اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

امام زين العابدين کا خطبہ

امام زين العابدين کا خطبہ

لوگ ابھي گريہ و بکا کر رہے تھے کہ امام زين العابدين(ع) نے انہيں خاموش ہونے کا حکم ديا-چنانچہ جب سب لوگ خاموش ہو گئے تو امام سجاد عليہ السلام نے خدا کي حمد و ثنا اور پيغمبر اسلام (ص) پر درود و سلام بھيجنے کے بعد فرمايا:

اے لوگو ! جو شخص مجھے پہچانتا ہے، وہ تو پہچانتا ہي ہے اور جو شخص نہيں پہچانتا ميں اسے اپنا تعارف کرائے ديتا ہوں ميں علي ابن الحسين ہوں- وہ حسين جو بلا جرم و قصور نہر فرات کے کنارے ذبح کيا گيا- ميں اس کا بيٹا ہوں جس کي ہتک عزت کي گئي ، جس کا مال و منال لوٹا گيااور جس کے اہل و عيال کو قيد کيا گيا- ميں اس کا پسر ہوں جسے ظلم و جور سے درماندہ کر کے شہيد کيا گيا اور يہ بات ہمارے فخر کے لئے کافي ہے- اے لوگو ! ميں تمہيں خدا کي قسم دے کر پوچھتا ہوں،کيا تم نے ميرے پدرِ عالي قدر کو دعوتي خطوط لکھ کر نہيں بلايا تھا ؟ اور ان کي نصرت و امداد کے عہد و پيمان نہيں کئے تھے ؟ اور جب وہ تمہاري دعوت پر لبيک کہتے ہوئے تشريف لائے تو تم نے مکر و فريب کا مظاہرہ کيا اور ان کي نصرت و ياري سے دست برداري اختيار کر لي- اسي پر اکتفا نہ کيا بلکہ ان کے ساتھ قتال کر کے ان کو قتل کر ديا- ہلاکت ہو تمہارے لئے کہ تم نے اپنے لئے بہت برا ذخيرہ جمع کيااور برائي ہو تمہاري رائے اور تدبير کے لئے! بھلا تم کن آنکھوں سے جناب رسول اکرم (ص)  کي طرف ديکھو گے، جب وہ تم سے فرمائيں گے کہ تم نے ميري عترت اہل بيت کو قتل کيا اور ميري ہتک حرمت کي اس لئے تم ميري امت سے نہيں ہو-

راويان اخبار کا بيان ہے کہ جب امام کا کلامِ غم التيام يہاں تک پہنچا تو ہر طرف سے لوگوں کے رونے اور چيخ و پکار کي آوازيں بلند ہونے لگيں اور ہر ايک نے دوسرے کو کہنا شروع کيا: ھلکتم وما تعلمون يعني تم بے علمي ميں ہلاک و برباد ہو گئے ہو- امام سجاد نے پھر سے سلسلہ کلام شروع کرتے ہوئے فرمايا:

خدا اس بندے پر رحم کرے جو ميري نصيحت کو قبول کرے اور ميري وصيت کو خدا و رسول (ص) اور اہل بيت رسول (ص) کے بارے ميں ياد رکھے کيونکہ تمہارے لئے رسول خدا (ص)  کي زندگي ميں اعليٰ ترين نمونہ موجود ہے-

سب نے يک زبان ہو کر کہا :

يابن رسول اللہ (ص)  سب آپ کے مطيع و فرمانبردار ہيں- آپ جو حکم ديں گے ضرور اس کي تعميل کي جائے گي- ہم آپ کے دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن ہيں-

امام سجاد نے ان کا يہ کلامِ فريب انضمام سن کر فرمايا:

ہيہات اے گروہِ مکاراں و عياراں! اب تمہاري يہ خواہش پوري نہيں ہو سکتي- اب تم چاہتے ہو کہ ميرے ساتھ بھي وہي سلوک کرو جو ميرے اب و جد کے ساتھ کر چکے ہو ؟ حا شا و کلا - ايسا اب ہرگز نہيں ہو سکتا- بخدا ! ابھي تک تو سابقہ زخم بھي مندمل نہيں ہوئے- کل تو ميرے پدر عالي قدر کو ان کے اہل بيت کے ساتھ شہيد کيا گيا، ابھي تک تو مجھے اپنے اب و جد اور بھائيوں کي شہادت کا صدمہ فراموش نہيں ہوا- بلکہ ان مصائب کے غم و الم کي تلخي ميرے حلق ميں ابھي موجود ہے اور غم و غصہ کے گھونٹ ابھي تک ميرے سينہ کي ہڈيوں ميں گردش کر رہے ہيں- ہاں تم سے صرف اس قدر خواہش ہے کہ نہ ہميں فائدہ پہنچاۆ اور نہ ہي نقصان-

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت معصومہ (س) کے مختصر حالات
سیدہ سلام اللہ علیھا کی والدہ افضل النساء ہیں
شہادتِ مسلم بن عقیل
رسول خدا(ص): تمہارے درمیان قرآن و اہل بیت چھوڑے ...
امام حسن عسکری علیہ السلام کی زوجہ محترمہ کا مزار ...
علامہ اقبال کا فلسفہ خودی
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا(دوسری قسط)
علی (ع) تنہا مولود کعبہ
امام جواد کے نام امام رضا کا ایک اہم خط
ولادت حضرت علی اکبر علیہ السلام

 
user comment