کفو اور ہم پلہ ہونے کے سلسلے ميں جو چيز قابل اہميت ہے وہ ايمان ہے يعني دونوں کو مومن، متقي اور پرہيزگار ہونا چاہيے اور يہ کہ دونوں اسلامي تعليمات پر اعتقاد رکھنے والے اور ان پر عمل کرنے والے ہوں۔ جب يہ چيز حاصل ہو جائے تو بقيہ دوسري (مادّي) چيزوں کي کوئي اہميت نہيں رہتي۔ جب شادي کرنے والے لڑکے لڑکي کي پاکدامني، تقويٰ اور طہارت و پاکيزگي معلوم ہو اور دونوں ايک دوسرے کے کفو اور ہم پلہ ہوں تو بقيہ دوسري چيزيں خدا خود فراہم کر دے گا۔
اسلام ميں اس مشترکہ جدوجہد اور زندگي کا معيار کہ جس کا نام ايک دوسرے کا جيون ساتھي بننا ہے، دين و تقويٰ سے عبارت ہے۔ المومن کفو المومنۃ والمسلمُ کفو المسلمۃ 1 يعني مومن مرد، مومن عورت کا کفو ہے جب کہ مسلمان مرد مسلمان عورت کا ہم پلہ ہے۔ يہ ہے دين کا بتايا ہوا معيار۔
البتہ جو بھي راہِ خدا ميں آگے آگے، پيشقدم، دوسروں سے زيادہ فدا کاري کرنے والا، دوسروں کي نسبت زيادہ آگاہ اور بندگانِ خدا کے لئے زيادہ ہمدرد اور انہيں نفع پہنچانے والا ہو گا وہ سب سے بہتر اور بلند مقام کا حامل ہے۔ ممکن ہے کہ عورت اس مقام کي مالک نہ ہو تو اس ميں کوئي قباحت نہيں، ليکن عورت کو چاہيے کہ خود کو اس بلند مقام کي طرف حرکت دے يا ممکن ہے کہ عورت کا مقام مردسے زيادہ بلند ہو اور مرد اس رتبے کا حامل نہ ہو۔ پس مرد کو چاہيے کہ اس بلند مقام و منزل کي جانب قدم اُٹھائے۔
عاقل اور غافل انسان کا فرق
ايک وقت انسان شادي کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’پروردگارا! ميں شادي کر رہا ہوں اور اپني ايک فطري ضرورت کو پورا کر رہا ہوں‘‘۔ ممکن ہے کہ اس کي طبيعت و مزاج ہي اسي طرح کا ہو کہ وہ خدا کا شکر کرے اگر چہ کہ وہ اپني زبان سے يہ جملے ادا نہ کرے يا ذہن ميں بھي نہ لے کر آئے۔ ليکن توجہ رہے کہ انسان کي فطري ضرورت صرف اُس کي جنسي خواہش کو ہي پورا نہيں کرتي بلکہ مرد و عورت دونوں رشتہ ازدواج ميں منسلک ہو کر اپني مشترک زندگي کا آغاز کرتے ہيں، اپنا گھر بساتے اور اپنے چھوٹے سے خاندان کو وجود ميں لے کر آتے ہيں۔ يہ بھي انسان کي ضرورتيں ہيں اور ديگر ضروريات کي مانند اس کا وجود انساني حيات کے لئے اشد ضروري ہے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے کہ
يہ ايک طرح سے شادي کرنا اور اپني نئي زندگي کا آغاز کرنا ہے۔ ايک اور انسان ہے جو شادي تو کرتا ہے ليکن نہ خدا کا شکر ادا کرتا ہے، نہ اپني شريکہ حيات کي قدر و قيمت جانتا ہے اور نہ ہي اس فرصت کو غنيمت شمار کرتا ہے کہ جو اُسے حاصل ہوئي ہے۔ يہ آدمي مست اور غافل انسان کي مانند ہے۔ اگر ايسي زندگي کو دوام بھي حاصل ہوجائے تو بھي يہ کبھي شيريں نہيں ہو سکے گي اور نہ ہي اس ميں ايک دوسرے کي نسبت اپني ذمہ داريوں کا خيال رکھا جائے گا۔