اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

کیا سعودی عرب میں خانہ جنگی کا آغاز ہوچکا ہے؟

کیا سعودی عرب میں خانہ جنگی کا آغاز ہوچکا ہے؟

العوامیہ المنطقۃ الشرقیہ کے صوبہ الاحساء کے شہر قطیف کے قریب واقع ایک چھوٹا سا شہر ہے لیکن تقریبا 200 ارب ڈالر کے ہتھیار خریدنے والے سعودی قبیلے نے اس چھوٹے سے علاقے کے جائز مطالبات نہ سن کر یہاں گویا ایک مزاحمت کو جنم دیا ہے ایک مزاحمت تحریک ایسے ظالم استبدادی قبائلی نظام کے خلاف جس نے پہلے ہی علاقے کے کئی ممالک کو آگ میں جھونک دیا ہے: شام، یمن، عراق؛ اور مارچ 2011 سے بحرین پر باقاعدہ فوجی چڑھائی کرکے اسے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔ اب اس جارح قبیلے کو کھربوں کا خراج امریکہ اور یورپ کو دینے کے باوجود اندرونی مسائل کا سامنا ہے اور عجب یہ کہ کچھ ہی عرصہ قبل اس کے متنازعہ ولیعہد محمد بن سلمان نے اعلان کیا تھا کہ چونکہ ایران امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے لئے راستہ ہموار کررہا ہے اسی لئے اس کے ساتھ سعودی قبیلے کی صلح نہیں ہوسکتی اور یہ کہ وہ امریکہ کی مدد سے جنگ کو ایران کے اندر منتقل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور جب ٹرمپ نے کھربوں ڈالر کی مونچھ ٹیکس وصول کرنے کے لئے سعودی قبیلے کے دارالحکومت کا دورہ کیا تو بن سلمان مزید جذباتی ہوا اور پھر بھی اپنے جارحانہ اعلانات دہرائے؛ اور کچھ مہمل و بےکار سی بےمعنی تماشاگر مسلم حکمران بھی سعودیوں کے جذبات میں بہہ گئے اور تہران میں سعودی قبیلے کی طرف کے روانہ ہونے والے دہشت گردوں کی چپلوں کی آہٹ سننے لگے تھے!!
۔۔۔
سعودی مذہبی پولیس کے خلاف نفرت بڑھ گئی ہے، ایک 17 سالہ لڑکے نے اپنے باپ کو قتل کیا ہے جو مذہبی پولیس کا اہلکار تھا؛ ایک طالبعلم کو اس لئے تلوار سے سر قلم کرنے کی سزا سنائی گئی ہے کیونکہ اس نے گویا اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کے لئے جلوس نکالنے کا منصوبہ بنایا تھا؛ اور دوسرے حالات جو معنوی لحاظ سے لینڈ لاکڈ سرزمین میں دبتے چلے جارہے ہیں اور ان کی خبر باہر کی دنیا تک نہیں پہنچتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
العوامیہ کے چھوٹے سے علاقے میں 6 برسوں سے پرامن مظاہرے ہوتے رہے ہیں اور یہاں کے عوام نے آیت اللہ نمر باقر النمر سمیت متعدد افراد کے خون کا نذرانہ بھی پیش کیا مگر پھر بھی پرامن رہے مگر سعودی ایک مسدود قبا‌ئلی ـ استبدادی حکومت کے ہوتے ہوئے یہ معلوم کرنا فی الحال بہت مشکل ہے کہ پرامن احتجاج آج سے صرف تین مہینے قبل داخلی جنگ میں کیوں بدل گئے۔
صرف اتنا معلوم ہے کہ سعودی گماشتے اس شہر پر تین مہینوں سے ٹینکوں اور بھاری ہتھیاروں اور توپخانے کے حملے کررہے ہیں اور یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ یہاں سعودی استبدادیت کی بھینٹ چڑھنے والے افراد کی اصل تعداد کتنی ہے لیکن چونکہ یہاں کچھ غیرملکی افراد شہید ہوئے ہیں جن کی وجہ سے شہدا کی مجموعی تعداد 26 تک بتائی گئی ہے لیکن لگتا ہے کہ یہ تعداد کئی گنا ہوگی۔ شہداء میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں اور یہ شہداء ان افراد کے علاوہ ہیں جنہیں جیلوں میں سزائے موت دی جاچکی ہے۔
المنار نیٹ ورک کی رپورٹوں کے مطابق علاقہ وسیع سطح پر تباہی اور ویرانی کا شکار ہوچکا ہے اور شہر ایک مقبوضہ اور جنگ زدہ شہر کی تصویر پیش کررہا ہے۔
جہاں تباہی زیادہ ہوئی ہے وہاں کرفیو نافذ کیا گیا ہے اور العوامیہ سے المنار کو خبر دینے میں کامیاب ہونے والے افراد نے بتایا ہے کہ کرفیو زدہ علاقے میں حالات بہت ہی افسوسناک ہیں۔
عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ سعودی گماشتے سڑکوں سے شہداء کی میتیں اٹھانے اور ان کی تدفین کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
اس شہر میں کچھ سرکاری گماشتے بعض گھروں کی چھتوں سے اسنائپر لئے بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے شہر میں آمد و رفت تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے۔
حجاز مقدس میں بعض قانونی ذرا‌ئع نے بتایا ہے کہ اس علاقے میں فوجی کاروائی کی بنا پر بعض اہم خلاف ورزیاں ہورہی ہیں مثلا جلتے ہوئے رہائشی علاقوں تک فائر بریگیڈ کے بہنچنے کا سد باب کیا جاتا ہے اور العوامیہ تک ایمبیولنس کا پہنچنا ممکن نہيں ہے۔
العوامیہ سے بصد مشکل قطیف پہنچنے والی ایک خاتون نے کہا ہے کہ وہ اور ان کے اہل خانہ کو تین دن تک اشیائے خوردونوش نہیں مل سکی ہیں اور العوامیہ کے محلے "حي المسورہ" پر گولہ باری ہوتی رہی ہے۔
سوشل میڈیا کے صارفین نے العوامیہ کی حملے سے قبل اور حملے کے بعد والی تصاویر شائع کی ہیں جو اس شہر میں ہونے والی وسیع تباہی کا منظر پیش کرتی ہیں۔
گذشتہ مہینے [جولائی] کی دس تاریخ کو آل سعود کی اسپیشل فورسز نے "تعمیراتی منصوبوں کی خاطر لوگوں کے اپنا خانہ و کاشانہ چھوڑنے سے انکار کے بہانے" حی المسورہ پر حملہ کیا۔
عوام کے انکار اور سعودی گماشتوں کے حملے کی وجہ سے 20 افراد شہید ہوئے تھے اور سعودیوں نے لوگوں کو ہتھیاروں کے زور پر گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا؛ اور سعودیوں نے اپنی جارحانہ کاروائی جاری رکھتے ہوئے نیشنل گارڈ کو العوامیہ کے عوام کے خلاف استعمال کرنے کے لئے علاقے میں تعینات کیا۔
حکومت کی طرف سے امداد رسانی تو درکنار، سعودی قبیلے کی وزارت سماجی امور نے ایک ہدایت نامہ جاری کرکے القطیف میں موجود خیراتی اداروں کو العوامیہ کے بےگھر افراد کو امداد فراہم کرنے سے باز رکھا ہے اور بےگھر افراد کی رہائش کے لئے مراکز کے قیام کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔
شیعہ اکثریتی شہر القطیف مشرقی حجاز کے صوبہ الاحساء میں واقع ہے اور العوامیہ کا علاقہ ـ جو شہید آیت اللہ نمر کا مولد ہے ـ اسی شہر میں واقع ہے۔
العوامیہ کے عوام گذشتہ 6 برسوں سے پرامن احتجاج کے ذریعے ملک بھر میں سیاسی اور سماجی اصلاحات اور وسیع امتیازی رویوں کے خاتمے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ درجنوں افراد اب تک شہید ہوچکے ہیں، سینکڑوں افراد سرکاری گماشتوں کے ہاتھوں لاپتہ ہوچکے ہیں، اور شہداء میں ایک بڑا نام آیت اللہ شیخ نمر باقر النمر کا ہے جنہیں گذشتہ سال شہید کیا گیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ معزول ولیعہد و وزیر داخلہ محمد بن نائف نے اپنے ہاتھوں سے شہادت سے قبل شیخ النمر کے ہاتھ پاؤں توڑ دیئے تھے۔
آل سعود انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں شاید دنیا میں پہلے نمبر پر ہے لیکن مغرب کو اربوں کھربوں کی رشوت اب تک اس کی عالمی رسوائی میں آڑے آرہی ہے گوکہ انسانی حقوق کے بعض ادارے کبھی کبھی زبانی کلامی سعودیوں کے کرتوتوں کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرکے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کا ڈرامہ رچاتے ہیں۔
جزیرہ نمائے عرب ـ حجاز و نجد ـ کی کل آبادی: تین کروڑ 30 لاکھ
غیر ملکی مزدور اور کارکنوں کی تعداد: ایک کروڑ
شیعہ آبادی: 15 فیصد: تقریبا 30 لاکھ
یہاں کی 55 فیصد اہل سنت کے مختلف فرقوں نیز غیر مسلم اقلیتوں پر مشتمل ہے۔
شیعہ آبادی کی اکثریت کا مسکن مشرقی علاقے ہیں جو کہ اس ملک کے تیل کے ذخائر سے مالامال ہیں لیکن یہاں کی آبادی تیل کی آمدنی سے محروم رکھی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
العوامیہ کے بارے میں ایک خبر اور
شہر العوامیہ آل سعود کے گماشتوں کے گھیرے میں ہے، اور بھاری توپخانے کا نشانہ بن رہا ہے، محمد الرحیمانی ایک نوجوان تازہ ترین حملوں میں شہید ہوچکا ہے۔
سعودی گماشتوں نے اپنے صہیونی آقاؤں کی روایت پر کاربند ہوتے ہوئے العوامیہ کی زرعی زمینوں کو تباہ کرنا شروع کیا ہے، بھاری فوجی گاڑیوں کو لے کر رہائشی علاقوں پر حملے کررہے ہیں، وہ اس علاقے کو آبادی سے خالی کرانا چاہتے ہیں لیکن دوسری طرف سے ان کی رہائش کے لئے کوئی انتظام نہیں کرنے دے رہے ہیں اور بےگھر افراد کو امداد نہيں پہنچنے دے رہے ہیں۔
سعودی گماشتوں نے "الدیرہ" کے علاقے پر مارٹر گولے پھینکے ہیں، اور فوج کی ایک یونٹ نے البحاری محلے کی ایک سڑک پر موجود عوام پر گولیاں چلائی ہیں۔
28 جولائی کو سعودی فوجیوں نے العوامیہ کو بھاری توپخانے کی شیلنگ کا نشانہ بنایا جس میں پانچ افراد کی شہادت کی خبریں ہیں۔
دریں اثناء آل سعود کی عدالت نے علاقے کے 14 افراد کو موت کی سزا سنائی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
جمہوریت کا مطالبہ کرنے والے طالبعلم کو پھانسی کی سزا
مجتبی نادر السویکت میشيگان کی ویسٹرن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہونے والے امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد 2013-2014 کے تعلیمی سال میں شرکت کے لئے امریکہ جانے کے لئے طیارے پر سوار ہونے لگا تو سعودی سیکورٹی والوں نے اسے گرفتار کرلیا۔
بحرین میں تعینات انسانی حقوق کے امریکی ادارے "ADHRB" یا (Americans for Democracy & Human Rights in Bahrain) کی رپورٹ کے مطابق
انسانی حقوق کےادارے سعودی حکمرانوں نے السویکت اور 13 دیگر افراد کو جمہوریت کی دعوت دینے کے ہونے والے ایک مظاہرے میں شرکت کی تھی جنہیں اسی سال آل سعود کی عدالت کی طرف سے پھانسی کی سزا کا سامنا کرنا پڑا۔
السویکت کو الدمام کی جیل میں شدید ترین ٹارچر کا نشانہ بنا کر اپنے ناکردہ جرم کا اقرار کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اور 25 مئی کو اس کی پھانسی کی سزا پر مہر تصدیق ثبت ہوئی اور وہ اس وقت اپنے بیمار اور نحیف جسم کے ساتھ منتظر ہے کہ سعودیوں کا جلاد آکر اس کا سر تن سےجدا کردے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسیم کے علاقے الخبراء میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سعودی کے محکمے کی جلی ہوئی لاش چند روز قبل ملی تھی اور تفتیش کار اپنی تفتیش میں مصروف تھے، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق فہد الخضير گھر میں آتشزدگی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس سے پہلے سینے میں گولی لگنے سے چل بسا تھا جس کی وجہ سے مقتول کے 17 سالہ بیٹے کو شامل تفتیش کیا گیا؛ قتل میں استعمال ہونے والا پستول بھی مل گیا اور بیٹے نے وجہ بتائے بغیر قتل کا اعتراف کرلیا۔
بیٹے نے باپ کو مارنے کے بعد اپنے گھر کو آگ لگائی تھی۔
ہیئۃ الامر بالمعروف والنہی عن المنکر درحقیقت نام نہادی دینی پولیس ہے جس کے اقدامات نے لوگوں کے ناک میں دم کردیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر اس ادارے کو شدید تنقید کا سامنا ہے اور بہت سے مبصرین نے الخضیر کے قتل کو مذکورہ محمکے سے وسیع عوامی ناراضگی کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

پردے كے بارے میں "حجاب" نامی دستاويزی فلم متحدہ ...
دینی مدارس کو در پیش مشکلات اور اُن کا حل
بلجیئم میں قبول اسلام کا بڑھتا ہوا رجحان
شیخ زکزاکی کو ان کی اہلیہ سمیت جیل سے نامعلوم جگہ ...
داعش نے اسلام کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کیا: ...
انصار اللہ کی جانب سے بحران یمن کے حل کے لیے ...
مكہ مكرمہ میں قرائت قرآن كے مقابلے كا انعقاد
ظلم و جارحیت سے جھٹکارے کا واحد راستہ، پیغمبر ...
نجران علاقے کو بچانے کے لیے آل سعود کی بڑھتی ...
گلگت بلتستان اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان

 
user comment