اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

تشیع کی پیدائش اور اس کی نشو نما (۲)

 علامہ طباطبائی
ترجمہ: سید افتخار علی جعفری
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔
امیر المومنین علی علیہ السلام کی پانچ سالہ خلافت کے دوران شیعوں کی ترقی
علی علیہ السلام  اپنی چار سال اور نو مہینے کی خلافت کے دوران اگر چہ پورے طریقے سے اسلامی حالات کو اپنے کنٹرول میں نہیں لے سکے۔ لیکن پھر بھی آپ کی حکومت کو تین عمدہ کامیابیاں حصل ہوئیں۔
۱: امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنی عادلانہ سیرت کے ذریعے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت طیبہ کو اسلامی سماج میں دوبارہ زندہ کیا۔ آپ نے معاویہ کے محلوں کے مقابلہ میں فقراء اور بےکسوں کو سہارا دیا۔ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو دوسروں پر مقدم نہیں کیا اور مال و دولت کو فقیری اور طاقت و توانائی کو بے کسی پر کوئی ترجیح نہیں دی۔
۲: امیر المومنین علی علیہ السلام نے ان تمام مشکلات اور جنگی مصروفیات کے باوجود اسلامی معارف اور الہی حقائق کو لوگوں تک پہچانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔
آپ کے مخالفین کا کہنا ہے: علی ایک شجاع آدمی تھے نہ سیاست مدار۔ وہ ابتدائے خلاف میں ہی اپنے مخالفین کا قلع قمع کر سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے اس نکتے کو نظر انداز کر دیا۔ امیر المومنین علی علیہ السلام کی خلافت ایک انقلابی تحریک  تھی اور انقلابی تحریکیں ہمیشہ تصنع اور ریاکاری سے دور رہتی ہیں۔ اسی طرح کی کیفیت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں بھی پیش آئی تھی کفار اور مشرکین بارہا رسول اسلام(ص) کو کئی طرح کی تجویزیں پیش کرتے تھے لیکن پیغمبر اکرم انہیں قبول نہیں کرتے تھے حالانکہ وہ ان ابتدائی حالات میں وقتی طور پر ان کی تجویزوں کو قبول کر کے اپنی سیاست اور نبوت کو مستحکم بنا سکتے تھے اور مضبوط ہونے کے بعد ان کا صفایا کر سکتے تھے۔ در حقیقت اسلامی قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ حق کو زندہ کرنے کی راہ میں دوسرے کا حق پامال کیا جائے یا ایک باطل کو دوسرے باطل کے ذریعے مٹایا جائے قرآن کریم کی بہت ساری آیات اس سلسلے میں موجود ہیں۔ (۴۷)
اس بات سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ علی علیہ السلام کے مخالفین نے اپنی کامیابی حاصل کرنے اور مقصد تک پہنچنے کی خاطر کسی جرم، قانون کی خلاف ورزی اور اسلام کی مخالفت  سے دریغ نہیں کیا اور ہر کار زیشت کو صحابی اور مجتہد ہونے کے نام سے انجام دے دیا لیکن امیر المومنین نے صرف اور صرف اسلامی قوانین کو پیش نظر رکھا اور پل بھر کے لیے انہیں نظر انداز نہیں کیا۔
علی علیہ السلام سے اس دوران مختلف علوم اور موضوعات کے سلسلے میں گیارہ ہزار کلمات قصار نقل ہوئے ہیں (۴۸) اور آپ نے اسلامی معارف (۴۹) کو اپنی تقریروں میں فصیح اور بلیغ لہجے میں بیان فرمایا۔ (۵۰) آپ نے عربی زبان کے قوانین کو وضع کیا، اور عربی ادب کی بنیاد ڈالی۔ آپ اسلام میں پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے الہی فلسفہ کی فکر پیش کی (۵۱) اور اسے استدال اور منطقی برہان کی صورت میں پیش کیا اور ان مسائل کی گتھیاں سلجھائی جو اس زمانے تک کے فلاسفہ کے ذہنوں میں خطور بھی نہیں کئے تھے۔ (۵۲)
۳: امیر المومنین علیہ السلام نے بہت سارے علماء اور دانشمندوں کی تربیت کی (۵۳) جن میں سے بعض اہل معرفت افراد یہ تھے: اویس قرنی، کمیل بن زیاد، میثم تمار، رشید ہجری وغیرہ جو عرفاء کے درمیان ایک مثالی شخصیت کے حامل تھے اور کچھ بعض دوسرے افراد علم فقہ، تفسیر اور قرائت وغیرہ کے مصادر اور مراجع قرار پائے۔
خلافت کا معاویہ کی طرف منتقل ہونا اور اس کا وراثتی شہنشاہیت میں تبدیل ہوجانا
امیر المومنین علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ کی وصیت کے مطابق امام حسن علیہ السلام خلیفہ مسلمین اور شیعوں کے دوسرے امام قرار پائے لیکن معاویہ نے شام سے عراق پر لشکر کشی کی اور امام حسن علیہ السلام کے ساتھ جنگ کا اعلان کر دیا۔
معاویہ نے مختلف حیلوں اور مکاریوں سے امام حسن علیہ السلام کے ساتھیوں کو فاسد کر دیا اور آخر کار امام حسن علیہ السلام کو صلح کرنے پر مجبور کر دیا اور امام حسن علیہ السلام نے بھی اس شرط پر خلافت کو معاویہ کے حوالہ کیا کہ کسی بھی صورت میں شیعوں کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرے اور ان پر کوئی ظلم و ستم نہ کرے۔(۵۴)
سن چالیس ہجری کو معاویہ اسلامی خلافت کے تخت پر مسلط ہونے کے بعد فورا عراق کی طرف گیا اور عراق میں اس نے لوگوں کے درمیان تقریر کی اور انہیں دھمکی دے کر کہا: میں نے تم لوگوں سے نماز اور روزہ کے سلسلے میں جنگ نہیں کی بلکہ میں تم لوگوں پر حکومت کرنا چاہتا تھا اور میں اپنے مقصد کو پہنچ گیا‘‘۔(۵۵) !!
اس نے مزید کہا: وہ پیمان جو میں نے حسن بن علی کے ساتھ باندھا وہ لغو ہو گیا اور میرے پاوں تلے کچل گیا ہے۔ (۵۶) معاویہ نے اپنی اس بات سے اشارہ کیا کہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی وہ دینی اور اسلامی قوانین کی نسبت کوئی ضمانت رکھتا ہے۔ اس  نے اپنی تمام تر طاقت اور توانائی  اپنی حکومت کی حفاظت میں صرف کر دی۔ واضح ہے کہ ایسی حکومت صرف ایک بادشاہی حکومت ہو سکتی ہے نہ رسول خدا(ص) کی جانشینی اور خلافت۔ اور یہی وجہ تھی کہ بعض وہ لوگ جو معاویہ کے پروردہ تھے وہ اسے صرف ایک اسلامی بادشاہ سمجھتے تھے (۵۷) اور وہ خود بھی بعض مخصوص مجالس میں اپنی حکومت کو ایک پادشاہی حکومت کے عنوان سے تعبیر کرتا تھا۔(۵۸) اگر چہ ملائے عام میں اسے خلیفہ ہونے کے عنوان سے ہی پہچانا جاتا تھا۔
معاویہ نے اپنے اس بیان سے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ وہ ہر گز حسن بن علی علیہ السلام کو اپنے بعد خلافت تک نہیں پہچنے دے گا یعنی وہ اپنے بعد خلافت کے سلسلے میں ایک اور فکر رکھتا تھا اور اس کی وہ فکر یہ تھی کہ امام حسن علیہ السلام کو زہر دے کر شہید کرے گا (۶۰) اور اپنے بیٹے یزید کے لیے راستہ ہموار کرے گا معاویہ کا امام حسن علیہ السلام کے ساتھ کئے ہوئے عہد و پیمان کو توڑنا یہ بتلا رہا تھا کہ وہ ہر گز شیعوں کو امن و آرام کی زندگی بسر نہیں کرنے دے گا۔ اور نہ انہیں پہلے کی طرح دینی تبلیغ کرنے کی اجازت دے گا اور اس نے اس چیز کو اپنے عمل سے ثابت کر دیا۔ (۶۱)
اس نے کھلے عام یہ اعلان کر دیا کہ جو بھی اہل بیت کی شان میں کوئی حدیث نقل کرے گا اس کی جان و مال محفوظ نہیں ہو گا،(۶۲) اس نے حکم دیا کہ جو بھی صحابہ کی شان میں قصیدے یا حدیثیں بیان کرے گا وہ انعام کا مستحق ہو گا۔ اس کے نتیجہ میں صحابہ کی شان میں حدیثیں گھڑنے کا بازار کھل گیا (۶۳) اور معاویہ نے دستور دیا کہ تمام اسلامی ممالک میں منبروں سے علی علیہ السلام کو دشنام دی جائیں۔ معاویہ کا یہ دستور عمر بن عبد العزیز کے زمانے تک نافذ رہا۔ اس نے اپنے چیلے چانٹوں کے ذریعے بعض جید شیعہ صحابیوں کو قتل کروا ڈالا۔ اور ان میں سے بعض کے سروں کو نوک نیزہ پر چڑھا کر شہروں میں پھرایا اور شیعوں پر ظلم و ستم کا بازار خوب گرم کیا انہیں اذیت و آذار دینا شروع کیا اور جو مقابلہ کرنے کی کوشش کرتا اسے قتل کر دیا جاتا۔(۶۴)
شیعوں کے لیے سب سے زیادہ سخت زمانہ
تاریخ تشیع میں شیعوں کے لیے سب سے زیادہ سخت زمانہ، معاویہ کے دور حکومت کے بیس سال تھے کہ جس میں شیعہ ذرہ برابر بھی سکون کی سانس نہ لے پائے جبکہ اکثر شیعہ اس دور میں اسلام کی مانی جانی شخصیتیں اور گرانقدر صحابہ تھے جن میں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام سب سے بالاتر تھے لیکن حالات پر صرف معاویہ کا کنٹرول تھا۔ یہاں تک کہ بعد معاویہ امام سوم نے یزید کے دور خلافت کے پہلے چھ مہینے میں اپنے چند اصحاب و انصار کے ساتھ ظلم و تشدد  کا مقابلہ کیا لیکن سب کے سب شہید ہو گئے معاویہ کے دس سالہ دور خلافت میں شیعوں کو ذرہ برابر امن و سکون نہیں ملا۔
اکثر اہل سنت معاویہ کے دور کی قتل و غارت کو اس طرح سے توجیہ کرتے ہیں کہ وہ صحابہ تھے اور احادیث نبوی کی روشنی میں صحابہ مجتہد ہوتے ہیں لہذا ان کا ہر عمل ان کے اجتہاد کی بنا پر ہوتا ہے اور مجتہد خدا کی نظر میں معذور ہے لہذا وہ جو بھی جرم و عمل قبیح انجام دے اسے معاف کر دیا جائے گا۔ لیکن شیعہ اس عذر کو قبول نہیں کرتے، اس لیے کہ:
اولاً: یہ معقول نہیں ہے کہ ایک سماجی رہبر جیسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حق اور عدالت کے احیاء کے لیے قیام کریں اور کچھ افراد کو اپنا ہم عقیدہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں ایسے افراد جو اپنی تمام عمر کو انہیں اغراض و مقاصد کے تحقق کے لیے داو پر لگا دیں اور جب یہ مقاصد پورے ہو جائیں تو وہ (رہبر) ان افراد کو ہر طرح کی آزادی دے دے کہ جیسا ان کا من چاہے جو فتنہ و فساد سماج کے اندر وہ پھیلانا چاہیں پھیلاتے رہیں جن ہتھیاروں سے اس عمارت کو تعمیر کیا جائے اسی سے اسے خراب بھی کر دیا جائے! ( یہ ہر گز معقول نہیں ہے)۔
اور ثانیاً: وہ روایات جو صحابہ کی تعریف و تقدیس بیان کرتی ہیں، ان کے ناجائز اور برے اعمال کی تصحیح کرتی ہیں اور ان کے کارناموں کو مرفوع القلم قرار دیتی ہیں وہ خود صحابہ ہی کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں جبکہ خود صحابہ کے اندر ان روایات کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض ان کی تردید اور بعض تائید کرتے ہیں۔ اور تاریخ کی گواہی کے مطابق خود صحابہ ایک  دوسرے کا قتل اور ایک دوسرے پر سب و شتم کرتے رہے ہیں اور ذرہ برابر بھی ایک دوسرے کی نسبت چشم پوشی یا عفو و درگذشت سے کام نہیں لیتے تھے۔
اس بنا پر خود صحابہ کے عمل کی گواہی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایات صحیح نہیں ہیں۔ اور اگر صحیح ہوں تو ان سے مراد کوئی دوسرے معنی ہیں نہ تمام صحابہ کی تقدیس اور گناہوں سے معصومیت
اور اگر بالفرض خداوند عالم اپنے کلام میں اس خدمت کے بدلے میں اپنی رضایت کا اظہار کرے جو صحابہ نے اس کے فرمان کو اجرا کرنے میں انجام دی ہے تو یہ رضایت ان کے گزشتہ اعمال کے بدلے میں ہو گی نہ آئندہ کی ضمانت کہ وہ آئندہ جو بھی ان کا دل چاہے نافرمانی کرتے رہیں۔(۶۵)۔
حکومت بنی امیہ کا مضبوط ہونا
سن ساٹھ ہجری قمری میں معاویہ کی موت ہوئی اس کا بیٹا اس بیعت کی بنا پر تخت خلافت پر بیٹھا جو باپ نے پہلے سے لے رکھی تھی۔
یزید تاریخی گواہی کے مطابق کسی طرح کا بھی دینی شعور نہیں رکھتا تھا وہ ایسا لا ابالی جوان تھا جو باپ کی موجودگی میں بھی دینی اصول و ضوابط کا پابند نہیں تھا۔ عیاشی، شہوت پرستی، میمون بازی اور دیگر فحشا و منکر کی انجام دہی کے علاوہ اس کا کوئی دوسرا کام نہیں تھا۔ اس نے اپنی تین سالہ حکومت کے دوران ایسے ایسے فجیع اور نازیبا کام انجام دئے جن کی مثال تاریخ اسلام میں نظر نہیں آتی۔
پہلے سال امام حسین علیہ السلام جو رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نواسے ہیں کو ان کے اہل و عیال سمیت کس درناک طریقے سے شہید کیا اور عورتوں، بچوں اور اہلبیت رسول کو شہداء کے کٹے سروں کے ساتھ کوفہ و شام کے گلی گلی پھیرایا۔ (۶۶) دوسرے سال مدینہ میں قتل عام کیا اور مسلمانوں کی جان و مال و ناموس کو تین دن تک اپنے لشکر والوں کے لیے جائز قرار دے دیا۔(۶۷) اور تیسرے سال کعبہ پر حملہ کیا اور اس پر آتش بارانی کی۔( ۶۸) یزید کے بعد آل مروان نے حکومت کی لگام کو سنبھالا اور انہوں نے بھی اپنی مرضی کے مطابق شریعت اسلامی میں ہیرا پھیری کی اور مسلمانوں کو کس درجہ آزار و اذیت پہنچائی سب کچھ تاریخ کی اوراق میں تفصیل سے درج ہے۔
بنی امیہ کے گیارہ خلفاء کی حکومت کہ جو تقریبا ستر سال تک قائم رہی تاریخ اسلام کے ایسے تاریک دور کو تشکیل دیتی ہے جس میں ہر قسم کا ظلم و ستم جائز تھا اور اس دور کو ایک ڈکٹیٹر شپ کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا اسلامی حکومت کا اس پر صرف ایک لیبل تھا۔ بنی امیہ ہی کا دور حکومت تھا جس میں ولید بن یزید جو اپنے آپ کو جانشین رسول سمجھتا تھا یہ دستور دیتا ہے کہ خانہ کعبہ پر ایک کمرہ تیار کیا جائے جس میں وہ موسم حج میں بیٹھ کر خوش گزرانی کرے!۔( ۶۹)
ولید بن یزید نے قرآن کریم کو تیروں کا نشانہ بنایا اور اس شعر میں جو اس نے قرآن کریم کو مخاطب کر کے پڑھا کہا: ’’قیامت کے دن جب اپنے خدا کی بارگاہ میں حاضر ہونا تو کہہ دینا کہ خلیفہ نے مجھے پھاڑ کر پھینکا‘‘۔ (۷۰)
اور ان کے مقابلے میں شیعہ جو ابتداء سے ہی اس طرز حکومت اور نظام کے مخالف تھے نے اس عرصہ میں انتہائی دردناک مشکلات کا سامنا کیا لیکن ایک طرف وقت کی حکومتوں کی بے دینی اور مطلق العنانی کا ثبوت سامنے آیا اور دوسری طرف شیعوں کی مظلومیت اور اہلبیت عصمت و طہارت کے پیشواوں کی پرہیز گاری اور پارسائی نے زمانے میں اپنی سچائی اور واقعی خلافت رسول کے مستحق ہونے کا سکہ منوا لیا۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ پانچویں امام کی امامت کے دور میں جبکہ پہلی صدی ہجری تمام نہیں ہوئی تھی اور امام سوم کی شہادت کو چالیس سال گزرے تھے حکومت بنی امیہ میں خلل پیدا ہوتے ہیں تمام اسلامی ممالک سے شیعہ سیلاب کی طرح پانچویں امام کی خدمت میں اسلامی تعلیمات کے حصول کی خاطر جمع ہوگئے (۷۱) اور پہلی ہی صدی ہجری میں شیعوں کی کچھ بزرگ شخصیات نے ایران میں سر زمین قم کو تعلیمات اہلبیت سے آگاہ کر کے اسے شیعہ نشین شہر بنا دیا۔ (۷۲) لیکن ابھی بھی شیعہ اپنے امام کے دستور سے تقیہ کی حالت میں تھے اور اپنے مذہب کو ظاہر کرنے سے گریز کرتے تھے۔
کئی بار حکومتی فشار سے تنگ آکر علوی سادات نے حکومت کے خلاف قیام کئے لیکن شکست کھا جاتے رہے اور اپنی جانوں کا نذرانہ راہ خدا میں پیش کر دیتے رہے اور حکومتیں انہیں تہہ تیغ اور پامال کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتی تھیں۔ زید بن علی علیہ السلام کی لاش کو قبر سے نکال کر سولی پر چڑھایا گیا اور لاش تین سال سولی پر لٹکی رہی اس کے بعد اتار کے اسے جلا دیا گیا (۷۳) چوتھے اور پانچویں امام کو بھی بنی امیہ نے ہی زہر دے کر شہید کیا( ۷۴) اور دوسرے اور تیسرے اماموں کی شہادتیں بھی بنی امیہ کے ہاتھوں واقع ہوئیں۔ بنی امیہ کے کارنامے اس قدر غیر انسانی اور جارحانہ تھے کہ اکثر اہلسنت اس کے باوجود کہ وہ خلفاء کو مفترض الطاعہ سمجھتے ہیں مجبور ہیں انہیں دو حصوں میں تقسیم کریں خلفائے راشدین یعنی پہلے چار خلیفہ اور خلفاء غیر راشدین کہ جو معاویہ سے شروع ہوتے ہیں۔
بنی امیہ کے ظلم و بربریت نے اس قدر لوگوں کی نفرت مول لی تھی کہ بنی امیہ کی شکست اور ان میں کے آخری خلیفہ کے قتل کے بعد اس کے بیٹے اور اہل خانہ دار الخلافہ سے بھاگے اور کہیں بھی انہیں پناہ نہیں ملی آخر کار حبشہ اور بجاوہ کے بیابانوں میں جا کر بھوکے پیاسے پڑے رہے کچھ زندگی سے منہ ہاتھ دھو بیٹھے اور کچھ یمن کے جنوبی علاقہ میں جا کر چھپ گئے۔(۷۵)

شیعہ دوسری صدی ہجری میں
دوسری صدی کے ابتدائی سالوں میں بنی امیہ کے ظلم و ستم کے نتیجہ میں اسلامی ممالک کے مختلف علاقوں میں جہاں بنی امیہ کی خونخوار جنگیں جاری تھیں وہاں اہلبیت رسول کے نام پر دعوت کا سلسلہ بھی خراسان کے علاقے میں شروع ہو گیا۔ اس دعوت کے بانی ’’ابو مسلم مروزی‘‘ ایک ایرانی شخص تھا جس نے بنی امیہ کے مقابلہ میں قیام کیا اور اہلبیت رسول کے نام پر لوگوں کو اپنی طرف دعوت دی۔ اس کی تحریک نے ترقی کی یہاں تک کہ حکومت بنی امیہ کا تختہ الٹ دیا۔(۷۶) یہ تحریک اگر چہ شیعہ افکار کی تبلیغات سے سرچشمہ پاتی تھی اور اکثر و بیشتر شہداء اہلبیت کے انتقام کو اپنا شعار بناتی تھی اور لوگوں سے اہلبیت میں کی ایک پسندیدہ شخصیت کے لیے بیعت لیتے تھے لیکن کسی امام برحق کی مستقیم تائید سے معرض وجود میں نہیں آئی تھی۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ جب ابو مسلم نے خلافت کے لیے لی ہوئی بیعتوں کو چھٹے امام کی خدمت میں پیش کیا تو انہوں نے قطعی طور پر انکار کر دیا اور فرمایا: تم ہمارے لوگوں میں سے نہیں ہو اور زمانہ بھی ہمارا زمانہ نہیں ہے‘‘۔ (۷۷)
آخر کار بنی عباس نے اہلبیت کے نام پر خلافت کو چرا لیا (۷۸) اور ابتدا میں لوگوں کو خصوصا علویین کو سبز باغ دکھانا شروع کئے حتی انہوں نے شہدائے اہلبیت کے انتقام کے نام پر بنی امیہ کا قتل عام کیا اور ان کی قبروں کو اکھاڑ کر مردوں کو آگ لگائی۔( ۷۹) لیکن ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ بنی عباس نے بھی بنی امیہ والا طریقہ کار اپنا لیا۔
ابو حنیفہ جو اہلسنت کے فرقہ حنفی کے امام تھے، کو منصور کے حکم سے جیل میں بند کر دیا گیا۔ (۸۰) اور انہیں وہاں شکنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ابن حنبل نے بھی تازیانہ کھائے۔ (۸۱) اور شیعوں کے چھٹے امام بھی کافی ظلم و ستم کے بعد زہر کے ذریعے شہید کر دئے گئے۔(۸۲) بنی عباس ایک بار میں درجنوں علویوں کی گردنیں اڑاتے تھے یا انہیں زندہ زندہ دفن کر دیتے تھے۔
عباسی خلیفہ ہارون رشید جس کے زمانے میں اسلامی حکومت کی وسعت اور قدرت کو عروج حاصل تھا اور خلیفہ اس غرور کی بنا پر آسمان کی طرف دیکھتا تھا اور سورج کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ تو جہاں چمکنا چاہتا ہے چمک لیکن تو میری سلطنت سے باہر نہیں جا سکتا۔ لیکن اس کے باوجود خلیفہ نے پل بغداد پر کچھ سپاہیوں کو کھڑا کر رکھا تھا جو پل سے گزرنے والے ہر شخص سے حق عبور وصولتے تھے اور حتی ایک دن خود خلیفہ کا پل سے گزر ہوا تو سپاہیوں نے اس سے بھی حق العبور کا مطالبہ کیا۔ (۸۳) ایک مغنیہ خلیفہ کے لیے دو شہوت انگیز شعر پڑھ کر خلیفہ پر شہوت طاری ہونے کے اسباب فراہم کر دیتی اور اس سے کئی میلین چاندی کے سکے وصول لیتی تھی۔ ایک بار رقاصہ نے کہا اے امیر المومینن! اتنے سکے مجھے دے دیتے ہو ؟ خلیفہ نے کہا: کوئی مشکل نہیں یہ پیسے مفت میں آتے ہیں اور مفت میں جاتے ہیں۔ (۸۴) وہ تمام مال و ثروت جو وجوہات شرعی کے عنوان سے مختلف ملکوں سے بیت المال مسلمین میں جمع ہوتا تھا سب خلیفہ کی ہوس رانی اور شہوت پرستی پر صرف ہوتا تھا۔ اس کے دربار میں کنیزوں اور خوبصورت لڑکوں لڑکیوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔
شیعوں کو نہ بنی امیہ سے ذرہ برابر سکون ملا تھا اور نہ ہی بنی عباس سے۔ شیعوں کی نظر میں تو یہ سب ایک ہی کھاتے کے تھے صرف نام کا فرق تھا۔
شیعہ تیسری صدی ہجری میں
تیسری صدی کے شروع ہونے کے بعد شیعوں نے کچھ سکون کی سانس لی جس کا سبب ایک یہ تھا کہ بہت ساری فلسفی اور علمی کتابیں یونانی اور سریانی زبانوں سے عربی میں ترجمہ ہونے لگیں اور لوگوں نے عقلی اور منطقی علوم کو حاصل کرنے کی طرف رخ کر لیا۔ اس کے علاوہ مامون نے خود معتزلی مذہب کی طرف رجحان پیدا کر لیا جو کہ ایک برہانی اور عقلی مذہب تھا۔ اس نے ادیان و مذاہب میں گفتگو کرنے کی پوری آزادی فراہم کر رکھی تھی۔ شیعہ علماء اور متکلمین نے اس آزادی سے مکمل فائدہ اٹھایا اور اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات کو عام کرنے اور شیعہ مذہب کی ترویج و تبلیغ کرنے کا بہترین موقع پا لیا۔(۸۵)
دوسرے یہ کہ مامون عباسی نے اپنی سیاست کے مطابق آٹھویں امام کو اپنا ولی عہد بنایا تھا جس کے نتیجے میں علوی اور اہلبیت علیہم السلام کے چاہنے والے کچھ عرصے کے لیے حکومتی اذیت و آزار سے محفوظ ہو گئے۔ اور کم و بیش آزادی سے زندگی بسر کرنے لگے۔ لیکن یہ زمانہ بہت جلدی ختم ہو گیا امام رضا علیہ السلام کو مامون نے زہر دے کر شہید کر دیا اور شیعوں کے لیے پھر سے تیز تلواریں نیاموں سے نکل آئیں اور ظلم و ستم کی تاریخ دوبارہ دھرائی جانے لگی۔ مامون کے بعد متوکل نے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارکہ پر ہل چلا کر اسے خاک سے ملا دیا اور شیعوں کو ایک بار پھر غم کربلا میں داغدار کر دیا۔(۸۶)
شیعہ چوتھی صدی ہجری میں
چوتھی صدی ہجری میں کچھ ایسے عوامل وجود میں آئے جنہوں نے شیعوں کو طاقتور کرنے اور انہیں وسعت دینے میں کافی مدد کی جیسے خلفاء بنی عباس میں سستی کا وجود میں آنا اور آل بویہ بادشاہوں کا ظہور کرنا۔
’’آل بویہ‘‘ بادشاہ جو شیعہ تھے انہوں نے مرکز خلافت بغداد میں اپنا مکمل نفوذ پیدا کر لیا تھا (۸۷) اس قدرت اور اقتدار نے شیعوں کو اتنا موقع بخشا کہ وہ کسی حد تک آزادی سے اپنے مذہب کی ترویج کر سکیں۔
جیسا کہ مورخین کا کہنا ہے اس صدی ہجری میں پورا جزیرۃ العرب یا اس کے اکثر علاقے سوائے چند بڑے شہروں کے شیعہ ہو گئے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر مقامات جیسے عمان، ہجر اور صعدہ بھی شیعہ تھے۔ شہر بصرہ کہ جو ہمیشہ سے سنی نشین تھا اور کوفہ کہ جو شیعہ نشین شہر تھا ان شہروں کے درمیان مذہبی رقابت شروع ہو گئی۔ اسی طرح طرابلس، نابلس، طبریہ، حلب اور ہرات میں شیعہ کافی تعداد میں وجود پا گئے۔ نیز اہواز، خلیج فارس کے ساحلی علاقوں میں بھی شیعہ مذہب رائج ہو گیا۔ (۸۸)
اسی صدی کی ابتدا میں امام زادہ ناصر کبیر ( ابو محمد حسن بن علی بن حسن بن علی بن عمر بن زین العابدین بن حسین بن علی بن ابی طالب علیہم السلام ) جنہوں نے شمالی ایران میں کافی عرصہ تبلیغ کی تھی اور طبرستان کے علاقے میں اسلامی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گیے جو کئی عرصہ تک باقی رہی۔ اطروش کے بعد حسن بن زید علوی نے سالہا سال طبرستان میں حکومت کی۔(۸۹)
اسی صدی میں فاطمیون کہ جو اسماعیلی مذہب کے پیروکار تھے نے مصر میں حکومت قائم کی اور اس حکومت سلسلہ نسل در نسل کئی سال تک چلتا رہا۔ (۹۰)
کئی بار یہ اتفاق ہوتا تھا کہ بڑے بڑے شہروں جیسے بغداد، بصرہ اور نیشاپور میں شیعہ سنی میں کشمکش پیدا ہو جاتی تھی اور شیعہ ان پر غالب آجاتے تھے۔
شیعہ پانچویں سے نویں صدی ہجری کے آخر تک
پانچویں صدی ہجری سے لے کر نویں صدی ہجری تک شیعوں کے تقریبا وہی حالات تھے جو چوتھی صدی ہجری میں تھے اس دوران شیعوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہا جس کی اصلی وجہ وہ شیعہ بادشاہ تھے جنہوں نے مذہب تشیع کی ترویج کی۔
پانچویں صدی کے آخر میں، قلاع الموت کے علاقے میں اسماعیلیوں نے جڑیں پکڑ لی تھیں۔ اسماعیلیوں نے ڈیڑھ سو سال تک ایران میں مکمل استقلال کے ساتھ زندگی گزاری۔(۹۱) جس کی مثال مرعشی سادات ہیں جنہوں نے مازندران میں کئی سال حکومت کی (۹۲)۔
’’شاہ خدابندہ ‘‘ ایک مغل بادشاہ تھا جس نے شیعہ مذہب اختیار کیا۔ اس کے اجداد نے ایران میں کئی سوسال حکومت کی تھی خدابندہ کے شیعہ مذہب قبول کرنے سے مذہب تشیع کی ترویج ہوئی اسی طرح دوسرے سلاطین جیسے ’’ آق قویونلو اور قرہ قویونلو‘‘ نے تبریز میں حکومت کی (۹۳) جن کی حکومت کا دائرہ فارس اور کرمان تک پھیلا ہوا تھا اس کے علاوہ مصر  میں بھی کئی سال تک فاطمیوں کی حکومت قائم رہی۔
البتہ مذہبی لوگ بادشاہوں سے مختلف ہوتے تھے چنانچہ فاطمیوں کی بساط الٹ جانے اور ’’آل ایوب‘‘ بادشاہوں کے بر سر اقتدار آنے سے مصر کا نقشہ بدل گیا مصر اور شامات کے شیعوں کی کلی طور پر مذہبی آزادی ختم ہو گئی اور کثیر تعداد میں شیعوں کو تہہ تیغ کر دیا گیا۔ (۹۴) اسی دوران شہید اول محمد بن محمد مکی کو سن ۷۸۶ ہجری میں دمشق میں شیعہ ہونے کے جرم میں شہید کر دیا گیا جو شیعہ فقہ میں نابغہ اور بے مثال تھے۔
 اسی طرح شیخ شہاب الدین سہروردی حلب میں فلسفہ پڑھنے کے جرم میں قتل ہو گئے (۹۶)۔
لیکن کلی طور پر ان پانچ صدیوں میں شیعوں کا آبادی کے لحاظ سے اضافہ ہوتا رہا لیکن اقتدار اور قدرت کے اعتبار سے سلاطین وقت کی مخالفت یا موافقت کے عنوان سے ان کے تابع تھے اور اس مدت میں کسی بھی اسلامی ملک میں مذہب شیعہ کو ایک رسمی مذہب شمار نہیں کیا گیا۔
شیعہ دسویں اور گیارہویں صدی میں
سن ۹۰۶ ہجری میں شیخ صفی اردبیلی کہ جو اہل طریقت تھے کے خاندان کا ایک تیرہ سالہ نوجوان اپنے باپ کے مریدوں میں سے تین سو افراد پر مشتمل ایک لشکر لے کر ایک مستقل اور صاحب قدرت ملک بنانے کی غرض سے نکلا اور ملک کو فتح کرنے اور ایران کے طوائفی قوانین کو ختم کرنے کی کوشش میں لگ گیا اس نے خاص طور پر آل عثمان کے بادشاہوں کے ساتھ کئی خونی جنگیں کی جو اس زمانے میں عثمانی حکومت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھے اور آخر کار ان طویل جنگوں کے بعد وہ کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ اس نے ایران کے ٹکڑوں کو ایک ملک کی صورت میں جمع کیا اور مذہب تشیع کو رسمی مذہب قرار دیا (۹۷) شاہ اسماعیل صفوی کی موت کے بعد دوسرے صفوی بادشاہوں نے بارہویں صدی کے اواسط تک اسی روش کو باقی رکھا اور ہر ایک بادشاہ نے اس دوران مذہب تشیع کی تائید کی۔ حتی اس زمانے میں کہ جب شاہ عباس کبیر کی حکومت تھی اس نے ایران کی سر زمین میں وسعت پیدا کی اور موجودہ ایران کے دوگنا زمین کو اپنے زیر سلطنت کر لیا۔ (۹۸) ان دو صدیوں میں شیعہ دوسرے اسلامی ممالک میں بھی تیزی کے ساتھ پھیلتے رہے۔
شیعہ بارہویں صدی ہجری سے چودہویں صدی تک
آخری تین صدیوں میں مذہب تشیع کی ترقی اور پیشرفت گزشتہ صدیوں کی طرح اپنی فطری حالت میں تھی اور فی الحال موجودہ صدی میں مذہب تشیع ایران میں رسمی اور سرکاری مذہب ہے اور اسی طرح بحرین، یمن اور عراق میں بھی اکثریت شیعوں کے ساتھ ہے اور تمام اسلامی ممالک میں کم و بیش شیعہ پائے جاتے ہیں اور کلی طور پر پوری دنیا میں اس وقت شیعوں کی تعداد تقریبا ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔

حواشی و حوالہ جات
۴۷: سورہ ص، آیت ۵، اسریٰ، آیت ۷۴، سورہ قلم، آیت ۹ کی شان نزول کی طرف رجوع کریں۔
48:کتاب الغرر و الدرر آمدی و متفرقات جوامع حدیث.

49:مروج الذهب،ج 2،ص 431.شرح ابن ابی الحدیث ج 1،ص .181

50:اشباه و نظایر سیوطی در نحو،ج 2.شرح ابن ابی الحدید،ج 1،ص .6

51:ر،ک:نهج البلاغه.
۵۲: جنگ جمل کے دوران ایک عربی امام علی علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: یا امیر المومنین! آپ کہتے ہیں خدا ایک ہے؟ لوگوں نے ہر طرف سے اس پر حملہ کر دیا کہ اے عرب! تو اس وقت امیر المومنین کی پریشانی اور نگرانی کو نہیں دیکھ رہا ہے اور علمی بحثیں کر رہا ہے؟ علی علیہ السلام نے اصحاب سے فرمایا: اس شخص کو چھوڑ دو۔ اس لیے کہ میری اس قوم سے جنگ بھی اسی غرض سے ہے کہ ان کے عقائد درست کروں اس کے بعد پوری تفصیل کے ساتھ اس عربی کو اس کے سوال کا جواب دیا۔(بحار،ج 2،ص 65)
53:شرح ابن ابی الحدید،ج 1،ص 6 .9

54:تاریخ یعقوبی،ج 2،ص 191 و باقی تواریخ.

55:شرح ابن ابی الحدید،ج 4،ص 160.تاریخ طبری،ج 4،ص 124.تاریخ ابن اثیر،ج 3،ص .203

56: وہی حوالہ.

57:تاریخ یعقوبی،ج 2،ص .193

58:تاریخ یعقوبی،ج 2،ص .202
۵۹: یزید ایک عیاش مکار اور دائم الخمر شخص تھا، حریر کا لباس پہنتا تھا، کتے اور بندروں سے کھیلتا تھا اس کی رات کی محفلیں ناچ گانے اور شراب سے مملو ہوتی تھیں اس کے بندر کا نام ابوقیس تھا وہ اسے خوبصورت کپڑے پہنا کر اپنی شراب کی محفل میں لاتا تھا۔ (تاریخ یعقوبی،ج 2،ص 196.مروج الذهب،ج 3،ص 77)
60:مروج الذهب،ج 3،ص 5.تاریخ ابی الفداء،ج 1،ص .183

61:النصایح الکافیه،ص 72،نقل از کتاب الاحداث.
62:روی ابو الحسن المدائنی فی کتاب الاحداث قال:کتب معاویة نسخة واحدة الی عماله بعد عام الجماعة:انی برئت الذمة ممن روی شیئا من فضل ابی تراب و اهل بیته النصایح الکافیه،تألیف محمد بن عقیل،چاپ نجف،سال 1386 هجری،ص 87 و .194

63:النصایح الکافیه،ص 72 و .73

64:النصایح الکافیه،ص 58،64،77 و .78

65:سوره توبه،آیه .100

66:تاریخ یعقوبی،ج 2،ص 216 تاریخ ابی الفداء،ج 1،ص 190.مروج الذهب،ج 3،ص 64 و تواریخ دیگر.

67:تاریخ یعقوبی،ج 2،ص 243.تاریخ ابی الفداء،ج 1،ص 192.مروج الذهب،ج 3،ص .78

68:تاریخ یعقوبی،ج 2،ص 224 تاریخ ابی الفداء،ج 1،ص 192.مروج الذهب،ج 3،ص .81

69:تاریخ یعقوبی،ج 3،ص .73

70:اذا ما جئت ربک یوم حشر فقل یا رب خرقنی الولید (مروج الذهب،ج 3،ص 216)

71:رجوع کریں اسی کتاب کے حصہ امام شناسی کی طرف۔

72:معجم البلدان،ماده«قم»

73:مروج الذهب،ج 3،ص 217219.تاریخ یعقوبی،ج 3،ص .66

74:بحار،ج 12 و دیگر شیعہ منابع۔

75:تاریخ یعقوبی،ج 3،ص .84

76:تاریخ یعقوبی،ج 3،ص 79.تاریخ ابی الفداء،ج 1،ص 208 و  دیگر تواریخ.

77:تاریخ یعقوبی،ج 3،ص 86.مروج الذهب،ج 3،ص .268

78:تاریخ یعقوبی،ج 3،ص 86.مروج الذهب ج 3،ص .270

79:تاریخ یعقوبی،ج 3،ص 9196.تاریخ ابی الفداء،ج 1،ص .212

80:تاریخ ابی الفداء،ج 2،ص .6

81:تاریخ یعقوبی،ج 3،ص 198.تاریخ ابی الفداء،ج 2،ص .33

82:بحار،ج 12، حضرت صادق (ع) کے حالات .

83:قصه جسر بغداد.

84:آغانی ابی الفرج،قصه امین.

85:تواریخ.

86:تاریخ ابی الفداء و دیگر تواریخ.

87: تاریخ کی طرف رجوع کریں.

88:الحضارة الاسلامیه،ج 1،ص .97

89:مروج الذهب،ج 4،ص 373.الملل و النحل،ج 1،ص .254

90:تاریخ ابی الفداء،ج 2،ص 63 و ج 3،ص .50

91:رجوع کریں تواریخ کامل،روضة الصفا و حبیب السیر.

92:تاریخ کامل و تاریخ ابی الفداء،ج .3

93:تاریخ حبیب السیر.

94:تاریخ حبیب السیر و تاریخ ابی الفداء وغیرہ.

95:روضات الجنات و ریاض العلماء به نقل از ریحانة الادب،ج 2،ص .365

96:روضات، کتاب مجالس اور وفیات الاعیان.

97:روضة الصفا و حبیب السیر و غیره.

98:روضة الصفا و حبیب السیر.

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقیدہ ختم نبوت
ماہ رمضان کی آمد پر رسول خدا (ص) کا خطبہ
جن اور اجنہ کے بارےمیں معلومات (قسط-1)
حکومت خدا کا ظھور اور اسباب و حسب و نسب کا خاتمہ
شیعہ:لغت اور قرآن میں
خدا کی راہ میں خرچ کرنا
جبر و اختیار
"حی علیٰ خیر العمل " كے جزء اذان ھونے كے سلسلہ میں ...
کیا نذر کرنے سے تقدیر بدل سکتی ہے؟
آخرت میں اندھے پن کے کیا معنی هیں؟

 
user comment