ليکن دہشت گردي کي بحث ميں ہميں اپني توجہ کو ان آيات کي طرف مبذول کرنا چاہئے جن ميں انسان کي جان ، مال او ر آبرو کي حفاظت کے بارے ميں بيان کيا گيا ہے - اس بات اس چيز کي حکايت کرتي ہے کہ دہشت گردي کي وجہ سے انسانوں کي جان، مال اور آبرو کو خطرے ميں نہيں ڈالاجاسکتا ہے ،مگر يہ کسي خاص جگہ پر اسلام نے کسي کے خون بہانے کي اجازت دي ہو- نمونہ کے لئے اس آية کريمہ ” ولا تقتلوا النفس التي حرم اللہ الا بالحق “ -( اور جس نفس کو خداوند عالم نے حرام قرار ديا ہے اس کو بغير حق قتل نہ کرو)(سورہ اعراف ، آيت 151)کي بنياد پر تمام انسانوں کي جانيں محتر م ہيں چاہے وہ شيعہ ہوں يا اہل سنت،مسلمان ہوں يا غير مسلمان- صرف جن جگہوں پر شارع مقدس نے استثناء کيا ہے وہاں پر محدود افراد کے قتل کا اقدام کيا جاسکتا ہے -
اسي طرح اس بات سے بھي غافل نہيں ہونا چاہئے کہ قرآن کريم ميں مفسد في الارض اور محارب جو کہ دوسروں کي جان اور مال کو خطرہ ميں ڈالتے ہيں ،کے لئے بہت سخت احکام بيان ہوئے ہيں ، اسي بات سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام ہميشہ دہشت گردي سے پرہيز کرتا ہے اور اسلام کے عظيم قوانين پر عمل کرنے سے معاشرہ کو دہشت گردي سے چھٹکارا ملتا ہے ، جو کچھ قرآن مجيد ميں آيا ہے اس سے زيادہ بربريت جائز نہيں ہے اور بہت آساني سے کسي کي جان اور مال کو خطرہ ميں نہيں ڈالا جاسکتا ہے -
مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسادٍ فِي الْاَرْضِ فَکَاَنَّما قَتَلَ النَّاسَ جَميعاً وَ مَنْ اَحْياہا فَکَاَنَّما اَحْيَا النَّاسَ جَميعا(سورہ مائدہ ، آيت 32) - جو شخص کسي نفس کو .... کسي نفس کے بدلے يا روئے زمين ميں فساد کي سزا کے علاوہ قتل کرڈالے گا اس نے گويا سارے انسانوں کو قتل کرديا اور جس نے ايک نفس کو زندگي دے دي اس نے گويا سارے انسانوں کو زندگي دے دي-
صرف دو گروہوں کو قتل کرنا جائز سمجھا گيا ہے : کسي کو قتل کرنے کے بدلے ميں قتل کرنا اور زمين پر فساد پھيلانے والے کو قتل کرنا - لہذا ان دونوں کے علاوہ کسي بے گناہ کا قتل کرنا جائز نہيں ہے اس آيت سے بخوبي واضح ہوجاتا ہے کہ جواسلام اور قرآن کے نام پر دہشت گردانہ حملے کرتے ہيں وہ جائز نہيں ہيں، اور قرآن کريم کي آيات سے غلط استفادہ کرنے کي وجہ سے ايسے حکم صادر ہوتے ہيں -(ختم شد)