آسمان فضیلت کی مدحت سرائی ممکن نہیں۔ کسی کی کیا مجال ہے جو بوستان فضیلت کی شاخ درخت پر بلبل کی طرح بیٹھ کر آسمان فضیلت پر فائز ہستی کی مدح سرائی کا فریضہ نبھا سکے۔ ساتھ ہی جہاں پر بھی کوئی فضیلت کے عنصر کا مشاہدہ کرے تب وہاں اپنی بساط کے مطابق اس صاحب فضیلت کی تعریف و تمجید کو اپنا وطیرہ بنا کر اس کی مدح و ستائش میں لگ جانا انسانی وجود کا شروع سے ہی ایک خاصہ رہا ہے۔ بسا اوقات وہ مداح اپنے ممدوح کی فضیلتوں کے بیان کا حق بھی کافی حد تک ادا کرتا ہے۔ ایسا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب ممدوح ایک عام انسان ہونے کے ساتھ ساتھ بعض منفرد خصوصیات کا بھی حامل ہو، لیکن اگر موصوف عالم مادہ میں منحصر نہ ہو بلکہ جسمانی کمالات سے سرشار ہونے کے علاوہ ملکوتی فضائل کے بھی حامل ہوں، تب یہ مدح خواں فضیلتوں کی فضا میں معمولی پرواز کے بعد اس کے بیان کا پر گرنا شروع ہوجائے گا، اور اس فضا میں حیران و سرگردان رہنے کے بعد دوبارہ زمین پر واپس پہنچ جائے گا۔ حضرت زہراؑ کا وجود مبارک بھی اس کا ایک بارز مصداق ہے۔
آپ کا حسب بھی بےمثال ہے اور نسب بھی بےنظیر۔ اگر آپ کے والد بزرگوار حضرت محمد مصطفی ؐتمام انبیاء سے افضل ہیں تو آپ پوری جہاں کی خواتین سے افضل و برتر ہیں۔ آپ کے دو شہزادے جنت کے جوانوں کے سردار ہیں تو آپ کا شوہر گرامی ان شہزادوں سے بھی بافضیلت ہیں۔ آپ کےحسب و نسب پر آج بھی ساری دنیا رشک کرتی ہے۔ آپ فضیلت کے وہ بحر بیکراں ہیں جس کی تہہ تک چودہ سو سال سے زیادہ مدت گزرنے کے باوجود آج تک کوئی رسائی حاصل نہ کر سکا۔ بلکہ تحقیقی میدان میں وسعت آنے کے ساتھ ساتھ دن بہ دن آپ کی فضیلتوں کے نئے دریچے کھلتے چلے جا رہے ہیں۔ آپ وہ بافضیلت خاتون ہیں جس کی سیرت پوری بشریت کے لیے ایک بہترین نمونہ عمل ہے۔ آپ نے رہتی دنیا تک کی خواتین کو یہ درس دیا کہ کس طرح عبادت الٰہی بجا لانا ہے، کیسے والد کے گھر میں زندگی گزارنا ہے، امور شوہر داری کو کیسے بطریق احسن نبھانا ہے، بچوں کی تربیت کس پیرائے میں انجام دینا ہے، کیسے مشکلات سے نمٹنا ہے، کیسے راز داری کی رعایت کرنا ہے، کیسے نامحرموں سے اپنے کو دور رکھنا ہے، کیسے حیا و عفت کا مظاہرہ کرنا ہے، کیسے غریبوں، مسکینوں ، یتیموں اور بے نواؤں کی مدد کرنا ہے۔ غرض آپ تمام اوصاف حمیدہ سے آراستہ پیراستہ ہونے کے علاوہ تمام آلائشوں سے پاک و پاکیزہ عصمت کے مقام پر فائز تھیں۔ لہذٰا آپ کی زندگی کا ہر گوشہ ہر انسان کے لیے ایک بہترین اور مثالی نمونہ عمل ہے۔
آپ کی عظمت کے اظہار لیے یہی کافی ہے کہ آپ کی شان و منزلت میں نہ صرف شیعوں اور دوسرے مسلمانوں نے کتابیں لکھی ہیں بلکہ مسیحی اور دوسرے غیر مسلم دانشوروں نے بھی اپنی توانائی کے مطابق قلم فرسائی کی ہیں۔ اپنی گزشتہ تحریر میں غیر مسلم دانشوروں کی عقیدت کے کچھ نمونے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی تھی آج ہم بالترتیب بعض اہل سنت علماء کے اظہار عقیدت کو الفاظ کے روپ میں اتارنے کی کوشش کرتے ہیں:
1. روایات کی نقل میں بہت ہی احتیاط برتنے کے باوجود معروف اہل سنت محدث بخاری نے صحیح بخاری میں یہ روایت نقل کی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے ارشاد فرمایا، فاطمہ جنت کی خواتین کی سردار ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی نقل کیا کہ آپ ؐ نے فرمایا، فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے جس نے ان کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ہے۔﴿۱﴾
2. مسلم: نے صحیح مسلم میں نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا، فاطمہ میرے بدن کا حصہ ہے۔ جس نے اس کو ناراض کیا اس نے اپنے پیغمبر کو ناراض کیا اور جس نے ان کو خوش رکھا اس نے اپنے پیغمبر کو خوش رکھا ہے۔﴿۲﴾
3. حاکم نیشابوری: مستدرک میں حضرت عائشہ سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی رحلت کے وقت حضرت فاطمہ ؑ سے فرمایا، میری بیٹی! کیا آپ امت اسلامی اور پوری دنیا کی خواتین کی شہزادی بننا پسند نہیں کرتیں۔﴿۳﴾
4. فاطمہ زہرا ؑعبدالحمید معتزلی کی نگاہ میں: رسول خداؐ فاطمہؑ کا لوگوں کی توقع سے زیادہ اور غیرمعمولی احترام کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ باپ بیٹی کی محبت سے بھی زیادہ۔ ایک مرتبہ نہیں بلکہ بارہا عمومی اور خصوصی محفلوں میں آپ ؐ نے فرمایا، یہ دنیا کی تمام خواتین کی سردار اور عمران کی دختر گرامی مریم کی مانند ہیں۔ قیامت کے دن "موقف" سے گزرتے وقت منادی عرش سے ندا دے گاکہ اے محشر والو! اپنی نظروں کو جھکائے رکھنا کیونکہ محمدؐ کی دختر گرامی یہاں سے گزر رہی ہیں۔
جب زمین پر رسول اکرمؐ فاطمہؑ کو حضرت علیؑ کے عقد میں دے رہے تھے تو اس وقت خداوندعالم نے آسمان پر فرشتوں کو گواہ بنا کر انہیں علیؑ کے عقد میں دیا۔ یہ کوئی من گھڑت احادیث میں سے نہیں بلکہ معتبر حدیث ہےکہ پیغمبر اکرم ؐ نے بارہا فرمایا، جس نے انھیں اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی۔ جس نے انھیں ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ہے۔ وہ میرے وجود کا حصہ ہے جو ان کی ﴿عظمت﴾ بارے میں شک کرے، اس نے مجھے شک کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ جس نے ان کا حق چھینا اس نے مجھے بےچین کردیا ہے۔ ﴿۴﴾۔
5. فخر رازی: معروف مفسر فخر رازی، سورہ کوثر کی تفسیر کے ذیل میں مختلف صورتوں کو ذکر کرنے کے بعد ایک صورت یہ بیان کرتے ہیں کہ کوثر سے مراد پیغمبر اکرمؐ کی اولاد ہیں۔ ان کا کہنا ہے، اس آیت کی شان نزول دشمنوں کی طرف سے پیغمبر اکرمؐ کو طعنہ دینا ہے۔ دشمنوں کا کہنا تھا، محمد ابتر ﴿مقطوع النسل یعنی اپنے بعد بچے وغیرہ کا نہ چھوڑنے والا﴾ ہیں۔ اس آیت کا ہدف یہ ہے کہ خداوندعالم نے حضورؐ کی نسل میں اتنی برکت عطا کی ہےکہ مرور زمان کے ساتھ ساتھ ان کی نسل بڑھتی رہی۔ دیکھئے کہ کتنی بڑی تعداد میں خاندان اہل بیت ؑ سے تعلق رکھنے والوں کو قتل کیا گیا لیکن اس کے باوجود دنیا پیغمبرؐ کی اولاد سے بھری پڑی ہے۔ جبکہ بنو امیہ تعداد میں کثرت میں ہونے کے باوجود بھی ان کا کوئی ایک معتبر شخص موجود نہیں ہے۔ اس کے برعکس آپ پیغمبر اکرمؐ کی اولاد پر نظر دوڑائیں تو ان کی اولاد علماء اور دانشوروں سے پر ہیں۔ باقر، صادق، کاظم، رضا۔۔۔۔ جیسے افراد خاندان رسالت سے باقی ہیں۔ ﴿۵﴾
6.سیوطی: ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ کائنات کی خواتین میں سے سب سے افضل مریم ؑ و فاطمہؑ ہیں۔
7. آلوسی: اس حدیث کی رو سے کہ "بیشک فاطمہ بتول گزشتہ اور آنے والی تمام خواتین سے افضل ہیں" کائنات کی تمام خواتین پر ان کی افضلیت ثابت ہوتی ہے کیونکہ وہ رسول خداؐ کی روح رواں ہیں اس حوالے سے آپ کو عائشہ پر بھی برتری حاصل ہے۔
8. سہیلی: موصوف اس مشہور حدیث کو نقل کرنے کے بعد " فاطمہ میرے بدن کا حصہ ہے" اس پر یوں تبصرہ کرتا ہے، میں کسی کو بھی بضعة رسول اللہ کی مانند نہیں سمجھتا ہوں۔
9. ابن الجکنی: صحیح ترین قول کی بنا پر فاطمہ ؑ تمام خواتین سے افضل ہیں۔
10. شنقیطی: بیشک حضرت زہراؑ کی سروری اسلام کی ایک واضح و روشن حقیقت ہے۔ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کیونکہ زہراؑ پیغمبر اکرمؐ کے وجود کا حصہ ہیں۔ جس نے زہراؑ کو اذیت دی اس نے پیغمبر اکرمؐ کو اذیت دی ہے اور جس نے زہراؑ کو ناراض کیا اس نے پیغمبرؐ کو ناراض کیا ہے۔
11. توفیق ابو علم: ان کی عظمت اور بلندی کے اثبات کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ ہی پیغمبر اکرمؐ کی اکلوتی بیٹی، علی کرم اللہ وجہہ کی باشرف شریک حیات اور حسنؑ و حسینؑ کی مادر گرامی ہیں۔ زہرا ؑوہ باعظمت ہستی ہیں، جس کی طرف کروڑوں عقیدت مند اپنی عقیدت کا والہانہ اظہار کرتے ہیں۔ زہراؑ آسمان نبوت پر ساطع ہونے والا شہاب ثاقب اور آسمان رسالت پر چمکنے والا روشن ستارہ ہیں۔ آخری تعبیر آپ کے لیے میں یہی استعمال کروں گا کہ خلقت میں سب سے زیادہ بلند مرتبہ آپ ہی کو نصیب ہوا ہے۔ یہ ساری تعبیریں حضرت زہراؑ کی فضیلت کی دنیا کا صرف ایک چھوٹا سا گوشہ ہے۔ ﴿۶﴾
12. زرقانی: جس حقیقت کو امام مقریزی، قطب الخضیری اور امام سیوطی نے واضح دلیلوں کے ذریعے انتخاب کیا ہے اس کے مطابق فاطمہؑ کائنات کی تمام خواتین بشمول حضرت مریم سے افضل ہیں۔
13. سفارینی: لفظ سیادت کے ذریعے فاطمہؑ کا خدیجہ اور مریم سے بھی افضل ہونا ثابت ہے۔
14. شیخ رفاعی: بہت سارے قدیم علماء اور دنیا کے دانشوروں کی تصدیق کے مطابق فاطمہؑ تمام خواتین سے افضل ہیں۔
15. ڈاکٹر محمد طاہر القادری: بعض احادیث سے چار خواتین کی افضلیت کی نشاندہی ہوتی ہے۔ البتہ یہ احادیث سرور جہان ﴿حضرت فاطمہ﴾ کی تمام خواتین پر افضلیت کے منافی نہیں، کیونکہ بقیہ تین خواتین ﴿مریم، آسیہ اور خدیجہ﴾ کی افضلیت اپنے اپنے زمانے سے مختص ہے جبکہ سرور جہاں کی افضلیت عام اور مطلق ہے اور ان کی افضلیت ہر زمانے اور پوری دنیا کی خواتین پر ثابت ہے۔ ﴿۷﴾
ان تمام علماء کی آراء کو جمع کرنے سے ہم اس نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں کہ گذشتہ اور موجودہ تمام علماء اور دانشوروں کا اس بات پر اجماع قائم ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؑ کائنات کی تمام خواتین سے افضل و برتر ہیں۔ آپ کی خوشنودی مول لینا رسول اکرمؐ کی خوشنودی مول لینے کے مترادف ہے اور رسول ؐکی رضامندی خدا کی رضامندی ہے اور خدا کی رضامندی عبادت ہے۔ پس حضرت زہرا ؑ سے عقیدت کا پاس رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کا اظہار بھی عبادت ہے۔ اسی طرح آپ کو ناراض کرنا رسولؐ کو ناراض کرنے کی مانند ہے اور جو رسولؐ کو ناراض کرے اس نے خدا کو ناراض کیا ہے۔ جو خدا کی ناراضگی مول لے اس کی جگہ جہنم ہے پس حضرت زہراؑ کو ناراض کرنے والا اور آپ کو اذیت دینے والا دونوں بھی جہنمی ہیں۔ آج اگر ہماری خواتین سیدہ کونین سے درس لیں تو حسنؑ و حسینؑ کی سیرت پر چلنے والے بچوں اور زینبؑ و ام کلثومؑ کا کردار پیش کرنے والی بیٹیوں کی تربیت کرسکتی ہیں۔ جہاں رسول اکرم (ص) پوری انسانیت کے لیے نمونہ عمل ہیں وہاں حضرت فاطمہؑ پوری بشریت کے لیے بالعموم اور صنف نسوان کے لیے بالخصوص نمونہ عمل ہیں۔ جہاں پیغمبراکرم (ص) تمام انبیاء سے افضل ہیں وہاں حضرت زہراؑ کائنات کی تمام خواتین سے افضل و برتر ہیں۔اللہ تعالی ہم سب کو حضرت زہراؑ کی سیرت کو اپنانے کی توفیق دے آمین ثم آمین!
حوالہ جات:
۱: صحیح بخاری، ص۶۸۴، حدیث ۳۷۶۷
۲: صحیح مسلم، ص ۱۲۱۸، حدیث۶۲۰۲
۳: حاکم نیشاپوری، مستدرک صحیحین، ص۹۴۶
۴: عبدالمجید ابن ابی الحدیدمعتزلی، شرح نہج البلاغہ، ج۹، ص۱۹۳
۵: تفسیر فخررازی، ج۳۲،ص۱۲۴
مذکورہ بالا حوالوں کو مکاتب علی نے اپنی تحقیق منزلت حضرت زہرا در احادیث کے ص۱۴۵۔ ۱۵۶میں نقل کیا ہے۔
۶: محمد یعقوب بشوی،شخصیت حضرت زہرا در تفاسیر اہل سنت، ص۱۹
source : alhassanain