اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

عبدالباری عطوان: بن سلمان نے نائب ولیعہد یا ولیعہد کے طور پر نہیں بلکہ بادشاہ کے طور پر اظہار خیال کیا ہے

مشہور فلسطینی تجزیہ نگار عبدالباری عطوان نے کہا ہے کہ سعودی بادشاہت کی تاریخ میں سعودی بادشاہ کے بیٹے کے انٹرویو کی مثال نہيں ملتی / بن سلمان نے نائب ولیعہد یا ولیعہد کے طور پر نہیں بلکہ بادشاہ کے طور پر اظہار خیال کیا ہے.
عطوان اپنی یادداشت میں لکھتے ہیں:
سعودی اخبار نویس "داؤد الشریان" نے سعودی نائب ولیعہد اور وزیر دفاع محمد بن سلمان سے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کا اہتمام کیا تھا جو منگل کے روز نشر ہوا، جو اگر ہم نہ کہیں کہ جزیرہ نمائے عرب کی تاریخ میں اہم ترین تھا، تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ سعودی حکمرانی کے آغاز سے لے کر اب تک اس بادشاہت کا اہم ترین واقعہ تھا۔ اہمیت کی وجہ بن سلمان کے جوابات اور وہ معلومات تھیں جو محمد بن سلمان نے اس انٹرویو میں ظاہر کردیں اور اس موقف کے اثرات علاقائی اور عالمی لحاظ سے بہت ہی اہم ہیں۔
محمد بن سلمان نے یہ موقف نائب ولیعہد یا حتی کہ ولیعہد کے طور پر نہيں بلکہ سعودی بادشاہ کے طور پر بیان کیا وہ بادشاہ جو اس وقت اس ملک کے تاج و تخت کا مالک ہے۔
پہلی مرتبہ اس قسم کا انٹرویو سعودی عرب کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری چینلوں اور ابوظہبی سمیت خلج فارس کے مختلف ٹی وی چینلز سے نشر ہوا۔ اس سے قبل کسی بھی سعودی بادشاہ نے ایسا موقف نہیں اپنایا تھا اور اس کا انٹرویو اتنے سارے چینلز سے بیک وقت نشر نہیں ہوا تھا چہ جائے کہ کسی شہزادے کے انٹرویو کو اتنی کوریج ملی ہو۔
بن سلمان نے العربیہ کو انٹرویو دیا، اور سعودی شہزادے نے جو موقف بیان کیا اس کے لئے اس چینل کا انتخاب اس لئے تھا اور معاشی مسائل پر زور دیا جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ سعودی باشندوں کو حالت بہتر ہونے کے سلسلے میں یقینی دہانی کرانا چاہتے تھے اور افراط زر اور مہنگائی کی وجہ سے عوامی غیظ و غضب کو ٹھنڈا کرنا چاہتے تھے جو برف کے گولے کی مانند روز بروز بڑے سے بڑا ہورہا ہے۔
بن سلمان نے خوداعتمادی کے ساتھ انٹرویو دیا، گویا اس نے سبق خوب یاد کیا تھا، انھوں اعداد و شمار اور طول و تفصیل کے ساتھ مستقبل میں معاشی بہبودی کے وعدے دیئے تا کہ سعودی باشندوں کو یہ پیغام ملے کہ "سعودی عرب دیوالیہ پن کے دہانے پر نہيں پہنچا اور تیل سے حاصلہ آمدنی کے متبادل آمدنی کے لئے دوسرے ذرائع بھی ہیں۔
سعودی شہزادے یمن پر دو سالہ سعودی جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے [ایک بار پھر۔۔۔] کہا: اگر سعودی بری فوج چاہے تو چند ہی روز میں حوثیوں اور ان کے اصلی حلیف "علی عبداللہ صالح" کی بیخ کنی کرسکتی ہے، لیکن ہمیں ہزاروں سعودی فوجیوں اور یمنی عوام کے قتل عام کی وجہ سے تشویش ہے!
ان کی بات درست ہے کیونکہ اگر سعودی عرب ایسا کرنا چاہے تو سعودی عرب کے تمام شہر عزاخانوں میں تبدیل ہوجائیں گے لیکن کیا سعودی عرب اور اس کی ریاستوں کے طیاروں نے دو سال سے زائد عرصے سے جاری [نام نہاد] "عاصفۃ الحزم" نامی کاروائی میں ہزاروں نہتے یمنی شہریوں کو ـ ان کا عزم توڑنے اور ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کے لئے ـ قتل نہیں کیا؟ ان سعودی اور غیر سعودی حملوں اور ہزاروں یمنیوں کے قتل عام کے باوجود یمنی عوام کے پائے استقامت میں اب تک لغزش نہیں آئی ہے اور عاصفۃ الحزم بھی اپنے اہداف میں کامیاب ہونےکے مرحلے سے کوسوں دور ہے۔ اگرچہ اس سعودی اقدام کی بہت ہی ‌عظیم انسانی قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔
صورت حال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق سعودی طیارے ہر ہلتی جلتی شیئے کو نشانہ بناتے ہیں، ایک کروڑ نوے لاکھ یمنی بھوک اور قحط سے دوچار ہیں، اور ہر 10 منٹ میں ایک یمنی بچہ جان سے ہاتھ دھو رہا ہے۔
سعودی شہزادے نے دعوی کیا کہ یمن کے ساتھ جنگ کی مدت طویل ہونے کا فائدہ سعودی عرب کو پہنچ رہا ہے کیونکہ مخالف فریق مکمل طور پر محاصرے میں ہے اور انہیں کوئی بھی امداد نہيں پہنچ رہی ہے۔
البتہ میرا [عطوان کا] خیال اس حوالے سے بن سلمان کے خیال سے مختلف ہے گو کہ بن سلمان کی یہ بات کہ "حوثیوں کو کسی قسم کی امداد نہيں مل رہی"، در حقیقت تمام سعودی دعؤوں اور رپورٹوں کو میلیامیٹ کردیتی ہے جن میں کہا جاتا رہا کہ ایران حوثیوں کو میزائل اور دیگر ہتھیار دے رہا ہے"۔ میرا خیال بن سلمان سے اس لئے مختلف ہے کہ طویل جنگ کی وجہ سے سعودی عرب اور حلیف ریاستوں کے مالی ذرائع، انسانی و نفسیاتی عناصر نابود ہوچکے ہیں، لہذا سعودیوں کے لئے بہتر یہی ہے کہ اس غلط تصور کو ترک کریں اور خواہ اگر جزوی سطح پر ہو بھی، اپنے آپ کو یمن میں جنگی جرائم کے الزام سے بچا دیں۔ کیونکہ یہ جنگی جرائم ممکن ہے کہ مستقبل میں سعودی عرب کو ان کی قیمت وسیع بین الاقوامی پابندیوں اور سینکڑوں ارب ڈالر تاوان کی صورت میں ادا کرنا پڑے۔
بن سلمان نے اپنے انٹرویو میں مصر کے ساتھ "تیران" اور "صنافیر" نامی جزائر پر اختلاف کو سرے سے جھٹلا دیا اور اخوان المسلمین سے وابستہ ذرائع ابلاغ پر الزامات لگائے اور کہا: ان دو جزیروں کا انجام ـ سعودی عرب کے حق میں ـ مکمل طور پر قطعی ہوچکا ہے اور "پلِ سلمان" کے منصوبے کا افتتاح زیادہ سے زيادہ اگلے دو برسوں انجام پائے گا۔
بن سلمان کے اس موقف سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودیوں کو دو سطحوں پر مشکلات کا سامنا ہے:

1۔ سعودی حکمران اخوان المسلمین اور مصر نیز مصر سے باہر یمن میں اس جماعت کی شاخوں کے ساتھ شدید اختلاف رکھتے ہیں جبکہ یمن میں جماعت اخوان سعودیوں کے دوش بدوش لڑ رہی ہے!
2۔ سعودی حکمرانوں کو مصری ذرائع ابلاغ سے شدید اختلاف ہے کیونکہ زیادہ تر مصری ذرائع ابلاغ نے سعودیوں کو ان دو جزائر کی واگذاری کی مخالف کی ہے جبکہ زیادہ تر مصری ذرائع ابلاغ اخوان المسلمین کے حامی نہیں ہیں۔

محمد بن سلمان نے اپنے انٹرویو میں ایران کے ساتھ مذاکرات کے تمام دروازے بند کردیئے اور کہا:
"میں اس حکومت کے ساتھ کیونکر مفاہمت کرسکتا ہوں جو انتہاپسندانہ آئیڈیالوجی پر استوار ہے، وہ آئیڈیالوجی جو امام خمینی کے وصیت نامے میں بیان کی گئی ہے اور اس کا مقصد عالم اسلام اور اس کے مقدسات پر راج تسلط پا کر راج کرنا، مذہب امامیہ کو فروغ دینا اور مہدی منتظر کی واپسی کے لئے مناسب ماحول فراہم کرنا ہے؟"۔
بن سلمان نے اپنا انٹرویو نہایت خطراک جملے پر ختم کیا اور وہ یہ کہ
"ہم منتظر نہيں رہیں گے کہ جنگ سعودی عرب کے اندر منتقل ہوجائے بلکہ ہم یہ جنگ ایران کے اندر منتقل کریں گے؛ وہ مسلمانوں کے قبلے پر تسلط چاہتے ہیں"۔
ایران کے اندر جنگ کی منتقلی کا مطلب اور مفہوم یہ ہے کہ سعودی حکمران ایران کے اندر بدامنی پھیلانے اور قومی اور مذہبی اقلیتوں ـ بالخصوص اہل سنت، خوزستان کے عربوں، جنوب مشرقی ایران میں بلوچوں نیز آذریوں اور فیلی کردوں ـ کو مشتعل کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں اور انہیں مالی اور عسکری امداد فراہم کرنا چاہتے ہیں، اور وہی اقدامات دہرانا چاہتے ہیں جو وہ اس سے قبل شام، عراق، یمن نیز افغانستان میں انجام دے چکے ہیں۔
جس شخص نے اس طرح کی دھمکیاں دیں وہ سعودی عرب کا وزیر دفاع اور سعودی بادشاہ کا بیٹا ہے اور اس وقت سعودی عرب میں اس کی بات آخری بات اور اس کا فیصلہ آخری فیصلہ ہے۔ چنانچہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ:
٭ کیا سعودی عرب ایران کے خلاف جنگ کے لئے نیا محاذ کھولنا چاہتا ہے؟
٭ کیا سعودی عرب ـ جو اسی وقت یمن اور شام میں جنگ لڑ رہا ہے ـ اس طرح کی جنگ کے مالی اور سیاسی عواقب و نتائج برداشت کرسکتا ہے؟
٭ سعودیوں کے اس تند و تیز موقف کا ـ ایران کے مقابلے میں ـ امریکی مجوزہ منصوبے کے تحت "اسلامی نیٹو" کی تشکیل سے کیا تعلق ہے؟
٭ [اور سب سے اہم سوال یہ کہ] سعودی عرب کی طرف سے اس طرح کے کسی بھی اقدام کے مقابلے میں ایران کا رد عمل کیا ہوگا؟

بن سلمان کا موقف بہت ہی اہم اور بہت زيادہ حساس اور خطرناک ہے، یہاں تک کہ اس شخص کے انٹرویو کے ہر لفظ پر الگ الگ غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن انٹرویو کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ انٹرویو مستقبل قریب میں سعودی حکومت کے ڈھانچے میں وسیع تبدیلیوں کی غمازی کرتا ہے، وہ تبدیلیاں جس کا آغاز سعودی بادشاہ کے بیک وقت 42 احکامات سے ہوچکا ہے اور ان احکامات میں بہت سے اعلی سعودی اہلکاروں کو برطرف کیا گیا اور محمد بن سلمان کے حامی شہزادوں کو مناصب اور عہدے دیئے گئے اور عین ممکن ہے کہ یہ احکامات ایک نئے حکمنامے کی تمہید ہو، جس کے تحت محمد بن نائف کو ولیعہدی کی عہدے سے برطرف کیا جائے گا اور محمد بن سلمان کو ولیعہد بنایا جائے گا!

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مسجد الاقصی پر صہیونیوں کا حملہ، فلسطینیوں کا ...
وہابی دعوت؛ حضرت زینب (س) کا حرم منہدم کیا جائے
صومالیہ کے دار الحکومت میں بم دھماکہ، درجنوں ...
موغادیشو میں وہابی دہشت گردوں کےخودکش حملہ میں 20 ...
عالم اسلام کو درپیش چیلنجز اور انکا راہ حل
قرآن كريم كا جديد پنجابی ترجمہ
دریائے اردن کے مغربی ساحل میں یہودیوں نے ایک مسجد ...
فلسطینی قوم کی حمایت عالم اسلام کی ترجیح
اقوام متحدہ كے سيكرٹری جنرل كی جانب سے امريكا میں ...
یمن میں اشیائے خوردنی کی شدید قلت

 
user comment