اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

عقیدہ مہدویت کو لاحق خطرات

عقیدہ مہدویت کو لاحق خطرات

دنیا کی ہر اہم چیز اپنی اہمیت کے پیش نظر خطرات کی زد میں بھی ہے عقیدہ مہدویت کہ جو انسانی فردی اور اجتماعی زندگی کے لیے حیات بخش ہے ایک باعظمت مستقبل کی نوید ہے اور لوگوں کو ظلم و ستم کے مدمقابل حوصلہ اور صبر کی قوت دیتا ہے یقینا یہ بھی مختلف اندرونی و بیرونی خطرات کی زد میں ہے – ہم یہاں زمانہ غیبت میں اس عقیدہ کو لاحق ممکنہ خطرات کے بارے میں گفتگو کریں گے –

 
۱) کلمہ انتظار فرج سے علط مطلب نکالنا:

بعض لوگ امام کے ظہور اور فرج کی دعا میں انتظار فرج سے مراد معمولی حد تک امر بالمعروف و نہی عن المنکر مراد لیتے ہیں اس سے بڑھ کر اپنے لیے کوئ ذمہ داری نہیں سمجھتے –
جبکہ بعض دیگر معمولی حد تک بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے قائل نہیں ہیں بلکہ انکا نظریہ ہے کہ غیبت کے زمانہ میں ہم کچھ نہیں کرسکتے اور نہ ہماری کوئ ذمہ داری ہے امام زمانہ جب ظہور کریں گے تو خود سب امور کی اصلاح فرمائیں گے –
ایک گروہ کا نظریہ ہے کہ لوگوں کو انکے حال پر چھوڑ دینا چاہے جو چاہیں کریں جب ظلم و فساد بڑھے گا تو امام ظہور کریں گے-
ایک چوتھا گروہ انتظار کی یہ تفسیر کرتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ لوگوں کو گناہ کرنے سے نہ روکیں بلکہ خود بھی گناہ کرو تاکہ امام کا ظہور جلد ہو-
انہی لوگوں میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ زمانہ غیبت میں ہر حکومت کسی بھی شکل میں ہو باطل ہے اسلام و شریعت کے خلاف ہے کیونکہ روایات میں یہ آیا ہے کہ قائم کے ظہور سے پہلے ہر علم اور پرچم باطل ہے-

ایسے نظریات کے نتائج:
۱)اپنی یا معاشرہ کی موجودہ غلط صورت حال پر قانع ہونا اور بہتر وضیعت کےلیے کوشش نہ کرنا –
۲) پسماندگی
۳) اغیار کی غلامی
۴) نا امید ہونا اور جلد شکست قبول کرنا
۵) حکومت اور ملک کا کمزور ہونا
۶)ظلم و ستم کا وسیع ہونا اور اس کے مد مقابل سست رد عمل
۷) ذاتی اور اجتماعی زندگی میں ذات اور بد بختی کو قبول کرنا
۸) سست اور غیر ذمہ دار ہونا
۹) امام کے قیام اور اقدامات کو مشکل بنانا چونکہ جتنا فساد اور تباہی زیادہ ہوگی امام کا س سے مقابلہ اتنا ہی سخت اور طولانی ہوگا
۱۰) بہت سی آیات اور روایات پر عمل درآمد نہ ہونا یعنی وہ آیات و روایات جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر ٬سماجی تربیت اور سیاست کے حوالے سے راہنما ہیں ٬کفار اور مشرکین کے ساتھ طر ز عمل دیت ٬حدود تعزیرات اور محروم لوگوں کے دفاع کے حوالے ہیں-

ایسے منحرف نظریات کے اسباب:
اسے منحرف نظریات کی وجوہات اور اسباب مندرجہ ذیل ہیں:
۱: کوتاہ فکری اور دین کے حوالے سے کافی بصیرت کا نہ ہونا
۲: اخلاقی انحرافات (دوسرے نظریے کے قائل)
۳: سیاسی انحرافات (چوتھے اور پانچویں نظریے والے)
۴: یہ وہم رکھنا کہ امام زمانہ طاقت کے زور سے یا معجزہ کے ذریعے تمام کاموں کو انجام دیں گے لہذا انکے ظہور کےلیے اسباب فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہے-
۵: یہ وہم رکھنا کہ امام زمانہ سے ہٹ کر کوئ شخض بھی مکمل طور پر برا ئیوں اور فساد کو ختم نہیں کرسکتا اور معاشرہ کے تمام پہلوں میں خیروصلاح کو نہیں جاری کرسکتا-
۶: اچھے ہدف تک پہنچنے کےلیے ہر قسم کے وسیلہ کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے لہذا جلد ظہور کے زمانہ تک پہنچے کےلیے فساد اور برائ کو عام کیا جاۓ-
۷: وہ روایات جو آخری زمانہ میں طلم و جور کی بات کرتی ہیں انہیں درست نہ سمجھنا بلکہ یہ غلط فکر کرنا کہ جو ہوتا ہے وہ ہوتا رہے ہمارا ان برائیوں سے کوئ تعلق نہیں یا یہ کہ دوسروں کو بھی ان برائیوں کی طرف دعوت دینا-
۸: ایسے سیاستتدانوں یا وہ سیاست جو اسلامی معاشروں کو زوال کی طرف لے جا رہی ہے ان سے بڑھ کر خود ابھی ایسی روایات کو غلط انداز سے سمجھنا کہ جو ظہور سے پہلے ہر علم کو باطل قرار دے رہی ہیں

ایسے منحرف نظریات کا مقابلہ اور علاج
ان نظریات کا تفصیلی جواب دینے سے پہلے چند مفید نکات جاننا ضروری ہے :
۱: ان غلط نظریات اور غلط سمجھنے کے مد مقابل دین میں علم و بصیرت پیدا کرنا –
۲: ہوا و ہوس کے مد مقابل تقوی
۳: سیاسی اور معاشرتی میدانوں میں علم و بصیرت سے کام لینا تاکہ دشمن اور دوست کی پہچان ہو اور سیاست دانوں کی فعالیت واضح ہو-
۴: دینی و سیاسی اور معاشرتی مسائل کے بیان میں علماء اور دانشوروں کا واضح اور روشن کردار –
۵: ایسے سچے اور مخلص علماء کی پیروی کہ جو امام کے نائب عام شمار ہوتے ہوں
۶: پسماندہ اور جمود میں ڈالنے والے نظریات کو پس پشت ڈالنا –

 
تفصیلی جواب :

۱: امام زمانہ(عج) کا قیام اور دیگر امور معمول کے مطابق انجام پائیں گے ایسا نہیں ہے کہ یہ سب معجزہ کے ساتھ انجام پاۓ گا-جیسا کہ امام صادق ۜ فرماتے ہیں:
٫٫ لو قد خرج قائمنا ۜ لم یکن الا العلق و العرق و النوم علی السروج ٬٬(غیبت نعمانی باب ۱۵ ص۲۸۵)
جب ہمارے قائم (عج) قیام فرمائیں گے تو سب فقط زینوں (سواریوں )پر خون و پسینہ گرائیں گے اور نیند چھوڑ دیں گے
یعنی ایسا نہیں کہ سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہیں گے اور امام معجزہ کے ساتھ جنگ کریں گے نہ بلکہ سب اس جنگ میں شریک ہونگے اپنا آرام و خون اس پر قربان کریں گے-


۲: امام زمانہ(عج) کے قیام سے پہلے لوگ اس قیام کے اسباب فراہم کریں گے اور تیاری کریں گے جیسا کہ روایات ایک گروہ کے بارے میں ذکر ہوا ہے کہ وہ امام مہدی کی حکومت کےلیے تیاری کریں گے -٫٫ فیوطئون غیبۃ والقائلین بامامتہ و المنتظرین لظہورہ افضل من اھل کل زمان ۔ ۔ ۔ ۔ اوﻟئک المخلصون حقا و شیعنا صدقا و الدعاة الی دین الله سرا و جهرا (الاحتجاج ج۲ ص۳۱۷ )
غیبت کے زمانہ میں امام کی امامت کے قائل اور انکے ظہور کے منتظر ہر زمانے والوں سے افضل ہیں ۔ ۔ ۔ وہ حقیقی طور پر مخلص ٬سچے شیعہ اور اللہ کے دین کی طرف علانیہ اور خفیہ دعوت دینے والے ہیں –


۳: اگر انسان کسی امر میں مکمل طور پر اصلاح نہیں کرسکتا تو اپنی طاقت کے مطابق کرنا اس پر فرض ہے یہ اس سے ساقط نہیں ہوگا-


۴: یہ نظریہ کہ جلد ظہور ہونے کیلئے گناہ کریں مکمل طور پر غلط ہے کیونکہ جسطرح امام مھدی (عج) کی حکومت ظلم و جور کو ختم کرنے والی اور عدل و انصاف کو قائم کرنے والی ہے اس حکومت تک پہنچنے کا راستہ بہی اسی طرح ہے کہ اس راستے میں نہ کسی پر ظلم ہے نہ شقاوت ہے نہ ریاکاری اور جھوٹ ہے کبہی بہی مقدس ھدف کی بنا پر گناہ جائز نہیں ہوتا کیونکہ گناہ سے گناہ پیدا ہوتا ہے اور ظلم سے کبہی عدل جنم نہیں لیتا۔


5۔ واضح سی بات ہے کہ ایسا ضروری نہیں ہے کہ سب لوگ ظالم یا فاسد ہو جائیں تو پہر زمین کا ظلم سے بہر جانا ہوگا۔ نہ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں ظالم ہونگے اور مظلوم بہی ہونگے اور امام زمانہ کے محبین ہونگے جو مسلسل فعالیت اور کوشش سے آپکے ظہور کیلئے راہ ہموار کریں گے۔ جیسا کہ امام صادق نے فرمایا ہے !۔۔۔۔۔۔۔لا والله لایاتیکم حتی یشقی من مشقی و یسعد من سعد(کمال الدین ج ۲ ص ۳۴۶) یہ ظہور اسوقت تک بپا نہیں ہوگا جب تک ظالم اور نیک اپنے کام کاانجام نہ دیکہ لیں۔
پس معلوم ہوا کہ اس روز میں سب ظالم اور فاسد نہیں ہونگے بلکہ ظالموں کے ساتہ نیک بہی ہونگے البتہ ظالم اپنے ظلم کریں گے کہ معلوم ہوگا دنیا ظلم سے پرہوگئ ہے اور دنیا میں اب نیک لوگوں کے لئے اب جگہ نہیں رہی۔ دوسری بات یہ ہے کہ آیات اور روایات میں ہمیں ظلم و ستم سے جنگ کرنے کی دعوت دی گئ ہے جیسا کہ آنحضرت فرماتے ہیں:
یکون فی آخر الزمان قوم یعملون المعاصی و یقولون ان الله قد قدرها علیهم٬ الراد علیهم کشا هر سیفه فی سبیل الله(الطرائف ج ۲ ص۳۴۴)
آخری زمانہ میں ایک گروہ معصیت کرے گا اور کہیں گے کہ اللہ نے یہ انکی قسمت میں لکہا تہا(یعنی جبر کے قائل ہونگے) تو جو انکی باتوں کو رد کرے گا اس شخص کی مانند ہے کہ جس نے اللہ کی راہ میں تلوار چلائی ہو۔


۶۔ یہ جو بعض روایات میں آیا ہے کہ ظہور سے قبل پر علم اور پرچم باطل ہے اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ معاشرہ کی اصلاح کیلئے ہر تحریک اور قیام با طل ہے نہ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہر وہ قیام اور تحریک جو امام زمانہ کے نام سے شروع ہو(کوئ جھوٹا دعوی کرے)وہ باطل ہے ۔اسی لیے آئمہ نے حضرت زید کے قیام اور انکی مانند اسی طرح کی دیگر کوششوں کی تائید کی مثلا امام کاظمۜ فرماتے ہیں:
رجل من اهل قم یدعو الناس الی الحق یجتمع معه قوم کزبر الحدید لا تزلّهم الریاح العواصف و لا یملّون من الحرب و لا یحبنون علی الله یتوکلون و العاقبة للمتقین (سفینۃ البحار ۷ ص۷)
اہل قم میں سے ایک شخص لوگوں کو حق کی طرف دعوت دے گا اس کے حامی محکم اور فولادی جذبوں والے ہونگے کہ جو جنگ سے تھکیں گے نہیں اور نہ دشمن سے خوف کھائیں گے فقط اللہ پر توکل کریں گے اور اچھی عاقبت ان کےلیے ہے کہ جو اھل تقوی ہوں
امام باقر ۜ ظہور سے پہلے ظالموں سے جنگ کرتے ہوۓ قتل ہونے والوں کو شہدا کے عنوان سے ذکر کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ قتلا هم شهدا(غیبت نعمانی باب ۱۶ ص۲۷۳)
امام خمینی رہ اللہ فرماتے ہیں :پوری دنیا کو عدالت سے بھرنا یہ ہم نہیں کرسکتے اگر کر سکتے تو ضرور کرتے لیکن چونکہ ایسا نہیں کرسکتے –اگر طاقت ہوتی تو ضرورت روکتے چونکہ ظلم روکنا ہمارا شرعی وظیفہ ہے لیکن یہ پوری دنیا کا ظلم چونکہ ہم نہیں روک سکتے تو ضروری ہے آپ ۜ تشریف لائیں لیکن ہم کو چاہیے کہ امام کی نصرت کے لیے کام کریں اس کام کے اسباب فراہم کریں اس طرح تیاری کریں کہ ان کے آنے کے تمام اسباب مہیا ہوں-
یہ جو کہتے ہیں کہ ہر حکومت و علم انتطار فرج کے خلاف ہے یہ نہیں سمجھتے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں –یہ جو لوگوں کے ذہنوں میں یہ ڈال رہیں ہیں لیکن خود نہیں سمجھتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں حکومت صالح نہ ہو یعنی لوگ ایک دوسرے پر تجاوز کریں-
ایک دوسرے کو قتل کریں اور مار دیں یہ سب قرآنی آیات کے خلاف بات ہے فرض کرو ایسی اگر ۲۰۰ روایات بھی ہو پس سب کو دیوار پر دے مارتے چونکہ یہ روایات قرآنی آیات کےخلاف ہیں جو روایات یہ کہتی ہیں کہ نہی عن المنکر نہ کرو وہ قابل عمل نہیں ہے بلکہ آپ لوگ انکے تشریف لانے کے اسباب مہیا کریں اکٹھے ہوں مل جل کر کام کریں کہ انشاء اللہ حضرت ظہور فرمائیں ٬
اب جبکہ ہم زمانہ غیبت میں ہیں ضروری ہے اسلام کے حکومتی احکام باقی رہیں اور جاری ہوں تاکہ لوگوں میں فتنہ و فساد پیدا نہ ہو ضروری ہے اسلامی حکومت تشکیل پاۓ ٬ عقل بھی یہی کہتی ہے تاکہ اگر دشمنان اسلام ہم پر حملہ کریں ہم ان کو روک سکیں اگر مسلمانوں کی ناموس پر حملہ ہوگا تو ہم دفاع کرسکیں-
غیبت صغری سے لیکر اب تک ہزار سال اور چند صدیاں گذر گئیں اور ممکن ہے لاکھوں سال اور گذر جائیں کبھی مصلحت پیدا نہ ہو کہ آپ ظہور کریں تو اس مدت میں اسلامی احکام اسی طرح پڑے رہیں گے ٬جاری نہ ہو ٬جو بھی کچھ کرے کرتا رہے ظلم و فساد ہوتا رہے؟
ایسی باتوں پر عقیدہ رکھنا تو اسلام کے منسوخ ہونے کے عقیدہ سے بھی بد تر ہے –
اب جبکہ غیبت کا زمانے میں اللہ تعالی کی طرف سے کوئ خاص شخص اسلامی حکومت کی تشکیل کےلیے معین نہیں ہے تو ہماری شرعی ذمہ داری کیا ہے ؟ آیا اسلام کو چھوڑ دیں آیا اسلام صرف دو سو سال تک تھا اب ہمارے لیے کوئ تکلیف نہیں یا یہ کہ حکومت بنانے کی کوئ ذمہ داری نہیں ہے اسلامی حکومت نہ ہونے کا معنی یہ ہے کہ مسلمانوں کی کوئ حدود نہیں (نہ کوئ قانون نہ کوئ اجراء)ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں-وہ جو کریں کرلیں ہم خاموش رہیں ۔ ۔ ۔ ۔ (صحیفہ امام ج۲۱ ص۱۶ ٬۱۷٬۱۸)

نتیجہ گفتگو:
آیات و روایات سے ٫٫امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ٬٬ حدود کا اجرا کرنا ٬ دیتوں کا دیا جانا ٬دفاع ٬جھاد ٬محروم لوگوں کی مدد٬ظلم کا مقابلہ ٬وغیرہ موضوعات پر حکم ملنا بتاتا ہے کہ ہم مثبت انتظار کریں نہ منفی نظریے والا انتظار –
دوسری طرف باطنی پیغمبر یعنی عقل نے بھی ہماری ذمہ داریاں واضح کیں ہیں کہ :


۱)یہ ممکن ہے کہ زمانہ غیبت میں زمانہ ظہور تک تمام احکام اور فرامین خدا ایک سائیڈ پر رکھ دیے جائیں انکو کوئ اجراء کرنے والا نہ ہو؟ ضروری ہے کہ انکا محافظ اور انکا اجراء کرنے والا ہو تاکہ دین خدا جاری رہے یہ دین قیامت تک ہر لحظہ لحظہ کےلیے ہے ایسے لوگ ہوں جو اس کےنگہبان ہو اس کے احکام اجرا کریں اور عمل کریں-
اس طرح لوگوں کو زمانہ ظہور کے لیے تیار کریں جیسا کہ روایات میں ہے ٫٫فیوطئون للمهدی یعنی سلطانه٬٬


۲) امام زمانہ کا پروگرام بہت بلند لیکن مشکل ہے کیونکہ آپ نے پوری دنیا کی اصلاح کرنی ہے ۰دوسری طرف سے روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ نے اپنے اصحاب اور ماننے والوں کے ساتھ کفر اور مادیت پرستوں کے خلاف جنگ و جہاد کرنی ہے اپنی جنگی قوتوں کی مدد دشمنوں اور ظالموں کی فو ج کو شکست دینی ہے ان مندرجہ بالا دو چیزوں کو دیکھتے ہوۓ اب مسلمانوں کی ذمہ داری کیا ہے ؟
اول:
اپنی اصلاح میں مشغول ہوں ٬ اسلامی اخلاق سے آراستہ ہوں اور اپنے شخضی احکام اور ذمہ داریوں پر عمل کریں کہ جو قران و سنت سے ان پر لاگو ہوتے ہیں-
دوم :
اسلام کے اجتماعی حیثیت کے احکام کو ڈھونڈیں کریں اور اسے مکمل طور پر اجراء کریں تاکہ اسلامی احکام کے عملی نتائج دنیا والوں کے سامنے روشن ہوں۰
گویا اصلاح کرنے والے منتظرین پہلے خود اپنی اصلاح کریں- امام زمانہ کا عظیم ہدف ایک وسیع پیمانے کا انتظار چاہتا ہے کہ جس میں مسلمان خود کو تیار کریں کہ کیسے انہوں نے اسلام کی قدرت کو دنیا میں محقق کرنا ہے اور اسباب ظہور کو فراہم کرنا ہے –

 
بے فائدہ آرزو

بعض لوگ یہ گمان رکھتے ہیں کہ فقط اہل بیت پر عقیدہ اور امام زمانہ کی محبت کافی ہے ان لوگوں کے خیال کے مطابق انہیں اپنے گناہوں کے مد مقابل عذاب نہ ہوگا –اس قسم کے غلط خیال اور گمان کو قرآن اور روایات میں رد کیا گیا ہے اور ایسے گمان کو تمنی کاذب یا امید کاذب کا نام دیا گیا ہے – یہ لوگ اہل کتاب کی مانند ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہی کہ وہ بظاہر اس دین و مذہب پر ہیں پس اہل سعادت ہیں اور انہیں بد عملیوں پر عذاب نہ ہوگا- قرآن میں ہے :
٫٫و قالوا یدخل الجنة الا من کان هودا او نصاری تلک امانیهم قل هاتوا برهانکم ان کنتم صادقین (بقرہ ۱۱۱)
اور وہ کہتے ہیں کہ کوئ بھی جنت میں نہیں جاۓ گا مگر یہ کہ وہ یہودی یا عیسائ ہو یہ ان کی آرزوئیں ہیں آپ کہیے اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیلیں لیکر آو
روایات میں بھی اس گروہ کو جھٹلایا گیا ہے اور انہیں کذب المتمنون (غیبت نعمانی باب ۱۱ص۱۹۷) کا عنوان دیا گیا ہے کہ جس کا مطلب ہے کہ خیالی باتوں میں پڑے آرزومند جھوٹے ہیں)
امام صادق ۜ کے فرزند حضرت اسماعیل کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی سے پوچھا:ہمارے گناہ گاروں اور ہمارے غیر گناہ گاروں کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟تو امام نے یہ آیت تلاوت فرمائ ٫٫لیس بامانیکم و لا امانی اھل الکتاب من یعمل سوءا لیجز بہ ۔ ۔ ۔(سورہ نسا ۱۲۳) تمہاری آرزوں کو اہل کتاب کی آرزوں پر فضیلت حاصل نہیں ہے جو بھی برا عمل کرے گا اس کی سزا پاۓ گا ۔ ۔ ۔ تو اسماعیل کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق ۜ کی خدمت میں عرض کی :
ایک گروہ گناہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں امید و رجا ہے اور وہ اسی طرح رہتے ہیں یہانتک کہ مر جاتے ہیں امام نے فرمایا:یہ وہ ہیں جو اپنی آرزوں میں غرق رہے اور انکی آرزوں نے انہیں راہ حق سے منحرف کردیا وہ جھوٹ بولتے ہیں وہ اہل رجاء اور امید نہیں ہیں-
یقینا جو کسی چیز کی امید میں ہوں اسے طلب میں رہتا ہے اور جو کسی چیز سے ڈرتا ہے اس سے پرہیز کرتا ہے (اصول کافی ج۲ ص۶۸)
حقیقی امید اور رجا ایک اور چیز ہے مفضل کہتے ہیں امام صادق نے فرمایا:
ایاک و السفلة فانما لشیعة علی من عف بطنه و فرجه و اشتد جهاده و عمل لخالقه و رجا ثوابه و خاف عقابه فاذ ارایت اوﻟئک فاوﻟئک شیعة جعفر
(وسائل الشیعہ ج۱ باب۲۰ ص۸۶)
پست لوگوں سے پرہیز کرو فقط وہ علی کے شیعہ ہیں کہ جو شکم و شہوت کے مسائل میں عفت رکھتے ہیں ٬کو شش و زحمت کرتے ہیں٬اللہ کیلئےعمل کرتے ہیں اسی کے ثواب کی امید رکھتے ہیں اور اسکے عذاب سے ڈرتے ہیں جب تم ایسے افراد کو دیکھو تو جان لو یہ لوگ جعفر بن محمد صادق کے شیعہ ہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگ اھل بیت کی طرف توسل اور انکی شفاعت کے موضوع کی طرف توجہ و دقت کیے بغیر یہ غلط فکر خطابت یا شعر کے ذریعے لوگوں کے ذہن میں منتقل کر رہے ہیں۔

ایسی طرز فکر کے نتائج:
۱۔اپنے فردی اور اجتماعی وظائف اور تکالیف(واجبات و محرمات) پر عمل نہ کرنا
۲۔منفی قسم کا انتظار کرنا کہ جسمیں امام کے حوالے سے نہ عملی قدم اٹھایا گیا ہے اور نہ کوئی وظیفہ انجام دیا گیا ہے
۳۔فضول وہم(کہ جسمیں انسان اپنے طرز عمل سے خواہ مخواہ ناراض رہتاہے اور حقیقت سے آنکھیں بند رکھتا ہے)

ایسی فکر کے اسباب:
۱۔ہمیشہ خیالات اور آرزوں میں رہتے ہوئے حقیقی امید و رجا اور توہمات میں فرق نہ سمجھنا
۲۔نفسانی خواہشات جیسا کہ سورہ قیامت کی آیہ۵ میں ہے(بل یرید الانسان لیفجر امامہ) انسان معاد میں شک نہیں رکھتا بلکہ وہ چاھتا ہے کہ آزاد رہے اور بغیر کسی حساب و کتاب کے ڈر کے ساری عمر گناہ کرے
۴۔اللہ تعالی کی صحیح معرفت نہ ہونا اگر چہ وہ مھربان ہے لیکن حکیم اور عادل بہی ہے
۵۔آئمہ علیھم السلام کی نسبت جذباتی اور غیر منطقی نگاہ رکھنا۔

علاج:۔
۱۔ آیات و روایات میں غور و فکر اور تدبر مثلایہ آیت(ان اکرمکم عند اللہ اتقیکم) حجرات۱۳ اللاہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ با فضیلت شخص وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے
۲۔ اس نکتہ کی طرف توجہ رکھنی چاہیے کہ اعمال کا معیار و ملاک خالص نیت کے ساتھ ساتھ فردی اور اجتماعی و ظائف کو انجام دینے میں ہے-
بسم الله الرحمن الرحیم و العصر ٬ان الانسان لفی خسر الا الذین آمنو و عملو الصالحات و تو اصو بالحق و تواصو بالصبر(سورہ والعصر)
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے
زمانہ کی قسم تمام انسان خسارے میں ہیں مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور اعمال صالح انجام دیےاور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرتے ہیں اور صبر کی تلقین کرتے ہیں۔

 
دنیاوی اقدار کےلیے عشق

بعض لوگ آئمہ اور امام زمان(ع) سے صرف دنیاوی مفادات اور دنیاوی جاہ و منصب کی خاطر محبت کرتے ہیں حتی کہ اگر امام زمان(ع) کے ظہور کےلیے دعا بھی کریں تو بھی اپنے دنیاوی طمع کی خاطر ہے جیسا کہ امام صادق ۜ سے نقل ہوا کہ ہمارے بارے لوگوں کی تین اقسام ہیں:دو قسم وہ لوگ ہیں کہ جو جاہ و مقام کی خاطر اور لوگوں کو ضرر پہنچانے کی خاطر ہم اہل بیت سے محبت کا اظہار کرتے ہیں اور تیسرا گروہ (ایسا نہیں ہے)ہم اہل بیت میں سے ہے اور ہم ان سے ہیں(تحف العقول ص۵۱۳)
تو یہ جو دنیاوی طمع کی خاطر امام سے محبت کا دعوی رکھتے ہیں اور انکے لیے ظہور کی دعا مانگتے ہیں اگر کچھ مصالح کی بنا پر امام ان پر توجہ نہ کریں تو یہی لوگ اہلبیت کی دشمنی میں کھڑے ہوجاتے ہیں تاریخ میں طلحہ و زبیر بہت تھے اور بہت ہونگے –البتہ یہاں جو ہم پیش کرنا چاہتے ہیں وہ انحراف عمومی ہے کہ اکثر لوگ ایسی نگاہ آئمہ کے حوالے رکھتے ہیں-
امام سے توسل کرنا اور انکو اللہ کی درگاہ میں واسطہ قرار دینا اگرچہ ایک صحیح امر ہے اور روایات میں اسی پر تاکید ہوئی ہے لیکن یہ سب کچھ صرف دنیاوی امور اور دنیاوی مشکلات دور کرنے کیلئے ہو تو یہ عدم معرفت کی علامت ہے معلوم یہ ہوتا ہے کہ ایسے کرنے والے کو ابھی نہ امام کی معرفت و شناخت حاصل ہے کہ امام کیسی با عظمت ذات ہے اور اس کائنات میں اسکا کیا مقام و اہمیت ہے اور نہ اسےع اپنے لیے امام کی ضرورت کا صحیح ادراک حاصل ہے کہ مجھے اور میرے وجود کو امام کی کیا ضرورت ہے؟

ایسی طرز فکر کے نتایج :
۱: امام سے دشمنی وبعض
۲: خواہشات اور احتیاج الہی مصالح کی بنا پوری نہ ہو تو امام کے حوالے سے عقیدہ کم ہونا یا عقیدہ ختم ہوجانا

ایسی طرز فکر کے اسباب:
۱: امام اور امامت کے مقام کا درک نہ کرنا
۲: خود خواہی اور اپنی ضرورت کو فقط دیکھنا

علاج:
۱: دین میں غور و فکر کرتے ہوۓ معرفت پیدا کرنا
۲: امامۜ کی چاہت و حکم کو اپنی خواہشات پر مقدم رکھنے کی مشق کرنا اور اپنی تربیت کرنا-
حضرت سلمان فارسی رض کی ایک صفت کہ جن کی بنا پر وہ ممتاز شخصیت کے حامل تھے یہ تھی کہ امام کی طلب و حاجت کو اپنی خواہشات پر مقدم رکھتے تھے-
منصور بزرج روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام صادقۜ کی خدمت میں عرض کیا :
اے میرے مولا و آقا میں اکثر آپ سے سلمان فارسی کا ذکر سنتا ہوں آپ نے فرمایا:یہ نہ کہو سلمان فارسی بلکہ کہو سلمان محمدی تم جانتے ہو میں کیوں ان کا بہت زیادہ ذکر کرتا ہوں میں نے عرض کیا نہیں آپ نے فرمایا انکے تین اوصاف کی بنا پر انکا زیادہ ذکر کرتا ہوں ایک یہ کہ وہ امیر المومنین کی حاجت کو اپنی حاجت پر مقدم رکھتے تھے دوسرا یہ کہ فقراء سے محبت کرتے تھے اور انہیں امراء پر مقدم رکھتے تھے – تیسرا یہ کہ علم اور علماء سے محبت رکھتے تھے-(امالی طوسی ٬مجلس ۵ ص۱۳۳)

 

مہدویت اور انکی نیابت کے جھوٹے مدعی

ہر زمانہ میں ایک گروہ نے مھدویت کے جھوٹے دعوے کیے یا دوسروں نے انکی طرف اپنی نسبت دی اور اس طرح مختلف فرقے ایجاد ہوۓ-
اسی طرح غیبت صغری اور غیبت کبری میں ایسے لوگ بھی تھے کہ جنہوں نے امام کی خاص نیابت یا انکا وکیل ہونے کے جھوٹے دعوی کیے یہ دعوے مختلف صورتوں میں سامنے آۓ –
۱: دعوی مہدویت
۲: انکی خاص نیابت ٬وکالت ٬اور بابیت ۔ ۔ ۔ ۔ وغیرہ کے دعوے یعنی ایسے افراد میں کہ جو دعوی رکھتے ہیں کہ جب چاہیں امام سے رابط کرسکتے ہیں اور انکے ذریعے مشکلات حل ہوتی ہیں اور وہ لوگوں اور امام کے درمیان رابطہ اور باب ہیں بظاہر امام سے لوگوں کےلیے پیغام لاتے ہیں اور لوگوں کے پیغام امام تک پہنچاتے ہیں
۳: عمومی نیابت :
بعض لوگ خود کو علماء اورفقہا و مراجع کی جگہ پر پیش کرتے ہیں حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ اس دور میں عقل و حدیث سے ہمارا وظیفہ یہ ہے کہ ہم فقط علماء اور فقہا کی طرف رجوع کریں لیکن یہ لوگ قرآن و سنت سے ہٹ کر عجیب وغریب چلّے کے راستے بتاتے ہیں اور لوگوں کو فریب دیتے ہیں

ایسی طرز فکر کے نتائج:
۱: لوگوں کی گمراہی
۲: اہل بیت کی راہ سے دوری
۳: دین سے کھلینا
۴: انحرافی فرقوں کی پیروی کی وجہ سے دین میں اختلافات ڈالنا

ایسی طرز فکر کے اسباب :
۱: روحی اور نفسیاتی مشکلات کہ احساس کمتری کی بنا پر اپنی شخصیت اور ذات کو لوگوں کے سامنے کسی بہانے سے پیش کرنا اور منوانا
۳: اخلاقی مشکلات اور ایمانی ضعف
۴: توہمات اور خیالی پروازیں
۵: ہوا و ہوس اور دنیاوی جاہ و مقام کی خواہش
۶: جہالت اور نا آگاہی
۷: علماء اور دانشوروں کا سکوت یا موقع پر رد عمل کا اظہار نہ کرنا
۸: سیاسی مشکلات اور اغیار کی سازشیں جیسا کہ محمد علی باب کو اغیار نے تیار کیا –
۹: امام کے مقام اور انکی نیابت کے حوالے سے ضروری معرفت و شناخت کا نہ ہونا

علاج:
۱: تقوی اور تہذیب نفس
۲: علماء کی اور دانشوروں کی دینی اور سیاسی علم و بصیرت
۳: علماء اور دانشوروں کی طرف ان امور میں راہنمائ کرنا اور منحرف لوگوں کی تکذیب کرنا
۴: اسلامی حکومت کا ان لوگوں سے قاطعانہ برتاو
۵: انحرافات اور بدعتوں کے معاملے میں تسامح اور چشم پوشی نہ کرنا-

 
ولایت فقیہ اور عمومی نائبین کی پیروی نہ کرنا

ایک چیز کہ جس سے اسلامی وحدت کو نقصان پہنچتا ہے اور اسلام و مہدویت کے دشمنوں کو فعالیت اور سازشیں کرنے کا موقع ملتا ہے وہ یہ ہے کہ غیبت کبری میں امام زمانہ کے عمومی نائب فقہا اور مراجع عظام کی پیروی نہ کرنا حالانکہ احادیث میں انکی اطاعت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے –

 

نتائج :
۱: گمراہی و ضلالت
۲: افراد ملت اسلامیہ کا بکھرنا اور عدم وحدت
۳: دشمن کے مد مقابل شکست اور مقابلہ کی ہمت ختم ہونا

 

اسباب:
دین میں کافی بصیرت نہ رکھنا
عقلی اور نقلی دلائل کی طرف توجہ نہ کرنا
۳: امام زمانہ کی ڈائرکٹ پیروی کا وہم رکھنا
۴: زمانہ غیبت میں امام کے خاص نائبین کی توقع رکھنا
۵: ہوا و حوس
۶: سیاسی اغراض اور اغیار کی شیطانیت

 

علاج:
عمومی نائبین یعنی فقہا اور مراجع کی تقلید کی ضرورت کو واضح کرنا
امام صادق ۜ کا فرمان ہے :فقہا میں سے وہ فقیہ کہ جو اپنے نفس کو بچانے والا ٬اپنے دین کا محافظ ٬اپنی خواہشات کا مخالفت کرنے والا اور اپنے مولی کی اطاعت کرنے والا ہو تو عوام کو چاہیے کہ اس کی تقلید کریں-
اس طرح کی صفات رکھنے والے بعض فقہا شیعہ ہیں نہ سب (وسائل الشیعہ ج۲۷ ص۱۳۱) غیبت صغری میں دوسرے خاص نائب محمد بن عثمان عمری کی توقیع میں امام زمانہ نے اسحاق بن یعقوب کو خطاب میں یہ فرمایا: حوادث اور پیش آنے والے مسائل میں ہماری احادیث کے راوی(فقہا)کی طرف رجوع کرو کیونکہ وہ میری طرف سے تم پر حجت ہیں اور اللہ کی طرف سے تم پر حجت ہوں (غیبت طوسی فصل ۴ ص۲۸۰)
۲: دینی اور سیاسی بصیرت
۳: ایسے فقیہ کہ جو ان امور کے اہل اور عہدہ دار ہیں انکی تمام علماء اور دانشور حضرات حمایت کریں –
۴: علماء اور دانشوروں کے تعاون کے ساتھ اسلامی معاشرہ کی دینی ٬فکر ٬سیاسی اور سماجی مشکلات حل کرنے کےلیے کوشش اور زحمت کرنا-

 
حضرت مہدی کی امامت پر عقلی دلائل

تمام اسلامی مذاہب اور مکاتب امام ٬پیغمبرۖ کے خلیفہ اور مسلمانوں کے رہبر کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اس مسالہ میں تمام مسلمان خواہ شیعہ یا سنی سب متفق ہیں-
اہل سنت میں یہ مسالہ اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ جب ان پر اعتراض کیا جاۓ کہ ابھی پیغمبر اکرمۖ کے وجود کو غسل و کفن نہیں دیا گیا تھا تو کیوں اصحاب کہ جن میں خلیفہ اول و دوم بھی شامل تھے سقیفہ کے ماجرا میں پیغمبر اکرم کی جانشینی والے مسالہ میں پڑ گۓ تو وہ کہتے ہیں کہ امامت اور امت اسلامی کی رہبری پیغمبر اکرم ۖ کے کفن و دفن سے اہم ہے –
پس امام کی ضرورت کا مسالہ نہ صرف شیعہ بلکہ اہل سنت کے مختلف فرقوں کےلیے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے یہ کہ ایک امام و خلیفہ ضرور ہونا چاہیے جس میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں رکھتے البتہ یہ کہ وہ کیسا ہونا چاہیے ان مسائل میں اہل سنت کا ایک مکتب شیعہ سے اختلاف نظر ہے –
یہاں سب سے پہلے ہم شیعہ و سنی فرقوں کی اس مسالہ میں راۓ بیان کریں گے-

 
شیعہ کلامی فرقے:

۱:امامیہ اثنا عشریہ

امامیہ کی نظر میں امامت واجب ہے اس کی تا ئید کےلیے امامیہ کے ایک بڑے عالم خواجہ نصیر الدین طوسی کی کلام پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
الامامیة یقولون نصب الامام لطف ٬لانه یقرب من الطاعة و یبعد عن المعصیة و اللطف واجب علی الله (تلخیص المحصل ص۴۰۷)
امامیہ کہتے ہیں کہ امام کا نصب کرنا لطف ہے کیونکہ امام لوگوں کو اطاعت کے قریب کرتا ہے اور گناہ سے دور کرتا ہے اور یہ لطف اللہ تعالی پر واجب ہے –

نوٹ :
اگرچہ فریقین امامت کے وجوب کے قائل ہیں لیکن یہ کہ یہ اللہ تعالی پر واجب ہے یا لوگوں پر واجب ہے اس میں اختلاف نظر رکھتے ہیں
یہ کہ اللہ ر واجب ہے یہ شیعوں کا کلامی (علم کلام سے متعلق)وجوب ہے اور یہ کہ لوگوں پر واجب ہے یہ اہل سنت کا فقہی (علم فقہ سے مربوط) وجوب ہے
وجوب کلامی سے مراد یہ ہے کہ کوئ فعل عدل ٬حکمت ٬ جود ٬رحمت یا کوئ اور الہی صفات کمالیہ کے تقاضوں کے مطابق ہو اور ایسے فعل کا ترک چونکہ الہی ذات میں نقص کا موجب ہے لہذا محال ہے پس ایسے فعل کا انجام دینا ضروری ہے اور واجب ہے
البتہ یہ بات واضح ہے کہ کوئ اللہ پر کسی فعل کو واجب قرار نہیں دیتا بلکہ وہ خود اپنی صفات کمالیہ و جمالیہ کے تقاضوں کے مطابق اسے اپنے اوپر واجب قرار دیتا ہے کہ جیسا کہ پروردگار فرما رہا ہے :کتب ربکم علی نفسه الرحمة٬ ٬ ٬ تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو فرض کیا۔ ۔ ۔ ٫٫ان علینا للهدئ٬٬ ہمارا فرض ہدایت ۔۔۔اسی طرح دیگر آیات ۔۔ ۔ ۔ ۔
امامیہ چونکہ امامت کو الہی حکمت و لطلف کے تقاضوں کے مطابق جانتے ہیں لہذا اسے اللہ تعالی پر واجب شمار کرتے ہیں-

 
۲ :اسماعیلیہ :

مشہور یہی ہے کہ اسماعیلیہ بھی امامیہ کی مانند وجوب امامت کے قائل ہیں لیکن امامیہ کے ساتھ فلسفہ امامت میں اختلاف نظر رکھتے ہیں انکے نزدیک امامت کا فلسفہ فقط یہ ہے کہ وہ اللہ تعلی کی معرفت کی بشر کو تعلیم دے-(ارشاد الطالبین ص۲۲۷)

 
۳: زیدیہ :

یہ بھی امامیہ کی طرف وجوب امامت کے قائل ہیں لیکن امامت کی شرائط اور مصادیق میں امامیہ کے ساتھ بہت زیادہ اختلاف نظر رکھتے ہیں-(قواعد العقائد ص۱۷)

 
اہلسنت کے کلامی فرقے:

 
۱: اشاعرہ :

یہ امامت کے وجوب کے قائل ہیں لیکن یہ چونکہ حسن و قبح عقلی کے قائل نہیں ہیں لہذا امامت کا وجوب لوگوں پر سمجھتے ہیں بالفاظ دیگر وجوب فقہی کے قائل ہیں دوسرا یہ کہ یہ لوگ امامت پر وجوب عقلی کے قائل نہیں ہیں بلکہ یہ وجوب انکے نزدیک دلیل نقلی سے ثابت ہے (شرح مواقف ج۸ ص۳۴۵)

 
۲: معتزلہ :

اکثریت معتزلہ بھی وجوب امامت کے قائل ہیں اور یہ وجوب انکے نزدیک بھی دلائل نقلی سے ثابت ہوتا ہے-

 
۳: ماتریدبہ :

یہ بھی اشاعرہ کی مانند وجوب امام کے قائل ہیں اور یہ وجوب انکے نزدیک بھی دلائل نقلی سے ثابت ہوتا ہے

 
۴: وھابیہ :

یہ لوگ بھی امامت و خلافت کو واجب سمجھتے ہیں لیکن اس کےواجب کفائ ہونے کے قائل ہیں(لمعۃ الاعتقاد ص۱۵۶)
یہاں سے معلوم ہوا کہ شیعہ سنی فرقے امام کے وجوب کے قائل ہیں اس حوالے سے اتفاق نظر رکھتے ہیں اگر چہ اختلاف دیگر مسائل میں ہے کہ آیا یہ خدا پر واجب ہے یا لوگوں پر
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وجوب امامت پر کونسی ادلہ ہیں یہاں اجمالی طور پر بعض ادلہ کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے :

 
۱: قاعدہ لطف:

ایک عقلی دلیل و برہان کہ جس کی بنا پر اکثر متکلمین نے وجوب امامت پر استدلال کیا٬ قاعدہ لطف ہے شیخ طوسی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: لطف وہ عنایت ہے کہ انسان کو جو کام ضروری کرنا چاہیے ا سکے انجام دینے پر برانگیختہ کرتا ہے اور اسے اس کام میں مدد فراہم کرتا ہے اگر اس کی طرف سے انگیزہ اور مدد نہ ہو تو انسان وہ کام انجام نہیں دے سکتا اسی طرح ہو کام جو انسان کو نہیں کرنا چاہیے لطف اسے اس کام سے دور کرتا ہے لطف کے تین مراحل ہیں:
۱: توفیق:
کام کو انجام دینے کےلۓ ضروری وسائل اور امکانات فراہم کرنا-
۲: ارشاد و راہنمائ (راستہ دکھلانا)
۳: عمل میں رہبری (مقصود تک پہنچانا) (تمہید الاصول ص۷۶۷)

علامہ حلی اس حوالے سے فرماتے ہیں:
امامت دین و دنیا کے امور میں ایک کلی الہی رہبری و حاکمیت ہے یعنی بعنوان نائب پیغمبر بعض افراد کےلیے یہ واجب عقلی ہے کیونکہ امامت لطف ہے –ہمیں یقین ہے کہ اگر لوگوں کےلیے ایسا کوئ شخص ہو جو انکی رہبری کا ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لے اور انکی راہنمائ کرے دوسرے لوگ اس کی اطاعت کریں اور وہ مظلوم کے حق کو ظالم سے لے اور ظالم کو ظلم سے منع کرے تو لوگ صلاح وخیر کے نزدیک اور فساد سے دور ہوجائیں گے (شرح باب حادی عشر ص ۸۳)
لطف کی تعریف:یہ اللہ تعالی کی صفات فعلی میں سے ہے ایسا الہی فعل ہے کہ جن کی بنا پر لوگ اطاعت کے قریب اور معصیت سےدور ہوجاتے ہیں-

 
لطف کی اقسام

اس کی دو قسمیں بیان ہوئ ہیں

۱ : لطف محصل
۲: لطف مقرب

۱ :لطف محصل :

اللہ تعالی کی طرف سے ایسے اسباب فراہم ہونا کہ جن پر انسان کی خلقت کا ہدف موقوف ہے اگر اللہ تعالی یہ اسباب و احکام فراہم نہ کرے تو انسانی خلقت لغو ہوجاۓ گی مثلا احکام شرعیہ بھیجنا ٬دینکی تبلیغ اور حفاظت کےلیے انبیا کا بھیجنا –

 
لطف مقرب :

وہ امور الہی کہ جن کے ذریعے احکام تکلیفہ کا ہدف پورا ہو کیونکہ اگر اللہ تعالی یہ لطف نہ کرے تو بہت سے بندگان اطاعت و امتثال کےلیے تیار نہیں ہوتے مثلا نیک لوگوں کو جنت کا وعدہ برے لوگوں کو جہنم کے عذاب سے ڈراوا –امتحان لینے کےلیے لوگوں کو نعمات اور مصائب دینا۔ ۔ ۔ اس قسم کا لطف انسان کو الہی احکام بجا لانے کے نزدیک کرتا ہے اور سرکشی سے دور کرتا ہے –

 
نتیجہ :

اگر لطف محصل نہ ہو تو تکالیف شرعیہ کے بھیجنے کےلیے انبیا کی بعثت ہی نہ ہوگی اگر لطف مقرب نہ ہو تو اگرچہ انبیاء و آئمہ کی صورت میں راہنما ہونگے احکام شرعیہ ہونگے لیکن عموما لوگ امتثال و اطاعت نہیں بجا لائیں گے –

قانون لطف کی امامت پر دلالت:

اکثر علماء علم کلام امامت کے مسالہ کو لطف مقرب کے مصادیق میں سے شمار کرتے ہیں اس طرح کہ اللہ تعالی نے بندوں پر کچھ تکالیف واجب کیں تاکہ وہ ان تکالیف کی پیروی و اطاعت میں کمال و سعادت تک پہنچ جائیں یہ غرض الہی بغیر امام معصوم کو منصوب کرنے اور لوگوں کو جنت کا وعدہ اور جہنم کے ڈراوے کے پوری نہیں ہوسکتی پس خداۓ حکیم یقینا ان امور کو انجام دے گا تاکہ تکالیف شرعیہ کے حوالے سے نقض غرض لازم نہ آۓاکثر بزرگ علماء اہل کلام یہاں ایک مثال دیتے ہیں کہ جب بھی کوئ غذا تیار کرے اور اس کا مقصد یہ ہو کہ لوگوں کو دعوت دے اور وہ انہیں پیغام دعوت بھیجے اب وہ جانتا ہے کہ لوگوں کے پاس اس کے ایڈریس کےلیے نشانی اور راہنمائ موجود نہیں ہے نہ کوئ انکے پاس ایسا راہنما ہے کہ جو اس کی نشانی بتاۓ اور وہ بھی نشانی بتانے کےلیے کوئ راہنما نہ بھیجے تو یقینا دعوت والا کام عبث اور فضول ہوگا-
پس عہدہ امامت لطف مقرب کے مصادیق میں سے ہے اور امام کا مرتبہ پیغمبر کے مرتب کے قریب ہے لیکن اس فرق کے ساتھ کہ پیغمبر تکالیف شرعی کو لانے اوربیان کرنے کےلیے ہوتے ہیں جبکہ امام بعنوان نائب پیغمبر ان تکالیف شرعیہ کے محافظ اور پاسدار ہوتے ہیں(انیس الموحدین ٬محمد مہدی نراقی باب امامت)
بلاشبہ قوانین الھی کی حفاظت اور امام کے دیگر وظائف سے انسان الہی اوامر کی پیروی کے قریب ہوجاتے ہیں اور سرکشی سے دور ہوجاتے ہیں اور جب بھی کسی معاشرہ کا ایسا رہبر ہو جو انکو ظلم سے روکے اور صلح وعدالت کے راستہ پر لیجاۓ تو ایسا معاشرہ صلاح وخیر کے نزدیک اور فساد سے دور ہوگا-(کشف المراد ص۳۶۲)
اب ایسا رہبر اگر اللہ تعالی کی طرف سے ہو اور معصوم بھی ہو تو پھر اس کے لطف ہونے میں کوئ شک نہیں رہے گا کیونکہ الھی اور معصوم امام یا رہبر کے منصوب ہونے سے نہ کوئ مفسدہ اور نہ کوئ مشکل پیش آتی ہے کہ اللہ اس مشکل کی بنا پر امام کو منصوب نہ کرے-

۲: دین کے متخصص و ماہر کی ضرورت:

ہمارا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام ۖ آخری پیغمبر ہیں اور دین اسلام ایک جامع اور کامل دین ہے تو اس وقت یہ مشکل سامنے آتی ہے کہ پیغمبر اسلامۖ کو ﺗﻴئس سالہ زمانہ تبلیغ میں اتنی فرصت نہیں ملی کہ امت کی راہنمائ کےلیے تمام جذئیات اور تفصیلات بیان کریں اس کے علاوہ لوگ بھی اس زمانہ میں بہت سے معارف کو درک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے اور بعض مسائل اس دور کے لوگوں کےلیے ضروری بھی نہ تھے کہ انہیں یار کریں اور اور دوسروں تک پہنچائیں –
یہیں سے پیغمبر اسلامۖ کے بعد دین کے ماہر و متخصص کی بعنوان امام ضرورت پیش آتی ہے ایسا ماہر و متخصص کو جو تبلیغ میں پیغمبر کی مانند کبھی خطا و اشتباہ نہ کرے-
یہ ایسا مسالہ ہے کہ جسے تمام عقلا عالم قبول کرتے ہیں کہ ہر کام میں ماہر و متخصص کی ضرورت ہے اسی طرح ہر مکتب و مذہب کی پیچیدگیوں اور مسائل کے حل کےلیے اس مذہب کے ماہر کی طرف رجوع ہو-اگر ماہرین و متخصص نہ ہوں یا ہوں لیکن امام نہ ہوں بلکہ مسائل میں خطا کرنے والے ہوں تو یہ مذہب لوگوں کےلیے ناکافی ہوگا اور بالآخر یہ مذہب ختم ہو جاۓ گا یا مسخ ہوجائیگا ٬آیت اللہ سبحانی امامت پر ادلہ کی بحث میں ایک برہان یوں پیش کرتے ہیں:
۱: الھی آیات کی شرح و تفسیر اور انکے اسرار و رموز کو کشف کرنا
۲: جدید پیش آنے والے مسائل میں احکام شرعیہ بیان کرنا
۳: شبھات کا جواب اور اہل کتاب کے سوالات کا جواب
۴: دین کو تحریف سے محفوظ رکھنایہ چار اہم وظائف ہے کہ جو پیغمبر اکرم ۖ اپنی پربرکت حیات میں انجام دیتے تھے تو پیغمبر اکرم ۜ کے بعد کون ان وظائف کو انجام دے گا تین احتمال موجود ہیں:
۱: شارع اس مسالہ کی طرف توجہ نہ کرے اسے ایسے ہی چھوڑ دے یہ بات نا ممکن ہے
ب) شارع اس مسالہ کو امت کے سپرد کردے کہ وہ خود انجام دیں تو یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ رحلت پیغمبر اکرم ۖ کے بعد امت اسلامی کیسے کیسے حوادث اور مسائل میں گرفتار ہوئ جس کے نتیجے میں لوگوں میں تفرقہ پیدا ہوا لہذا یہ احتمال بھی قابل قبول نہیں ہے-
ج) اللہ تعالی یہ ذمہ داری پیغمبر اکرم کی مانند کسی شخص کے سپرد کرے –جو انکی مانند معصوم ہو اور دین کی درست تشریح و تفسیر کرے-۔ ۔ ۔
پہلے دو احتمال باطل ہیں تیسرا احتمال عقلا عالم کے نزدیک درست ہے اور یہ وہی بات ہے کہ اللہ تعالی پیغمبر اکرم کے بعد بعنوان امام انکا جانشین منتخب کرے-

۳ : سیرت مسلمین:

اسلامی متکلمین نے اپنی کلامی کتب میں یہ دلیل ذکر کی مثلا خواجہ نصیر الدین طوسی نے تلخیص المحصل میں ٬عضد الدین ایجی نے مواقف میں ٬سعد الدین تفتازانی نے شرح مقاصداور شرح عقائد نفیہ میں اور شہرستانی نے نہایہ الاقدام میں ذکر کیا ہے کہ سیرت مسلمین بالخصوص صدر اسلام کے مسلمانوں کی سیرت میں مطالعہ کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ سب لوگ وجوب امامت کو ایک مسلم امر شمار کرتے تھے –حتی کہ وہ لوگ جو سقیفہ میں بھی حاضر نہ تھے مثلا حضرت علی بھی اسلامی معاشرے کی ایک امام کی طرف احتیاج کے منکر نہ تھے-

۴:شرعی حدود کا اجراء اور اسلامی نظام کی حفاظت

بلاشبہ شارع مقدس نے مسلمانوں سے چاہا ہے کہ اسلامی حدود کو اجراء کریں اور اسلامی مملت کی سرحدوں کی دشمنان دین سے محافظت کریں یہ چیز بغیر با صلاحیت اور مدبر رہبر و امام کے بغیر ممکن نہیں ہے یہ کہ واجب کا مقدمہ واجب ہوتا ہے اس امام کا منصوب کرنا بھی واجب ہے عالم اہلسنت سعد الدین تفتازانی نے شرح مقاصد میں اس دلیل کی طرف اشارہ کیا ہے (شرح مقاصد ج۵ ص۲۳۶- ۲۳۷)

۵: بڑے خطرات سے بچنا واجب ہے

ایک اور دلیل کے جسے اسلامی متکلمین مثلا علماء اہلسنت ٬فخر رازی ٬(تلخیص المحصل ص۴۰۷ )اور سعد الدین تفتازانی (شرح مقاصد ج۵ ص۲۳۷- ۲۳۸) نے امامت کے وجوب پر پیش کیا ہے یہ ہے کہ امامت کی شکل میں امت اسلامی کو بہت بڑے اور عظیم سماجی فوائد حاصل ہیں کہ اگر ان فوائد کو نظر انداز کردیا جاۓ تو شخص اور معاشرہ بڑے خطرات اور نقصانات سے دوچار ہوجائیگا کہ ایسے خطرات سے بچنا شرعا و عقلا واجب ہے –
ان پانچ عقلی ادلہ کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ شیعہ و سنی تمام اسلامی متکلمین کے نزدیک امامت کا وجود اور وجوب مورد اتفاق ہے-

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عید فطر احادیث کی روشنی میں
امام حسین علیہ السلام اور تقیہ
بنی اسرائیل اور اسرائیل کی تاریخ
اعتدال اور میانہ روی
حدیث ثقلین پر ایک نظر
امام کي شخصيت اور جذبہ
25 شوال المکرم؛ رئیس مذہب حضرت امام جعفر صادق علیہ ...
حضرت علی علیہ السلام کا جمع کردہ قرآن
مسئلہ تحریف قرآن
اسلام نے زمانے کو عزت بخشي

 
user comment