اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

گانا گانا اور سننا حرام کیوں ہے؟

احتیاط یہ ہے کہ شادی کے موقع پر نہ تو عورتیں گانا گائیں اور نہ ہی کوئی چیز بجائیں۔ شیخ انصاری علیہ الرَّحمہ "مکاسب" میں شہید ِثانی کتاب"دروس" میں اورسیَّد مرتضیٰ کتاب" وسیلہ " میں اس موضوع پر یہی فرماتے ہیں : اَلْاِحْتِیَاطُ طَرِ یْقُ النَّجاَةِ یعنی احتیاط ہی نجات کا راستہ ہے۔
گانا گانا اور سننا حرام کیوں ہے؟
احتیاط یہ ہے کہ شادی کے موقع پر نہ تو عورتیں گانا گائیں اور نہ ہی کوئی چیز بجائیں۔ شیخ انصاری علیہ الرَّحمہ "مکاسب" میں شہید ِثانی کتاب"دروس" میں اورسیَّد مرتضیٰ کتاب" وسیلہ " میں اس موضوع پر یہی فرماتے ہیں : اَلْاِحْتِیَاطُ طَرِ یْقُ النَّجاَةِ یعنی احتیاط ہی نجات کا راستہ ہے۔

 

گناھان کبیرہ گاناسولہواں ایسا گناہ جِسے صاف الفاظ میں کبیرہ بتایا گیا ہے گانا گانا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السَّلام سے منقولہ اعمش کی روایت میں بھی یہ صراحت موجود ہے محمد ابن مسلم کہتے ہیں کہ امام محمد باقر علیہ السَّلام نے فرمایا:  (قاَلَ) اَلْغِنَآءُ مِمّا اَوْعَدَاللّٰہُ عَلَیْہ النَّارَ  (فروغِ کافی، بابِ غنا) " گانا ایک ایسا گناہ ہے، جس پر خدا نے جہنّم کا عذاب رکھا ہے۔" اور دیگر بہت سی حدیثوں سے ثابت ہے کہ ہروہ گناہ،گناہِ کبیرہ ہے جس پر عذاب کی بات خدا وندِ تعالٰی نے کی ہو۔ گانا کیا ہے؟سیَّد مرتضیٰ اپنی کتاب "وسیلہ" میں فرماتے ہیں: العنآء حرام فعلہ وسِمٰاعُہ والتکسبُ بہ ولیسَ ھُو مجّردُ تِحْسِیْنِ الصّوْتِ، بَلْ ھُو مَدُّالصّوْتِ و تَرْجِیْعُہُ بکیفّیةٍ خاصّةٍ مُطرِبہ تنُاٰسِبُ مجلس الّلھوِ و اَلطّربِ " گانا حرام ہے۔ گانا سُننابھی حرام ہے اور اس کے ذریعے مال کمانا بھی حرام ہے۔ البتہ ہر اچھی آواز گانا نہیں ہے بلکہ گانا ایک خاص انداز میں آواز کو کھینچے اور حلق میں مخصوص انداز سے گھمانے کو کہتے ہیں، جو کہ لہو ولعب اور عیش وطرب کی محفلوں میں رائج ہے۔ ایسا گانا موسیقی کے آلات سے عام طور پر ہم آہنگ ہوتا ہے ۔" اکثر شیعہ مجتہدین لغت کے ماہرین کی طرح کہتے ہیں کہ گانا آواز کو حلق میں گھمانے کوکہتے ہیں۔  (کلاسیکی موسیقی اور بعض قوالیوں میں ایساہی ہوتاہے اور آآآآ جیسی آواز پیدا ہوتی ہے۔ لغت "صحاح" میں لکھتا ہے کہ گانا ایک ایسے انداز کی آواز کو کہتے ہیں جو انسان کو غیر معمولی حد تک غمگین یا خوش کردیتی ہو۔ تقریباً ایسے ہی معنی دیگر لغتوں میں درج ہیں۔ بس گانا ایک ایسی آواز ہے جو آدمی کو ایک کہف وسرور یا غم کی حالت میں ڈال دیتی ہو۔ کتاب ذخیرة العباد میں لکھا ہے کہ: گانا لہوولعب کی خاطر نکالی گئی ہر ایسی آوازکو کہتے ہیں جس کی وجہ سے شہوت اُبھرے، خواہ وہ کلاسیکی موسیقی کی طرح حلق میں آواز گھمانے سے پیدا ہوتی ہو یا کسی اور طریقے سے الغرض عرفِ عام میں جِسے گاناکہا جاتا ہو وہ حرام ہے۔ پس اگر اشعار، قرآن یانوحے مرثیے بھی گانے کی طرز پر پڑھے جائیں تو یہ بھی گناہ ہے، بلکہ عام گانے سے زیادہ بڑاگناہ ہے۔ اس لئے کہ اس میں اس طرح قرآنِ مجید اور نوحے مرثیے کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا گناہ اور عذاب دُگناہے۔"  (۱) گانا، گناہِ کبیرہجب حضرت امام محمد باقر علیہ السَّلام نے فرمایا تھاکہ " گانا ایسی چیزوں میں سے ہے جس پر خداوندِ تعالیٰ نے عذاب کا قول دیا ہے " تو یہ آیت شریفہ بھی تلاوت فرمائی تھی: وَمِنَ النّاس مَنْ یَّشْتَریْ لَھْوُ الْحَدِیْثِ لِیُضلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِعِلْمٍٍ وَّ یَتِخّذَھَاھُزُوً ااُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذابُ مَّھِیْنُ  (لقمان - ۲) " اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو بیہودہ چیزیں خریدتے ہیں تاکہ بغیر سوچے سمجھے وہ لوگوں کو خدا کی راہ سے بھٹکا دیں اور خدا کی نشانیوں کا مذاق اُڑائیں ۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے بڑارسواکردینے والا عذاب ہے!"  (۲) آیت میں "لَہْوَالْحَدِیْثِ" سے مرادگاناس آیت شریفہ اور امام محمد باقر علیہ السَّلام کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گانا بھی لَہْوَالْحَدِیْث یعنی بیہودہ چیزوں میں سے ایک ہے۔ بیہودہ چیز کوئی نامناسب بات ، حرکت یا شاعری وغیرہ ہوسکتی ہے جس میں کوئی فائدہ نہ ہو اور جو انسان کو فائدے سے محروم کردے دوسرے الفاظ میں کلامِ حق اورقرآنِ مجید کی بات ماننے سے روک دینے والی ہر چیز لَھْوَالْحَدِیْث ہے ۔ گمراہ کردینے والی ہر چیز لَھْوَالْحَدِیْث ہے فسق وفجور، عیّاشی اور فحاشی کی طرف مائل کرنے والی ہر چیز لَھْوَالْحَدِیْث ہے خواہ وہ گانا سُننا ہو یا خودگانا ہو، یہ ایسی ہی بیہودہ چیزیں ہیں ۔ اوپر جو آیت پیش کی گئی اس کے بعد والی آیت میں ارشاد ہے : وَاِذَاتُتْلٰی عَلَیْْہ اٰیٰتُنَاوَلّٰی مُسْتَکْبِرًا کَأَنْ لّمْ یَسْمَعْھَاکَاَنَّ فِیْ اُذُنَیْہِ وَقْرًا فَبَشّرِہُ بَعِذٰبٍ اَلِیْمٍ  (لقمان - ۷) قولَ الزُّوْرِ" کی تفسیرگانے باجے کے لئے قرآنِ مجید میں لَھْوَالْحَدِیْث کے علاوہ لفظ قَوْلَ الزُّوْر بھی استعمال ہو اہے ۔ امام جعفر صادق علیہ السَّلام سے ابوبصیر نے اس آیت شریف کی تفسیر بوجھی تھی وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّوْرِ (حج ـ ۳۰) "اور لغو باتوں سے بچے رہو۔" امام علیہ السَّلام نے جواب میں فرمایاتھا  (قَالَ) اَلْغِنا ٓءُُ یعنی " گانا لغو بات ہے۔" اور امام محمد تقی علیہ السَّلام کے سامنے یہ آیت پڑھی گئی : وَالَّذِیْنَ لاَ یَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ  (فرقان ـ ۷۲)" اور وہ لوگ قریب کے پاس دیکھنے کے لئے کھرے ہی نہیں ہوتے" پھر اس آیت شریفہ کی تفسیرپوچھی گئی تو امام محمد تقی علیہ السَّلام نے جواب دیا  (قَالَ) اَلْغِنآء ُ یعنی " یہاں زُوْر یا فریب سے مراد گاناہے" (شیخ طوسی کی کتاب امالی" اور کتاب کافی ) ایک اور حدیث میں ہے کہ حمّاد ابن عثمان نے اِسی آیت شریفہ کے بارے میں بوچھا تو امام محمد تقی علیہ السَّلام نے فرمایا :  (قَالَ) مِنْہُ قَوْل الرَّجُلِ الَّذِیْ یُغْنِیْ یعنی " اس میں ایسے شخص کی بے ہودہ باتیں بھی شامل ہیں جو گارہا ہو۔"  (۴) گا نا "لَغُو" ہےاسی آیت شریفہ کے بعد والا ٹکڑا ہے وَاِذَا مَرُّوْا بالْلَغْوِ مَرُّوْا کِرََامًا ( فرقان ـ۷۲)" اور جب وہ کسی چیز کے پاس سے گزرتے تو خداکو آلودہ کئے بغیر پہلو بچالیتے ہیں اور اپنی شرافت محفوظ رکھتے ہیں" اسی طرح ایک اور آیت میں ہے وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ الّلَغْوِ مُعْرِضُوْنَ  (مومنون ۲۴ـ ۳ ) "اور جب لوگ لغو باتوں سے منہ پھیرے رہتے ہیں۔" حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام اور امام علی رضا علیہ السَّلام سے پوچھا گیا کہ ان دونوں آیتوں میں مومنین کی جو صفات بیان کی گئی ہیں یہاں " لغُو " سے کیا مراد ہے؟ توان دونوں معصوموں نے اپنے اپنے زمانے میں یہی فرمایا تھاکہ :" لَغْو دراصل گانا باجا ہے اور خدا کے بندے اس میں آلودہ ہونے سے بچے رہتے ہیں۔"  (کتابِ" کافی " اور کتاب عُیُونُ اخبارِ الرضا")  (۵) آپس میں نفاق اور گاناعَنْ اِبِیْعَبْدِ اللّٰہِ قَالَ امام جعفر صادق علیہ السَّلام نے فرمایا: اسْتِمَاعُ الْغِنَِآءِ وَالَّھْوِ یُنْبِتُ النِّفَا قَ فِیْ الْقَلْبِ کَمَا یُنْبِتُ الْمَاءُ الزَّوْعَ  (کتاب"کافی") گانے باجے کو اور بے ہودہ باتوں کو غور سے سُننا دل میں نفاق کو اسی طرح پیدا کردیتا ہے جس طرح پانی سبزے کی نشوونما کا باعث بنتاہے۔" کافی ہی میں چھٹے امام علیہ السّلام کی یہ روایت بھی موجود ہے کہ ھَلْ غَنَآء ُعَشُّ النِّفَاقِ " گانا باجا نفاق جیسے پرندے کا گھونسلا ہے۔" گانے کا پروگرامجس جگہ گانا باجا ہوتا ہے وہاں خدا کا غضب نازل ہوتا ہے۔ حضرت امام جعفرصادق علیہ السَّلام نے فرمایا لاَ تَدْ خُلُوْا بُیوُتاً اَللّٰہُ مُعْرِضُ عَنْ اَھْلِھَا  (کتاب کافی) ایسے گھروں میں داخل بھی مت ہو جس کے رہنے والوں پر سے خدا نے اپنی نظرِرحمت ہٹالی ہو!" یہی امام علیہ السّلام فرماتے ہیں بَیْتُ الْغِنَآءِ لاَ یُوٴْمَنُ فِیْہِ الْفَجِیٴَة "جس گھر میں گانا باجا ہوتا ہے وہ ناگہانی مصیبتوں سے محفوظ نہیں رہتا!" وَلاَ یُجَابُ فِیْہِ الدَّعْوَةُ "ایسے مقام پر دُعا مستحب نہیں ہوتی!۔" وَلاَ یَدْخُلُہُ الْمَلَکُ  (کتابِ "کافی" ‘اور مستدرک الوسائل ‘باب ۷۸) "اور ایسی جگہ فرشتے نہیں آتے!" اور گزری ہوئی حدیثوں سے اسی کتاب میں ثابت ہوچکا ہے کہ جب خدا کا غضب نازل ہوتا ہے تو سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ پس یہ عذر کافی نہیں ہے کہ ہم توایسی جگہ جاتے ہیں جہاں گانے کا پروگرام ہوتا ہے لیکن دل سے بیزار ہیں۔ بیزاری عملی طور پر ہونی چاہیئے اور گانے باجے کو روکنا چاہیئے۔  (۷) گانا اور فقر و فاقہحضرت علی علیہ السَّلام سے مروی ہے وَالْغِنَآءُ یُوْرِثُ النِّفَاقَ وَ یُعَقِّبُ الْفَقْرَ "اور گانا باجا نفاق پیدا کرتا ہے اور فقر و فاقہ کا باعث بنتا ہے!" (مستدرک الوسائل‘ باب ۷۸)  (۸) گانے کا عذابحضر ت رسولِ خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے مروی ہے کہ یُحْشَرُ صَاحِبُ الْغِنآءِ مَنْ قَبَرِ ہ اَعْمٰی وَآخْرَ سَ وَاَبْکَمَ  (جامعُ الاخبار) "گانا گانے والا شخص اپنی قبر سے جب میدانِ حشر میں نکلے گا تو اندھا بھی ہوگا ، بہرا بھی ہوگا اور گونگا بھی ہوگا !" روایت میں یہ بھی ہے کہ گانے گانے والوں کو اسی علامت سے پہچاناجائے گا! آنحضرت  (صلی اللہ علیہ و آلہ) کایہ ارشاد بھی ہے کہ  (قَالَ) مَنْ اِسْتَمَعَ اِلیٰ الَّلھْوِیُذابُ فِیْ اُذُنِہ الْاُنُکُ  (تجارت،مستدرک الوسائل، باب۸۰) " جو شخص گانا باجا غور سے سنے گا اس کے کان میں پگھلا ہو ا سیسہ ڈالاجائے گا!" رحمتِ خداسے محرومیقطب راوندی نے پیغمبرِ اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی یہ روایت نقل کی ہے کہ " گانا گانے والا شخص ایسے لوگوں میں شامل ہے جن پر قیامت کے دن خدا نظرِ رحمت نہیں ڈالے گا!" گلوکار سے محبتعَنْ اَبِیْ جَعْفَرٍ عَلَیْہ السَّلاٰمُ قَالَ امام جعفر صادق علیہ السَّلام نے فرمایا: مَنْ اَصْغٰی اِلٰی ناَطِقٍ فَقَدْعَبَدَہ "جو شخص کسی بولنے والے کا احترام کرے گا وہ گویا اس کا بندہ ہوجائے گا!" فَاِنْ کَانَ النّاطِقُ یُوٴَدِّیْ عَنِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَقَدْ عَبَدَ اللّٰہَ وَاِنْ کَانَ النّاطَقُ یُوٴَدِّی عَنِ الشِیْطَانِ فَقَدْ عَبَدَ الشَیْطَانَ  (فروغِ کافی ،گانے کا باب) " اگر بولنے والا شخص خدا کی طرف لے جاتا ہو تو احترام کرنے والا شخص خدا کی عبادت کرتا ہے اور اگر وہ شیطان کی طرف لے جاتا ہو تو وہ شیطان کی عبادت کر بیٹھتا ہے!" چھٹے امام کا یہ بھی ارشاد ہے کہ : جو شخص بھی گانا گانے کی آواز بلند کرتا ہے تو اس پر دو شیطان دونوں کندھو ں پر سوار ہوجاتے ہیں اور اس وقت اپنے پیر کی ایڑی اس کے سینے پر مارتے رہتے ہیں جب تک کہ اس کا گانا ختم نہیں ہوجاتا!" پس جب شیطان گلوکار کو لات مارتے ہوں تو ایساشخص محبت کئے جانے کے کہاں لائق ہے! بہشت میں سُریلی آوازیںحضرت امام علی رضا علیہ السَّلام کا ارشاد ہے  (عَنْ اَبِیْ الْحَسَنِ قَالَ) مَنْ نَزَّہَ نَفْسَہ عَنِ الْغِِنَآءِ فَاِنَّ فِیْ الْجَنَّتِ شَجَرَةًیأْمُرُاللّٰہُ الرِّیَاح اَنْ تُحَرِّکَھَا فَیَسْمَعُ لَھَا صَوْتًا لَمْ یُسْمَعْ بِمِثْلِہ وَمَنْ لَمْ یَتَنَزَّہ ْعَنْہُ لَمْ یَسْمَعْہُ (کتاب " کافی") یعنی " جو شخص خود کو گانے سے بچائے رکھے گا تو خدا سے جنت میں ایک درخت میں سے آواز سنوائے گا کہ ایسی اچھی آواز کسی نے نہیں سنی ہوگی ! اور جو شخص اپنے آپ کو گانے سے نہیں بچائے گا وہ ایسی آواز نہیں سن سکے گا۔" جنت میں خوبصورت نغمےحضرت رسول اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی یہ حدیث تفسیر مجمع البیان میں موجود ہے کہ : "جوشخص بہت گانے سنتا رہا ہو وہ روحانیوں کی آواز قیامت میں

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کچھ انوکھا سا گفٹ
صحیح بخاری پر ایک اجمالی نظر
اجنبی سیٹلائت چینلز سے متعلق آیت اللہ سیستانی کا ...
تقلید
مبطلاتِ روزہ
اسلام کانظام حج
علم عرفان میں عام حجاب اور خاص حجاب سے کیا مراد ...
کیوں شیعہ ظہرین ومغربین ملا کر پڑھتےہیں ؟
فقہی یکسانیت، اتحاد بین المسلمین کی بنیادی حکمت ...
گھر کو کیسے جنت بنائیں؟ دوسرا حصہ

 
user comment