اردو
Thursday 18th of April 2024
0
نفر 0

کیا ابوبکر اور عمر کو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے معاف کیا تھا؟

کیا ابوبکر اور عمر کو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے معاف کیا تھا؟

دور حاضر میں کچھ مادہ پر ست حضرات دلیل اور تحقیق کے بغیر اور اپنی مؤثق کتابوں اور معتبر مورخین کی طرف مرا جعہ کئے بغیر اس مسئلہ کو اس طرح ذکر کرتے
ہیں کہ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا ) کے شہید ہونے سے پہلے ابوبکر اور عمر آپ کی عیادت کو آئے اور ان پر کئے ہو ئے مظالم کی معذرت خواہی کی اور حضرت زہرا نے بھی ان کو معاف کردیا لیکن اگر ہم تعصب اور عناد سے ہٹ کر ایک دانشمند کی حیثیت سے اہل تسنن کی معتبر کتابوں کی طرف مراجعہ کریں گے تو نتیجہ اس کا پر عکس نکلتا ہے یعنی جناب سیدہ کو نین پر پیغمبر اکرم کی وفات کے بعد ہر قسم کے مظالم اور ستم ڈھائے گئے ان پر آپ مرنے تک راضی نہیں تھیں چنانچہ تاریخ میں لکھا ہے:
''ان فاطمة ہجرت ابابکر ولم تکلمه الی ان ماتت''
بتحقیق حضرت زہرا نے ابو بکر سے قطع رابطہ کیا اور مرنے تک ان سے گفتگو نہ کی ۔ صحیح بخاری بحث خمس میں جناب امام بخاری نے اس طرح روایت کی ہے:
''فغضبت فاطمة بنت رسول الله فهجرت ابابکرفلم تزل مها جرته حتی توفیت۔'' (١)
پس خدا کے رسول کی بیٹی (ان کی طرف سے ڈھائے گئے مظالم پر ) غضب ناک ہوئیں اور ابوبکر سے قطع رابطہ کیا وفات پانے تک ان سے کبھی رابطہ نہیں کیا نیز جناب بخاری نے لکھا ہے:
'' فهجر ته فاطمة فلم تکلمه حتی ماتت ۔(٢)
پس فاطمہ نے ان سے رابطہ قطع کیا اور مرنے تک ان سے بات نہ کی ۔جناب مغازلی نے اپنی کتاب بحث جنگ خیبر میں فرمایا .
''فوجدت فاطمة علی ابی بکر فهجر ته فلم تکلمہ حتی توفیت۔''(3)
پس جناب فاطمہ زہرا ابو بکر کے پاس پہنچی لیکن ابوبکر سے رابطہ منقطع کیا اور ان سے وفات پانے تک بات نہ کی لہٰذا کیا یہ بات معقول ہے ؟ کہ امام بخاری کی بات اور منقول روایات کو باب صوم وصلوة میں قبول کرکے ان کی تمام روایات کو صحیح سمجھیں لیکن جناب سیدہ کے بارے میں نقل کی ہوئی روایات کو نہ مانیں اسی لئے ہمارے زمانے میں ایسے متضاد رویہ کی وجہ سے اور بد نام نہ ہو نے کی خاطر جدید چھپنے والے کتابوں سے حقیقت کی عکا سی کرنے والی روایات اور قرائن کو حذف کرکے چھاپنے کی کو شش کی ہے لیکن ایک دو کتابوں سے ایسے قرائن اور براہین حذف کرنے سے حقانیت نہیں مٹ سکتی بلکہ بر عکس اپنا عقیدہ سست اور مذہب کی توہین کا سبب بن جا تاہے ۔
جناب ابن قتیبہ دینوری نے اس طرح لکھا ہے.کہ عمرنے ابو بکر سے کہاآئو ہم حضرت زہرا (س)کی عیادت کے لئے چلتے ہیں کیونکہ ہم نے ان کو ناراض کیا
تھا اس وقت دونوں ساتھ حضرت زہرا کی دولت سرا کی طرف نکلے اور جناب زہرا سے اجازت مانگی لیکن حضرت زہرا نے اجازت نہیں دی پھر وہ حضرت علی کے پاس گئے اور علی سے درخواست کی کہ یا علی حضرت زہرا(س) سے اجازت ما نگیں حضرت علی نے حضرت زہرا سے اجازت لی پھر وہ دونوں داخل ہوئے لیکن جب وہ بیٹھنے لگے تو حضرت زہرا نے اپنا رخ دیوار کی طرف کرلیا انہوں نے حضرت زہرا کو سلام کیا لیکن لکھا گیا ہے حضرت زہرا نے ان کے سلام کا جواب بھی نہیں دیا ( ١) اور ابو بکر نے گفتگو شروع کی اور کہا اے رسول کی بیٹی ،پیغمبر اکرم ۖ کے ذریّے اور احباب میرے اپنے ذریےّ اور احباب سے عزیز ترہیں اور آپ میر ی بیٹی عا ئشہ سے زیادہ محبوب ہیں۔
اے کاش جس دن پیغمبر اکرم ۖ دنیا سے رخصت ہوئے تھے اس دن ان کے بجائے ہم مر جا تے اور زندہ نہ رہتے ہم آپ کی فضیلت اور شرافت کو خوب جانتے ہیں لیکن ہم نے آپ کو ارث اس لئے نہیں دیا کہ ہم نے پیغمبر اکرم ۖ سے سنا تھا کہ میں نے کسی کیلئے کو ئی ارث نہیں چھوڑاہے میرے مرنے کے بعد تمام چیزیں صدقہ ہیں اس وقت جناب سیدہ نے فرمایا کیا تم لوگ پیغمبر اکرم ۖ سے سنی ہوئی حدیث پر عمل کرتے ہو ، انہوں نے کہا جی ہاں جناب سیدہ نے فرمایا خدا
کی قسم اگر تم حدیث نبوی پر عمل کرتے ہو تو کیا تم نے پیغمبر سے یہ حدیث نہیں سنی تھی کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی خوشنودی اور رضایت میر ی خوشنودی اور رضایت ہے ان کی ناراضگی میر ی ناراضگی ہے جو بھی میری بیٹی فاطمہ سے محبت رکھتا ہے اور ان کو ناراض ہو نے نہیں دیتا اس نے مجھ سے محبت اور مجھے خوش کیا ہے جوان کو اذیت پہنچا تا ہے اس نے مجھ کو اذیت پہنچائی ہے، پھر حضرت فاطمہ زہرا نے فرمایا اے اللہ تو اور تیرے فرشتے گواہ ہو ں کہ ان لوگوں نے مجھے ناراض کیا ہے میں کبھی بھی ان سے راضی نہیں ہوں اگر میں پیغمبر اکرم ۖسے ملاقات کروں تو میں پیغمبر اکرم ۖسے شکا یت کروں گی پھر جناب ابو بکر نے کہا اے حضرت زہرا میں خدا کے حضور آپ کی ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں یہ کہہ کر رونے لگا بہت زیادہ چیخ ماری اور حضرت فاطمہ سے معافی کی درخواست کی ہرنماز میں حضرت زہرا کے حق میںدعا کرنے کا وعدہ کیا لیکن پھر بھی حضرت زہرا نے معاف نہیں کیا پھرابوبکر حضرت زہرا کے دولت سرا سے نکلا جب کہ وہ رو رہے تھے۔ (4)
پس مذکورہ روایات اہل تسنن کی معتبر کتابو ں میں مو جود ہیں اگر تعصب اور عناد سے ہٹ کر ایک مفکر کی حیثیت سے تحقیق کرنا چاہیں تو رجوع کر سکتے ہیں اگر جناب سیدہ کو نین ان پر موت سے پہلے راضی ہوئیں ہیں تو رات کو تجہیز وتکفین
کرنے کی وصیت نہ فرما تیں مولا علی ان کی تشیع جنازہ ،نماز جنازہ ،قبر وغیرہ کو مخفی انجام نہ دیتے لہٰذا ان شواہد وقرائن کافلسفہ یہ ہے کہ آپ ان پر راضی نہ تھیں اگر ایک دانشمند کی حیثیت سے خود حضرت زہرا کے خطبے اور ان کے احتجاجات کا مطالعہ کریں تو اس مسئلہ کی حقانیت روشن ہو جاتی ہے لہٰذا برہان اور دلیل کے بغیر کسی مذہب کو بد نام کرنا ان سے تہمت اور افتراء باند ھنا تمام مذاہب کی نظر میں نص قرآن کے خلاف ہے اور ہر معا شرے میں اس کو قانونی طور پر مجرم کہا جاتا ہے تب ہی تو زہرا نے فرمایا:
'' ایھاالمسلمون أ أ غلب علی ارثہ یا ابن ابی قحافة أفی کتاب اﷲ ان ترث اباک ولاارث ابی لقد جئت شیئا فریا''۔
اے مسلمانو ںکیا میں اپنے باپ کے ارث سے محروم ہوں ؟اے قحافہ کے فرزند کیا خدا کی کتاب میں اس طرح ہے کہ تم اپنے باپ سے ارث لے سکتے ہو لیکن میں اپنے باپ سے ارث نہیں لے سکتی ؟بتحقیق تم نے عجیب وغریب سلوک کیا۔
پھر حضرت زہرا نے فرمایا اے لوگو! تم جانتے ہو میں فاطمہ زہرا حضرت پیغمبر اکرم ۖ کی بیٹی ہوں۔
''مااقول غلطا،ولاافعل ماافعل شططا۔''
میں غلط بیان نہیں کرتی اور میں کبھی ظلم وستم انجام نہیں دیتی نیز فاطمہ زہرا نے فرمایا:
''اوصیک ان لا یشهد احد جنازتی من هولاء الذین ظلمونی واخذوا حقی فانہم عدوی وعدو رسول اﷲ (صلی اﷲ علیه وآله وسلم) ولاتترک ان تصلی علی احد منهم ولا من اتباعهم وادفنی فی اللیل اذا هدت العیون ونامت الابصار ثم توفیت ۔''(5)
یاعلی آپ سے وصیت کرتی ہوں جن لوگوں نے مجھ پر ظلم کیا ہے ان میں سے کسی کو میری تجہیز وتکفین ،نماز جنازہ اور تشیع میں آنے کا مو قع نہ دیجئے مجھے رات کے اس وقت دفنایا جائے کہ جس وقت سب خواب اور نیند میں غرق ہوجا تے ہیں۔
انہیں جملات کے بعد آپ کی روح پر واز کر گئی نیز جناب امیرالمومنین نے حضرت زہرا کو قبر میں رکھنے کے بعد روضہ رسول کی طرف رخ کرکے فرمایا :
''والمختارا ﷲ لها سرعة لحاق بک''
اور خدا کی مشیت یہ تھی کہ زہرا جلد ازجلدآپ سے ملاقات کریں ۔
قداسترجعت الودیعة وستنبئک ابنتک بتظافر امتک علی هضمها فاحفها السوال والستخبرہا الحال فکم من غلیل معتلج بصدر ها لم تجد الی بثّه سبیلا ومشغول ویحکم اﷲ وهو خیر الحاکمین (6)
بتحقیق امانتداری کے ساتھ آپ کی امانت واپس لوٹاتاہوں اور عنقریب آپ کی بیٹی ، آپ کو خبر دے گی کہ آپ کی امت نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے اورآپ کی امت نے ان کے دل کو کتنا دکھ پہنچا یا ہے ان سے پوچھیں جس کو برطرف کرنے کی کو ئی راہ سوائے موت نہ تھی وہ تمام حالات اور مظالم کی خبرآپ کو فراہم کرے گی اور خدا ہی فیصلہ کرے گا وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ان تمام شواہد اور قرائن سے خلیفہ اول ودوم سے حضرت زہرا کے راضی ہو نے اور نہ ہو نے کا فیصلہ بخوبی کر سکتے ہیں اگر بابصیرت ہو۔
………
(١)صحیح بخاری جلد ٤ ص ٤٢ چاپ بیروت . (2)بخاری جلد ٨ بحث فرئض ص٣٠ .
(3)کتاب مغازلی.
(4)اگر چہ سلام کا جواب نہ دینا بعید ہے راقم الحروف .
(5) الامامتہ والسیاستہ جلد ١ ص ٢٠ و زندگانی فاطمہ زہرا
(6) الحجة الغراء (آیت اللہ سبحانی دام ظلہ )

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

چھے لوگوں کی شوریٰ( اہل سنت کے مآخذ سے منطقی تحلیل ...
آسيہ
جنت البقیع کا تاریخی تعارف
عمار بن یاسر کے اشعار کیا تھے؟
مشرکینِ مکہ کی مکاریاں
واقعہ فدک
تاریخ اسلام کو دیگر تواریخ پر فضیلت
گروہ ناکثین (بیعت شکن)
ساتواں سبق
بنی نجار میں ایک عورت

 
user comment