اردو
Sunday 22nd of December 2024
0
نفر 0

حدیث قرطاس

حدیث قرطاس

اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اصحاب صحاح اور اصحاب مسانید اور اہل سیر و تاریخ رقم طراز ہیں ۔
ہم بحث کی ابتدا امام بخاری سے کرتے ہیں :
اما م بخاری اپنی اسناد س عبید اللہ بن عبد اللہ بن مسعود سے وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ :رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وقت آخر تھا اور اس وقت گھر میں بہت سے افراد جمع تھے جن میں عمربن خطاب بھی موجود تھے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :" میں تمہیں ایسی تحریر لکھ کر دوں کہ میرے بعد تم گمراہ نہ ہو سکو گے "۔
حضرت عمر نے کہا نبی پر درد کا غلبہ ہے ۔تمہارے پاس قرآن موجود ہے ۔ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے ۔اس پر گھر میں بیٹھے ہوئے افراد تکرار کرنے لگے ۔کچھ کہتے تھے کہ قلم دوات لاؤ تاکہ حضور تمہیں وہ چیز لکھ دیں تمہیں گمراہی سے بچا سکے اور کچھ وہی کچھ کہتے تھے جو عمر نے کہا تھا ۔
جب حضور اکرم کے پاس شوروغوغا زیادہ ہوا تو آپ نے فرمایا :" میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ"۔
عبد اللہ بن مسعود کہا کرتے تھے کہ ابن عباس کہتے تھے کہ : سب سے بڑا المیہ اور سانحہ یہی ہوا کہ لوگوں نے اپنے اختلاف اور شور وغوغا کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کو نوشتہ لکھنے سے روکر دیا ۔ اسی حدیث کو امام مسلم نیشاپوری نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں " کتاب الوصیۃ" کے آخر میں درج کیا ہے ۔
اسی روایت کو امام احمد بن حنبل نے ابن عباس کی زبانی نقل کیا ہے ۔
اور اکثر محدثین نے "ان النبی لیھجر" کے الفاظ میں بے ادبی اور گستاخی کی جھلک دیکھ کر اس میں تصرّف معنوی سے کام لیتے ہوئے " ان النبی قد غلب علیہ الوجع " یعنی (حضور ص پر درد کا غلبہ ہے ) کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے ۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر حضور کے فرمان کو لفظ "ہذیان" سے تعبیر کیا تھا ۔ لیکن بعد میں آنے والے محدثین نے اس لفظ کی کراہت کو کم کرنے کے لئے دوسرے الفاظ تراشے ۔
ہمارے اس دعوی کی تصدیق کے لئے ابو بکر احمد بن عبدالعزیز الجوھری کی کتاب "کتاب السقیفہ "کا مطالعہ فرمائیں ۔
علامہ مذکور ابن عباس سے روایت کرتے ہیں ۔ لمّا حضرت رسو ل اللہ (ص) الوفاۃ و فی البیت رجال فیھم عمر بن الخطاب قال رسول اللہ ایتونی بدواۃ وصحیفۃ اکتب لکم کتابا لاتصلون بعدہ قال ،فقال عمر کلمۃ معناھا ان الوجع قد غلب علی رسول (ص) ثم قال عندنا القرآن حسبنا کتاب اللہ فاختلف ممن فی البیت و اختصموا فمن قائل قربو ا یکتب لکم النبی (ص) ومن قائل ما قال عمر فلمّا اکثروا اللغط واللغو والاختلاف غضب (ص) فقال قوموا ۔(الحدیث)
جب رسول خدا(ص) کاآخری وقت آیا اس وقت گھر میں بہت سے افراد موجود تھے ۔ ان میں عمر بن خطاب بھی تھے ۔رسول خدا نے فرمایا : میرے پاس دوات اور کا غذ لاؤ میں تمھیں ایسی تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہوگے ۔
یہ سن کر حضرت عمر نے ایک بات کہی جس کا مفہوم یہ تھا کہ اس وقت رسول خدا پر درد کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس قرآن موجود ہے ۔ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے ۔گھر میں بیٹھے ہوئے افراد میں اختلاف ہوگیا اور آپس میں جھگڑنے لگے کچھ لوگ وہی کہتے تھے جو عمر نے کہاتھا ۔جب حضور کریم کے پاس اختلاف اور جھگڑا بڑھا تو آپ ناراض ہوئے اور فرمایا "اٹھ چلے جاؤ"الحدیث
جوہری کے الفاظ سے آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ "حضور پر درد کا غلبہ ہے " جیسے محتاط الفاظ " روایت بالعنی "کے طور پر وارد ہوئے ہیں ورنہ حضرت عمر نے آنحضرت کے فرمان کو صریحا "ہذیان "کہہ کر ٹھکرا دیا تھا ۔
یہی وجہ ہے کہ آپ محدثین کی کتابوں میں یہ سب دیکھیں گے کہ جب وہ اس واقعہ کی روایت لفظ "ہذیان" سے کرتے ہیں تو انہیں ان کی مسلکی وابستگی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ کھل کر یہ بیان کر سکیں کہ "ہذیان" کی تہمت لگانے والا اور رسول خدا کے دماغ پر حملہ کرنے والا کون تھا ۔
اس مقام پر پہنچ کر واقعہ کے اہم کردار کو نمایاں کرنے کی بجائے اسے بے نام ونشان چھوڑ کر گزر جاتے ہیں ۔
جیسا کہ امام بخاری "کتاب الجہاد والسیر" کے باب "جوائز الوفد" میں لکھتے ہیں :-حدثنا قبیصۃ حدثنا ابن عیینۃ عن سلیمان الاحول عن سعید بن جبیر عن ابن عباس انہ قال یو م الخمیس وما یو م الخمیس ثمّ بکی حتی خضب دمعہ الحصیاء ،فقال اشتد برسول اللہ (ص) وجعہ یو م الخمیس فقال ایتونی بکتاب اکتب لکم کتابا لن تضلوا بعدہ ابدا فتنازعوا ولا ینبغی عند نبی تنازعوا فقالوا ھجر رسول اللہ (ص) قال(ص) دعونی فالذی انا فیہ خیر مما تدعوننی الیہ واوصی عند موتہ بثلاث ،اخرجوا المشرکین من جزیرۃ العرب واجیزو ا الوقد بنحو ما کنت اجیزہ (قال) ونسیت الثالثۃ۔
(بحذف اسناد) ابن عباس کہتے تھے پنچ شنبہ کا دن ؛ ہائے وہ کیا دن تھا پنچ شنبہ کا ! یہ کہہ کر اتنا روئے کہ ان کے آنسو ؤں سے سنگریزے تر ہوگئے ۔پھر کہااسی پنچ شنبہ کے دن رسول خدا کی تکلیف بہت بڑھ گئی تر ہوگئے ۔ پھر کہا اسی پنچ شنبہ کے دن رسول خدا(ص) کی تکلیف بہت بڑھ گئ تھی ۔ آنحضرت نے فرمایا "میرے پا س کاغذ اور قلم لاؤ ۔میں تمھیں نوشتہ لکھ دوں تا کہ تم پھر کبھی گمراہ نہ ہوسکو "
اس پر لوگ جھگڑنے لگے ۔حالانکہ نبی کے پاس جھگڑا مناسب نہیں ۔لوگوں نے کہا : رسول "بے ہودہ بک رہے ہیں (نعوذ با اللہ)۔اس پر آنحضرت نے فرمایا " مجھے میرے حال پر چھوڑ دو میں جس حال میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو اور آنحضرت نے وفات سے پہلے تین وصیتیں فرمائیں :ایک تو یہ کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال باہر کرو اور دوسری وصیت یہ تھی کہ وفد بھیجنے کا سلسلہ اسی طرح باقی رکھو جس طرح میں بھیجا کرتا تھا ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ تیسری وصیت میں بھول گیا ۔"جی ہاں ! تیسری بات جسے فراموش کردیا گیا وہی بات تھی جسے پیغمبر وقت انتقال نوشتہ کی صورت میں لکھ جانا چاہئے تھے تاکہ امت کے افراد گمراہی سے محفوظ رہیں یعنی امیر المومنین امام علی (علیہ السلام) کی خلافت ۔
سیاسی شاطروں نے محدثیں کو مجبور کیا کہ وہ اس چیز کو جانتے بوجھتے بھول جائیں ۔جیسا کہ مفتی حنفیہ شیخ ابو سلیمان داؤد نے صراحت کی ہے اس حدیث کو امام مسلم نے صحیح مسلم "کتاب الوصیۃ " کے آخر میں بواسطہ سعید بن جبیر ، ابن عباس سے ایک دوسرے طریقہ سے روایت کیا ہے ۔
"ابن عباس کہتے تھے پنچ شنبہ کا دن ، ہائے وہ دن کیا دن تھا پنچ شنبہ کا !
پھر آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور رخساروں پر یوں بہتے دیکھے گئے جیسے موتی کی لڑی ہو۔
اس کے بعد ابن عباس نے کہا کہ رسول خدا نے ارشاد فرمایا :
"میرے پاس دوات اور کاغذ یا لوح ودوات لاؤ تا کہ میں ایسا نوشتہ لکھ دوں کہ اس کے بعد تم پھر کبھی گمراہ نہ ہو" تو لوگوں نے اس پر کہا :رسول (ص) ہذیان کہہ رہے ہیں (نعوذ باللہ)(1)
صحاح ستہ کا مطالعہ کریں اور اس مصیبت کے ماحول پر نظر دوڑائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جس شخص نے سب سے پہلے "ہذیان" کی بات کی وہ حضرت عمر ہی تھے ۔انہوں نے ہی سب سے پہلے یہ جملہ کہا تھا اور اس کے بعد ان کے ہم خیال افراد نے ان کی ہم نوائی کی تھی ۔
آپ ابن عباس کا یہ فقرہ پہلی حدیث میں سن چکے ہیں ۔ گھر میں موجود افراد آپس میں تکرار کرنے لگے ۔بعض کہتے تھے کہ کاغذ اور قلم دوات لاؤ تاکہ رسول (ص)وہ نوشتہ
لکھ جائیں اور بعض حضرت عمر کی موافقت کرتے رہے ۔یعنی وہ بھی یہی کہہ رہے تھے کہ رسول ہذیان کہہ رہے ہیں ۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ جو طبرانی نے اوسط میں حضرت عمر سے روایت کی ہے کہ : جب رسول خدا بیمار ہوئے تو آپ نے فرمایا : میرے پاس کا غذ اور قلم دوات لاؤ تاکہ میں ایسا نوشتہ لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو ۔اس پر پردے کے پیچھے سے عورتوں نے کہا تم سنتے نہیں کہ رسول (ص) کیا کہہ رہے ہیں ؟ میں نے کہا :تم یوسف والی عورتیں ہو جب رسول (ص) بیمار پڑتے ہیں تو اپنی آنکھیں نچوڑ ڈالتی ہو اور جب تندرست ہوتے ہیں تو گردن پر سوار رہتی ہو ۔
رسول خدا نے فرمایا :"عورتوں کو جانے دو یہ تم سے تو بہتر ہی ہیں "(2)
اس واقعہ سے آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ یہاں صحابہ نے ارشاد پیغمبر کی تعمیل نہیں کی ۔اگر حضور (ص) کی بات مان لیتے تو ہمیشہ کے لیئے گمراہی سے بچ جاتے ۔
اے کاش کہ صحابہ رسول خدا (ص) کی بات مانتے ٹال دیتے لیکن رسول خدا کو یہ روکھا جواب تو نہ دیتے کہ "حسبنا کتا ب اللہ "(ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے )۔
اس فقرہ سے تو یہ دھوکا ہوتا ہے کہ معاذاللہ جیسے رسول خدا جانتے ہی نہ تھے ۔ اس کے اسرار ورموز سے زیادہ واقف تھے ۔
اے کاش! اس پر اکتفا کر لیا ہوتا اور رسول خدا (ص) کے دماغ پر حملہ نہ کیا ہوتا اور یہ نہ کہتے کہ رسول (ص) ہذیان کہہ رہے ہے ہیں ۔یہ الفاظ کہہ کر رسول کریم کو ناگہانی صدمہ نہ پہنچاتے ۔
رسول خدا چند گھڑی کے مہمان تھے ۔آپ کا دم واپسین تھا۔ ایسی حالت میں یہ ایذا رسانی کہاں تک مناسب تھی؟ کیسی بات کہہ کر رسول کو رخصت کررہے ہیں ؟
گویا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کتاب خدا کیا یہ واضح اعلان نہیں سنا تھا "ما آتاکم الرسول فخذوہ وما نھا کم عنہ فانتھوا ۔۔۔۔۔"یعنی رسول جو کچھ تمہیں دیں اس کو لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز ہو"
اور رسول خدا(ص) پر ہذیان کی تہمت لگاتے وقت انہیں قرآن مجید کی یہ آیت بھول گئی تھی "انہ لقو ل رسول کریم ذی قوۃ عند ذی العرش مکین مطاع ثم امین وما صاحبکم بمجنون" یعنی بے شک یہ قرآن ایک معزز فرشتہ کی زبان کا پیغام ہے ۔جو بڑا قوی ،عرش کے مالک کی بارگاہ میں بلند مرتبہ ہے ۔ وہاں سب فرشتوں کا سردار اور امانت دار ہے اور تمہارے ساتھی (محمد) دیوانے نہیں ہیں "۔
اور کیا قول رسول کو ہذیان کہنے والوں نے یہ آیت نہیں پڑھی تھی ؟ "انہ لقول رسول کریم وماھو بقول شاعر قلیلا ما یومنون ولا بقول کا ھن قلیلا ما تذکرون تنزیل من رب العالمین "۔ یعنی بے شک یہ قرآن ایک معزز فرشتہ کا لایا ہوا پیغام ہے اور یہ کسی شاعر کی تک بندی نہیں ۔تم لوگ تو بہت کم ایمان لاتے ہو اور نہ کسی کاہن کی خیالی بات ہے تم لوگ تو بہت کم غور کرتے ہو ۔یہ سارے جہاں کے پروردگار کا نازل کیا ہوا کلام ہے ۔"
اور کیا قول رسول (ص) کو ٹھکرانے والوں نے قرآن مجید کی یہ آیت نہیں پڑھی تھی ؟"و النجم اذا ھوی ما ضل صاحبکم وما غوی وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی علّمہ شدید القوی "۔قسم ہے ستارے کی جب وہ جھکا ۔تمھارے رفیق( محمدص) نہ گمراہ ہوئے اور نہ بہکے وہ تو اپنی نفسانی خواہش سے کچھ بولتے ہی نہیں یہ تو بس وحی ہے جو بھیجی جاتی ہے ۔ان کو بڑی طاقت والے (فرشتے) نے تعلیم دی ہے " نیز اس طرح دوسری واضح اور روشن آیات قرآن مجید میں بکثرت موجودہیں جن میں صاف تصریح ہے کہ رسول مہمل وبے ہودہ بات کہنے سے پاک و منزہ ہیں ۔ علاوہ ازاین خود تنہا عقل سلیم بھی رسول سے مہمل اور بے ہودہ باتوں کا صادر ہونا محال سمجھتی ہے ۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ صحابہ اچھی طرح جانتے تھے کہ حضرت رسول (ص)حضرت علی (ع) کے لئے خلافت کی بات کو مزید پکا کردینا چاہتے ہیں اور آج تک آپ نے حضرت علی (ع)کے جانشینی اور خلافت کے جتنے اعلانات کئے تھے انہیں تحریری صورت دینا چاہتے تھے اسی لئے حضرت عمر اور ان کے حامی افراد نے رسول خدا (ص) کی بات کو کاٹ دیا تھا ۔ یہ صرف ہمارا پیدا کردہ تخیل نہیں ہے بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف حضرت عمر نے عبد اللہ بن عباس کے سامنے کیا تھا (3)۔
اگر آپ رسول خدا(ص)کے اس قول "میرے پاس کاغذ اور قلم دوات لاؤ تاکہ میں ایسا نوشتہ لکھ جاؤں کہ اس کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے "۔
اور حدیث ثقلین کے اس فقرہ پر کہ :-
"میں تم میں دو گراں چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں اگر تم ان سے وابستہ رہے تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے : ایک اللہ کی کتاب ہے اور دوسری میری عترت " توجہ فرمائیں گے تو آپ پر یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ دونوں حدیثوں سے رسول خدا کا مقصود ایک ہی تھا ۔
پیغمبر نے زبر دستی نوشتہ کیوں نہ لکھا ؟:-
رسول خدا (ص) نے حالت مرض میں کاغذ اور قلم دوات اس لئے طلب کیا تھا کہ حدیث ثقلین کے مفہوم کو تحریری صورت لکھ کردے دیا جائے ۔
اس مقام پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسول خدا (ص) نے لوگوں کے اختلاف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نوشتہ کیوں نہ لکھا ۔اور جمعرات کے دن سے اپنے روز وفات یعنی سوموار تک کیوں نہ لکھا اور لکھنے کا ارادہ آخر انہوں نے کیوں ملتوی کردیا ؟
درج بالا سوال کا صحیح جواب یہ ہے کہ نوشتہ نہ لکھنے کا سبب حضرت عمر اور ان کے ہوا خواہوں کا وہ فقرہ تھا جسے بو ل کر ان لوگوں نے رسول خدا (ص) کو دکھ دیا تھا اور یہی سن کر رسول خدا نے نوشتہ نہ لکھا کیوں اتنا سخت جملہ سننے کے بعد نوشتہ لکھنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں تھا ۔اگر بالفرض لکھ بھی دیا جاتا تو فتنہ وفساد اور بڑھ جاتا اور اختلافات کی خلیج مزید وسیع ہوجاتی ۔
اگر رسول (ص) لکھ بھی جاتے تو یہی لوگ کہتے کہ "اس نوشتہ کی کوئی اہمیت نہیں یہ حالت ہذیان لکھا گیا ہے "
جن لوگوں نے حضور کریم کے روبروان کی حدیث کو ہذیان قراردیا تھا تو کیا وہ بعد میں لکھے جانے والے نوشتہ کو تسلیم کر سکتے تھے ؟اور اگر رسول اپنی بات پر مصر رہتے اور نوشتہ لکھ بھی دیتے تو وہ اور ان کے جواری نوشتہ رسول (ص) کو ہذیان ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور دگادیتے اور اثبات ہذیان کے لئے کئی کتابیں تصنیف ہوتیں ۔مباحثے کیے جاتے اور اس نوشتہ کو بے اثر بنا نے کےلئے ہر ممکنہ ترکیب استعمال کی جاتی ۔
اسی وجہ سے حکیم اسلام کی حکمت بالغہ کا تقاضا یہ ہوا کہ اب نوشتہ کا ارادہ ہی ترک کردیا جائے تاکہ رسول کے منہ آنے والے اور ان کے حاشیہ بردار آپ کی نبوت میں طعن کا دروازہ نہ کھول دیں ۔
اور اس کے ساتھ ساتھ رسول خدا (ص) یہ جانتے تھے کہ علی علیہ السلام اوران کے دوستدار اس نوشتہ کے مفہوم پر عمل کریں گے خواہ لکھا جائے یا نہ لکھا جائے اور اگر مخالفین کیلئے لکھ بھی دیا جائے تو وہ نہ تو اس کو مانیں گے اور نہ ہی اس پر عمل کریں گے ۔

واقعہ قرطاس اور علمائے اہل سنت کی تاویلات:
جب علامہ سید عبدالحسین شرف الدین عاملی نے حدیث قرطاس کی تفصیلات جامعہ ازہر مصر کے اس وقت کے وائس چانسلر علامہ شیخ سلیم البشری کو لکھ کر روانہ فرمائیں تو انہوں نے اس کے متعلق علمائے اہل سنت کی تاویلات لکھ کر بھیجیں اور اس کے ساتھ اپنا ناطق فیصلہ بھی تحریر فرمایا ۔
قارئین کرام کے لئے ہم موصوف کا جواب اور اس جواب پر خود ان کا عدم اطمینان انہی کے الفاظ میں پیش کرتے ہیں :-
"شایدآنحضرت (ص) نے جس وقت کاغذ اور قلم دوات لانے کا حکم دیا تھا اس وقت آپ کچھ لکھنا نہیں چاہتے تھے ۔دراصل آپ صرف آزمانا چاہتے تھے ۔عام صحابہ کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی مگر حضرت عمر سمجھ گئے تھے کہ آپ ہمیں صرف آزمانا چاہتے تھے ۔ اسی لئے انہوں نے صحابہ کو کاغذ اور قلم دوات لانے سے روک دیا ۔ لہذا حضرت عمر کی ممانعت کو توفیق ایزدی سمجھنا چاہئے اور اسے ان ک ایک کرامت جاننا چاہئے ۔
لیکن انصاف یہ کہ رسول خدا(ص)کا فرمان "لن تضلوا بعدی"(تم میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے )اس کا جواب کو بننے نہیں دیتا ۔کیونکہ یہ پیغمبر اکرم(ص) کا دوسرا جواب ہے ۔مطلب یہ ہے کہ اگر تم کاغذ اور قلم دوات لاؤ گے اور میں تمھارے لئے وہ نوشتہ دوں گا تو اس کے بعد تم گمراہ نہ ہوسکوگے ۔
اور یہ امر مخفی نہیں ہے کہ محض امتحان اور آزمائش کے لئے اس طرح کی خبر بیان کرنا کھلا ہو اجھوٹ ہے ۔جس سے انبیاء علیہم السلام کے کلام کا پاک ہونا لازم و لابد ہے اور اس موقع پر کاغذ اور قلم دوات لانا ،نہ لانے کی نسبت بہتر تھا۔علاوہ ازیں یہ جواب اور بھی کئی لحاظ سے محل تامل ہے ۔لہذا یہ جواب صحیح نہیں ہے ۔ اس کے لئے کوئی اور عذر پیش کرنا چاہئے ۔اس مقام پر صفائی کے لئے زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ رسول خدا (ص) نے کاغذ اور قلم دوات لانے کا جو حکم دیا تو یہ حکم انتہائی لازمی وضروری نہ تھا کہ اسکے متعلق مزید وضاحت چاہی نہ جا سکتی ۔
یہ حکم مشورہ کے طور پر تھا اورکئی مرتبہ ایسا ہوا کہ صحابہ رسول خدا کے بعض احکام دوبارہ پوچھ لیا کرتے تھے ۔مزید استصواب کیا کرتے تھے ۔خصوصا حضرت عمر تو بہت زیادہ ۔
انہیں اپنے متعلق یقین تھا کہ وہ مصالح کوبہتر سمجھتے ہیں اور وہ توفیق ایزدی کے حامل ہیں اور انہیں یہ بھی یقین تھا کہ ان کا ظن وتخمین غلظ نہیں ہوتا ۔
اسی لئے حضرت عمر نے چاہا کہ رسول کو زحمت نہ اٹھانی پڑے ۔کیونکہ رسول پہلے ہی سخت تکلیف میں تھے ۔اندریں حالات اگر لکھنے بیٹھ جاتے تو تکلیف اور بڑھ سکتی تھی۔
اسی لئے حضرت عمر نے مذکورہ فقرہ کہا ار ان کی رائے تھی کہ کاغذ اور قلم دوات نہ لانا بہتر ہے ۔
علاوہ ازایں حضرت عمر کو خوف تھا کہ رسول کہیں ایسی باتیں نہ لکھ ڈالیں،جن کے بجا لانے سے لوگ عاجز آجائیں اور نوشتہ رسول پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے سزا کے مستحق ٹھہریں ۔کیونکہ جو کچھ رسول لکھ جاتے وہ تو بہر حال مخصوص اور قطعی ہوتا ۔ اس میں اجتہاد کی گنجائش باقی نہ رہتی ۔
یا حضرت عمر کو شاید منافقین کی طرف سے یہ خوف محسوس ہو ا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ منافقین نوشتہ رسول پر معترض ہوں ۔کیونکہ وہ نوشتہ رسول پر معترض ہوں ۔کیونکہ وہ نوشتہ حالت مرض میں لکھا ہوا ہوتا اور اس وجہ سے بڑے فتنے وفساد کا اندیشہ تھا اسی لئے حضرت عمر نے کہاتھا " حسبنا کتاب اللہ " ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے اور حسبنا کتاب اللہ" کےجملہ کی تائید قرآن مجید کی ان آیات سے بھی ہوتی ہے :" ما فرطنا فی الکتاب من شیء"ہم نے کتاب میں کوئی چیز چھوڑ ی جو بیان نہ کردی ہو۔
نیز یہ بھی ارشاد خداوندی ہے :- " الیوم اکملت لکم دینکم " آج کے دن دین میں نے تمہارے دین کو مکمل کردیا ہے ۔
اسی وجہ سے حضرت عمر مطمئن تھے کہ امت گمراہ نہ ہوسکے گی ۔کیونکہ خداوند عالم دین کو کامل اور امت پر اپنی نعمت کا اتمام کرچکا ہے ۔
ان آیات کی وجہ سے امت کی گمراہی کا اندیشہ نہیں تھا ۔ اسی لئے مزید کسی نوشتہ کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی تھی ۔
یہ ان لوگوں کے جوابات ہیں اور یہ جوابات جتنے کمزور اور رکیک ہیں وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے ۔کیونکہ رسول خدا کا فقرہ" لن تضلو بعدی "(تاکہ تم ہرگز گمراہ نہ ہوسکو) بتا تا ہے کہ آپ کا حکم ایک قطعی اور لازمی حکم تھا ۔
ایسے امر میں جو گمراہی سے محفوظ رہنے کا ذریعہ ہو ،قدرت رکھتے ہوئے ہر ممکن جدو جہد کرنا بلا شک وشبہ واجب اور لازم ہے ۔
نیز آنحضرت پر اس فقرہ کا ناگوار گزرنا اور بالخصوص حضرت عمر کے اس جملہ کا برا منانا اور ان لوگوں کے تعمیل حکم نہ کرنے پر آپ کا ارشاد فرمانا کہ "میرے پاس سے اٹھ چلے جاؤ " یہ اس بات کی قظعی دلیل ہے کہ آپ نے کاغذ اور قلم دولت لانے کا جو حکم دیا تھا ۔ وہ لازم اور واجب تھا ۔آپ نے مذکورہ حکم بغرض مشورہ نہیں دیا تھا ۔
اگر کوئی کہے کہ نوشتہ لکھنا ایسا ہی واجب ولازم تھا تو محض چند لوگوں کی مخالفت سے آپ نے لکھنے کا ارادہ ملتوی کیوں کردیا تھا۔
کفار آپ کی تبلیغ اسلام کےمخالف تھے مگر آپ نے ان کی مخالفت کی پروا نہ کرتے ہوئے تبلیغ فرمائی تو اسی طرح سے اگر کچھ لوگ کاغذ اور قلم دوات لانے کے مخالف تھے تو آپ ان کی مخالفت سے بے نیاز ہو کر نوشتہ لکھ سکتے تھے ۔ مگر آپ نے ایسا کیوں نہ کیا ؟تو اس کے جواب میں معترضین کی خدمت میں یہ عرض کروں گا کہ اگر آپ کا یہ اعتراض صحیح بھی ہو تو اس کا نتیجہ زیادہ سے زیادہ یہی نکلتا ہے کہ نوشتہ کا لکھنا رسول پر واجب نہ تھا ممکن ہے کہ نوشتہ کا لکھنا رسول پر واجب نہ ہو مگر حاضرین پر کاغذ اور قلم دوات لانا واجب تھا کیونکہ اطاعت رسول کا تقاضا کتھا کہ کہ کاغذ اور قلم دوات لائی جائے اور رسول خدا نے اس کا فائدہ بھی بتا دیا تھا کہ اس ذریعہ سے گمراہی سے محفوظ ہوجاؤ گے اور ہمیشہ راہ ہدایت پر باقی رہوگے اور فقہ کا مسلمہ اصول یہی ہے کہ امر کا وجوب فی الواقع مامور سے متعلق ہوتا ہے امر سے متعلق نہیں ہوتا اور خصوصا جب کہ امر کا فائدہ مامور کو پہنچتا ہے ۔
لہذا اس قاعدہ کے تحت بحث یہ ہے کہ حاضرین پر امر کا بجا لانا واجب تھا یا نہیں ؟ محل بحث یہ نہیں ہے کہ رسول پر لکھنا واجب تھا یا نہیں ؟
علاوہ بریں یہ بھی ممکن ہے کہ رسول پر لکھنا تو واجب تھا لیکن لوگوں کی مخالفت اور یہ کہنے سے کہ " رسول ہذیان کہہ رہے ہیں " رسول سے وجوب ساقط ہوگیا ہو ۔
اگر ان حالات میں رسول لکھ بھی دیتے تو فتنہ وفساد میں ہی اضافہ ہوتا اور جو چیز فتنہ کا سبب ہو وہ رسول پر کیسے واجب ہوسکتی ہے ؟
بعض حضرات نے یہ عذر بیان کیا ہے کہ حضرت عمر حدیث کا مطلب نہیں سکے تھے ۔ان کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی کہ وہ نوشتہ است کے ہر فرد کے لئے گمراہی سے بچنے کا ایسا ذریعہ کیونکر ہوگا کہ قطعی طور پر کوئی گمراہ ہی نہ ہوسکے ۔
حضرت عمر نے " لن تضلوا بعدی" (تم میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے)کے جملہ کا یہ مطلب اخذ کیا کہ تم سب کے سب اور کل کے کل گمراہی پر مجتمع نہ ہوسکو گے ۔حضرت عمریہ پہلے ہی جانتے تھے کہ امت کا گمراہی پر اجتماع نہیں ہوگا اسی وجہ سے انہوں نے نوشتہ رسول کو " تحصیل حاصل " قرار دیا اور یہ تصور کرلیا کہ حضور اپنی شفقت کی وجہ سے ایک نوشتہ لکھنا چاہتے ہیں ۔ یہی سوچ کر حضرت عمر نے آپ کو مذکورہ جواب دیا ۔
حضرت عمر کی تندی طبع اورجلد بازی کی معذرت میں یہی باتیں بیان کی گئی ہیں ۔
مگر واقعہ یہ ہے کہ اگر نظر عائر سے دیکھا جائے تو یہ تمام جوابات انتہائی رکیک ومہمل ہیں ۔ کیونکہ رسول خدا کا "لن تضلوا بعدی" فرمانا اس امر کی قطعی اور محکم دلیل ہے کہ یہ امر وجوب کے علاوہ کسی اور مقصدکے تحت نہیں تھا۔
رسول خدا (ص) کا ان لوگوں پر غضب ناک ہونا بھی دلیل ہے کہ صحابہ نے ایک امر واجب کو تر ک کیا تھا ۔لہذا سب سے بہتر جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ صحابہ کی سیرت کے منافی تھا اور ان کی شان بعید تھا ۔ اس واقعہ میں صحابہ سے واقعی غلطی سرزد ہوئی تھی ۔شیخ الازہر کا خط آپ نے پڑھا ۔ علامہ موصوف نے واضح الفاظ میں حضرت کے موقف کی نفی کی۔
مذکورہ خط کے جواب میں علامہ عبد الحسین شرف الدین عاملی نے مزید اتمام حجت اور اثبات حق وابطال باطل کی خاطر درج ذیل مکتوب تحریر فرمایا ۔جسے ہم اپنے قارئین کی نذر کرتے ہیں :-
آپ کے جیسے اہل علم کے لئے یہی زیبا ہے کہ حق بات کہیں اور درست بات زبان سے نکالیں ۔
واقعہ قرطاس کے متعلق آپ نے اپنے ہم مسلک علماء کی تاویلات کی تردیدفرمائی ہے ۔ان تاویلات کی تردید میں اور بہت سےگوشے رہ گئے ہیں ۔جی چاہتا ہے کہ انہیں بھی عرض کردوں تاکہ اس مسئلہ میں آپ خود ہی فیصلہ فرمائیں ۔پہلا جواب یہ دیا گیا ہے رسول خدا نے صرف آزمائش کی خاطر کاغذ اور قلم دوات طلب فرمایا تھا آپ در اصل کچھ لکھنا نہیں چاہتے تھے ۔
آپ نے درج بالا مفروضہ کی خوبصورت تردید فرمائی ۔اس کے لئے میں یہ کہتا ہوں کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب آپ کا دم آخر تھا اور وقت اختیار وامتحان کا نہ تھا ۔ بلکہ یہ وقت اعذار وانذار کا تھا اور ہر ضروری امر کے لئے وصیت کر جانے کا تھا اور امت کے ساتھ پوری بھلائی کرنے کا موقع تھا ۔
ذرا سوچیں جو شخص دم توڑ رہا ہو بھلا دل لگی اور مذاق سے اس کا کیا واسطہ ہوسکتا ہے ؟ اسے تو اپنی فکر پڑی ہوتی ہے ۔اہم امور پر اس کی توجہ ہوتی ہے ۔اپنے متعلقین کی مہمات میں اس کا دھیان ہوتا ہے اور خصوصا جب دم توڑنے والا نبی ہو اور اس نے اپنے پورے عرصہ حیات میں کبھی اختیار و امتحان بھی نہ لیا ہو تو وقت احتضار کیسا اختبار اور کیسا امتحان؟
علاوہ ازایں شور غل کرنے والوں کو رسول خدا نے "قوموا عنی" (میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ ) کہہ کر نکال دیا تھا ۔
حضور کریم کا ان لوگوں کو "راندہ بارگاہ کرنا"اس حقیقت کی بین دلیل ہے کہ رسول کریم کو ان لوگوں سے صدمہ پہنچا اور آپ رنجیدہ ہوئے اور اگر معترضین کا موقف صحیح ہوتا تو رسول خدا (ص) ان کے اس فعل کو پسند کرتے اور مسرت کا اظہار کرتے ۔
اگر آپ حدیث کے گرد وپیش پر نظر ڈالیں اور خصوصا ان لوگوں کے اس فقرے پر غور فرمائیں :- " ھجر رسول اللہ (ص)"
(رسول ہذیان کہہ رہے ہیں ) تو آپ کو معلوم ہوگا کہ حضرت عمر اور ان کے ہوا خواہ جانتے تھے کہ رسول مقبول ایسی بات لکھنا چاہتے تھے جو انہیں پسند نہیں تھی ۔اسی وجہ سے مذکورہ فقرہ کہہ کر رسول مقبول کو اذیت پہنچائی گئی ۔ خوب اختلاف اچھالے گئے ۔
حضرت ابن عباس کا اس واقعہ کو یاد کرنا ،شدت سے گریہ کرنا اور اس واقعہ کو مصیبت شمار کرنا بھی اس جواب کے باطل ہونے کی بڑی قوی دلیل ہے ۔
معذرت کرنے والے کہتے ہیں کہ حضرت عمر مصلحتوں کے پہچاننے میں "موفق للصواب " تھے اور خدا کی جانب سے آپ پر الہام ہوا کرتا تھا ۔
یہ ایسی معذرت ہے جسے کسی طور بھی قبول نہیں کیا جا سکتا ۔ اس معذرت سے تو معلوم ہو تا ہے کہ اس واقعہ میں حضرت عمر کا موقف صحیح اور حق پر مبنی تھا اور نعوذ باللہ رسول خدا (ص) کا موقف درست نہ تھا ۔ نیز حضرت عمر کا اس دن کا الہام اس وحی سے بھی زیادہ سچا تھا جسے روح الامین لے کر آئے تھے ۔ بعض حضرات نے حضرت عمر کی صفائی میں یہ معذرت پیش کی ہے کہ حضرت عمر جناب رسول خدا(ص) کی تکلیف کم کرنا چاہتے تھے ۔ بیماری کی حالت میں اگر رسول (ص) لکھتے تو انہیں زحمت ہوتی ،اور حضرت عمر رسول خدا(ص) کی زحمت برداشت نہ کرسکتے تھے ۔
مگر آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ نوشتہ لکھنے میں قلب رسول (ص) کو راحت ہوتی ۔ آپ کی آنکھیں زیادہ ٹھنڈی ہوتیں اور امت کی گمراہی سے آپ زیادہ بے خوف ہوجاتے ۔رسول خدا(ص) کی فرمائش کا غذ اور قلم دوات کے متعلق تھی ۔کسی کاآپ کی تجویز کے خلاف قدم اٹھانا صحیح نہیں تھا ۔
ارشاد رب العزت ہے :" وما کان لمومن ولا مومنۃ اذا قضی اللہ و رسولہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم ومن یعص اللہ ورسولہ فقد ضل ضلالا مبینا " جب خدا اور رسول کسی بات کا فیصلہ کریں تو پھر کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کو اس بات کی پسند اور ناپسند کا اختیار حاصل نہیں ہے اور جو کوئی اللہ اور رسول کی نافرمانی کرے گا وہ واضح گمراہی میں پڑجائے گا ۔حضرت عمر اور ان کے حامیوں کی طرف سے نوشتہ رسول کی مخالفت کرنا ، اس اہم ترین مقصد میں رکاوٹ ڈالنا اور رسول خدا کے سامنے شو روغل مچانا ،جھگڑا فساد کرنا یہ سب امور نوشتہ کی بہ نسبت حضور اکرم کی زحمت کا موجب تھے ۔
سوچنے کی بات ہے کہ حضرت عمر سے رسول خدا(ص) کی اتنی سی زحمت تو دیکھی نہ گئی آپ بیماری کی حالت میں نوشتہ تحریر فرمائیں ،مگر ایسا کرنے میں انہیں کوئی تامل نہ ہوا کہ رسول کاغذ اور قلم دوات مانگیں اور وہ تکرار کرنے لگیں اور قول رسول کو ہذیان ثابت کرنے پر تل جائیں ۔
اگر نوشتہ لکھنے سے حضور کو زحمت ہوتی تھی تو اپنے متعلق ہذیان کا جملہ سن کرکیا انہیں راحت پہنچی تھی ؟
حضرت عمر کے وکلاء دور کی ایک کوڑی یہ بھی لاتے ہیں کہ حضرت عمر نے سمجھا کہ کاغذ اور قلم دوات نہ لانا ہی بہتر ہے ۔
کیا کہنا اس معذرت کا غور فرمائیے کہ رسول خود حکم دیں کہ کاغذ اور قلم دوات لاؤ تو کاغذ اور قلم دوات نہ لانا کیسے بہتر قراردیا جاسکتا ہے ؟
تو کیا حضرت عمر یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ رسول ایسی چیز کا حکم دیا کرتے ہیں جس چیز کا ترک کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے ۔
حضرت عمر کی صفائی میں بعض حضرات نے یہ عذر تراشا ہے کہ حضرت عمر کو خوف ہوا کہ رسول مقبول (ص) کہیں ایسی بات نہ لکھ دیں جس پر لوگ عمل نہ کرسکیں اور نہ کرنے پر سزا کے حق دار ٹھہرے ۔
غور فرمائیے!رسول (ص)کہہ رہے ہیں کہ "تم گمراہ نہ ہوگے "تو اس قول کی موجودگی میں حضرت عمر کا ڈرنا کہاں تک درست تھا ؟
تو کیا حضرت عمر جناب رسول مقبول کی نسبت انجام سے زیادہ باخبر تھے اور حبیب خدا(ص) سے زیادہ محتاط تھے ؟بعض حضرات نے یہ عذر پیش کیا ہے کہ حضرت عمر کو منافقین کی طرف سے اندیشہ تھا کہ وہ حالت مرض میں لکھے ہوئے نوشتہ کی صحت میں قدح کریں گے ۔مگر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ رسول مقبول نے نوشتہ کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا "لن تضلوا بعدی" (میرے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے ) تو اس فرمان کے بعد اس اندیشہ کی ضرورت ہی باقی نہ رہی تھی ۔
اور اگر بالفرض حضرت عمر کو منافقین کی طرف سے اندیشہ تھا کہ وہ نوشتہ کی صحت میں قدح کریں گے تو حضرت عمر نے خود ہی ان کے لئے زمین کیوں ہموار کی ؟
رسول مقبول(ص) کی بات کا جواب دے کر ،لکھنے سے روک کر ،ہذیان کی تہمت لگا کر انہوں نے اسلام اور رسول اسلام کی کون سی خدمت کی؟ حضرت عمر کے ہواخواہ ان کے فقرہ " حسبنا کتاب اللہ "(ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے )کی تائید کے لئے عموما کہا کرتے ہیں کہ اس فقرہ کی تائید قرآن مجید کی اس آیت سے ہوتی ہے "ما فرطنا فی الکتاب من شیء۔۔۔۔" (ہم نے کتاب میں کوئی چیز اٹھا نیں رکھی ) نیز اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔"الیوم اکملت لکم دینکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"(آج میں نے تمھارے دین کو مکمل کردیا )۔
اب اگر ان آیات کو مد نظر رکھ کر حضرت عمر نے مذکورہ فقرہ کہا تو اس میں کونسی قباحت تھی ؟
حضرت عمر کے حامیوں کی درج بالا دلیل درست نہیں ہے اور نہ ہی درج بالا آیات سے حضرت عمر کے مذکورہ فقرہ کی تائید ہوتی ہے ۔
درج بالا آیات کا ہرگز مفہوم یہ نہیں ہے کہ امت ہمیشہ کے لیے گمراہی سے محفوظ ہوگئی ہے ۔یہ آیات ہدایت خلق کی ضمانت فراہم نہیں کرتیں ۔ پھر ان آیات کا سہارا لے کر نوشتہ رسول(ص) سے اعراض کرنے کی کون سی تک تھی ؟
اگر قرآن کی موجودگی امت کی گمراہی دور کرنے کا موجب ہے تو آج بحمداللہ قرآن مجید امت کے پاس موجود ہے مگر اس کے باجود افراد امت میں گمراہی کیوں پائی جاتی ہے ؟
اورقرآن کی موجودگی میں امت کے اتنے فرقے کیوں ہیں اور باہمی انتشار وتفریق کیوں ہے ؟
حضرت عمر کی صفائی میں آخری جواب یہی دیا جاسکتا ہے وہ ارشاد رسول کا مطلب نہیں سمجھے ۔ان کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ نوشتہ امت کے ہر فرد کے لئے گمراہی سے بچنے کا سبب ہوگا ۔
حضرت عمر جناب رسول خدا (ص) کے اس فقرہ "لن تضلوا بعدی " کایہ مفہوم سمجھے کہ رسول کا نوشتہ گمراہی پر مجتمع نہ ہونے کا سبب بنے گا ۔اس نوشتہ کا فائدہ یہ ہوگا کہ امت والے گمراہی پر مجتمع اور متحد نہ ہوں گے ۔
حضرت عمر کو یہ بات پہلے سے ہی معلوم تھی کہ امت کبھی گمراہی پر مجتمع نہ ہوگی لہذا لکھنا "تحصیل حاصل" کے مترادف ہوگا ۔
اسی وجہ سے انہوں نے یہ جواب دیا اور نوشتہ لکھنے سے مانع ہوئے ۔
میں عرض کرتا ہوں کہ حضرت عمر اس قدر نادان ہرگز نہ تھے کہ ایسی روز روشن حدیث ،جس کا مفہوم ہر چھوٹے بڑے ،شہری دیہاتی کے ذہن میں آسکتا ہے وہ اس حدیث کے مفہوم کو سمجھنے سے قاصر رہے ہوں ۔
حضرت عمر یقینی طور پر جانتے تھے کہ رسول مقبول کو امت سے اجتماعی گمراہی کا اندیشہ نہیں ہے ۔کیونکہ حضرت عمر رسول خدا(ص) کا یہ فرمان بار ہا سن چکے تھے کہ "میری امت گمراہی پر مجتمع نہ ہوگی ،خطا پر مجتمع نہ ہوگی ۔"
"میری امت میں سے ہمیشہ ایک جماعت حق کی حمایتی ہوگی " نیز انہوں نے اللہ تعالی کا یہ ارشاد بھی سنا تھا ۔
وعد اللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصالحات یستخلفنھم فی الارض۔۔۔۔"تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک کا م کئے ان سے خداوند عالم نے وعدہ کررکھا ہے کہ وہ انہیں روئے زمین پر خلیفہ بنائے گا ۔جیسا کہ ان کے قبل کے لوگوں بنایا تھا ۔۔۔۔۔"اس طرح کی دوسری آیات بھی قرآن مجید میں موجود ہیں ۔ اور اس کے ساتھ پیغمبر اکرم کی صریح احادیث بھی سن چکے تھے کہ " امت کبھی گمراہی پر مجتمع نہ ہوگی " اسی لئے حضرت عمر نے بھی حدیث رسول سے وہی کچھ سمجھا جو کہ تمام دنیا نے سمجھا تھا مگر اس کے باوجود بھی وہ نوشتہ رسول میں مانع ہوئے ۔
رسول خدا کا اظہار ناگواری کرنا اور اپنے دربار سے نکال دینا یہ سب اس حقیقت کی بین دلیل ہے کہ جس بات کو ان لوگوں نے ترک کردیا تھا واجب تھی ۔ کاغذ اور قلم ودوات جو رسول (ص) نے مانگا تھا وہ لانا ضروری تھا ۔
اسے نہ لاکر انہوں نے حکم رسول(ص) کی مخالفت کی اور واجب کو ترک کیا ۔
اور اگر بالفرض میں یہ جان بھی لوں کہ یہ سب کچھ سمجھی اور غلط فہمی کی وجہ سے رونما ہوا ۔توایسی حالت میں جناب رسول کا یہ حق بنتا تھا کہ آپ ان کے شکوک وشبہات زائل کرتے یا جس بات کا حکم دیا تھا اس پر مجبور کرتے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ رسول (ص) نے یہ سب کچھ نہیں کیا بلکہ اپنے پاس سے "قوموا عنی " کہہ کر اٹھا دیا ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا (ص)جانتے تھے کہ حضرت عمر کی مخالفت غلط فہمی کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی اور جذبہ کے تحت وہ ایسا کہہ رہے تھے ۔ اسی لیے آپ نے انہیں اپنے گھر سے نکال دیا ۔
جناب ابن عباس کا گریہ فرمانا ،نالہ وفریاد کرنا یہ بھی ہمارے بیان کا موئد ہے انصاف تو یہ ہے کہ یہ حضرت عمر کی لائی ہوئی وہ زبردست مصیبت ہے جس میں کسی عذر کی گنجائش ہی نہیں ۔
حق بات تو یہ ہے کہ ان بزرگواروں نے نص کو اہمیت نہ دی اور اس کےمقابلہ میں اپنے اجتہاد سے کام لیا ۔اگر نص کے مقابلہ میں کیا جانے والا عمل اجتہاد کہلا سکتا ہے تو واقعی وہ لوگ مجتہد تھے ۔
مگر اس مقام پر اللہ اور رسول کی نص جدا ہے اور بزرگوں کی اجتہادی رائے جداہے ۔"
درج بالا تفصیلی مکتوب کے بعد شيخ الازہر نے درج ذیل مکتوب تحریر فرمایا :-
"آپ نے معذرت کرنے والوں کی تمام راہیں کاٹ دیں اور ان پر تمام راستے بند کردئیے آپ نے جو کچھ فرمایا اس میں شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہی ۔۔۔۔۔"
ہم اس اجتہاد کے قائل ہیں جو کہ نصوص کے دائرہ میں رہ کر کیا جائے اور ہم ایسی کسی فکر ورائے کو اجتہاد تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں جو کہ نصوص صریحہ کی مخالفت پر مبنی ہو ۔
اس کتاب کی تالیف کامقصد تاریخ کے درست مطالعہ کو پیش کرنا ہے تاکہ تاریخ کے غیر جانبدارانہ سے انسان حقیقت کے سر چشموں تک پہنچ سکے اور مقام ہدایت تک رسائی حاصل کرسکے ۔ہم مشرق ومغرب میں رہنے والے تمام مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیے دین کی صحیح تعلیمات کو تلاش کریں اور اس حقیقت عظمی کی جستجو کریں جس کی پیغمبر اکرم منادی کیا کرتے تھے ۔
اور اگر ہم نے رسول اعظم (ص) کی سیرت وتعلیمات کو اپنے لیے مشعل راہ بنا لیا تو ہم کبھی گمراہ نہ ہوسکیں گے ۔
ہمیں اتباع مصطفی کی ضرورت ہے ۔اس کے علاوہ ہمیں کسی زید وبکر کے اجتہاد کی قطعاد احتیاج نہیں ہے ۔ اس لئے کہ مجتہدین سے خطا ممکن ہے اور رسول اعظم کی ذات والا صفات سے خطا کا صدور ممکن نہیں ہے ۔
اور اس مقام پر یہ کہنا بھی صحیح نہ ہوگا کہ ہم کیا کریں ہم تو تاریخی طور پر بہت بعد میں پیدا ہوئے اور اس کی وجہ سے ہم روح اسلامی سے بہت دور ہوگئے تو اس میں ہمارا کیا دوش ہے ۔
اس کے لئے ہم اپنے قارئین کی خدمت میں دوبارہ یہ عرض کریں گے کہ ان حالات کے باوجود ہمیں اپنی مساعی کو ترک نہیں کرنا چاہئیے ۔کیونکہ آج مغرب ہمیں ہر سطح پر تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے اور ہم روز بروز اس کے لئے تر لقمہ بنتے جارہے ہیں ۔ توکیا آپ نے کبھی اس پر توجہ فرمائی ہے کہ ہماری کمزوری کی بنیادی وجہ کیا ہے ؟
میں سمجھتا ہوں کہ ہماری کمزوری کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے آج تک اسلام کو صحیح طور پر سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ ہم نے ان نظریات کو اسلام سمجھ کر اپنایا ہوا ہے جو ہماری مصلحتوں اور اغراض وافکار کے مطابق ہیں ۔اگر اس کی بجائے ہم نے صحیح اسلامی روح کا ادراک کیا ہوتا تو آج استعماری بھیڑئیے ہم پر یوں مسلط نہ ہوتے ۔

قارئین محترم!
میں نے یہ کتاب کسی قسم کی شہرت یا کثرت لقب کی غرض سے تالیف نہیں کی ۔اس کی تالیف کا اول وآخر مقصد انسانوں کے اذہان تک صحیح تاریخی حقائق کا پہنچانا ہے ۔ کیونکہ انسانوں کی اکثریت صحیح تاریخی حقائق سے واقف نہیں ہے ۔ اور اس عدم واقفیت کا اہم سبب یہ ہے کہ ہر دور میں حقائق کو چھپایا گیا اور حقیقت کے رخ زیبا پر دبیز پردے ڈالے گئے اور ہر زمانے میں سراب کو آب بنانے کی سعی نا مشکور کی گئی اور حقائق کا منہ چڑایا جاتا رہا اور ملمع کاری سے نا خوب کو خوب بنانے کی جد وجہد کی گئی ۔
اسی لئے اکثریت کو آج تک حق وباطل کی تمیز نہ ہوسکی اور یوں رہنما اور رہزن کی تفریق نہ ہوسکی ۔
اندریں حالات میں نے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے تاریخی حقائق پیش کرنے کی جسارت کی ہے اور امید وار ہوں کہ اللہ تعالی اس کتاب کو متلاشیان حق کے لئے منارہ نور بنائے گا اور شب تار میں اسے شمع فروزاں قرار دے گا ۔
اللہ تعالی سے درخواست ہے کہ وہ ہمیں معرفت کی نعمت عطا فرمائے اور ہمیں اہل معرفت میں شامل فرمائے اور جہل وتقلید کے مرض سے محفوظ رکھے اور ہماری لغزشوں سے در گزر فرمائے کیونکہ وہ سننے والا اور قبول کرنے والا ہے ۔
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم و تب علینا انک انت التواب الرحیم
بجاہ النبی و اھل بیتہ الطاھرین
اللھم صلّ علی محمدوآل محمد
٭٭٭٭٭

حوالہ جات
 (1):-صحیح مسلم جلد دوم صفحہ 222 علاوہ ازاین اس حدیث کو انہی الفاظ میں امام احمد نے مسند جلد اول ص 355 پر روایت کیا ہے ۔اس کے علاوہ بھی اجلہ حفاظ حدیث نے نقل کیا ہے ۔
(2):- اسی روایت کو امام بخاری نے عبیداللہ بن عتبہ بن مسعود سے انہوں نے ابن عباس سے روایت کیا اور امام مسلم وغیرہ نے بھی اس کی روایت کی ہے ۔
(3):-ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص 140 طبع مصر

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نھج البلاغه بعض متعصبين کي نگاه ميں
35حیوانات کا نام قرآن مجید میں آیا ہے
رمضان کے لغوی اور اصطلاحی معنی
مناظرہ امام جعفر صادق علیہ السلام و ابو حنیفہ
حضرت علی اکبر(ع) کی ولادت اور عمر کے بارے میں ...
حضرت فاطمہ زہر(س) خواتین عالم کیلئے نمونہ عمل
شیخ مفید کی تین سچی حکایتیں
امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کا واقعہ
قافلہ آل محمّد کا شام میں ورود
اذان ومؤذن کی فضیلت

 
user comment