انتقاد اور اعتراف اس کا سبب بنا کہ اقلیت اکثریت سے جدا ہو جائے اور علی علیہ السلام کے پیروکاروں کو ’’شیعیان علی‘‘ کے نام سے اسلامی سماج کے اندر مشہور و معروف کر دیا جائے۔ حکومت وقت نے کافی کوشش کی کہ یہ گروہ اس نام سے مسلمانوں کے درمیان معروف نہ ہو اور اسلامی سماج دو حصوں میں تقسیم نہ ہو لیکن اس کے باوجود خلافت کے ماننے والے خلیفہ وقت کو مسلمانوں کے اجماع کا نتیجہ سمجھتے اور ان کے مخالفین کو مسلمانوں سے جدا قرار دیتے اور انہیں برے برے القاب سے یاد کرتے تھے(۱۵)۔
البتہ شیعہ انہیں ابتدائی ایام سے ہی سیاسی دباو میں دب گئے اور سوائے اعتراض کے اپنی اقلیت کی وجہ سے کچھ بھی نہیں کر پائے۔ علی علیہ السلام نے اسلام اور مسلمین کی مصلحت کی رعایت کرتے ہوئے گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ حکومت پر اعتراض کرنے والوں نے تمام مشکلات کو تحمل کر لیا لیکن خلیفہ کی بیعت نہیں کی اور رسول اسلام کا حقیقی جانشین اور عالم اسلام کی مرجعیت کا حقیقی حقدار علی علیہ السلام کو ہی قرار دیا (۱۶) علمی اور معنوی میدان میں آپ کو ہی سب سے زیادہ اعلی و اشرف مانا گیا اس اعتبار سے یہ گروہ سب کو علی علیہ السلام کی طرف ہی دعوت دیتا رہا (۱۷)۔
جانشینی اور علمی مرجعیت دو اہم مسئلے
اسلامی تعلیمات کی بنا پر شیعہ اس بات کے معتقد تھے کہ سماج کے اندر جو چیز اول درجہ اہمیت کی حامل ہے وہ اسلامی تعلیمات اور دینی ٖثقافت کی نشر و اشاعت ہے (۱۸) دوسرے درجہ پر ان کا حد کمال کو پہچانا ہے۔
دوسرے الفاظ میں، اولاً؛ سماج کے لوگوں کو یہ دیکھنا چاہیے کہ باقی دنیا کی نسبت ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں ان کو بجا لانا چاہیے اگر چہ مخالفین کو اچھا نہ لگے۔
ثانیاً؛ ایک دینی حکومت کو سماج کے اندر واقعی طور پر اسلامی نظم اور نسق برقرار کرنا چاہیے اس طریقے سے کہ لوگ سوائے خدا کے کسی کی پرستش نہ کریں اور مکمل آزادی اور اجتماعی عدالت سے بہرہ مند ہوں اور یہ دونوں وظائف اس شخص کے توسط سے انجام پانا چاہیے جو الہی عصمت کا مالک ہو ورنہ ممکن ہے کچھ ایسے افراد اس منصب پر بیٹھ جائیں اور احکام صادر کرنے لگیں جو خود ان احکام سے بحد کافی آشنائی نہ رکھتے ہوں اور بجائے دوسروں کی اصلاح کے ان کی گمراہی کا سبب بنیں اور بجائے اس کے کہ اسلامی سماج میں اسلامی عدالت قائم ہو، ملک قیصر و کسریٰ میں تبدیل ہو جائے اور دین کی پاکیزہ تعلیمات دوسرے ادیان کی طرح تحریف کا شکار ہو جائیں ایسے میں اس دور کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے صرف وہی شخص امور مملکت کو اپنے ذمہ لے سکتا تھا جو رسول اسلام(ص) کی تائید اور تصدیق سے اپنے تمام اعمال اور اقوال میں معصوم اور مکمل طور پر کتاب و سنت کی روش پر عمل پیرا ہوتا ہو ۔ اور ایسی ذات تنہا علی علیہ السلام کی ذات گرامی تھی۔(۱۹)
اور اگر چنانچہ اکثریت یہ کہتی بھی تھی کہ خلافت موجودہ خلیفہ کا حق نہیں ہے تو قریش انہیں اپنے تشدد کا نشانہ بنا کر ان کی آواز کو دبا دیتے۔ جیسا کہ ایک جماعت نے زکات دینے سے انکار کیا تو ان کے ساتھ جنگ کی اور زکات نہ لینے سے نظر اندازی نہیں کی۔
جی ہاں شیعوں نے اس کے باوجود کہ حکومت وقت کی تائید نہیں کی اصل اسلام کی مصلحت کو مد نظر رکھتے ہوئے کھلے عام مخالفت کرنے سے بھی گریز کیا اور مسلمانوں کے ساتھ ان کے روز مرہ امور، ان کے اجتماعی امور اور جنگی مسائل میں شرکت کرتے تھے حتی امیر المومنین علی علیہ السلام انہیں جنگی مسائل میں مشورہ دیتے اور جہاں اسلام کو خطرہ ہوتا مداخلت کرتے اور جب خلفاء وقت باہر سے آنے والے افراد کے سوالوں کے جواب دینے سے عاجز ہو جاتے تو آپ آگے بڑھ کر ان کے جواب دیتے اور انہیں قانع کر کے بھیجتے تھے۔ (۲۰)۔ ( جاری ہے )
source : tebyan