اردو
Wednesday 25th of December 2024
0
نفر 0

واقعہ کربلا سے حاصل ہونے والي عبرتيں (حصّہ دوّم )

وہ معاشرہ جس ميں امام حسين پروان چڑھے اور سب نے پيغمبر اکرم (ص) کا عمل ديکھا کہ وہ امام حسين سے کتنا پيار کرتے تھے، حضرت علي و حضرت فاطمہ (س) کي کيا کيا فضيلتيں ہيں! 11 ہجري سے 61 ہجري تک يہ کيا ہوگيا کہ يہي امت، حسين کو قتل کرنے کربلا آگئي- وہي
واقعہ کربلا سے حاصل ہونے والي عبرتيں (حصّہ دوّم )

وہ معاشرہ جس ميں امام حسين پروان چڑھے اور سب نے پيغمبر اکرم (ص) کا عمل ديکھا کہ وہ امام حسين سے کتنا پيار کرتے تھے، حضرت علي و حضرت فاطمہ (س) کي کيا کيا فضيلتيں ہيں! 11 ہجري سے 61 ہجري تک يہ کيا ہوگيا کہ يہي امت، حسين کو قتل کرنے کربلا آگئي- وہي لوگ جو کل تک امام حسين کي عظمتوں کے گن گاتے تھے آج اُن کے خون کے پياسے بن گئے ہيں؟! 5ظ  سالوں ميں يہ کون سا سياسي، اجتماعي اور ثقافتي انقلاب آيا کہ حالات بالکل بدل گئے اور اسلام و قرآن پر ايمان رکھنے والے لوگ ، فرزند رسول (ص) کے قاتل بن گئے؟! لہٰذا واقعہ کربلا کو سياسي اور ثقافتي حالات کے پس منظر ميں ديکھنا چاہيے کہ جوہم سب کيلئے درس عبرت ہو-

(مترجم)

قرآن کي صدا ئيں بلند ہوتي تھي اور پيغمبر اکرم (ص) بہ نفس نفيس خود اپني تاثير گزار صدا اور لحن سے آيات الٰہي کو لوگوں کيلئے تلاوت کرتے تھے اور عوام کو ہدايت کے ذريعہ انہيں بہت تيزي سے راہ ہدايت پر گامزن کرتے تھے-

اب پچاس سال بعد کيا ہوگيا کہ يہي معاشرہ اور يہي شہر، اسلام سے اتنے دور ہوگئے کہ حسين ابن علي جيسي ہستي يہ ديکھتي ہے کہ ِاس معاشرے کي اصلاح و معالجہ ، سوائے قرباني کے کسي اور چيز سے ممکن نہيں - يہي وجہ ہے کہ يہ قرباني پوري تاريخ ميں اپني مثل و نظير نہيں رکھتي ہے- آخر کيا وجوہات تھيں اور کيا علل و اسباب تھے کہ جو اِن حالات کا پيش خيمہ بنے؟ مقام عبرت يہ ہے -

دوسري عبرت :اسلامي معاشرے کي آفت و بيماري

موجودہ زمانے ميں ہميں چاہيے کہ اِس جہت و زاويے سے غور وفکر کريں- آج ہم بھي ايک اسلامي معاشرہ رکھتے ہيں،ہميں تحقيق کرني چاہيے کہ اُس اسلامي معاشرے کو کون سي آفت و بلا نے آگھيرا تھا کہ جس کے نتيجے ميں يزيد اُس کا حاکم بن بيٹھا تھا ( اور لوگ اُسے ديکھتے اور جانتے بوجھتے ہوئے بھي خاموش تھے)؟ آخر کيا ہوا کہ امير المومنين کي شہادت کے بيس سال بعد اُسي شہر ميں کہ جہاں امير المومنين حکومت کرتے تھے اور جو آپ کي حکومت کا مرکز تھا، اولاد علي کے سروں کو نيزوں پر بلند کرکے پھرايا جاتا ہے (اور آل نبي (ص) کي خواتين کو قيدي بنا کر اُسي شہر کے بازاروں اور درباروں ميں لايا جاتا ہے)؟ !

کوفہ کو ئي دين سے بيگانہ شہر نہيں تھا، يہ کوفہ وہي شہر ہے کہ جہاں کے بازاروں ميں امير المومنين اپنے دور حکومت ميں تازيانہ اٹھا کر چلتے تھے اور مسلمانوں کو امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کيا کرتے تھے؛ رات کي تاريکي ميں غريبوں اور مسکينوں کي مدد کرتے ، پردئہ شب ميں مسجد ِکوفہ ميں علي کي مناجات اور صدائے تلاوت قرآن بلند ہوتي تھي اورآپ دن کي روشني ميں ايک مقتدر قاضي کي مانند حکومت کي باگ دوڑ کو سنبھالتے تھے- آج اکسٹھ ہجري ميں يہ وہي کوفہ ہے کہ جہاں آل علي کي خواتين کو قيدي بناکر بازاروں ميں پھرايا جارہا ہے!!اِن بيس سالوں ميں يہ کيا ہوا تھا کہ حالات يہاں تک پہنچ گئے تھے!


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مسز فاطمہ گراہام نے جعفري مذہب ميں اپني موجودگي ...
امام رضا علیہ السلام کی زندگی پر ایک مقدمہ
عید نوروز کی تاریخ
امام کے بارے میں وضاحت
واقعہٴ غدیر کا پیش خیمہ
تحريف قرآن کا نظریہ
سیدالشہداء کے لئے گریہ و بکاء کے آثار و برکات
نیک گفتار
عظمت امام حسین علیہ السلام
مومن کی اپنے دینی بھائیوں کے لئے غائبانہ دعا

 
user comment