جب ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر اپنے فرزند دلبند حضرت اسمعیل علیہ السلام کو قربان کرنا چاہا تو چھری نے گلا نہیں کاٹا؛ ابراہیم علیہ السلام نے چھری پتھر پر ماری تو پتھر ٹوٹ گیا اور آپ مطمئن ہوگئے کہ چھری میں کوئی نقص نہیں ہے تا ہم چھری اسمعیل کے گلے پر کارگر نہ ہوئی اور پھر اسی اثناء میں ایک دنبہ ظاہر ہوا اور حکم آیا کہ اب یہ دنبہ ذبح کرو اور یہ کہ ہم نے ذبح عظیم کو اسمعیل کی قربانی کا متبادل قرار دیا۔ ظاہر ہے کہ ذبح عظیم اس دنبے کی قربانی تو نہیں ہوسکتی تھی چنانچہ ایک ایسی شخصیت کی قربانی متبادل ہونا ضروری ہے جس کا مقام اسمعیل علیہ السلام سے کہیں اونچا ہے۔
ہم یہاں امام رضا علیہ السلام کی نگاہ بیان کرتے ہیں ذبح عظیم کے بارے میں اور یہ بات ایک حدیث کے ضمن میں بیان ہوئی ہے جو حقیقت کے جستجوگروں کے لئے کافی جاذب و دلچسپ ہے:
ما جاء عن الرضا عليه السلام في تفسير قول الله عز وجل: "و فديناه بذبح عظيم"
حدثنا عبد الواحد بن محمد بن عبدوس النيسابوري العطار بنيسابور في شعبان سنه اثنين وخمسين وثلاثمأه قال: حدثنا محمد بن على بن محمد بن قتيبه النيسابوري عن الفضل بن شاذان قال: سمعت الرضا عليه السلام يقول: لما أمر الله تبارك وتعالى إبراهيم عليه السلام ان يذبح مكان ابنه اسماعيل الكبش الذي انزله عليه تمنى إبراهيم عليه السلام ان يكون يذبح ابنه اسماعيل عليه السلام بيده وانه لم يؤمر بذبح الكبش مكانه ليرجع الى قلبه ما يرجع قلب الوالد الذي يذبح اعز ولده بيده فيستحق بذلك ارفع درجات أهل الثواب على المصائب فأوحى الله عز وجل إليه: يا إبراهيم من احب خلقي اليك؟ فقال: يا رب ما خلقت خلقا هو احب الى من حبيبك محمد (ص) فأوحى الله عز وجل إليه: يا إبراهيم افهو احب اليك أو نفسك؟ قال: بل هو احب الى من نفسي قال: فولده احب اليك أو ولدك؟ قال: بل ولده قال: فذبح ولده ظلما على اعدائه اوجع لقلبك أو ذبح ولدك بيدك في طاعتي؟ قال: يا رب بل ذبحه على ايدى اعدائه اوجع لقلبي قال: يا إبراهيم فإن طائفه تزعم انها من امه محمد (ص) ستقتل الحسين عليه السلام ابنه من بعده ظلما وعدوانا كما يذبح الكبش فيستوجبون بذلك سخطى فجزع إبراهيم عليه السلام لذلك وتوجع قلبه واقبل يبكى فأوحى الله عز وجل إليه: يا إبراهيم قد فديت جزعك على ابنك اسماعيل لو ذبحته بيدك بجزعك على الحسين عليه السلام وقتله واوجبت لك ارفع درجات أهل الثواب على المصائب فذلك قول الله عز وجل: (وفديناه بذبح عظيم) (1) ولا حول ولا قوه إلا بالله العلى العظيم .
(عیون اخبارالرضا (ع) ج 2 ص 188)۔
و فدیناه بذبح عظیم (سورہ صافات آیت 107) کے بارے میں امام رضا سے جو منقول ہے وہ کچھ یوں ہے:
شیخ صدوق روایت کرتے ہیں کہ عبد الواحد بن محمد بن عبدوس النيسابوري العطار نے ماہ شعبان سنہ 352 کو ہمارے لئے نقل کیا اور کہا کہ ہمیں محد بن علی بن محمد بن قتیبہ النیسابوری نے فضل بن شاذان سے نقل کرکے سنایا کہ میں (فضل بن شاذان) نے امام رضا علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا: جب خداوند متعال نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا ہے اپنے بیٹے کی جگہ دنبے کو ذبح کردے تو اہراہیم علیہ السلام کے دل میں گذری کہ کاش میں اپنا بیٹا اسمعیل اپنے ہاتھ سے خدا کی راہ میں ذبح کرتا اور مجھے بیٹے کی جگہ دنبہ ذبح کرنے کا حکم نہ ملتا تا کہ اس طرح وہ اس باپ کا احساس پاتے جس نے اپنے سب سے پیارے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا ہوتا ہے اور اس کے مصائب برداشت کرنے پر انہیں ثواب کے بلند ترین مراتب نصیب ہوتے خداوند متعال نے ابراہیم علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ اے ابراہیم (ع)!
آپ کے نزدیک میری محبوبترین مخلوق کون ہے؟
عرض کیا: خداوندا! تو نے اب تک ایسی مخلوق خلق نہیں فرمائی جو میرے نزدیک تیرے حبیب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ محبوب ہو۔
وحی آئی: اے ابراہیم! آپ ان سے زیادہ محبت کرتے ہيں یا اپنے آپ سے؟
عرض کیا: ان سے
وحی آئی: اے ابراہیم! کیا آپ ان کے بیٹے سے زیادہ محبت کرتے ہیں یا اپنے بیٹے سے؟
عرض کیا: ان کے بیٹے سے
وحی آئی: کیا آپ ظلم و ستم کی وجہ سے دشمنوں کے ہاتھوں ان کے بیٹے کا سر جدا ہونے سے آپ کو زیادہ صدمہ پہنچتا ہے یا میری اطاعت کی بنا پر اپنے ہاتھوں اپنے بیٹے کا سر جدا کرنے سے؟
عرض کیا: دشمنوں کے ہاتھوں ان کے بیٹے کا سر جدا ہونے سے مجھے زیادہ صدمہ پہنچتا ہے
خداوند متعال نے ارشاد فرمایا: لوگوں کا ایک گروہ جو اپنے آپ کو امت محمد (ص) سمجھتے ہیں محمد (ص) کے بیٹے کو گوسفند کی مانند ذبح کریں گے اور اپنے اس کام کی وجہ سے میرے غضب کے مستحق قرار پائیں گے
ابراہیم علیہ السلام اس حقیقت سے آگاہ ہو کر جزع و فزع کرنے لگے، ان کو سخت صدمہ ہوا اور گریہ و بکاء کرنے لگے چنانچہ اللہ تعالی نے انہیں وحی فرمائی:
اے ابراہیم (ع)! حسین علیہ السلام اور ان کے قتل پر آپ کے اس جزع و فزع کی بنا پر میں نے اسمعیل (ع) پر آپ کے غم اور رنج کو ـ اگر آپ انہیں ذبح کرتے ـ قبول کرلیا اور مصائب پر صبر کی پاداش میں ثواب کے بلند ترین درجات آپ کے نصیب کروں گآ۔ [امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں] یہی ہے اللہ تعالی کے اس قول کا مطلب کہ "و فدیناهم بذبح عظیم : ہم نے ذبح عظیم اور عظیم قربانی کو اسمعیل (ع) کی قربانی کا فدیہ اور عوض قراردیا۔ (سورة الصافات: الاية 107.) لا حول و لا قوة الا بالله العلی العظیم.
مرحوم علامه طهرانی اپنی کتاب "روح مجرد" ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:
طہران میں جس خطیب کو محرم کے عشرے کے لئے بلایا چاتا عشرے کی آخری رات اس کو آئندہ سال کے اسی عشرے کے لئے بلایا جاتا تھا۔ مرحوم دُرّی کی حیات کا آخری سال تھا اور طہران میں خطابت کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ آٹھویں یا نویں رات کو ایک نوجوان نے مجلس سے پہلے ان سے پوچھا: اس شعر سے مراد کیا ہے:
مرید پیر مغانم ز من مرنج ای شیخ
چرا کہ وعدہ تو کردی و او بہ جاآورد
میں پیر مغان کا مرید ہوں مجھ سے رنجیدہ خاطر مت ہونا اے شیخ
کیونکہ وعدہ آپ نے کیا اور وہ بجا لائے
مرحوم دُرّی نے کہا: اس سوال کہ جواب میں منبر سے دوں گا تا کہ دوسرے بھی استفادہ کرسکیں۔
انھوں نے منبر پر خدا کی طرف سے آدم ابوالبشر علیہ السلام کو گندم کھانے سے روکے جانے کی داستان نقل کرتے ہوئے کہا کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اپنی زندگی میں کبھی گندم کی روٹی تناول نہیں فرمائی اور جو کی روٹی بھی کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھائی اور پھر کہا:
اس شعر میں شیخ سے مراد "حضرت آدم علی نبینا و آلہ و علیہ السلام ہے جنہوں نے جنت میں گندم سے استفادہ نہ کرنے کا وعدہ دیا لیکن اس پر عمل نہ کرسکے اور گندم کھا لی اور یہاں "پیر مغان" سے مراد امیرالمؤمنین صلوات اللہ علیہ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی گندم کی روٹی نہیں کھائی اور آدم (ع) کا وعدہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے نبھایا۔ یہ اس شعر کی پوری تشریح تھی جو مرحوم دری نے پیش کرکے مجلس ختم کردی۔
سال ختم ہونے سے پہلے ہی مرحوم دری دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور محرم میں اسی رات ـ جس رات اس نوجوان نے مرحوم دری سے مذکورہ بالا سوال پوچھا تھا وہ نوجوان ـ مرحوم دری کو خواب میں دیکھتا ہے اور مرحوم دری کہتے ہیں: آپ نے مجھ سے گذشتہ سال اس شعر کا مطلب اور مفہوم پوچھا تھا اور میں نے اس طرح جواب دیا تھا لیکن اب مجھ پر اس شعر کا صحیج مفہوم منکشف ہوا اور وہ یہ ہے کہ:
شعر میں شیخ سے مراد حضرت ابراہیم علیہ و علی نبینا و آلہ الصلواة والسلام ہیں اور وعدہ "بیٹے کی قربانی" ہے اور "پیر مغان" سے مراد حضرت سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام ہیں اور اگرچہ ابراہیم علیہ السلام نے وعدہ وفا کیا لیکن وعدے کی تکمیل سیدالشہداء علیہ السلام نے کی اور کربلا میں حضرت علی اکبر علیہ السلام کی قربانی دی۔
(حافظ و پیرمغان، ص ،۱۸ بہ نقل از روح مجرد، علامہ طہرانی).