صابرہ جعفری
دین اسلام میں جن امور کو برتری حاصل ہے اور جن کی ادائیگی کی بہت تاکید کی گئی ہے ان میں سے ایک اولیائے الہی و ائمہ معصومین علیہم السلام کی زیارت ہے۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کی زیارات میں بھی سب سے زیادہ اہمیت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو حاصل ہے۔ امام کی زیارت کے سلسلے میں بہت ساری روایتیں موجود ہیں؛ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر لوگوں کو امام حسین (ع) کی زیارت کی فضیلت کا اندازہ ہو جاتا تو وہ شوق زیارت میں مر جاتے۔
حتی کہ مشکلات اور سختیوں میں بھی آپ کی زیارت کی تاکید کی گئی ہے۔ اور اسی اہمیت کے مد نظر امام حسین علیہ السلام کے اربعین کی زیارت کو بھی ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ جیسا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں: عَلاماتُ المؤمنِ خَمسٌ: صَلَواتُ إحدي و خَمسينَ، و زيارةُالأربعينَ، و التَّخَتُّم بِاليَمينِ، و تَعفيرُ الجَبينِِ، و الجَهْرُ بِبسم اللهِ الرَّحمنِ الرَّحيمِ: مومن کی پانچ علامتیں ہیں پہلی؛ اکیاون رکعت نماز پڑھنا، دوسری زیارت اربعین، تیسری دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، چوتھی خاک پر سجدہ کرنا اور پانچویں بلند آواز میں بسم اللہ پڑھنا(نماز میں حمد و سورے کے شروع میں)۔
کسی چیز کو اس کی علامات اور خصوصیات کے ذریعے پہچانا جاتا ہے اس روایت کے مطابق، اگرمومن کو پہچاننا ہے تو مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ روزانہ اکیاون رکعت نماز پڑھتا ہے جس میں سترہ رکعت واجب اور باقی نوافل ہیں۔ یعنی اگر کسی کے ایمان کو پرکھنا ہے تو یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ کتنا اپنے رب کا عاشق ہے اور پھر ہو نہیں سکتا کہ کوئی اپنے رب کا عاشق ہو اور رب کی بارگاہ میں حاضر نہ ہوتا ہو۔ پھرمومن کی دوسری صفت یہ ہے جو اربعین کی زیارت بجا لائے۔ یہ بہت بڑی بات ہے کہ زیارت اربعین کو وہی درجہ حاصل ہے جو واجب اور مستحب نمازوں کو حاصل ہے۔ یعنی امام حسن عسکری (ع) نے زیارت اربعین کو نمازوں کی صف میں قرار دے دیا۔ اس کی کوئی وجہ تو ہو گی؟ اس کا سبب یہ ہے کہ حقیقی نماز وہ ہے جو تقرب الہی کا ذریعہ بنے، انسان نماز کے ذریعے اپنے معبود سے نزدیک ہوتا ہے لیکن اس حقیقی نماز کے لیے کسی آئیڈیل کی ضرورت ہے تو امام حسین (ع) سے زیادہ خوبصورت سجدہ کس نے بارگاہ الہی میں کیا ہو گا۔ تیروں اور نیزوں نے بدن کو زخموں سے چور چور کر دیا اور پشت اسب سے جو فرش پر آئے تو ساری کائنات نے ایک عجیب منظر دیکھا، امام حسین علیہ السلام نے سر سجدہ الہی میں رکھا، اور اس وقت بھی اپنے رب سے مناجات کر رہے ہیں، مناجات کا عجیب انداز ہے ایسا انداز جس میں عشق ہی عشق ہے جس میں تقرب ہی تقرب ہے ’’رضاً بہ قضائہ و تسلیماً امرہ‘‘، خدایا ٹھیک ہے مجھے زخموں نے ستا رکھا ہے تیر بدن میں پیوست ہیں لیکن تو راضی ہے تو تیرا حسین راضی ہے۔
نماز کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ نماز ’’تنہیٰ عن الفحشاء و المنکر‘‘ ہے نماز برائیوں سے روکتی ہے اور امام حسین مصباح الھدیٰ ہیں ہدایت کے چراغ ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ تاریخ کربلا اٹھا کر دیکھئے امام نے مدینہ سے چلتے ہوئے اپنے قیام کے مقصد کو اس طرح روشن کیا ’’انی لم اخرج اشرا و لا بطرا و لامفسدا و لا ظالما و انما خرجت لطلب النجاۃ و الصلاح فی امت جدی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم و ارید عن آمر بالمعروف انھی عن المنکر‘‘ اور پھر پورے راستے میں دیکھیں نو محرم الحرام حتیٰ عصر عاشور تک فرزند زہرا(ع) نے شدید تشنگی اور نقاحت کے باوجود بھی خطبوں کا سلسلہ جاری رکھا اور ان کی کوشش تھی حتیٰ اگر ایک ہی شخص ہدایت پا جائے، ایک ہی شخص کو گمراہی سے نجات دے سکیں۔ جناب حر کی مثال دیکھیں جناب حر صبح عاشور ہدایت پا کر امام کی خدمت میں آئے ہیں امام نے حر کو گلے لگا لیا حالانکہ یہ وہی حر ہیں جنہوں نے امام کا راستہ روکا۔ آپ نے دیکھا کہ امام نے جناب حر کو گلے لگایا نہ شکوہ ہے نہ گلہ۔ بلکہ حر کی شہادت کے وقت سرہانے آتے ہیں اور فرماتے ہیں: ’’انت حر فی الدنیا و الآخرۃ‘‘۔ شاید کسی کے ذہن میں یہ بات خطور کرے کہ اس وقت امام حسین (ع) کو انصار و یار و مددگار کی ضرورت تھی لیکن ایسا نہیں کیوں کہ اگر ایسا ہوتا شب عاشور امام علیہ السلام چراغ گل نہ کرتے اور چاہنے والوں سے یہ نہ کہتے کہ اس رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چلے جاؤ اس لئے کہ یہ تو صرف میرے خون کے پیاسے ہیں۔ اور پھرتاریخ میں ملتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جن جن کی گردنوں پر لوگوں کے حقوق ہیں وہ بھی چلے جائیں امام کو جنگ میں لڑنے والوں کی ضرورت نہیں بلکہ باطل کا قلع قمع کرنے والے مجاہدین فی سبیل اللہ کی ضرورت تھی جو تمام نفسانی خواہشات کو پاؤں تلے کچل کر اس عظیم معرکہ میں شامل ہوں۔ لہذا اگر ہمیں اربعین کے اس عظیم موقع پر امام عالی مقام کی زیارت شرف حاصل ہو تو ہمیں ظاہری اور باطنی کثافتوں اور آلودگیوں سے خود کو پاک کرنا چاہئے اور ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اس سفر میں خود کو ہر طرح کی آلودگیوں سے بچائیں نماز عمود الدین ہے دین کو جو بقا اور پائیداری حاصل ہے نماز کی وجہ سے ہے اگر ایک نمازی کا دین پائیدار ہے اور اپنی جگہ پر باقی ہے تو اس کی نماز کی وجہ سے ہے اور زیارت اربعین بھی اس عظیم ہستی کی زیارت ہے جس کی وجہ سے دین کو بقا حاصل ہے اسلام آج جو اپنی صورت میں اپنی جگہ باقی ہے نواسہ رسول کی وجہ سے ہے اگر آج نماز ہمارے پاس باقی ہے آج حج باقی ہے خانہ کعبہ باقی ہے حق اور باطل کے درمیان تمیز باقی ہے تو سید الشہداء کی وجہ سے ہے ورنہ یزید اور یزیدی ہتھکنڈوں نے پیغمبر کے لائے ہوئے دین کا اصلی چہرہ ہی مسخ کر کے رکھ دیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ عاشقان حسین علیہ السلام آج کے دور میں بھی پوری شان و شوکت کے ساتھ اربعین کی پیدل مارچ میں شرکت کر کے یزید وقت کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر آج بھی کوئی یزید دین اسلام کو مٹانے کے لیے سر اٹھائے گا تو حسین علیہ السلام کے چاہنے والے اس کا سر قلم کر کے رکھ دیں گے۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی پیدل زیارت کے ثواب کے سلسلے میں بہت ساری روایتیں موجود ہیں۔ جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: من خرج من منزلہ یرید زیارہ قبر الحسین بن علی علیہ السلام ان کان ماشیا کتب اللہ لہ بکل خطوۃ حسنۃ و محیٰ عنہ سیئۃ حتیٰ اذا صار فی الحائرکتبہ اللہ من المصلحین المنتجبین حتیٰ اذا قضیٰ مناسکہ کتبہ اللہ من الفائزین حتیٰ اذا اراد الانصراف اتاہ ملک فقال ان رسول اللہ یقرئک السلام و یقول لک استانف العمل و قد غفر لک مامضیٰ۔ (کامل الزیارات، ص ۱۳۲)
ترجمہ: ’’ جو شخص اپنے گھر سے امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کی نیت سے نکلے اگر وہ پیدل سفر کرے تو اللہ اس کے ہر قدم پر اس کے لیے ایک نیکی لکھتا ہے اور ایک گناہ محو کرتا ہے یہاں تک کہ حرم کی حدود میں داخل ہو جائے اس وقت خداوند عالم اسے منتخب مصلحین میں سے قرار دیتا ہے یہاں تک کہ وہ زیارت کے مناسک انجام دے زیارت کی انجام دہی کے بعد اسے کامیاب لوگوں میں سے قرار دیتا ہے یہاں تک کہ جب وہ واپسی کا ارادہ کرے تو خدا اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے وہ فرشتہ اسے کہتا ہے کہ رسول خدا نے تمہیں سلام کہا ہے اور کہا ہے کہ تم اپنے اعمال نئے سرے سے شروع کرو اس لئے کہ تمہارے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دئے گئے ہیں‘‘۔
اس حدیث میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے پیدل چلنے کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ بلکہ ہم ائمہ معصومین علیہم السلام کی زندگی میں بھی دیکھتے ہیں کہ وہ جب خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے تشریف لے جاتے تھے تو کئی ایک حج پیدل چل کر بجا لاتے تھے۔ ائمہ طاہرین کے اس عمل سے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے گھر یا اللہ کے خاص بندوں کی زیارت کے لئے پیدل چلنا ایک مستحسن عمل ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے پیدل چل کر جانے والے زائرین آپ کے تئیں ایک خاص قسم کی محبت اور مودت کے اظہار کے ساتھ ساتھ اپنے ایمان کے استحکام کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ جو زائر اتنی سختیوں کو برداشت کرتا ہوا وہاں پہنچتا ہے وہ دنیائے ظلم و جور کے سامنے یہ اعلان کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ میں اپنے امام سے تجدید بیعت کے لئے جا رہا ہوں اور اس راہ میں اتنا مصمم ہوں کہ مجھے تمہارے مادی وسائل کی ضرورت نہیں۔
مرحوم آیت اللہ العظمیٰ بہجت فرماتے ہیں کہ ایک روایت میں موجود ہے کہ جس وقت امام زمانہ (عج) ظہور فرمائیں گے تو پانچ طرح کی ندا دیں گے جس میں ایک ندا یہ ہوگی: الا یا اھل العالم ان جدی الحسین قتلوہ عطشانا الا یا اھل العالم ان جدی الحسین سحقوہ عدوانا۔ اے اہل عالم آگاہ ہو جاو میرے جد حسین کو پیاسا قتل کیا گیا اے اہل عالم آگاہ ہو جاؤ میرے جد حسین کو دشمنی کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا۔
مطلب یہ ہے کہ امام زمانہ (عج) جب ظہور فرمائیں گے تو خود کو امام حسین (ع) کے ذریعے پہچنوائیں گے لہذا ضروری ہے کہ آپ کے ظہور تک دنیا امام حسین (ع) کو اچھی طرح سے پہنچان چکی ہو اور اربعین امام حسین علیہ السلام کو پہچنوانے کا ایک بہترین موقع ہے۔ اس بنا پر اربعین کو جتنا بھی جوش و خروش سے منایا جائے اتنا ہی مہدویت کے لیے زمینہ ہموار ہو گا۔
اس کے علاوہ اربعین کے اس عظیم پیلٹ فارم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم اسلام کا حقیقی چہرہ دنیا میں پیش کر سکتے ہیں اسلام کے حقیقی اقدار کو پہچنوا سکتے ہیں جہاں ایک طرف دنیا نفسا نفسی کا شکار ہے وہی عاشقان سید الشہدا(ع) اس عظیم اجتماع میں ایثارو فداکاری میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں حتیٰ کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی انسانیت کے اعلیٰ اقدار کی حفاظت کرتے ہوئے آنے والے زائرین امام حسین (ع) کی خدمت کی انوکھی مثال پیش کرتے ہیں۔