اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

تفسیر "فصل الخطاب" سے اقتباسات (حصہ دوم)

تفسیر "فصل الخطاب" سے اقتباسات (حصہ دوم)

اعجاز قرآن

معجزہ کے معنی

معجزہ وہ غیرمعمولی چیز ہےجوکسی نبی کو دعوائے نبوت یاکسی اور الہی منصب والے کو اسکے منصب کے ثبوت میں خداوند عالم کی جانب سے عطاہو.جسکےمقابل لانےسے اس کےحدودمنصب کےتحت والی دنیاکی تمام طاقتیں عاجزہوں.
بعض لوگ اسےمادی حیثیت میں محدود سمجہہ لیتے ہیں جیسے : آفتاب کاشق ہونا، آفتاب کاپلٹنا، سنگریزوں کا تسبیح کرنا اور ایسی ہی باتیں جوہوں وہی انکےنزدیک معجزہ کہلاتی ہیں.
اسلئے یہ اعتراض کرتےہیں کہ جولوگ اپنےعقول کےاعتبار سےاتنے ترقی یافتہ ہوں کہ وہ حقائق پر غور کرسکیں ان کیلئےان مادی مظاہرات کی کیاضرورت؟
یہ خیال اول تواسلئےغلط ہےکہ صاحبان منصب ہدائت صرف ایسےترقی یافتہ افراد کےلئے نہیں آتےبلکہ انکے دائرہ عمل میں خواص کےساتہہ عوام بہی ہوتے ہیں.لہذاہر معیار ذہن کےلحاظ سےانکےپاس دلائل حقانیت ہوناچاہیئں.
دوسرےیہ کہ معجزہ نام صرف ان مادی مظاہرات کانہیں ہے بلکہ معجزہ ان غیرمعمولی آثار کانام ہےجو ایک مدعئ نبوت میں اسکے دعوی کی خصوصی دلیل بن سکیں خواہ وہ ازقبیل افعال ہوں جیسے کورمادرزاد اور برص وجذام کےمبتلا کو صحت دینا ، مردوں کوزندہ کرنا اور مٹی سے پرند کی صورت بناکراسمیں پہونک مارکرسچ مچ کاطائر بنادینا.یہ معجزات جوحضرات عیسی علیہ السلام کوعطاہوئے.عصاکو اژدہا بنادیناجو حضرت موسی علیہ السلام کےمعجزے ہیں.یاازقبیل کلام جیسے قرآن مجید جو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا معجزہ ہے یا ازقبیل صفت جیسے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بہت سی خصوصیات جیسے : جسم اقدس کا سایہ مفقود ہونا، غیرمعمولی خوشبو، پس پشت کی چیز کا اسطرح دکہائی دیناجیسے سامنےکی چیز اور ایسی نہت سی باتیں.
یا اس شخص کےتعلق سے غیرمعمولی حالات کاپیدا ہونا جیسے : قوم فرعون پر جوؤں ، مینڈکوں اور خون وغیرہ کے عذاب کاآنا جسکا تذکرہ قرآن مجید میں تفصیل کےساتہہ ہے.یہ تمام باتیں معجزات میں داخل ہیں.
اسی طرح خواص وعوام کی سطح ذہن کےلحاظ سے معجزات مختلف ہوسکتےہیں.ایک بلند مرتبہ فلاسفر کےلئے وہ رموز و اسرار عقلی ہوں گےجواسکے کلام میں ودیعت ہیں لیکن سطحی نظررکہنےوالےانسانوں کےلئے جو حقائق کلام کی رفعتوں کونہیں سمجہہ سکتے وہی مادی مظاہرات معجزہ قرار پائیں گے.

معجزہ کی ضرورت

انسانی افراد اپنی افتادطبع کےلحاظ سے اقتدارپسندی و جاہ طلبی کے پتلے، ہوا و ہوس کے مجسمےاور ذاتی ونفسانی اغراض کے بندے ہوتےہیں.انہیں کسی ایسی بات کادعوی جسمیں اپنی سیادت تسلیم ہوتی ہو ، اپنی بات بالا ہوتی ہو اور دوسرےبہت سے سادہ لوح افراد کےدلوں پرانکی حکومت کا سکہ قائم ہوتاہو بہت خوشگوار معلوم ہوتاہے.انکو اسمیں کسی واقعیت کالحاظ پس وپیش کرنےپر آمادہ نہیں کرتا بلکہ ایک وقتی شان وشوکت انکو بڑے سے بڑے غلط دعوی پر آمادہ کرسکتی ہےجسکی آجری حد خدائی کے دعوائے باطل تک پہنچتی ہےاسکےآگےکوئی زینہ ہی نہیں کہ قدم ادعاء وہاں تک پہنچے.
نبوت اور رسالت اور ایسے ہی خدائی منصب کابلاشبہہ روحانی اقتدار سیادت اور حق فرماں روائی کےساتہہ لازم وملزوم کارشتہ ہے بلکہ ایک پیشوائے دین کااپنےماننے والوں پر اقتدار اس سے زیادہ ہوتاہے جتناایک بادشاہ کا اپنی رعایا پر اسلئےکہ بادشاہ کےسامنےسرجکہتےہیں اور پیشوا کیلئے دل جہکےہوئےہوتےہیں.لہذا عام انسانی افرادکے اقتدار پسند طبائع اس جامہ کو زیب تن کرنے اور اس منصب کےغلط دعویدار ہونےپر بڑی جرأت کےساتہہ آمادہ ہوجاتےہیں.
اسمیں آسانی یوں محسوس ہوتی ہےکہ دنیاوی مناصب ظاہری اسباب اور مادی سازوسامان سےوابستہ ہوتےہیں تو وہ سامان جسکےپاس نہ ہو اس کیلئے ان مناصب کے دعوے کے کوئی معنی نہیں ایک بےتاج و تخت ، بےمال و دولت زاویہ نشین فقیر یہ دعوی کرے کہ میں بادشاہ ہوں یا وزیر ہوں یا رکن سلطنت ہوں تو لوگ اسے دیوانہ سمجہہ کر ذریعہ تفریح بنالیں گے.کوئی اسے ماننےاور تسلیم کرنے پر آمادہ کہاں ہوگالیکن نبوت و رسالت وغیرہ یہ مناصب کسی ظاہری سازوسامان سےوابستہ نہیں ہوتے بلکہ وہ روحانی پیغام اور وحی و الہام کےساتہہ تعلق رکہتےہیں تو کسی کو انکے ادعاء میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہوتی.
پہریہ کہ انسانی لوازم زندگی کےاعتبارسے انبیاء و مرسلین بہی عام افراد بشری کی طرح ہوتےہیں بےشک انکا ذاتی جوہر ایسابلند ہوتاہےکہ قدرت کی طرف سےوہ بلند منصب کیلئےمنتخب کئےجاتےہیں.
اب ظاہر ہےکہ عامتہ الخلائق خدا تک جانہیں سکتےکہ خود اس سے پوچہہ لیں کہ اس نے اس شخص کواپنے منصب کیلئے مقرر کیاہےیانہیں تو اب یہ دعوی کرلینےمیں کیا دشواری ہےکہ مجہہ کو خدا نے اس عہدے کیلئے مبتخب کیاہے اور تمام خلق کی رہنمائی کیلئے قرار دیاہے.چنانچہ ہرقوم کےبزدیک متفقہ طور پربعص ایسے لوگ ہیں جنہوں نے غلط طریقہ پر نبوت کا دعوی کیااور کسی باطل مذہب کی بنیاد قائم کی.ایک قانون کا مرتب کرلینا اور دنیاکی تیزرفتار پر نظر کرکے کچہہ اصول قرار دےلینا جنکو "شریعت الہیہ" کے نام سے پیش کیاجائے کوئی مشکل کام نہیں ہے.
یہ فیصلہ کہ اسکےتمام احکام صحیح اصول پر مبنی ہیں یا نہیں عام افراد کے حدود دسترس سے باہرہے.اسلئے کہ انسانی فلاح و بہبود کے سلسلہ میں عقلائےزمانہ کے خیالات ایک نقطہ پر متفق نہیں چہ جائیکہ عام افراد.
اب اگراس مدعئ نبوت وغیرہ کےپاس جو حقیقتہ خدا کا فرستادہ اور اسکی طرف کے منصب کاحامل ہے صرف دعوی ہی دعوی ہو کہ میں خدا کی طرف سے مقرر ہواہوں اور اس دعوی کی تصدیق کیلئے کوئی ثبوت نہ ہو تو اسمیں اور ان لوگوں میں جو غلط طور پر یہی دعوی کررہےہیں فرق ہی کیارہا اور عام افراد پر کیوں کر یہ فرض عائد کیاجائے کہ وہ اس سچے نبی کے قول کو تسلیم کریں، اسکے دعوی کو سر آنکہوں پر رکہیں اور اسکی اطاعت کریں اور دوسروں کےدعوےسے انکار کریں اور ان کی شریعت کو تسلیم نہ کریں.
اس کیلئے عقل ضروری سمجہتی ہے کہ یقینا وہ شخص جو خدائےحکیم و خبیر کا حقیقی نمائیندہ ہے اس کیلئے خدا کی جانب سے خصوصی طور پر ایسی کوئی بات ہونا چاہیئے جسے بحیثیت دلیل دعوائے نبوت پیش کرے اور جس کے مقابلےمیں دنیا کی طاقتیں عاجز ہوں ورنہ ان دیکہا خدا جو بغیر اپنے آثار قدرت کےنہ پہچانا جا سکا اسکے سفیر کو ہم بغیر آثار کے کیوں پہچانیں.
اب وہ آثار جو کسی ذات کی معرفت پیدا کرسکتے ہیں کیسے ہونے چاہیئں.اگروہ آثار اسکے اور اسکے غیر میں مشترک ہیں تو وہ خصوصی طور پر اسکا تعارف کیوں کر کراسکتےہیں تو ضرورت ہےکہ آثار ایسے ہوں جو اسکی ذات سے مخصوص ہیں وہی ذریعہ معرفت بن سکتے ہیں. تو جس طرح خدا کے وجود کی دلیل وہی آثار بن سکتے ہیں جن پر خدا کے سوا کوئی قادر نہ ہو تو اسکی طرف کے عطاکردہ منصب کا ثبوت بہی ایسی ہی نشانیوں سے ہوسکتاہےجو اسکی طرف کے صاحب منصب سے مخصوص ہوں. مخصوص ہونے ہی کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کوئی دوسرا اسکے مثل پیش کرنے پرقادر نہ ہو اسی کو کہتے ہیں "معجزہ" !!!

صدرالمتالہین اپنی شرح اصول کافی (مطبوعہ ایران) میں لکہتےہیں کہ معجزہ وہی ہوتاہے جورسالت کےدعوی کےثبوت میں اعلان بےمثالی کےساتہہ ہواور پہردنیااسکےمقابلہ میں عاجزرہے.قرآن میں یہ تمام باتیں موجودہیں.
اسے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےپنی حقانیت کی دلیل بناکر پیش کیا.فصحائےعرب کودعوت مقابلہ دی اور جوش دلانےوالےانداز میں انکے جذبہ غیرت وحمیت کو تازیانےلگائےمگر وہ باوجود فصاحت کلام وطاقت بیان میں نازش وافتخارکے قرآن مجید کےجواب سےقاصررہےاوربجائےجواب دینےکےمرنےمارنےپر تیارہوگئےجسمیں انتہائی جانی اور مالی نقصانات برداشت کرناپڑے.
حالانکہ قرآن اول روزسے انکی تمام زحمتوں اور مشقتوں کامعمولی سا حل پیش کررہاتہاکہ وہ اسکےجواب میں پورا نہ سہی چہوٹےہی کسی سورہ کاجواب پیش کردیں.
حالانکہ اگر انہیں اسپر قدرت ہوتی تووہ قرآن کےمطالبہ کےمطابق بجائے جنگی ہنگامہ آرائی کے ادبی معرکہ آزمائی کرتےاس صورت میں بغیرکسی خونریزی اور نتیجتہ تباہی وبربادی کےاسلام کی آواز پست ہوجاتی.لیکن جب انہوں نےقرآن کے پےدرپے تازیانوں کےباوجود اس میدان سےگریز ہی کیااور حرب وضرب ، جنگ وجدل کو اسکےتمام مہلک نتائج کےباوجود مقابلہ کیلئے اختیار کیاتواس سے انکی عاجزی طشت ازبام ہوگئی اور قرآن کامعجزہ ہونا پایہ ثبوت کوپہنچ گیا.
شیخ صدرالدین شیرازی کے الفاظ میں
"دفع تحذی المتحدی بنظم الکلام اهون من الدفر باالسیف"دعوائےبےمثالی کرنےوالےکی رد ایک کلام مرتب کتکے آسان ہونی چاہیئےتہی بہ نسبت تلوار کےساتہہ مقابلہ کے"
علامہ نیشاپوری نے کہاہے"فاضطتهم التعجیز الی ایثارا لا صعب علی الاسهل فتبین ان الاسهل فی النظر هو الا صعب فی نفس الا مروذالک من اول الدلیل علی حقیقةالمنزل وصدق المنزل علیه" یہ معجزانہ حیثیت کانتیجہ تہاکہ انہوں نےآسان راستےکو چہوڑکر مشکل راستہ اجتیار کیاجس سے ثابت ہوا کہ جو بظاہر نگاہ میں آسان تہا (یعنی قرآن کاجواب پیش کرنا) وہ حقیقت میں زیادہ مشکل تہااور یہ سب سے بڑا ثبوت ہے اس کلام کی حقانیت کاجواتارا گیااور اس شخص کیی سچائی کاجس پراتارا گیاہے."
پہر جب اس دور کے فصحائےعرب باوجود اس اقتدار خاص اور کمال قدرت کے مقابلہ سے عاجز رہےتو دوسروں کی کیامجال ہوسکتی ہے. اس عاجزی کاتعلق براہ راست اگرچہ فصحائےعرب سے تہامگر اس سے حقانیت کاجو ثبوت ہے وہ ہمہ گیر حیثیت رکہتاہےاسلئے یہ معجزہ خاص عرب ہی کیلئےنہیں تہا بلکہ تمام خلق کیلئےہے اس پہلو کو قدیم عربی کے ادیب عمروبن بحر جاحظ نے ان الفاظ میں نمایاں کیاہے "ان عجزالعرب عن مثل نظم القرآن حجةعلى العجم من جهة اعلام العرب العجم انهم كانوا عن ذالك عجزة" قوم عرب کا قرآن کےسےکلام کو پیش کرنےسےعاجز رہنا غیرعرب تمام دنیا کےسامنے حقانیت کاثبوت ہے جبکہ قوم عرب نےاپنی عاجزی کااسکےمقابلہ سےاظہار کردیاہے"
اور پہراسر حقیقت یہ ہےکہ نزول قرآن کوچودہ سوبرس ہوگئے اور قرآن اسی ایک آواز سےاپنی مقابل دنیا کےہرطبقہ کوصدا دے رہاہےاور عالم کی فضااسکےدعوائے بےمثالی سے گونج رہی ہےاور اسکے مخالف اپنی تحریک کی اشاعت اور قرآن کی مخالفت میں سلطنتوں کی طاقت ، مال ودولت کازور اور گراں قدر خزانوں کا سرمایہ صرف کرتےرہےہیں لیکن قرآن کی آواز "لایاتون مثله" آج تک سچی ہے.
اور سب طرح کی مخالفتیں اور قرآنی عظمت کے گہٹانے کی سرتوڑ کوششیں ہوئیں حتی کہ قرآن پر (بزعم خود) ادبی اعتراض تک کئےگئے.
قرآنی واقعات کو بخیال خود مشکوک ثابت کیاگیا.قرآن کےمضامین کو کتب سابقہ سے ماخوذ بتایاگیا.قرآن میں مسلمانوں کی کتابوں سے تحریف کے ثبوت پیش کئےگئےمگر یہ نہ ہوا کہ کوئی قرآن کے کل نہ سہی جزء آیت کا ہی جواب تحریر کردیتا.
صدر شیرازی نےتحریر فرمایاکہ "لوکان بظهرفان ارذل الشعراءلما تحدوا بشعرهم وعرضوا ظهرت المعارضات والمناقضات الجاریة بینهم" اگرایسا کبہی بہی ہواہوتا تونمایاں ہوتا.اسکےلئے معمولی شعراءنے جب اپنےکلام کےلئےچیلنج کیااور انکے جواب دیئے گئےتو یہ مقابلےوالےجوابات شہرہ آفاق ہوگئے."
پہریہاں صورتحال یہ ہےکہ حقانیت قرآن کی مخالف جماعتیں بکثرت ہیں چاہےوہ جواب کسی ایک مذہب یاجماعت کی کسی فرد کا نتیجہ قلم ہوتامگریہ تمام جماعتیں اسکی اشاعت میں متفق ہوجاتیں بلکہ اگر وہ بالکل اسکے مثل نہیں کچہہ اسکے لگ بہگ اور ذرا قریب بہی ہوتاتویہ لوگ اپنے تعصب سے اسے قرآن سےزیادہ بڑہا چڑہا کرپیش کرتےاور سب مل کر یہ کہتےکہ قرآن کادعوی (معاذاللہ) غلط ہوگیا.جب ایسا نہیں ہواتو صاف ثابت ہواکہ قرآن کے مقابلہ میں دنیاکی طاقت حقیقتہ قاصر تہی ، قاصر ہے اور یقین کرناچاہیئےکہ ہمیشہ قاصر رہےگی.

سلسلہ معجزات میں قرآن کا امتیاز

تمام انبیاء آیات و بینات یعنی معجزات کےساتہہ مبعوث ہوئے لیکن انکی نبوتوں کے چراغ خاموش ہوگئے اسلئے کہ انکی بنیاد ایسے معجزات پر تہی جووقتی حیثیت رکہتے تہے.اس وقت وہ منکروں پر اتمام حجت کےلئےکافی تہے مگر کچہہ عرصہ گزرنےکےبعد انکی صحت و واقعیت روایات اور مختلف المضمون حکایات کی مرہون منت ہوگئی.
اسکا نتیجہ یہ نکلاہےکہ اگر کوئی شخص منکر ہوکر یہود سےموسی علیہ السلام کی نبوت کاثبوت طلب کرےیا عیسائیوں سے عیسی علیہ السلام کی نبوت کا تو انہیں سوا خاموشی کےکوئی چارہ کارنہیں کیوں کہ انکی کوئی نشانی جیتی جاگتی ہوئی حیثیت نہیں رکہتی اور کسی نبی نے ایسا معجزہ اپنے بعد نہیں چہوڑا جوتمام اہل عالم کےسامنے رکہہ دیاجائےکہ ہر زمانہ کےلوگ اپنےاپنے دور کے ذرائع اور اپنے ترقی یافتہ دماغوں کے معیارسے اسکو جانچ سکیں اور اسکے مختلف پہلوؤں پر بحث کرسکیں.
بس ایک پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں جنہوں نےایسا معجزہ پیش کیاجو آپ (ص) کی نبوت کےلیے ہردور مین دلیل حسی کی حیثیت رکہتاہےاور ہرزمانہ میں حضرت کی نبوت کو تقلیدی حیثیت سے نکال کر تحقیقی دائرہ میں لانے کا ضامن ہے
یہ قران ہےجس کے زیردامن پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ والہ کی رسالت کا چراغ انقلابات زمانہ کی ہزاروں آندہیوں میں بہی روشن ہےاور اپنے اعجاص کی روح کو لئے ہوئے ہر انسان کو غوروغوض کی دعوت دیتاہےاور ہر ادیب جو قرآن کو بحیثیت عربی کے سمجہہ سکتاہے (چاہے وہ ایمان رکہنےوالوں میں سے نہ ہو) پہلی نظر میں یہ محسوس کرتاہے کہ وہ ایک زندہ زبان کے ایک اہم کارنامہ کو دیکہہ رہا ہے اور اگر یہی دلچسپی اسے کچہہ زیادہ غور پر آمادہ کردے تو وہ آخر میں یقین کرےگا کہ وہ ایک زندہ نبوت کی زندہ دستاویز کا مشاہدہ کررہاہے.

قرآن مجید کی حیثیت اعجاز

وہ لوگ جو قرآن مجید کو معجزہ سمجہتےاور خداوندی کلام تسلیم کرتےہیں ان میں اس حیثیت سے تہوڑاسا اختلاف ہوگیا ہےکہ قرآن مجید کس حیثیت سے معجزہ ہے؟
جناب سید مرتضی علم الہدی اسکےقائل ہوگئےکہ قرآن صرفہ وسلب قوی کے اعتبارسے معجزہ ہےاسکا مطلب یہ ہے کہ خالق کی قوت قاہرہ کایہ کرشمہ ہےکہ جب کوئی قرآن کاجواب لکہنا بہی چاہےتواسکی قوت سلب ہوجائے اور اسکی طاقت جواب دیدے.
اگرچہ منطقی طورپر نتیجہ اعجاز کےلحاظ سےاس قول سے کوئی نقصان نہیں ہوتا مگر واقعیت کےلحاظ سے وہ درست نہیں ہے باوجود سید کی جلالت قدر کے جمہور علماء نے اسکو ردکردیا.کیوں کہ انکے قول کا مطلب یہ قرار پاتاہے کہ قرآن میں خود کوئی ایسی بات نہیں ہےجسکا جواب لانے سے فصحائے عرب قاصر ہوتے لیکن یہ اللہ کی قدرت ہے کہ اسکاجواب دینےپرکسی کو قدرت نہیں ہوتی اور جب خوئی شخص اسکا جواب لکہناچاہےتو اللہ اسکی قوت کوسلب کردیتاہےاور موانع پیدا کرتاہے.
لیکن بےلوث وجدان کا فیصلہ ہےکہ جب ہم جواب کی نیت سے خالی الذہن ہوکر بغیر کسی خیال معارضہ ومقابلہ کے بہی آیات قرآن پر نظر ڈالتےہیں تویہ محسوس ہوتاہے کہ وہ انسانی سطح سے بلندشان رکہتاہے.
چنانچہ شریف مرتضی کےچہوٹےبہائی جامع نہج البلاغہ علامہ شریف رضی جو عربی ادب میں بڑے بہائی سے اونچا درجہ واقعا چاہےنہ رکہتےہوں لیکن بحیثیت ادیب ان سے زیادہ نمایاں ضرور ہیں اپنی بیش قیمت تصنیف "حقائق التاویلات" مطبوعہ نجف اشرف" میں لکہتےہیں "انه لیری فیه عندالانفراد بتلاوته من غرائب الفصاحةونواقب البلاغته ونوادر الكلم و ينابيع الحكم ما يعجز الخواطر عن الكلام عليه والايضاح من عجائب مافيه" انسان جب تنہائی مین اسکی تلاوت کرے تو فصاحتکےایسے عجائب انداز بلاغت کےحیرت ناک اسلوب بیمثال الفاظ اور حکمتوں کےایسے سرچشمےدیکہے گا جس پر گفتگو کرنےاور عجائبات کی تشریح کرنےسے انسانی ذہن عاجز ہوگا"'
اس سےصاف ظاہر ہےکہ یہ اعجازی صفت خود قرآن میں مستقل طور پرموجودہے نہ یہ کہ کسی آدمی کےمقابلہ کی نیت سےقلم اٹہاتےوقت ہردفعہ اللہ کی طاقت کےحرکت میں آنے کی ضرورت ہواور ایسےہر آدمی کےمقابلےمیں خاص طورسے وہ اپنی قدرت سےکام لیاکرے.
ایک دوسرا خیال جو بالکل غلط ہے یہ کہ قرآن بحیثیت اپنی فصاحت وبلاغت اور باعتبار اپنےالفاظ ومعانی کی جامعیت کے معجزہ نہیں ہےبلکہ اسکےمعجزہ ہونےسےمراد یہ ہےکہ وہ ایک مکمل اور کامل اثرونفوذ رکہنےوالا قانون ہےاور اسمیں حسب اقتضائےزمانہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں کیلئےاحکام بوجہ اتم موجود ہیں.
یہ خیال اسلئے صحیح نہیں ہےکہ اس صورت میں قرآن مجید کے بس مجموعی طورپر مقابلہ کاسوال پیش کیاگیاہوتا.نہ کہ دس سوروں کے مقابلہ کی دعوت بلکہ آخرمیں صرف ایک سورہ کے سورہ کےجواب کی طلب پہر یہ کہ لاجوابی کااعلان تہوڑےتہوڑے وقفہ کےساتہہ ابتدا ہی سےہونےلگا لیکن یہ جہت اعجاز پیداہوتی ہے پورے قرآن کی تنزیل کےبعد اگراسکے معجزہ ہونےکے یہ معنی ہوتےتومطالبہ کاجواب تمام قرآن کےنازل ہونےکے بعد ہوتا نہ کہ اثنائے تنزیل میں.اس سےظاہرہےکہ جہت اعجاز کوئی ایسی ہےجو "کل وجز" میں یکساں طور پر پائی جاتی ہے.
بےشک یہ بہی درست نہیں ہےکہ قرآن کی اعجازی حیثیت بس فصاحت وبلاغت میں منحصرہے.ہاں فصحائے عرب کیلئے وہ بحیثیت فصاحت معجزہ تہا مگرچونکہ وہ ہرزمانہ میں باقی رہنےوالی دلیل بین بناکر بہیجاگیا لہذا اسمیں بلندوپست ،ظاہربین، دور رس ہردرجہ کےدماغوں کیلئے جہات اعجاز موجود ہیں اور فصاحت و بلاغت والے اعجاز کے علاوہ وہ باعتبار معارف وحقائق ،باعتبار نکات و دقائق ، باعتبار جامعیت و وسعت علوم ، باعتبار متانت و بلندئ تہذیب اور پہر باعتبار اپنی تعلیمات و ہدائت کے ہر دور ، ہر زمانہ کیلئے معجزہ ہے.

قرآن کےتازہ ترین معجزات

طبیعات وفلکیات میں دنیابرابر ترقی کرتی جارہی ہےاور اسمیں کوئی شبہہ نہیں کہ بہت سےدروازے حکمت وفلسفہ کےجو سابق زمانہ میں بندتہے اب کہل گئےہیں یاکہل رہےہیں اور سینکڑوں رموز جو اس کےپہلے رازسربستہ کی حیثیت رکہتےتہےاب منکشف ہوتےجاتےہیں.
اگرچہ ان انکشافات میں کچہہ ظنی یاوہمی بہی ہوتےہیں اور ان میں انداز ، تخمین یا تخیل اور تمثیل وقیاس کی آمیزش ہوتی ہے اسلئے میں اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ مذہبی آیات و روایات کو کہینچ تان کرجدید تحقیقات پر منطبق کیاجائے.
یہ کوشش اسلئےصحیح نہیں کہ انسانی فلسفہ وعلم تبدیل ہونے والی چیزہےاور دین ثابت وبرقرار حقیقتوں پرمبنی ہےاور یہ ظاہر ہےکہ ثابت ولازوال چیزکامتغیر اور تبدیل چیزسے دائمی طورپر تطابق نہیں ہوسکتا.
لہذااگردینی تصریحات کسی موجودہ تحقیقات فلسفی کےخلاف ہوں توہمیں یہ ماننا ناگزیرہےکہ فلسفہ ابہی اس بلندی کےدرجہ پرنہیں پہنچاکہ اس حقیقت کاصحیح انکشاف ہوسکے.پہربہی اسمیں شبہہ نہیں کہ سائنس کی بعض تازہ معلومات ایسی ہیں کہ جنکا پتہ قرآن و احادیث سےصاف صاف چلتاہے.
اس قسم کی آیات ہم کوقرآن کےتازہ ترین اعجاز کےپہلو سے روشناس کراتی ہیں کہ وہ چیزیں جو ہزاروں سال تک پردہ خفا میں رہیں اور اب ہزاروں قسم کےجدید آلات رصدیہ اور مختلف قسم کی دوربینوں سے انکا پتہ چلایاگئاہے نبئ امی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لائے ہوئے قرآن میں چودہ(14) سوسال پہلے مذکور تہیں.
بعض آیتیں قرآن کی ایسی ہیں کہ انکو جب ہیئت قدیم کےقدیمی مسلمات کی بناء پر جانچاگیا تو کسی طرح انکے ظاہری طور ہر معانی سمجہہ نہ آئے لہذا مفسرین نےجو ان علوم کو بالکل درست مانتے تہےان آیات میں تاویلات سےکام لیا لیکن اب جس وقت کہ ہئیت نےپلٹا کہایاہےاور علم کےدور میں انقلاب آیاہےتو وہ آیات بغیر تاویل کےاسی حقیقت کوظاہر کررہےہیں جن کا انکشاف اب ہواہے.

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

قرآن و علم
فاطمہ، ماں کي خالي جگہ
خلاصہ خطبہ غدیر
امام علی(ع)اور آج کے مسلمانوں کے مسائل اور ان کا ...
امام رضا علیہ السلام کے فضائل کے چند گوشے
امام خمینی (رہ):غدیر کے پس منظر میں ہمارے فرائض
امام علی کا مرتبہ شہیدمطہری کی نظرمیں
علم کا مقام
وحی کی حقیقت اور اہمیت
امام خمینی معاصر تاریخ کا مردِ مجاہد

 
user comment