حضرت ختمي مرتبت (ص) اس بات پر بہت زيادہ تاکيد فرماتے تھے کہ نوجوان لڑکے اور لڑکياں جلدي شادي کريں۔ البتہ اپنے ميل و رغبت اور اختيار سے، نہ يہ کہ دوسرے ان کي جگہ فيصلہ کريں۔ ہميں چاہيے کہ اپنے معاشرے ميں اس بات کو رواج ديں۔ نوجوانوں کو مناسب سن و سال ميں کہ جب ان کي نوجواني کي بہار اپنے عروج پر ہو، عشق و شوق کي اس جوش و گرمي کے ساتھ شادي کرني چاہيے۔ يہ بات بہت سے افراد کے نظريات اور خيالات کے بر خلاف ہے کہ جو يہ خيال کرتے ہيں کہ جواني کے زمانے کي شادي دراصل ’’وقت سے پہلے کِھلنے والا پھول‘‘ ہے کہ جو جلد ہي مرجھا جاتا ہے ليکن حقيقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اگر شادي اور اس کے فلسفے کو صحيح طور پر درک کيا جائے اور يہ صحيح طور پر انجام پائے تو جو اني کي شادياں اچھي اور بہت پائيدار ثابت ہوں گي اور ايسے خاندان ميں مياں بيوي مکمل طور پر ايک دوسرے کے سچے دوست اور اچھے جيون ساتھي ثابت ہوں گے۔
وقت ِ ضرورت، رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونا
اسلام کي يہي خواہش ہے کہ يہ مقدس امر اپنے صحيح وقت پر کہ جب اِس کي ضرورت محسوس کي جائے جتنا جلدي ممکن ہو، انجام پائے۔ يہ وہ امور ہيں جو صرف اسلام ہي سے مخصوص ہيں۔ يعني جتني جلدي ہو بہتر ہے۔ جلدي اس لئے کہ وہ وقت کہ جب لڑکا و لڑکي اپنے جيون ساتھي کي ضرورت محسوس کريں تو يہ کام جتنا جلدي ممکن ہو انجام پائے، بہتر ہے۔ اس کا سبب يہ ہے کہ اوّلاً، رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونے کے دامن ميں چھپي ہوئي خير و برکات اپنے صحيح وقت پر انسان کو حاصل ہوں گي قبل اس کے کہ زمانہ گزرے يا اس کي زندگي کا بہترين حصہ گزرجائے۔ دوسري بات يہ کہ وقت پر شادي جنسي انحرافات اور بے راہ روي کا راستہ روکتي ہے۔ لہٰذا حديث ميں ارشاد ہوا ہے کہ
’’مَنْ تَزَوَّجَ اَحرَزَ نَصْفَ دِيْنِہِ‘‘ (جس نے وقت پر شادي کي اس نے اپنا نصف دين محفوظ کر ليا)۔
اس روايت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے دين و ايمان کو متزلزل کرنے والے آدھے حملے اور ان کو لاحق خطرات صرف جنسي انحرافات اور بے راہ روي کي وجہ سے ہيں.