پہلی ذی الحجہ وہ مبارک دن ہے جس میں خدا اور اس کے رسول کی خشنودی کے ساتھ حضرت علی (ع) اور جناب فاطمہ زہرا (س) کا عقد مبارک ہوا۔
ہجرت کے دوسرے سال علی مرتضیٰ(ع) اور فاطمہ زہرا(س) کا خدا کے اذن سے عقد ہوا تاکہ کوثر نبوی شجرہ علوی کے ساتھ مل کر کائنات میں ثمرات طیبہ نچھاور کریں۔
قال النبی (ص): لولا علی لم یکن لفاطمہ کفو
اگر علی نہ ہوتے تو فاطمہ کا کوئی کفو اور ہمسر نہ ہوتا۔
قال رسول اللہ (ص): ھبط علیّ جبرئیل فقال: یا محمد! ان اللہ جل جلالہ یقول: لو لم اخلق علیا لما کان لفاطمہ ابنتک کفو علی وجہ الارض آدم فمن دونہ۔
جب پیغمبر اسلام(ص) نے سنا کہ بعض وہ لوگ جن کے رشتہ کو جناب فاطمہ [س] کے سلسلے میں قبول نہیں کیا بہت ناراض ہیں تو آپ نے فرمایا: جبرئیل میرے پاس آئے اور کہا : اے محمد! خدا فرماتا ہے: اگرعلي کو پیدا نہ کرتا تو آپ کی بیٹی کے لیے روی زمین پر آدم اور غیر آدم کے درمیان کوئی ہمسر نہ ہوتا ۔
دوسری طرف سے حضرت علی (ع) کی عظمت بھی اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ ان کی ایسی ہمسر ہو جو ایمان، تقویٰ، علم و معرفت، طہارت اور پاکیزگی کے اعتبار سے ان کے مثل ہو۔ تو فاطمہ زہرا(س) کے علاوہ کوئی خاتون ان صفات کی حامل نہیں تھی۔
اور ادھر سے آسمان والے بھی فاطمہ[س] کے علاوہ کسی کو حضرت علی(ع) کی زوجہ کے لیے سزاوار نہیں سمجھتے تھے۔ اس بنا پر پیغمبر اسلام [ص]کو بھی آسمان میں علی و فاطمہ[علیہما السلام] کا عقد منعقد ہونے کے بعد حکم دیا گیا کہ زمین پر بھی اس رسم کو ادا کیا جائے۔
پس پیغمبر اسلام(ص) نے علی (ع) سے فرمایا: مسجد میں چلو میں فاطمہ کا تمہارے ساتھ عقد پڑھتا ہوں اور تمہارے فضائل کو بھی حاضرین مجلس کے لیے بیان کرتا ہوں تاکہ تم اور تمہارے چاہنے والے مسرور ہو جائیں۔
پیغمبر(ص)مسجد میں تشریف لائے اس حال میں کہ آپ کا چہره خوشی سے درخشاں تھا۔ بلال سے کہا: مہاجرین اور انصار کو بلائو۔
جب سب مسلمان جمع ہو گئے تو رسول خدا منبر پر تشریف لے گئے خدا کی حمد و ثنا بجا لائے۔ اور فرمایا: اے مسلمانو! جبرئیل مجھ پر نازل ہوئے اور خبر دی کہ خداوند عالم نے بیت المعمور میں تمام ملائکہ کو جمع کر کے علی و فاطمہ کا عقد کروا دیا ہے اور مجھے بھی حکم دیا کہ روے زمین پر میں بھی ان کا عقد پڑھوں۔ اس کے بعد کہا اے علی ! اٹھو، خطبہ پڑھو۔
علی علیہ السلام اٹھے، خطبہ میں خدا کی حمد و ثنا کی پیغمبر سلام کی رسالت کی گواہی دی اور اس کے بعد رسمی طور پر جناب زہراء کی خواستگاری کی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی(ع) کی درخواست کو جناب فاطمہ[س] تک پہچنچایا۔ اور فرمایا: علی بن ابوطالب ان لوگوں میں سے ہیں جن کی اسلام میں فضیلت اور عظمت ہمارے اوپر واضح ہے۔ میں نے خدا سے دعا کی کہ تمہارا عقد سب سے اچھے آدمی سے کرے اور اب وہ تمہاری خواستگاری کے لیے آئیں ہیں۔ آپ اس سلسلے میں کیا فرماتی ہیں؟ جناب فاطمہ[س] خاموش ہو گئیں۔ لیکن اپنا چہرا پیغمبر سے نہیں موڑا اور ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔ پیغمبر[ص] اپنی جگہ سے اٹھے اور فرمانے لگے"اللہ اکبر، سکوتھا اقرارھا" فاطمہ[س] کی خاموشی ان کی رضایت کی دلیل ہے۔ پانچ سو درہم آپ کا مہر طے ہوا۔
اور بہت مختصر سا اثاثہ جہیز کے طور پر آمادہ کیا کہ جن میں سے اکثر چیزیں مٹی کی بنی ہوئی تھیں۔ پیغمبر اسلام آپ کے جہیز پر ہاتھ پھیر کے فرماتے تھے: خدایا: زندگی کو اس خاندان پر جن کی زندگی کے اکثر ظروف مٹی کے ہیں مبارک قرار دے۔
نہایت سادگی کے ساتھ جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی شادی انجام پائی۔
عقد کے ایک سال بعد رخصتی انجام پائی پیغمبر اسلام [ص] کی بیویوں نے حضرت علی (ع)سے کہا: کیوں فاطمہ کو اپنے گھر نہیں لے جا رہے ہو۔
حضرت علی (ع) نے اپنی آمادگی کا اظہار کیا۔
ام ایمن پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں گئیں اور کہا: اگر خدیجہ ہوتی تو فاطمہ[س] کی شادی سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتیں۔
جب پیغمبر اکرم [ص]نے جناب خدیجہ کا نام سنا آپ کی آنکھوں میں آنسوں آگئے۔ اور کہا : جب سب مجھے جھٹلا رہے تھے اس نے میری تصدیق کی اور دین خدا کی پیشرفت میں میری مدد کی اور اپنا سارا مال اسلام کی راہ میں خرچ کیا۔
ام ایمن نے کہا کہ فاطمہ کی شادی رچا کر ہمیں خوشی کا موقع عنایت کیجیے۔
پیغمبر اسلام(ص) نے حکم دیاکہ ایک کمرہ جناب فاطمہ[س] کے لیے سجھائیں ۔اس کے بعد رخصتی کا پروگرام طے ہوا جب رخصتی کا وقت آیا جناب فاطمہ [س]کو اپنے پاس بلایا جناب فاطمہ [س] شرم کی وجہ سے پسینے میں غرق تھیں سر کو جھکائے ہوئے پیغمبر کی خدمت میں پہنچیں پیغمبر اسلام[ص] نے ان کے حق میں دعا کی۔ اور فرمایا:
اقا لک اللہ العثرۃ فی الدنیا و الاخرۃ۔
خدا تمہیں دنیااور آخرت میں محفوظ رکھے۔
اس کے بعد جناب زہرا [س]کا ہاتھ علی(ع) کے ہاتھ میں دیا اور مبارک باد پیش کی۔اور فرمایا:
بارک لک فی ابنۃ رسول اللہ یا علی نعمت الزوجۃ فاطمہ
خدا نے اپنے رسول کی بیٹی میں تمہارے لیے برکت قرار دی اے علی فاطمہ کتنی اچھی زوجہ ہے۔
اس کے بعد فاطمہ کی طرف رخ کیا اور فرمایا:
نعم البعل علی
علی بھی کتنے اچھے شوہر ہیں۔
اس کے بعد دونوں کو حکم دیا کہ اپنے گھر کی طرف حرکت کریں اور سلمان فارسی کو حکم دیا کہ جناب فاطمہ کی سواری کی لگام پکڑیں اور ان کے گھر تک ساتھ جائیں۔
( بحار الانوار ج ۴۳، ص ۱۴۵۔ ۵۹ )
بقلم: الف ع جعفری
source : abna24