حضرت ولي عصر (عج) کے اعلي اور پرشکوہ القاب ميں سے ايک "قائم" ہے جو امام زمانہ (عج) کے القاب خاصہ ميں سے ہے اور دوسرے معصومين پر اس کا اطلاق نہيں ہوتا اور خاص قسم کے راز و رمز کا حامل اور حيرت انگيز حالات اور حيران کن و پرشکوہ ايام کي يادآوري کراتا ہے-
بعض روايات ميں تصريح ہوئي ہے کہ اس افتخار آفرين لقب کا مبدء عاشورا ہے اور روز عاشورا امام حسين (ع) کي شہادت کے بعد يہ لقب ذات لايزال الہي نے انہيں عطا کيا ہے-
چوتھي صدي ہجري کے شيعہ عالم دين محمد بن جرير طبري (الامامي) ابو حمزہ ثمالي روايت کرتے ہيں کہ ميں (ابو حمزہ) نے امام باقر (ع) سے عرض کيا:
اے فرزند رسول خدا (ص)! علي (ع) کيونکر اميرالمۆمنين کہلائے حالانکہ ان سے قبل کوئي بھي اس نام سے موسوم نہيں ہوا اور ان کے بعد بھي کسي کو اميرالمۆمنين کہنا جائز نہيں ہے؟
امام (ع) نے فرمايا: وہ علم کا منبع اور مرکز ہيں، ان ہي سے علم اخذ ہوتا تھا اور ان کے سوا کسي سے اخذ نہيں ہوتا تھا-
ميں نے عرض کيا: اے فرزند رسول خدا (ص): کيا آپ سب قائم بالحق نہيں ہيں؟ پھر کيوں صرف ولي عصر (عج) کو قائم کہا گيا ہے؟
فرمايا: جب ميرے جد امجد امام حسين (عج) شہيد کئے گئے تو فرشتوں کي آہ و فغاں کي صدائيں بلند ہوئيں اور سب نے اللہ تعالي سے عرض کيا:
"بار خدايا! دشمنوں نے تيرے برگزيدہ اور تيرے برگزيدہ کے فرزند اور تيري بيش بہا ترين اور بہترين مخلوق کو قتل کرديا، کيا تو نے سے درگذر فرمائے گا؟
خداوند متعال نے انہيں وحي بھيجي کہ اے ميرے فرشتو پرسکون ہوجاۆ، ميري عزت و جلال کي قسم! ميں قطعي طور پر ان سے انتقام لوں گا گوکہ يہ انتقام کچھ عرصہ بعد ہي کيوں نہ ہو- (جاری ہے)