اردو
Friday 15th of November 2024
0
نفر 0

قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(چہارم)

قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(چہارم)

بنی اسرائیل کا ایک گروہ پشیمان ہوا

بنی اسرارئیل کا ایک گروہ اپنے کئے پر سخت پشیمان ہوا۔انہوں نے بارگاہ خدا کا رخ کیا۔خدا نے دوسری مرتبہ بنی اسرائیل کو اپنی نعمتوں سے نوازا جن میں سے بعض کی طرف قرآن میں اشارہ کیا گیا ھے۔
”ھم نے تمھارے سر پر بادل سے سایہ کیا“۔[62]سر خط وہ مسافر جو صبح سے غروب تک سورج کی گرمی میں بیابان میں چلتا ھے وہ ایک لطیف سائے سے کیسی راحت پائے گا(وہ سایہ جو بادل کا ہو جس سے انسان کے لئے نہ تو فضا محدود ہوتی ہو اور نہ جو ہوا چلنے سے مانع ہو)۔
یہ صحیح ھے کہ بادل کے سایہ فگن ٹکڑوںکا احتمال ھمیشہ بیابان میں ہوتا ھے لیکن قرآن واضح طور پر کہہ رھا ھے کہ بنی اسرئیل کے ساتھ ایسا عام حالات کی طرح نہ تھا بلکہ وہ لطف خدا سے اکثر اس عظیم نعمت سے بھرہ ور ہوتے تھے۔
دوسری طرف اس خشک اور جلادینے والے بیابان میں چالیس سا ل کی طویل مدت سرگرداں رہنے والوں کے لئے غذا کی کافی و وافی ضرورت تھی،اس مشکل کو بھی خداوند عالم نے ان کے لئے حل کردیا ،جیسا کہ اشاد ہوتا ھے:ھم نے” من وسلویٰ“ جو لذیذ اور طاقت بخش غذا ھے تم پر نازل کیا۔
ان پاکیزہ غذاؤں سے جو تمھیں روزی کے طور پر دی گئی ھیں کھاؤ(اور حکم خدا کی نافرمانی نہ کرو اور اس کی نعمت کا شکر اداکرو۔)
لیکن وہ پھر بھی شکر گزاری کے دروازے میں داخل نھیں ہوئے(تاھم)”انہوں نے ھم پر کوئی ظلم نھیں کیا بلکہ اپنے اوپر ھی ظلم کیا ھے“۔[63]

 
منّ و سلویٰ کیا ھے؟

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ایک روایت کے مطابق،آپ نے فرمایا:
”کھمبی کی قسم کی ایک چیز تھی جو اس زمین میں اُگتی تھی“۔پس معلوم ہوا کہ ”منّ“ایک ”قارچ“تھی جو اس علاقہ میں پیدا ہوتی تھی۔[64]
بعض نے کھا ھے کہ” منّ“ سے مراد وہ تمام نعمتیں جو خدانے بنی اسرائیل کو عطا فرمائی تھیں اور سلویٰ وہ تمام عطیات ھیں جو ان کی راحت و آرام اور اطمینان کا سبب تھے۔
”سلویٰ“اگر چہ بعض مفسرین نے اسے شہد کے ھم معنی لیا ھے لیکن دوسرے تقریباًسب مفسرین نے اسے پرندے کی ایک قسم قرار دیا ھے۔یہ پرندہ اطراف اور مختلف علاقوں سے کثرت سے اس علاقے میں آتا تھا اور بنی اسرائیل اس کے گوشت سے استفادہ کرتے تھے۔عہدین پر لکھی گئی تفسیر میں بھی اس نظریہ کی تائید دکھائی دیتی ھے۔[65]
البتہ بنی اسرائیل کی سرگردانی کے دنوں میں ان پر خدا کا یہ خاص لطف وکرم تھا کہ یہ پرندہ وھاں کثرت سے ہوتا تھا تا کہ وہ اس سے استفادہ کرسکیں۔ ورنہ تو عام حالات میں اس طرح کی نعمت کا وجود مشکل تھا۔

 
بیابانوں میں چشمہ ابلنا

بنی اسرائیل پر کی گئی ایک اور نعمت کی نشاندھی کرتے ہوئے اللہ فرماتا ھے:”یاد کرو اس وقت کو جب موسیٰ علیہ السلام نے(اس خشک اورجلانے والے بیا بان میں جس وقت بنی اسرائیل پانی کی وجہ سے سخت تنگی میں مبتلا تھے)پانی کی درخواست کی“۔[66]تو خدا نے اس درخواست کو قبول کیا جیسا کہ قرآن کہتا ھے:ھم نے اسے حکم دیا کہ اپنا عصا مخصوص پتھر پر مارو اس سے اچانک پانی نکلنے لگا اور پانی کے بارہ چشمے زور و شور سے جاری ہوگئے۔[67]بنی اسرائیل کے قبائیل کی تعداد کے عین مطابق جب یہ چشمے جاری ہوئے تو ایک چشمہ ایک قبیلے کی طرف جھک جاتا تھا جس پر بنی اسرائیل کے لوگوں”اور قبیلوں میں سے ھر ایک نے اپنے اپنے چشمے کو پہچان لیا۔[68]
یہ پتھر کس قسم کا تھا،حضرت موسیٰ علیہ السلام کس طرح اس پر عصا مارتے تھے اور پانی اس میں سے کیسے جاری ہوجاتا تھا۔اس سلسلے میں بہت کچھ گفتگو کی گئی ھے۔قرآن جو کچھ اس بارے میں کہتا ھے وہ اس سے زیا دہ نھیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے اس پر عصا مارا تو اس سے بارہ چشمے جاری ہوگئے۔
بعض مفسرین کہتے ھیں کہ یہ پتھر ایک کوہستانی علاقے کے ایک حصے میں واقع تھا جو اس بیابان کی طرف جھکا ہوا تھا۔ سورہٴ اعراف آیہ۱۶۰کی تعبیراس بات کی نشاندھی کرتی ھے کہ ابتداء میں اس پتھر سے تھوڑا تھوڑا پانی نکلا ،بعد میں زیادہ ہوگیا،یھاںتک کہ بنی اسرائیل کا ھر قبیلہ ان کے جانور جو ان کے ساتھ تھے اور وہ کھیتی جو انہوں نے احتمالاً اس بیابان کے ایک حصے میں تیار کی تھی سب اس سے سیراب ہوگئے،یہ کوئی تعجب کی بات نھیں کہ کوہستانی علاقے میں پتھر کے ایک حصے سے پانی جاری ہوا البتہ یہ مسلم ھے کہ یہ سب معجزے سے رونما ہوا۔[69]
بھر حال ایک طرف خداوند عالم نے ان پر من و سلویٰ نازل کیا اور دوسری طرف انھیں فراوان پانی عطا کیا اور ان سے فرمایا:”خدا کی دی ہوئی روزی سے کھاؤ پیوٴ لیکن زمین میں خرابی اور فساد نہ کرو“۔[70]
گویا انھیں متوجہ کیا گیاھے کہ کم از کم ان عظیم نعمتوں کی شکر گزاری کے طور پر ضدی پن،ستمگری،انبیاء کی ایذا رسانی اور بھانہ بازی ترک کردو۔

 
مختلف کھانوں کی تمنا

ان نعمات فراوان کی تفصیل کے بعد جن سے خدا نے بنی اسرائیل کو نوازا تھا۔ قرآن میں ان عظیم نعمتوں پر ان کے کفران اور ناشکر گزاری کی حالت کو منعکس کیا گیا ھے۔اس میں اس بات کی نشاندھی ھے کہ وہ کس قسم کے ہٹ دھرم لوگ تھے۔شاید تاریخ دنیا میں ایسی کوئی مثال نہ ملے گی کہ کچھ لوگوں پر اس طرح سے الطاف الٰھی ہو لیکن انہوں نے اس طرح سے اس کے مقابلے میں ناشکر ی اور نا فرمانی کی ہو۔
پھلے فرمایا گیا ھے:
”یاد کرو اس وقت کو جب تم نے کھا :اے موسیٰ !ھم سے ھر گز یہ نھیں ہوسکتا کہ ایک ھی غذا پر قناعت کرلیں،(من و سلویٰ کتنی ھی لذیذ غذا ہو، ھم مختلف قسم کی غذا چاہتے ھیں۔[71]
”لہٰذا خدا سے خواہش کرو کہ وہ زمین سے جو کچھ اگایا کرتا ھے ھمارے لئے بھی اگائے سبزیوں میں سے،ککڑی،لہسن،مسور اور پیاز“۔[72]
لیکن موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کھا:”کیا تم بہتر کے بجائے پست تر غذا پسند کرتے ہو“۔[73]
”جب معاملہ ایسا ھی ھے تو پھر اس بیابان سے نکلو اور کسی شھر میں داخل ہونے کی کوشش کروکیونکہ جو کچھ تم چاہتے ہو وہ وھاں ھے“۔[74]
یعنی تم لوگ اس وقت اس بیابان میں خود سازی اور امتحان کی منزل میں ہو،یھاں مختلف کھانے نھیں مل سکتے ،جاوٴ شھر میں جاوٴ تاکہ یہ چیزیں تمھیں مل جائیں ،لیکن یہ خود سازی کا پروگرام وھاں نھیں ھے۔
اس کے بعد قرآن مزید کہتا ھے کہ خدا نے ان کی پیشانی پر ذلت و فقر کی مھر لگادیااور وہ دوبارہ غضب الٰھی میں گرفتار ہوگئے ۔
یہ اس لئے ہوا کہ وہ آیات الٰھی کا انکار کرتے تھے اور ناحق انبیاء کو قتل کرتے تھے ۔ یہ سب اس لئے تھا کہ وہ گناہ،سرکشی اور تجاوز کے مرتکب ہوتے تھے۔[75]

 
عظیم وعدہ گاہ

قرآن میں بنی اسرائیل کی زندگی کا ایک اور منظر بیان کیا گیا ھے۔ ایک مرتبہ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قوم سے جھگڑنا پڑا ھے،حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خدا کے مقامِ وعدہ پر جانا،وحی کے ذریعے احکام توریت لینا،خدا سے باتیں کرنا،کچھ بزرگان بنی اسرائیل کو میعاد گاہ میں ان واقعات کے مشاہدہ کے لئے لانا،اس بات کا اظھار ھے کہ خدا کو ان آنکھوں سے ھر گز نھیں دیکھا جاسکتا۔
پھلے فرمایا گیا ھے:”ھم نے موسیٰ سے تیس راتوں (پورے ایک مھینہ)کا وعدہ کیا،اس کے بعد مزید دس راتیں بڑھا کر اس وعدہ کی تکمیل کی، چنانچہ موسیٰ سے خدا کا وعدہ چالیس راتوں میں پورا ہوا“۔[76]
اس کے بعد اس طرح بیان کیا گیا ھے:”موسیٰ نے اپنے بھائی ھارون سے کھا:میری قوم میں تم میرے جانشین بن جاؤ اور ان کی اصلاح کی کوشش کرو اور کبھی مفسدوں کی پیروی نہ کرنا“۔[77] ،[78]

 
دیدار پرودگار کی خواہش

قرآن میں بنی اسرائیل کی زندگی کے بعض دیگر مناظر پیش کئے گئے ھیں۔ان میں سے ایک یہ ھے کہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بڑے اصرار کے ساتھ یہ خواہش کی کہ وہ خدا کو دیکھیں گے۔ اگر ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی تو وہ ھر گز ایمان نہ لائیں گے۔
چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے ستر آدمیوں کا انتخاب کیا اور انھیں اپنے ھمراہ پروردگار کی میعادگاہ کی طرف لے گئے، وھاں پہنچ کر ان لوگوں کی درخواست کو خدا کی بارگاہ میں پیش کیا۔ خدا کی طرف سے اس کا ایسا جواب ملا جس سے بنی اسرائیل کے لئے یہ بات اچھی طرح سے واضح ہوگئی۔
ارشاد ہوتا ھے:” جس وقت موسیٰ ھماری میعادگاہ میں آئے اور ان کے پروردگار نے ان سے باتیں کیں تو انہوں نے کھا:اے پروردگار خود کو مجھے دکھلادے تاکہ میں تجھے دیکھ لوں“۔[79]
لیکن موسیٰ علیہ السلام نے فوراًخدا کی طرف سے یہ جواب سنا: تم ہز گز مجھے نھیں دیکھ سکتے ۔
لیکن پھاڑ کی حانب نظر کرو اگر وہ اپنی جگہ پر ٹھھرا رھا تب مجھے دیکھ سکو گے۔
جس وقت خدا نے پھاڑ پر جلوہ کیا تو اسے فنا کردیا اور اسے زمین کے برابر کردیا۔
موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ ہولناک منظر دیکھا تو ایسا اضطراب لاحق ہوا کہ بے ہوش ہو کر زمین پر گرپڑے۔اور جب ہوش میں آئے تو خدا کی بارگاہ میں عرض کی پروردگارا!تو منزہ ھے،میں تیری طرف پلٹتا ہوں،اور توبہ کرتا ہوں اور میں پھلا ہوں مومنین میںسے۔[80]
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے رویت کی خواہش کیو ں کی؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے اولوالعزم نبی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ذات خداوندی قابل دید نھیں ھے کیونکہ نہ تو وہ جسم ھے،نہ اس کے لئے کوئی مکان و جہت ھے اس کے باوجود انہوں نے ایسی خواہش کیسے کردی جو فی الحقیقت ایک عام انسان کی شان کے لئے بھی مناسب نھیں ھے؟
سب سے واضح جواب یہ ھے کہ جضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ خواہش در اصل اپنی قوم کی طرف سے کی تھی کیونکہ بنی اسرائیل کے جھلاء کے ایک گروہ کا یہ اصرار تھا کہ وہ خدا کو کھلم کھلا دیکھیں گے تب ایمان لائیں گے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ کی جانب سے یہ حکم ملا کہ وہ اس درخواست کو خدا کی بارگاہ میں پیش کریں تا کہ سب اس کا جواب سن لیں،کتاب عیون اخبار الرضا میں امام رضا علیہ السلام سے جو حدیث مروی ھے وہ بھی اس مطلب کی تائید کرتی ھے۔[81]

 
الواح توریت

آخر کار اس عظیم میعادگاہ میں اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر اپنی شریعت کے قوانین نازل فرمائے۔پھلے ان سے فرمایا:”اے موسیٰ!میںنے تمھیں لوگوں پر منتخب کیا ھے،اور تم کو اپنی رسالتیں دی ھیں،اور تم کو اپنے ساتھ گفتگو کا شرف عطا کیا ھے“۔[82]
اب جبکہ ایسا ھے تو”جو میں نے تم کو حکم دیا ھے اسے لے لو اور ھمارے اس عطیہ پر شکر کرنے والوں میں سے ہوجاؤ“۔[83]
اس کے بعد اضافہ کیا گیا ھے کہ :ھم نے جو الواح موسیٰ علیہ السلام پر نازل کی تھیں ان پر ھر موضوع کے بارے میں کافی نصیحتیں تھیں اورضرورت کے مسائل کی شرح اور بیان تھا۔
اس کے بعد ھم نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ”بڑی توجہ اور قوت ارادی کے ساتھ ان فرامین کو اختیار کرو۔“[84]اور اپنی قوم کو بھی حکم دو کہ ان میں جو بہترین ھیںانھیں اختیار کریں۔
اور انھیں خبردار کردوکہ ان فرامین کی مخالفت اور ان کی اطاعت سے فرار کرنے کا نتیجہ دردناک ھے اوراس کا انجام دوزخ ھے اور ”میں جلد ھی فاسقوں کی جگہ تمھیں دکھلادوںگا۔“[85]
[86]۱۔الواح کس چیز کی بنی ہوئی تھیں:اس آیت کا ظاھر یہ ھے کہ خداوند کریم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو الواح نازل کی تھیں ان میں توریت کی شریعت اور قوانین لکھے ہوئے تھے ،ایسا نہ تھا کہ یہ لوحیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ھاتھ میں تھیں اور اس میں فرامین منعکس ہوگئے تھے۔ اب رھا یہ سوال کہ یہ لوحیں کیسی تھیں؟کس چیز کی بنی ہوئی تھیں؟ قرآن نے اس بات کی کوئی وضاحت نھیں کی ھے صرف کلمہ”الواح“ سربستہ طور پر آیا ھے۔جو در اصل”لاح یلوح“کے مادہ سے ماخوذ ھے جس کے معنی ظاھر ہونے اور چمکنے کے ھیں۔چونکہ صفحہ کے ایک طرف لکھنے سے حروف نمایاں ہوجاتے ھیںاور مطلب آشکار ہوجاتے ھیں،اس لئے صفحہ کو جس پر کچھ لکھا جائے”لوح“کہتے ھیں۔لیکن روایات و اقوال مفسرین میں ان الواح کی کیفیت کے بارے میں اور ان کی جنس کے بارے میں گوناگوں احتمالات ذکر کئے گئے ھیں۔ چونکہ ان میں سے کوئی بھی یقینی نھیں ھے اس لئے ان کے ذکر سے ھم اعراض کرتے ھیں۔
۲۔کلام کیسے ہوا:قرآن کریم کی مختلف آیات سے استفادہ ہوتا ھے کہ خداوندمتعال نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا،خدا کا موسیٰ علیہ السلام سے کلام کرنا اس طرح تھا کہ اس نے صوتی امواج کو فضا میں یا کسی جسم میں پیدا کردیا تھا۔ کبھی یہ امواج صوتی”شجرہٴ وادی ایمن “سے ظاھر ہوتی تھیں اور کبھی”کوہِ طور“ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کان میں پہنچتی تھیں۔ جن لوگوں نے صرف الفاظ پر نظر کی ھے اور اس پر غور نھیںکیا کہ یہ الفاظ کھاں سے نکل سکتے ھیں انہوں نے یہ خیال کیا کہ خدا کا کلام کرنا اس کے تجسم کی دلیل ھے۔حالانکہ یہ خیال بالکل بے بنیاد ھے۔

 
یہودیوں میں گوسالہ پرستی کاآغاز

قرآن میں افسوسناک اور تعجب خیز واقعات میں سے ایک واقعہ کا ذکر ہوا ھے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے میقات کی طرف جانے کے بعد بنی اسرائیل میں رونما ہوا۔وہ واقعہ ان لوگوں کی گوسالہ پرستی ھے۔ جو ایک شخص بنام”سامری“نے زیور و آلاتِ بنی اسرائیل کے ذریعے شروع کیا۔
سامری کو چونکہ اس بات کا احساس تھاکہ قوم موسیٰ علیہ السلام عرصہٴ دراز محرومی اور مظلومی کی زندگی بسر کررھی تھی اس وجہ سے اس میں ماد ہ پرستی پائی جاتی تھی اور حب زر کا جذبہ بدرجہ اتم پایا جاتا تھا۔ جیسا کہ آج بھی ان کی یھی صفت ھے لہٰذا اس نے یہ چالاکی کی کہ وہ مجسمہ سونے کا بنایاکہ اس طرح ان کی تو جہ زیادہ سے زیادہ اس کی طرف مبذول کراسکے۔
اب رھا یہ سوال کہ اس محروم و فقیر ملت کے پاس اس روز اتنی مقدارمیں زروزیور کھاں سے آگیا کہ اس سے یہ مجسمہ تیار ہوگیا؟اس کا جواب روایات میں اس طرح ملتا ھے کہ بنی اسرائیل کی عورتوں نے ایک تہوار کے موقع پر فرعونیوں سے زیورات مستعار لئے تھے یہ اسوقت کی بات ھے جس کے بعد ان کی غرقابی عمل میں آئی تھی۔اس کے بعد وہ زیورات ان عورتوں کے پاس باقی رہ گئے تھے۔
اتنا ضرور ھے کہ یہ حادثہ مثل دیگر اجتماعی حوادث کے بغیر کسی آمادگی اور مقدمہ کے وقوع پذیز نھیں ہوا بلکہ اس میں متعدد اسباب کار فرما تھے،جن میں سے بعض یہ ھیں:
بنی اسرائیل عرصہ دراز سے اھل مصر کی بت پرستی دیکھتے آرھے تھے۔
جب دریائے نیل کو عبور کیا تو انہوں نے ایک قوم کو دیکھا جو بت کی پرستش کرتی تھی۔ جیسا کہ قرآن نے بھی اس کا ذکر کیا ھے اور گذشتہ میں بھی اس کا ذکر گزرا کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ان کی طرح کا بت بنانے کی فرمائش کی جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انھیں سخت سرزنش کی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے میقات کاپھلے تیس راتوں کا ہونا اس کے بعد چالیس راتوں کا ہوجانا اس سے بعض منافقوں کو یہ موقع ملاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفا ت کی افواہ پھیلا دیں۔
قوم موسیٰ علیہ السلام میں بہت سے افرادکا جھل و نادانی سے متصف ہونا اس کے مقابلے میں سامری کی مکاری و مھارت کیونکہ اس نے بڑی ہوشیاری سے بت پرستی کے پروگرام کو عملی جامہ پہنایا، بھر حال ان تمام باتوں نے اکٹھا ہوکر اس بات کے اسباب پیدا کئے کہ بنی اسرائیل کی اکثریت بت پرستی کو قبول کرے اور”گوسالہ“کے چاروں طرف اس کے ماننے والے ہنگامہ برپاکردیں۔

 
دودن میں چھ لاکھ گوسالہ پرست بن گئے!!

سب سے بڑھ کرعجیب بات یہ ھے کہ بعض مفسرین نے یہ بیان کیا ھے کہ بنی اسرائیل میں یہ انحرافی تبدیلیاں صرف گنتی کے چند دنوں کے اندر واقع ہوگئیں جب موسیٰ علیہ السلام کو میعاد گاہ کی طرف گئے ہوئے ۳۵/دن گزر گئے تو سامری نے اپنا کام شروع کردیا اور بنی اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام زیورات جو انہوں نے فرعونیوں سے عاریتاًلئے تھے اور ان کے غرق ہوجانے کے بعد وہ انھیں کے پاس رہ گئے تھے انھیں جمع کریں چھتیسویں ، سنتیسویں اور اڑ تیسویں دن انھیں ایک کٹھائی میں ڈالااور پگھلاکر اس سے گوسالہ کا مجسمہ بنا دیا اور انتالیسویں دن انھیں اس کی پرستش کی دعوت دی اور ایک بہت بڑی تعداد (کچھ روایات کی بناء پر چھ لاکھ افراد) نے اسے قبول کرلیااور ایک روز بعد یعنی چالیس روز گزرنے پر موسیٰ علیہ السلام واپس آگئے ۔
قرآن اس طرح فرماتا ھے:
”قومِ موسیٰ نے موسیٰ کے میقات کی طرف جانے کے بعد اپنے زیوارات وآلات سے ایک گوسالہ بنایا جو ایک بے جان جسد تھا جس میں سے گائے کی آواز آتی تھی۔ [87]
اسے انہوں نے اپنے واسطے انتخاب کیا “
اگرچہ یہ عمل سامری سے سرزد ہوا تھا۔[88]
لیکن اس کی نسبت قوم موسیٰ کی طرف دی گئی ھے اس کی وجہ یہ ھے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے اس کام میں سامری کی مدد کی تھی اور وہ اس کے شریک جرم تھے اس کے علاوہ ان لوگوں کی بڑی تعداد اس کے فعل پر راضی تھی ۔
قرآنی گفتگو کاظاھر یہ ھے کہ تمام قوم موسیٰ اس گوسالہ پرستی میں شریک تھی لیکن اگردوسری آیت پر نظر کی جائے جس میں آیا ھے کہ :
”قوم موسی میں ایک امت تھی جو لوگوں کو حق کی ہدایت کرتی تھی اور اسی کی طرف متوجہ تھی“۔[89]
اس سے معلوم ہوگا کہ اس سے مراد تمام امت موسیٰ نھیں ھے بلکہ اس کی اکثریت اس گوسالہ پرستی کی تابع ہوگئی تھی، جیسا کہ آئندہ آنے والا ھے کہ وہ اکثریت اتنی زیادہ تھی کہ حضرت ھارون علیہ السلام مع اپنے ساتھیوں کے ان کے مقالے میں ضعیف وناتواں ہوگئے تھے ۔

 
گوسالہ پرستوں کے خلاف شدید رد عمل

یھاں پر قرآن میں اس کشمکش اور نزاع کا ماجرا بیان کیا گیا ھے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور گوسالہ پرستوںکے درمیان واقع ہوئی جب وہ میعادگاہ سے واپس ہوئے جس کی طرف گذشتہ میں صرف اشارہ کیا گیا تھا یھاں پر تفصیل کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس رد عمل کو بیان کیا گیا ھے جو اس گروہ کے بیدار کرنے کے لئے ان سے ظاھر ہوا ۔
پھلے ارشاد ہوتا :” جس وقت موسیٰ غضبناک ورنجیدہ اپنی قوم کی طرف پلٹے اور گوسالہ پرستی کانفرت انگیز منظر دیکھا تو ان سے کھا کہ تم لوگ میرے بعد برے جانشین نکلے تم نے میرا آئین ضائع کردیا “۔[90]
یھاں سے صاف معلوم ہوتا ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام میعاد گاہ پروردگار سے پلٹتے وقت قبل اس کے کہ بنی اسرائیل سے ملتے، غضبناک اور اندو ہگین تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ خدا نے میعادگاہ میں انھیں اس کی خبردے دی تھی ۔
جیسا کہ قرآن کہتا ھے :میں نے تمھارے پیچھے تمھاری قوم کی آزمائش کی لیکن وہ اس آزمائش میں پوری نہ اتری اور سامری نے انھیں گمراہ کر دیا۔
اس کے بعد موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کھا:” آیا تم نے اپنے پروردگار کے فرمان کے بارے میں جلدی کی “۔[91]
تم نے خدا کے اس فرمان، کہ اس نے میعاد کا وقت تیس شب سے چالیس شب کردیا ، جلدی کی اور جلد فیصلہ کردیا ، میرے نہ آنے کو میرے مرنے یا وعدہ خلافی کی دلیل سمجھ لیا، حالانکہ لازم تھا کہ تھوڑا صبر سے کام لیتے ، چند روز اور انتظار کرلیتے تاکہ حقیقت واضح ہوجاتی ۔
اس وقت جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی زندگی کے ان طوفانی وبحرانی لمحات سے گزر رھے تھے، سرسے پیرتک غصہ اور افسوس کی شدت سے بھڑک رھے تھے ،ایک عظیم اندوہ نے ان کے وجود پر سایہ ڈال دیا تھا اور انھیں بنی اسرائیل کے مستقبل کے بارے میں بڑی تشویش لاحق تھی، کیونکہ تخریب اور تباہ کاری آسانی سے ہوجاتی ھے کبھی صرف ایک انسان کے ذریعے بہت بڑی خرابی اور تباھی واقع ہوجاتی ھے لیکن اصلاح اور تعمیر میں دیر لگتی ھے ۔
خاص طور پر جب کسی نادان متعصب اورہٹ دھر م قوم کے درمیان کوئی غلط سازبجادیا جائے تو اس کے بعد اس کے برے اثرات کا زائل کرنا بہت مشکل ہوتا ھے۔

 
بے نظیر غصہ

اس موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو غصہ کرنا چاہئے تھا اور ایک شدید ردّ عمل ظاھر کر ناچا ہئے تھا تاکہ بنی اسرائیل کے فاسد افکار کی بنیاد گر اکر اس منحرف قوم میں انقلاب برپا کردیں ،ورنہ تو اس قوم کو پلٹانا مشکل تھا۔
قرآن نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وہ شدید ردّ عمل بیان کیا ھے جو اس طوفانی و بحرانی منظرکو دیکھنے کے بعد ان سے ظاھر ہوا ،موسیٰ علیہ السلام نے بے اختیار نہ طور پر اپنے ھاتھ سے توریت کی الواح کو زمین پر ڈال دیا اور اپنے بھائی ھارون علیہ السلام کے پاس گئے اور ان کے سر اور داڑھی کے بالوں کو پکڑکر اپنی طرف کھینچا“[92]
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کے علاوہ ھارون علیہ السلام کو بڑی شدت سے سرزنش کی اور بآواز بلند چیخ کرپکارے:
کیا تم نے بنی اسرائیل کے عقائدکی حفاظت میں کوتاھی کی اور میرے فرمان کی مخالفت کی ؟“[93]
درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ ردّ عمل ایک طرف تو ان کی اس واردات قلبی، بے قراری اور شدید ناراضی کی حکایت کرتا ھے تاکہ بنی اسرائیل کی عقل میں ایک حرکت پیدا ہو اور وہ اپنے اس عمل کی قباحت کی طرف متوجہ ہوجائیں ۔
بنابریں اگرچہ بالفرض الواح توریت کا پھینک دینا قابل اعتراض معلوم ہوتا ہو، اور بھائی کی شدید سرنش نادرست ہو لیکن اگرحقیقت کی طرف توجہ کی جائے کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام اس شدید اور پرھیجانی ردّ عمل کا اظھار نہ کرتے تو ھر گز بنی اسرائیل اپنی غلطی کی سنگینی اور اھمیت کا اندازہ نھیں کرسکتے تھے ،ممکن تھا کہ اس بت پرستی کے آثاربدان کے ذہنوں میں باقی رہ جاتے لہٰذا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو کچھ کیا وہ نہ صرف غلط نہ تھا بلکہ امر لازم تھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اس واقعہ سے اس قدر ناراض ہوئے کہ تاریخ بنی اسرائیل میں کبھی اس قدر ناراض نہ ہوئے تھے کیونکہ ان کے سامنے بدترین منظر تھا یعنی بنی اسرائیل خدا پرستی کو چھوڑ کر گوسالہ پرستی اختیار کرچکے تھے جس کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وہ تمام زحمتیں جو انہوں نے بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے کی تھیں سب برباد ہورھی تھیں ۔
لہٰذا ایسے موقع پر الواح کا ھاتھوں سے گرجانا اور بھائی سے سخت مواخذہ کرنا ایک طبعی امر تھا۔
اے میری ماں کے بیٹے! میں بے گناہ ہوں
اس شدید رد عمل اور غیظ وغضب کے اظھارنے بنی اسرائیل پر بہت زیادہ تربیتی اثر مرتب کیا اور منظر کو بالکل پلٹ دیا جبکہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام نرم زبان استعمال کرتے تو شاید اس کا تھوڑا سا اثر بھی مرتب نہ ہوتا ۔
اس کے بعد قرآن کہتا ھے : ھارون علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کی محبت کو برانگیختہ کرنے کے لئے اور اپنی بے گناھی بیان کرنے کے لئے کھا:
”اے میرے ماں جائے:اس نادان امت کے باعث ھم اس قدر قلیل ہوگئے کہ نزدیک تھا کہ مجھے قتل کردیں لہٰذا میں بالکل بے گناہ ہوں لہٰذا آپ کوئی ایسا کام نہ کریں کہ دشمن ہنسی اڑائیں اور مجھے اس ستمگر امت کی صف میں قرار نہ دیں “۔[94]
قرآن میں جو ” ابن ام“ کی تعبیر آئی ھے جس کے معنی (اے میری ماں کے بیٹے،کے ھیں )حالانکہ موسیٰ علیہ السلام اورھارون علیہ السلام دونوں ایک والدین کی اولاد تھے یہ اس لئے تھا کہ حضرت ھارون چاہتے تھے کہ حضرت موسیٰ کا جذبہٴ محبت بیدار کریں بھر حال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ تدبیر کار آمد ہوئی اور بنی اسرائیل کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے توبہ کی خواہش کا اظھار کیا ۔“
اب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آتش غضب کم ہوئی اور وہ درگاہ خداواندی کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کی :
”پروردگارا! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ھمیں اپنی رحمت بے پایاں میں داخل کردے، تو تمام مھربانوں سے زیادہ مھربان ھے“۔ [95]
اپنے لئے اور اپنے بھائی کے لئے بخشش طلب کرنا اس بناپر نھیں تھا کہ ان سے کوئی گناہ سرزد ہوا تھا بلکہ یہ پروردگار کی بارگاہ میں ایک طرح کا خضوع وخشوع تھا اور اس کی طرف بازگشت تھی اور بت پرستوں کے اعمال زشت سے اظھار تنفر تھا ۔[96]

 
طلائی گوسالہ سے کس طرح آواز پیدا ہوئی؟

سامری جو کہ ایک صاحب فن انسان تھا اس نے اپنی معلومات سے کام لے کر طلائی گوسالہ کے سینے میں کچھ مخصوص نل (PIPE) اس طرح مخفی کردیئے جن کے اندر سے دباؤ کی وجہ سے جب ہوا نکلتی تھی تو گائے کی آواز آتی تھی ۔
کچھ کاخیال ھے کہ گوسالہ کا منہ اس طرح کا پیچیدہ بنایا گیا تھا کہ جب اسے ہوا کے رخ پررکھا جاتاھے تھا تو اس کے منہ سے یہ آوازنکلتی تھی۔
قرآن میں پڑھتے ھیں کہ جناب موسیٰ نے سامری سے بازپرس شروع کی اور کھا :”یہ کیا کام تھا کہ جوتونے انجام دیا ھے اور اے سامری : تجھے کس چیزنے اس بات پر آمادہ کیا۔
اس نے جواب میں کھا :”میں کچھ ایسے مطالب سے آگاہ ہوا کہ جو انہوں نے نھیں دیکھے اور وہ اس سے آگاہ نھیں ہوئے “۔
میں نے ایک چیزخدا کے بھیجے ہوئے رسول کے آثار میں سے لی اور پھر میں نے اسے دور پھینک دیا اور میرے نفس نے اس بات کو اسی طرح مجھے خوش نما کرکے دکھایا“[97]
اس بارے میں کہ اس گفتگو سے سامری کی کیا مراد تھی، مفسرین کے درمیان دوتفسیریں مشہور ھیں : پھلی یہ کہ اس کا مقصد یہ تھا کہ فرعون کے لشکر کے دریائے نیل کے پاس آنے کے موقع پر میں نے جبرئیل کو ایک سواری پر سوار دیکھا کہ وہ لشکر کو دریا کے خشک شدہ راستوں پر ورود کےلئے تشویق دینے کی خاطران کے آگے آگے چل رھاتھا میں نے کچھ مٹی ان کے پاؤں کے نیچے سے یاان کی سواری کے پاؤں کے نیچے سے اٹھالی اور اسے سنبھال کر رکھا اور اسے سونے کے بچھڑے کے اندارڈالا اور یہ صدا اسی کی برکت سے پیدا ہوئی ھے۔
دوسری تفسیر یہ ھے کہ میں ابتداء میں میں خدا کے اس رسول (موسیٰ)کے کچھ آثار پر ایمان لے آیا اس کے بعد مجھے اس میں کچھ شک اور تردد ہوا لہٰذا میں نے اسے دور پھینک دیا اور بت پرستی کے دین کی طرف مائل ہوگیا اور یہ میری نظر میں زیادہ پسندیدہ اورزیبا ھے ۔!!

 
سامری کی سزا

یہ بات صاف طور پر واضح اور روشن ھے کہ موسیٰ کے سوال کے جواب میں سامری کی بات کسی طرح بھی قابل قبول نھیں تھی،لہٰذا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کے مجرم ہونے کا فرمان اسی عدالت میں صادر کر دیا اور اسے اس گوسالہ پرستی کے بارے میں تین حکم دیئے۔
پھلا حکم یہ کہ اس سے کھا” تو لوگوں کے درمیان سے نکل جا اور کسی کے ساتھ میل ملاپ نہ کر اور تیری باقی زندگی میں تیرا حصہ صرف اتنا ھے کہ جو شخص بھی تیرے قریب آئے گا تو اس سے کھے گا ” مجھ سے مس نہ ہو“ ۔[98]
اس طرح ایک قاطع اور دوٹوک فرمان کے ذریعے سامری کو معاشرے سے باھر نکال پھینکا اور اسے مطلق گوشہ نشینی میں ڈال دیا ۔
بعض مفسرین نے کھا ھے کہ ” مجھ سے مس نہ ہو“ کا جملہ شریعت موسیٰ علیہ السلام کے ایک فوجداری قانون کی طرف اشارہ ھے کہ جو بعض ایسے افراد کے بارے میں کہ جو سنگین جرم کے مرتکب ہوتے تھے صادر ہوتا تھا وہ شخص ایک ایسے موجود کی حیثیت سے کہ جو پلید ونجس وناپاک ہو، قرار پاجاتا تھا کوئی اس سے میل ملاپ نہ کرے اور نہ اسے یہ حق ہوتا تھا وہ کسی سے میل ملاپ رکھے ۔
سامری اس واقعے کے بعد مجبور ہوگیا کہ وہ بنی اسرائیل اور ان کے شھر ودیار سے باھر نکل جائے اور بیابانوں میں جارھے اور یہ اس جاہ طلب انسان کی سزا ھے کہ جو اپنی بدعتوں کے ذریعے چاہتا تھا کہ بڑے بڑے گروہوں کو منحرف کرکے اپنے گرد جمع کرے، اسے نا کام ھی ہونا چاہئے یھاں تک کہ ایک بھی شخص اس سے میل ملاپ نہ رکھے اور اس قسم کے انسان کےلئے یہ مکمل بائیکاٹ موت اور قتل ہونے سے بھی زیادہ سخت ھے کیونکہ وہ ایک پلید اور آلودہ وجود کی صورت میں ھر جگہ سے راندہ اور دھتکارا ہوا ہوتا ھے ۔
بعض مفسرین نے یہ بھی کھا ھے کہ سامری کا بڑا جرم ثابت ہوجانے کے بعد حضرت موسیٰ نے اس کے بارے میں نفرین کی اور خدا نے اسے ایک پر اسرار بیماری میں مبتلا کردیا کہ جب تک وہ زندہ رھا کوئی شخص اسے چھو نھیں سکتا تھا اور اگر کوئی اسے چھولیتا تو وہ بھی بیماری میں گرفتار ہوجاتا ۔یایہ کہ سامری ایک قسم کی نفسیاتی بیماری میں جو ھر شخص سے وسواس شدید اور وحشت کی صورت میں تھی ؛گرفتار ہوگیا، اس طرح سے کہ جو شخص بھی اس کے نزدیک ہوتا وہ چلاتا کہ” مجھے مت چھونا“۔سامری کے لئے دوسری سزا یہ تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسے قیامت میں ہونے والے عذاب کی بھی خبردی اور کھا تیرے آگے ایک وعدہ گاہ ھے، خدائی دردناک عذاب کا وعدہ کہ جس سے ھرگز نھیں بچ سکے گا “[99]
تیسرا کام یہ تھا کہ جو موسیٰ علیہ السلام نے سامری سے کھا: ” اپنے اس معبود کو کہ جس کی تو ھمیشہ عبادت کرتا تھا ذرا دیکھ اور نگاہ کر ھم اس کو جلا رھے ھیں اور پھر اس کے ذرات کو دریا میں بکھیردیں گے “(تاکہ ھمیشہ کے لئے نابود ہوجائے[100][101]

 
گناہ ِعظیم اور کم نظیر توبہ

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس شدید رد عمل نے اپنا اثر دکھایا او جن لوگوں نے گوسالہ پر ستی اختیار کی تھی اور ان کی تعداد اکثریت میں تھی وہ اپنے کام سے پشیمان ہوئے ان کی شاید مذکورہ پشیمانی کافی تھی، قرآن نے یہ اضافہ کیا ھے :باقی رہتا ھے یہ سوال کہ اس ” غضب “ اور ذلت “ سے کیا مراد ھے؟ قرآن نے اس امر کی کوئی توضیح نھیں کی ھے صرف سربستہ کہہ کر بات آگے بڑھادی ھے۔
لیکن ممکن ھے اس سے ان بد بختیوں اور پریشانیوں کی جانب اشارہ مقصود ہوجو اس ماجرے کے بعد اور بیت المقدس میں ان کی حکومت سے پھلے انھیں پیش آئیں ۔
یا اس سے مراد اللہ کا وہ حکم ہو جو اس گناہ کے بعد انھیں دیا گیا کہ وہ بطور پاداش ایک دوسرے کو قتل کریں ۔
قرآن اس کے بعد اس گناہ سے توبہ کے سلسلے میں کہتا ھے:”اور یاد کرو اس وقت کو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کھا :اے قوم !تم نے بچھڑے کو منتخب کر کے اپنے اوپر ظلم کیا ھے ،اب جو ایسا ہوگیا ھے تو توبہ کرو اور اپنے پیدا کرنے والے کی طرف پلٹ آؤ“۔
”تمھاری توبہ اس طرح ہونی چاھیئے کہ تم ایک دوسرے کو قتل کرو۔یہ کام تمھارے لئے تمھارے خالق کی بارگاہ میں بہتر ھے۔اس ماجرے کے بعد خدا نے تمھاری توبہ قبول کرلی جو تواب و ررحیم ھے“۔[102]
اس میں شک نھیں کہ سامری کے بچھڑے کی پرستش و عبادت کوئی معمولی بات نہ تھی وہ قوم جو خدا کی یہ تمام آیات دیکھ چکی تھی اور اپنے عظیم پیغمبر کے معجزات کا مشاہدہ کرچکی تھی ان سب کو بھول کر پیغمبر کی ایک مختصر سی غیبت میں اصل توحید اور آئین خداوندی کو پورے طور پر پاؤں تلے رونددے اور بت پرست ہوجائے۔
اب اگر یہ بات ان کے دماغ سے ھمیشہ کے لئے جڑ سے نہ نکالی جاتی تو خطرناک حالت پیدا ہونے کا اندیشہ تھا اور ھر موقعے کے بعدا ور خصوصاًحضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے بعد ممکن تھا ان کی دعوت کی تمام آیات ختم کردی جاتیں اور اس عظیم قوم کی تقدیر مکمل طور پر خطرے سے دوچار ہوجاتی۔

 
اکٹھا قتل

یھاں شدت عمل سے کام لیا گیا اور صرف پشیمانی اور زبان سے اظھار توبہ پر ھرگز قناعت نہ کی گئی۔یھی وجہ ھے کہ خدا کی طرف سے ایسا سخت حکم صادر ہواجس کی مثال تمام انبیاء کی طویل تاریخ میں کھیں نھیں ملتی اور وہ یہ کہ توبہ اور توحید کی طرف باز گشت کے سلسلے میںگناہگاروں کے کثیر گروہ کے لئے اکٹھا قتل کرنے کا حکم دیا گیا۔یہ فرمان بھی ایک خاص طریقے سے جاری ہونا چاہئیے تھا اور وہ یہ ہوا کہ وہ لوگ خود تلواریں ھاتھ میں لے کر ایک دوسرے کو قتل کریں کہ ایک اس کا اپنا مارا جانا عذاب ھے اور دوسرا دوستوں اور شناساؤں کا قتل کرنا۔
بعض روایات کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حکم دیا کہ ایک تاریک رات میں وہ تمام لوگ جنہوں نے بچھڑے کی عبادت کی تھی غسل کریں کفن پہن لیں اور صفیںباندھ کر ایک دوسرے پرتلوار چلائیں۔
ممکن ھے یہ تصور کیا جائے کہ یہ توبہ کیوں اتنی سختی سے انجام پذیر ہوئی کیا یہ ممکن نہ تھاکہ خدا ان کی توبہ کو بغیر اس خونریزی کے قبول کرلیتا۔
اس سوال کا جواب گذشتہ گفتگو سے واضح ہوجاتا ھے کیونکہ اصل توحید سے انحراف اوربت پرستی کی طرف جھکاؤ کا مسئلہ اتنا سادہ اور آسان نہ تھا کہ اتنی آسانی سے درگذر کردیا جاتا اور وہ بھی ان واضح معجزات اور خدا کی بڑی بڑی نعمتوں کے مشاہدے کے بعد ۔ در حقیقت ادیان آسمانی کے تمام اصولوں کو توحید اور یگانہ پرستی میں جمع کیا جاسکتا ھے۔اس اصل کا متزلزل ہونا دین کی تمام بنیادوں کے خاتمے کے برابر ھے اگر گاؤ پرستی کے مسئلے کو آسان سمجھ لیا جاتا تو شاید آنے والے لوگوں کے لئے سنت بن جاتا۔
خصوصاً بنی اسرائیل کے لئے جن کے بارے میں تاریخ شاہد ھے کہ ضدی اور بھانہ باز لوگ تھے۔ لہٰذا چاہئے تھا کہ ان کی ایسی گوشمالی کی جائے کہ اس کی چبھن تمام صدیوں اور زمانوں تک باقی رہ جائے اور اس کے بعد کوئی شخص بت پرستی کی فکر میں نہ پڑے۔

 
خداکی آیات کو مضبوطی سے پکڑ لو

عظیم اسلامی مفسر مرحوم طبرسیۺ،ابن زید کا قول اس طرح نقل کرتے ھیں:جس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور سے واپس آئے اور اپنے ساتھ توریت لائے تو اپنی قوم کو بتایا کہ میں آسمانی کتاب لے کر آیا ہوں جو دینی احکام اور حلال و حرام پر مشتمل ھے۔ یہ وہ احکام ھیں جنھیں خدا نے تمھارے لئے عملی پروگرام قرار دیا ھے۔اسے لے کر اس کے احکام پر عمل کرو۔ اس بھانے سے کہ یہ ان کے لے مشکل احکام ھیں،یہودی نافرمانی اور سرکشی پر تل گئے۔ خدا نے بھی فرشتوں کو مامور کیا کہ وہ کوہ طور کا ایک بہت بڑا ٹکڑا ان کے سروں پر لاکر کھڑا کردیں،اسی اثناء میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انھیں خبردی کہ عہد وپیمان باندھ لو،احکام خداپر عمل کرو،سرکشی و بغاوت سے توبہ کرو تو تم سے یہ عذاب ٹل جائے گا ورنہ سب ھلاک ہو جاؤگے۔
اس پر انہوں نے سر تسلیم خم کردیا۔ توریت کو قبول کیا اور خدا کے حضور میں سجدہ کیا۔جب کہ ھر لحظہ وہ کوہ طور کے اپنے سروں پر گرنے کے منتظر تھے لیکن بالآخر ان کی توبہ کی وجہ سے عذاب الٰھی ٹل گیا۔
یہ نکتہ یاد رکھناضروری ھے کہ کوہ طور کے بنی اسرائیل کے سروں پر مسلط ہونے کی کیفیت کے سلسلے میںمفسرین کی ایک جماعت کا اعتقاد ھے کہ حکم خدا سے کوہ طور اپنی جگہ سے اکھڑ گیا اور سائبان کی طرح ان کے سروں پر مسلط ہوگیا۔
جبکہ بعض دوسرے مفسرین یہ کہتے ھیں کہ پھاڑمیں سخت قسم کا زلزلہ آیا، پھار اس طرح لرزنے اور حرکت کرنے لگا کہ کسی بھی وقت وہ ان کے سروں پر آگرے گا لیکن خدا کے لطف و کرم سے زلزلہ رک گیا اور پھاڑ اپنی جگہ پر قائم ہوگیا۔
یہ احتمال بھی ہو سکتا ھے کہ پھاڑ کا ایک بہت بڑا ٹکڑا زلزلے اور شدید بجلی کے زیر اثر اپنی جگہ سے اکھڑ کر ان کے سروں کے اوپر سے بحکم خدا اس طرح گزرا ہو کہ چند لحظے انہوں نے اسے اپنے سروں پر دیکھا ہو اور یہ خیال کیا ہو کہ وہ ان پر گرناچاہتا ھے لیکن یہ عذاب ان سے ٹل گیا اور وہ ٹکڑا کھیں دور جاگرا۔[103]
آیئے ۔واقعہ کی تفصیل قرآن میں پڑھتے ھیںکہ:”اور (وہ وقت کہ)جب ھم نے تم سے عہد لیا اور کوہ طور کو تمھارے سروں کے اوپر مسلط کردیا اور تمھیں کھا کہ،جو کچھ (آیات و احکام میں )ھم نے تمھیں دیا ھے اسے مضبوطی سے تھامو اور جو کچھ اس میں ھے اسے یاد رکھو (اور اس پر عمل کرو)شاید اس طرح تم پرھیزگار ہوجاؤ“۔[104]
اس کے بعد پھر تم نے روگردانی کی اور اگر تم پر خدا کا فضل و رحمت نہ ہوتا تو تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوتے“۔[105]
اس عہد و پیمان میں یہ چیزیں شامل تھیں:پروردگار کی توحید پر ایمان رکھنا،ماں باپ، عزیز و اقارب،یتیم اور حاجتمندو ں سے نیکی کرنا اور خونریزی سے پرھیز کرنا۔ یہ کلی طور پر ان صحیح عقائد اور خدائی پروگراموں کے بارے میں عہد و پیمان تھا جن کا توریت میں ذکر کیا گیا تھا۔

 
کوہ طور

کوہ طورسے مراد یھاں اسم جنس ھے یا یہ مخصوص پھاڑ ھے۔اس سلسلے میں دو تفسیریں موجودھیں۔بعض کہتے ھیں کہ طور اسی مشہور پھاڑ کی طرف اشارہ ھے جھاں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل ہوئی۔
لیکن بعض کے نزدیک یہ احتمال بھی ھے کہ طور لغوی معنی کے لحاظ سے مطلق پھاڑ ھے۔ یہ وھی چیز ھے جسے سورہ اعراف کی آیہ۱۷۱ میں ”جبل“سے تعبیر کیا گیا ھے:

 
توریت کیا ھے

توریت عبرانی زبان کا لفظ ھے، اس کا معنی ھے”شریعت“اور”قانون“۔یہ لفظ خداکی طرف سے
حضرت موسیٰ علیہ السلام بن عمران پر نازل ہونے والی کتاب کے لئے بولا جاتا ھے۔نیز بعض اوقات عہد عتیق کی کتب کے مجموعے کے لئے اور کبھی کبھی توریت کے پانچوں اسفار کے لئے بھی استعمال ہوتا ھے۔
اس کی وضاحت یہ ھے کہ یہودیوں کی کتب کے مجموعے کو عہد عتیق کہتے ھیں۔اس میں توریت اور چنددیگر کتب شامل ھیں۔
توریت کے پانچ حصے ھیں:
جنھیںسفر پیدائش،سفر خروج،سفر لاویان،سفر اعداد اور سفر تثنیہ کہتے ھیں۔ اس کے موضوعات یہ ھیں:
۱)کائنات،انسان اور دیگر مخلوقات کی خلقت۔
۲)حضرت موسیٰ(ع) بن عمران،گذشتہ انبیاء اور بنی اسرائیل کے حالات وغیرہ۔
۳)اس دین کے احکام کی تشریح۔
عہد عتیق کی دیگر کتابیں در اصل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کے موٴرخین کی تحریر کردہ ھیں۔ ان میں حضرت موسیٰ(ع) بن عمران کے بعد کے نبیوں،حکمرانوں اور قوموں کے حالات بیان کئے گئے ھیں۔
یہ بات بغیر کھے واضح ھے کہ توریت کے پانچوں اسفار سے اگرصرف نظر کرلیا جائے تو دیگر کتب میں سے کوئی کتاب بھی آسمانی کتاب نھیں ھے۔ خود یہودی بھی اس کا دعویٰ نھیں کرتے۔یھاں تک کہ حضرت داوٴد(ع) سے منسوب زبور جسے وہ ”مزامیر“ کہتے ھیں،حضرت داوٴد(ع) کے مناجات اور پندو نصائح کی تشریح ھے۔
رھی بات توریت کے پانچوں سفروں کی تو ان میں ایسے واضح قرائن موجود ھیںجو اس بات کی نشاندھی کرتے ھیں کہ وہ بھی آسمانی کتابیں نھیں ھیں بلکہ وہ تاریخی کتاب ھیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد لکھی گئی ھیں کیونکہ ان میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات،ان کے دفن کی کیفیت اور ان کی وفات کے بعد کے کچھ حالات مذکور ھیں ۔
خصوصاً سفر تثنیہ کے آخری حصے میں یہ بات وضاحت سے ثابت ہوتی ھے کہ یہ کتاب حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کی وفات سے کافی مدت بعد لکھی گئی ھے۔
علاوہ ازیں ان کتب میں بہت سی خرافات اور ناروا باتیں انبیاء و مرسلین سے منسوب کردی گئی ھیں۔بعض بچگانہ باتیں بھی ھیں جو ان کے خود ساختہ اور جعلی ہونے پر گواہ ھیں نیز بعض تاریخی شواہد بھی نشاندھی کرتے ھیں کہ اصلی توریت غائب ہوگئی اور پھر حضرت موسیٰ(ع) بن عمران علیہ السلام کے پیروکاروں نے یہ کتابیں تحریر کیں۔
---------
[62] سورہء بقر آیت۵۷۔
[63] سورہٴ بقر آیت۵۷۔
[64] توریت میں ھے کہ ”منّ“دھنیے کے دانوں جیسی کوئی چیزھے جو رات کو اس سر زمین پر آگرتی تھی،بنی اسرائیل اسے اکٹھا کرکے پیس لیتے اور اس سے روٹی پکاتے تھے جس کا ذائقہ روغنی روٹی جیسا ہوتا تھا۔
ایک احتمال اور بھی ھے کہ بنی اسرائیل کی سرگردانی کے زمانے میں خدا کے لطف وکرم سے جو نفع بخش بارشیں برستی تھیں ان کے نتیجے میں درختوں سے کوئی خاص قسم کا صمغ اور شیرہ نکلتا تھا اور بنی اسرائیل اس سے مستفید ہوتے تھے۔
بعض دیگر حضرات کے نزدیک”من“ایک قسم کا طبیعی شہد ھے اور بنی اسرائیل اس بیابان میں طویل مدت تک چلتے پھرتے رہنے سے شہد کے مخزنوں تک پہنچ جاتے تھے کیونکہ ”بیابان تیہ “کے کناروں پر پھاڑ اور سنگلاخ علاقہ تھا جس میں کافی طبیعی شہد نظر آجاتا تھا۔
عہدین(توریت اور انجیل)پر لکھی گئی تفسیر سے اس تفسیر کی تائید ہوتی ھے جس میں ھے کہ مقدس سر زمین قسم قسم کے پھولوں اور شگوفوں کی وجہ سے مشہور ھے اسی لئے شہد کی مکھیوں کے جتھے ھمیشہ پتھروں کے سوراخوں،درختوں کی شاخوں اور لوگوں کے گھروں پر جا بیٹھتے ھیں اس طرح سے بہت فقیر و مسکین لوگ بھی شہد کھا سکتے تھے۔
اس تحریر سے بھی واضح ہوتا ھے کہ سلویٰ سے مراد وھی پر گوشت پرندہ ھے جو کبوتر کے مشابہ اور اس کے ھم وزن ہوتا ھے اور یہ پرندہ اس سر زمین میں مشہور ھے ۔
[65] اس میں لکھا ھے معلوم ہونا چاھیے کہ بہت بڑی تعداد میں سلویٰ افریقہ سے چل کے شمال کو جاتے ھیں۔”جزیرہٴ کاپری“ میںایک فصل میں ۱۶ہزار کی تعداد میں ان کا شکار کیا گیا ۔یہ پرندہٴ بحیرہٴ قلزم کے راستے سے آتا ھے۔ خلیج عقبہ اور رسویز کو عبور کرتا ھے۔ ہفتے کو جزیرہ سینا میں داخل ہوتا ھے اور راستے میں اس قدر تکان و تکلیف جھیلنے کی وجہ سے آسانی سے ھاتھ سے پکڑا جا سکتا ھے، اور جب پرواز کرتا ھے تو زمین کے قریب ہوتا ھے۔اس حصے کے متعلق(توریت کے)سفر خروج اور سفر اعداد میں گفتگو ہوئی ھے۔
[66] سورہٴ بقرہ آیت۶۰۔
[67] سورہٴ بقرہ آیت ۶۰۔
[68] سورہٴ بقرہ آیت۶۰۔
[69] توریت کی سترھویں فصل میں سفر خروج کے ذیل میں بھی یوں لکھا ھے:
”خدا نے موسیٰ علیہ السلام سے کھا:قوم کے آگے آگے رہو اور اسرائیل کے بعض بزرگوں کو ساتھ لے لو اور وہ عصا جسے نھر پر مارا تھا ھاتھ میں لے کر روانہ ہو جاؤ۔ میں وھاں تمھارے سامنے کوہ حوریب پر کھڑا ہوجاؤں گا۔ اور اسے پتھر پر مارو،اس سے پانی جاری ہوجائےگا ،تاکہ قوم پی لے اور موسیٰ علیہ السلام نے اسرائیل کے مشائخ اور بزرگوں کے سامنے ایسا ھی کیا“۔
[70] سورہٴ بقرہ آیت۶۰۔
[71] سورہٴ بقرہ آیت۶۱۔
[72] سورہٴ بقرہ آیت۶۱۔
[73] سورہٴ بقرہ آیت۶۱۔
[74] سورہٴ بقرہ آیت۶۱۔
[75] سورہٴ بقرہ آیت۶۱۔
[76] سورہٴ اعراف آیت ۱۴۲۔
[77] سورہٴ اعراف آیت۱۴۳۔
[78] پھلا سوال یہ پیدا ہوتا ھے کہ خدا نے پھلے ھی سے چالیس راتوں کا وعدہ کیوں نہ کیا بلکہ پھلے تیس راتوں کا وعدہ کیا اس کے بعد دس راتوں کا اور اضافہ کردیا۔
مفسرین کے درمیان اس تفریق کے بارے میں بحث ھے، لیکن جو بات بیشتر قرین قیاس ھے،نیز روایات
اھل بیت علیھم السلام کے بھی موافق ھے وہ یہ ھے کہ یہ میعاد اگر چہ واقع میں چالیس راتوں کا تھا لیکن خدا نے بنی اسرائیل کی آزمائش کرنے کے لئے پھلے موسیٰ علیہ السلام کو تیس راتوں کی دعوت دی پھر اس کے بعد اس کی تجدید کردی تا کہ منافقین مومنین سے الگ ہوجائیں۔اس سلسلے میں امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل ہوا ھے کہ آپ(ع) نے فرمایا:
جس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام وعدہ گاہ الٰھی کی طرف گئے تو انہوں نے بنی اسرائیل سے یہ کہہ رکھا تھا کہ ان کی غیبت تیس روز سے زیادہ طولانی نہ ہوگی لیکن جب خدا نے اس پر دس دنوں کا اضافہ کردیا تو بنی اسرائیل نے کھا:موسیٰ علیہ السلام نے اپنا وعدہ توڑ دیا اس کے نتیجہ میں انہوں نے وہ کام کئے جو ھم جانتے ھیں(یعنی گوسالہ پرستی میں مبتلا ہوگئے۔)
رھا یہ سوال کہ یہ چالیس روز یا چالیس راتیں،اسلامی مھینوں میں سے کونسا زمانہ تھا؟ بعض روایات سے معلوم ہوتا ھے کہ یہ مدت ذیقعدہ کی پھلی تاریخ سے لے کر ذی الحجہ کی دس تاریخ تک تھی۔ قرآن میں چالیس راتوں کا ذکر ھے نہ کہ چالیس دنوں کا۔ تو شاید اس وجہ سے ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اپنے رب سے جو مناجاتیں تھیں وہ زیادہ تر رات ھی کے وقت ہوا کرتی تھیں۔
اس کے بعد ایک اور سوال سامنے آتا ھے،وہ یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کسطرح اپنے بھائی ھارون(ع) سے کھا کہ:قوم کی اصلاح کی کوشش کرنا اور مفسدوں کی پیروی نہ کرنا،جبکہ حضرت ھارون(ع) ایک نبی ٴ برحق اور معصوم تھے وہ بھلا مفسدوں کی پیروی کیوں کرنے لگے؟
اس کا جواب یہ ھے کہ:یہ درحقیقت اس بات کی تاکید کے لئے تھا کہ حضرت ھارون(ع) کو اپنی قوم میں اپنے مقام کی اھمیت کا احساس رھے اور شاید اس طرح سے خود بنی اسرائیل کو بھی اس بات کا احساس دلانا چاہتے تھے کہ وہ ان کی غیبت میں حضرت ھارون(ع) کی رہنمائی کا اچھی طرح اثر لیں اور ان کا کہنا مانیں اور ان کے اوامر ور نواھی(احکامات)کو اپنے لئے سخت نہ سمجھیں،اس سے اپنی تحقیر خیال نہ کریں اور انکے سامنے اس طرح مطیع و فرمانبرداررھیں جس طرح وہ خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کے فرمانبردار تھے۔
[79] سورہٴ اعراف ۱۴۳۔
[80] سورہ اعراف آیت۱۴۳۔
[81] حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کس چیز سے توبہ کی ؟اس بارے میں جوسوال سامنے آتا ھے یہ ھے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ہوش میں آئے تو انہوں نے کیوں کھا :”میں تو بہ کر تا ہوں“
حالانکہ انہوں نے کوئی خلاف ورزی نھیں کی تھی۔کیونکہ اگر انہوں نے یہ درخواست اپنی امت کی طرف سے کی تھی تو اس میں ان کا کیا قصور تھا،اللہ کی اجازت سے انہوں نے یہ درخواست خدا کے سامنے پیش کی اور اگر اپنے لئے شہود باطنی کی تمنا کی تھی تو یہ بھی خدا کے حکم کی مخالفت نہ تھی،لہٰذا توبہ کس بات کی تھی؟دوطرح سے اس سوال کا جواب دیا جا سکتا ھے:
اول:یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی نمائندگی کے طور پر خداسے یہ سوال کیا تھا،اس کے بعد جب خدا کی طرف سے سخت جواب ملا جس میں اس سوال کی غلطی کو بتلایا گیا تھا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے توبہ بھی انھیں کی طرف سے کی تھی۔
دوم:یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اگر چہ یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کی درخواست کو پیش کریں لیکن جس وقت پروردگار کی تجلی کا واقعہ رونما ہوا اور حقیقت آشکار ہوگئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ ماموریت ختم ہوچکی تھی اب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چاہئیے کہ پھلی حالت(یعنی قبل از ماموریت)کی طرف پلٹ جائیں اور اپنے ایمان کا اظھار کریں تاکہ کسی کے لئے جائے شبہ باقی نہ رھے،لہٰذا اس حالت کا اظھار موسیٰ علیہ السلام نے اپنی توبہ اور اس جملہ ”انی تبت الیک وانا اول الموٴمنین“سے کیا۔
[82] سورہ اٴعراف۱۴۴۔
[83] سورہ ٴ اعراف۱۴۴۔
[84] سورہٴ اعراف آیت ۱۴۵۔
[85] سورہٴ اعراف آیت۱۴۵۔
[86] یھاں پردو چیزوں کی طرف توجہ کرنا ضروری ھے:
[87] سورہ اعراف آیت ۱۴۸۔
[88] جیسا کہ سورہ طہٓ کی آیات میں آیاھے ۔
[89] سورہ ٴ اعراف آیت ۱۵۹۔
[90] سورہ اعراف آیت۱۵۰۔
[91] سورہ اعراف آیت ۱۵۰۔
[92] سورہ اعراف ۱۵۰۔
[93] سورہ طٰہٰ آیت ۱۵۰۔
[94] سورہ اعراف آیت ۱۵۱۔
[95] سورہ اعراف آیت ۱۵۰۔
[96] قرآن اور موجود ہ توریت کا ایک موازنہ
جیسا کہ آیات سے معلوم ہوتا ھے کہ ” گوسالہ “ کو نہ تو بنی اسرائیل نے بنایا تھا نہ حضرت ھارون علیہ السلام نے ،بلکہ بنی اسرائیل میں سے ایک شخص سامری نے یہ حرکت کی تھی، جس پر حضرت ھارون علیہ السلام جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی اور ان کے معاون تھے خاموش نہ بیٹھے بلکہ انہوں نے اپنی پوری کوشش صرف کی، انہوں نے اتنی کوشش کی کہ نزدیک تھا کہ لوگ انھیں قتل کردیتے ۔
لیکن عجیب بات یہ ھے کہ موجودہ توریت میں گوسالہ سازی اور بت پرستی کی طرف دعوت کو حضرت ھارون علیہ السلام کی طرف نسبت دی گئی ھے، چنانچہ توریت کے سفر خروج کی فصل ۳۲ میں یہ عبارت ملتی ھے:
جس وقت قوم موسیٰ نے دیکھا کہ موسیٰ کے پھاڑسے نیچے اترنے میں دیر ہوئی تو وہ ھارون کے پاس اکٹھا ہوئے اور ان سے کھا اٹھو اور ھمارے لئے ایسا خدا بناؤ جوھمارے آگے آگے چلے کیونکہ یہ شخص موسیٰ جو ھم کو مصر سے نکال کریھاں لایا ھے نھیں معلوم اس پر کیا گذری، ھارون نے ان سے کھا: طلائی بندے (گوشوارے) جو تمھاری عورتوںاور بچوں کے کانوں میں ھیں انھیں ان کے کانوں سے اتار کر میرے پاس لاوٴ،پس پوری قوم ان گوشواروںکو کانوں سے جدا کر کے ھارون کے پاس لائی، ھارون نے ان گوشواروں کو ان لوگوں کے ھاتھوں سے لیا اور کندہ کرنے کے ایک آلہ کے ذریعے تصویر بنائی اور اس سے ایک گوسالہ کا مجسمہ ڈھالااور کھا کہ اے بنی اسرائیل یہ تمھارا خدا ھے جو تمھیں سرزمین مصر سے باھر لایا ھے ۔۔۔“
اسی کے ذیل میں ان مراسم کوبیان کیا گیا ھے جوحضرت ھارون نے اس بت کے سامنے قربانی کرنے کے بارے میں بیان کئے تھے ۔
جو کچھ سطور بالا میں بیان ہوا یہ بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی کی داستان کا ایک حصہ ھے جو توریت میں مذکورھے اس کی عبارت بعینہ نقل کی گئی ھے حالانکہ خود توریت نے حضرت ھارون کے مقام بلندکومتعدد فصول میں بیان کیا ھے ان میں سے ایک یہ ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات حضرت ھارون علیہ السلام کے ذریعے ظاھر ہوئے تھے (فصل ۸ از سفر خروج توریت ) اور ھارون علیہ السلام کا حضرت مو سیٰ علیہ السلام کے ایک رسول کی حیثیت سے تعارف کروایا گیا ھے۔ (فصل ۸ از سفر خروج)
بھرکیف حضرت ھارون علیہ السلام جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جانشین برحق تھے اور ان کی شریعت کے سب سے بڑے عالم وعارف تھے توریت ان کے لئے مقام بلند کی قائل ھے اب ذراان خرافات کو بھی دیکھ لیجئے کہ انھیں ایک بت سازھی نھیں بلکہ ایک مئوسس بت پرستی کی حیثیت سے روشناس کرایا ھے بلکہ ”عذر گناہ بد تراز گناہ“ کے مقولہ کے مطابق ان کی جانب سے ایک غلط عذر پیش کیا کیونکہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان پر اعتراض کیا تو انہوں نے یہ عذر پیش کیا کہ چونکہ یہ قوم بدی کی طرف مائل تھی اس لئے میں نے بھی اسے اس راہ پرلگادیا جبکہ قرآن ان دونوں بلند پایہ پیغمبروں کو ھر قسم کے شرک اور بت پرستی سے پاک وصاف سمجھتا ھے ۔
صرف یھی ایک مقام نھیں جھاں قرآن تاریخ انبیاء ومرسلین کی پاکی وتقدس کا مظھرھے جبکہ موجودہ توریت کی تاریخ انبیاء ومرسلین کی ساحت قدس کے متعلق انواع واقسام کی خرافات سے بھری ہوئی ھے ھمارے عقیدہ کے مطابق حقانیت واصالت قرآن اور موجودہ توریت وانجیل کی تحریف کو پہچاننے کا ایک طریقہ یہ بھی ھے کہ ان دونوں میں انبیاء کی جو تاریخ بیان کی گئی ھے اس کا موازنہ کرلیا جائے اس سے اپنے آپ پتہ چل جائیگا کہ حق کیا ھے اور باطل کیا ھے؟
[97] سورہ طہٰ آیت۹۶۔
[98] سورہٴ طہٰ آیت۹۷۔
[99] سورہٴ طہ آیت ۹۷۔
[100] سورہ طہٰ آیت۹۷۔
[101] سامری کون ھے ؟ اصل لفظ ” سامری“ عبرانی زبان میں ” شمری “ ھے اور چونکہ یہ معمول ھے کہ جب عبرانی زبان کے الفاظ عربی زبان میں آتے ھیںتو ” شین“ کا لفظ ”سین“ سے بدل جاتا ھے ، جیسا کہ ” موشی “ ”موسی“ سے اور ” یشوع“ ” یسوع“ سے تبدیل ہوجاتاھے اس بناء پر سامری بھی ” شمرون “ کی طرف منسوب تھا‘ اور” شمرون“ ” یشاکر“ کا بیٹا تھا، جو یعقوب کی چوتھی نسل ھے ۔اسی سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ھے کہ بعض عیسائیوں کا قرآن پر یہ اعتراض بالکل بے بنیادھے کہ قرآن نے ایک ایسے شخص کو کہ جو موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں رہتا تھا اور وہ گوسالہ پرستی کا سر پرست بنا تھا ،شھر سامرہ سے منسوب ”سامری“کے طورپر متعارف کرایا ھے، جب کہ شھر سامرہ اس زمانے میں بالکل موجود ھی نھیں تھا ،کیونکہ جیسا کہ ھم بیان کرچکے ھیں کہ ”سامری “ شمرون کی طرف منسوب ھے نہ کر سامرہ شھر کی طرف ۔
بھرحال سامری ایک خود خواہ اور منحرف شخص ہونے کے باوجود بڑا ہوشیار تھا وہ بڑی جراٴت اور مھارت کے ساتھ بنی اسرائیل کے ضعف کے نکات اور کمزوری کے پھلوؤں سے استفادہ کرتے ہوئے اس قسم کا عظیم فتنہ کھڑا کرنے پرقادر ہوگیا کہ جو ایک قطعی اکثریت کے بت پرستی کی طرف مائل ہونے کا سبب بنے اور جیسا کہ ھم نے دیکھا ھے کہ اس نے اپنی اس خود خواھی اور فتنہ انگیزی کی سزا بھی اسی دنیا میں دیکھ لی ۔“
[102] سورہٴ اعراف آیت ۱۵۲۔
[103] کیا اس عہد وپیمان میں جبر کا پھلو ھے:اس سوال کے جواب میں بعض کہتے ھیں کہ ان کے سروں پر پھاڑ کا مسلط ہونا ڈرانے دھمکانے کے طور پر تھا نہ کہ جبر و اضطرار کے طور پر ورنہ جبری عہد و پیمان کی تو کوئی قدرو قیمت نھیں ھے۔لیکن زیادہ صحیح یھی ھے کہ اس میں کوئی حرج نھیں کہ سرکش او رباغی افراد کو تہدید و سزا کے ذریعے حق کے سامنے جھکادیا جائے۔یہ تہدید اور سختی جو وقتی طور پر ھے ان کے غرور کو توڑدے گی۔ انھیں صحیح غور و فکر پر ابھارے گی اور اس راستے پر چلتے چلتے وہ اپنے ارادہ و اختیار سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے لگیں گے۔بھر حال یہ پیمان زیادہ تر عملی پھلوؤں سے مربوط تھا ورنہ عقائد کو تو جبرو اکراہ سے نھیں بدلا جاسکتا۔
[104] سورہٴ بقر آیت ۶۳۔
[105] سورہ بقرہ آیت ۶۴۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ولایت فقیہ کا سلسلہ کہاں سے شروع ہوا؟
اخلاق کی قسمیں
آسمانی کتابوں کی روشنی میں صیہونیستوں کی سرنوشت
فريقين كى دو كتابيں
عوام قرآن سے سبق حاصل کريں
حضرت نوح(ع) کی کشتی میں سوار ہونے والا پہلا اور ...
حسن و قبح كے معنی
اسلام کے عملی ارکان اور احکام شرعی
حرص جيسي بيماري کا قناعت سے علاج ممکن ہے
خطبہ غدیر کا خلاصہ

 
user comment